عشق من محرم — علینہ ملک

پھر وقت کا پرندہ اڑتا چلا گیا۔ بھلا وقت کب ایک سا رہتا ہے۔کہانی کار کے قلم سے نکلی تحریر اوپر آسمانوں پہ کسی نئے موڑ کی تلاش میں تھی۔
وہ عورت تھی، عورت کا دل حساس ہوتا ہے۔ وہ غلطی پر معافی مانگتی رہی اور دوسری طرف مرد تھا جو پتھر دل رکھتا ہے۔ اپنی غلطی کو الزام تراشی کا نام دے کر کیسے خود کو ہر طرح کی تسلی دے کر دنیا کے بکھیڑوں میں ایک بار پھر سے گم ہو جاتا ہے.
مگر اوپر والا کب بھولتا ہے۔ وہ تو وقت کا انتظار کرتا ہے کہ کہانی تو اس نے لکھی ہے پھر کہانی کا انجام بھی وہ بخوبی جانتا ہے۔
وقت انسان کا سب سے بڑا استاد ہوتا ہے اور وقت سے پہلے سیکھنے والے دنیا میں بہت کم ہیں۔ دور پہاڑوں کے اس پار وہ ابنِ عبداللہ جو عورت کو صرف دل بہلانے کا اور سکون حاصل کرنے کا سامان سمجھتا تھا۔ آج بہت بے سکون تھا۔ دنیا کی ہر دولت اس کے قدموں میں تھی مگر وہ اس دولت سے وہ اپنے لئے سکون نہ خرید سکا ۔بے چینی ،ڈپریشن ،تنہائی ،بے سکونی ۔ ہر دوا ہر حربہ آزما لیا مگر خود کو پر سکون نہ کر سکا اور برسوں سے بے سکونی کا شکار وہ ابنِ عبداللہ جوانی میں ہی بوڑھا دکھائی دینے لگا۔خدا نے اسے اولاد سے بھی محروم رکھا تھا اور اسی محرومی کے سبب اس کا گھر بھی نہیں بسا۔ آج وہ بھری دنیا میں تنہا تھا۔
اور بھری دنیا میں تو وہ بھی تنہا تھی، وہ سفید پوش جو اب صرف سفید لباس پہنتی تھی کہ اس کے اجلے دامن کی روشنی میلوں تک پھیل چکی تھی۔ لوگ اس سے دعا کا کہتے اور وہ بہت مان سے چہرہ آسمان کی سمت اٹھا لیتی تو بس دعا قبولیت کی منزل پا لیتی۔ کہتے ہیں کہ وہ اس دن سے خاموش تھی جب وہ ابنِ عبداللہ سے آخری ملاقات کر کے لوٹی تھی۔پھر لوگوں نے کبھی اس کی آواز نہ سنی جیسے کہ وہ زبان سے محروم ہو۔
کہانی اپنے انجام کو تھی۔ ابنِ عبداللہ کے صبر کا پیمانہ اب جواب دے چکا تھا وہ پچھلے چودہ برس سے اس کی تلاش میں رہا مگر نہ وہ ملتی تھی نہ اسے سکون ملتا تھااور جہاں اس کے ملنے کا امکان تھا وہاں تک اس کی رسائی ناممکن ہو چکی تھی۔ وہ سالہا سال سے بلاوے کی آس میں جی رہا تھا مگر ہر بار آس ٹوٹ جاتی اور وہ اس پاک سرزمین تک جانے سے محروم رہ جاتا۔ دنیا کی دولت بھی اس کے کسی کام نہیں آئی تھی کہ سارا حکم تو اوپر والے کا تھا اور رب اس سے ناراض ہے تو پھر بلاوا بھی کیونکر ممکن ہوتا۔
بہت عرصہ بعد ایک بار پھر صحرا میں دھول اڑی تھی۔
برسوں بعد وہ سفید لباس میں ملبوس کعبہ کے گرد محوِ طواف تھی کہ اب اس کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد تھا اور وہ اپنے رب کی رضا پہ راضی تھی۔ بہت عرصہ روپوش رہنے کے بعد اس نے ایک بار پھر صحرا کا رخ کیا تو صحرا نے اس کا والہانہ استقبال کیا۔
وہ صحنِ کعبہ کے ایک ستون سے سر ٹکائے کہیں دور محو تھی کہ زمانے بھر کی تھکن، دکھ اور صبر نے اسے بیمار کر ڈالا تھا۔آج ابنِ عبداللہ کی یاد بہت شدت سے آرہی تھی اور شاید اب ملاقات کا وقت قریب ہی تھا۔ وہ دو محبتوں کے درمیان ساری زندگی معلق رہی۔ ایک طرف اسے رب کی رضا اور اس کی محبت چاہیے تھی کہ یہی اس کا حقیقی عشق تھا مگر ہزار کوششوں اور تاویلوں کے باوجود وہ اس مجازی عشق کے ناسور سے رہائی نہ پا سکی۔ کچھ بیماریاں ناسور بن جاتی ہیں اور ناسور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔”
کہانی اپنے آخری موڑ پر تھی۔خدا کو شاید ابنِ عبداللہ پر رحم آیا تھا اس بار وہ مناسک حج کی ادائیگی کے لیے حرم روانہ ہوا اور ساتھ یہ امید لیے کہ اس کی بیماری کی دوا اسے وہاں ضرور ملے گی۔
وقت کے حاکم نے دور آسمانوں پر نوکِ قلم سے ایک تحریر لکھی تھی اور تحریر اپنی آخری سطروں پر پہنچ چکی تھی۔
حجاج کرام کے قافلے جوک در جوک حدود مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔
”لبیک اللھم لبیک۔لبیک لا شریک لک لبیک۔”
ابنِ عبداللہ نے صحرا کی مٹی کو چوما تھا۔ کئی برس وہ اس خاک کا مکین رہا تھا۔ اس کا سکھ چین سب یہیں لٹ گیا تھا اور پھر ہزار کوشش کے باوجود نہ سکون ملا نہ خاک مکہ تک رسائی ہوئی۔
٭…٭…٭




اسے مکہ آئے پینتیس دن گزر چکے تھے۔مناسکِ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ مسلسل اس کی تلاش میں تھا۔ حرم کا چپہ چپہ کونا کونا چھان لینے کے بعد وہ گلیوں میں بھی ننگے پاؤں رات رات بھر پھرتا۔ اس کی حالت اس فقیر کی سی تھی جس کا سب کچھ لٹ چکا ہو ۔مگر دل کہتا تھا کہ وہ یہیں کہیں ہے آس پاس مگر دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ شاید اس کی ویران آنکھیں بھی پتھرا چکی تھیں جس میں اب کچھ دکھائی دینے کی سکت باقی نہیں بچی تھی.۔
سکھ چین سے محروم ابنِ عبداللہ کی واپسی کا وقت قریب تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی صحت جواب دے چکی ہے۔ اب شاید آئندہ یہاں تک رسائی ناممکن ہو۔ مایوسی کی حالت میں وہ تھک کر وہیں صحن حرم کے ایک ستون کے ساتھ سر ٹکائے بیٹھ گیا۔اچانک کسی خوشبو نے اس کا احاطہ کیا۔
آمنہ نور!
وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔
ہاں یہ خوشبو تو اسی کی ہے وہ اتنے برس کے بعد بھی اس کی خوشبو کو پہچانتا تھا۔
بند آنکھوں کے سامنے ایک سراپا لہرایا تھا۔ سفید لباس میں ملبوس وہ لٹھے کی مانند سفید چہرے کو ڈھانپے اس کی مسکراتی آنکھیں اس سے کچھ کہہ رہی تھیں۔
”تو تم آگے ابن عبداللہ!اچھا کیا۔مگر افسوس بہت دیر کر دی تم نے آنے میں۔ دیکھو اب میرے جانے کا وقت قریب آگیا۔وہ حیادار آنکھیں جھکائے اس سے مخاطب تھیں۔
”تم کہاں جا رہی ہو آمنہ نور؟ میں اتنی دور سے صرف تمہارے لیے آیا ہوں۔ مجھے اپنا قرب بخش دو تاکہ زندگی کے کچھ پل ہی پرسکون گزر جائیں۔ میں بہت تھک چکا ہوں۔ بے زار ہوں اس تنہا زندگی سے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی۔
”اب ممکن نہیں ابنِ عبداللہ! میری واپسی لکھی جاچکی ہے۔ وقت تم نے خود گنوایا ہے۔ وہ وقت جو تمہارا تھا مگر تم اپنے حصے کا وقت گنوا چکے ہو اب قدرت کے فیصلے کا وقت ہے اور جانتے ہو نہ قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے۔”
”آمنہ نور!” ابن عبداللہ نے اسے بے چینی سے پکارا۔
”جانتے ہوں ابنِ عبداللہ جو تم پر بیتی ہے، بھلا جو عشق کر بیٹھیں وہ الہام سے کیونکر دور رہے۔ مگر دیکھو، یہ سب تو تمہارا اپنا بویا ہوا تھا۔ کس مان سے آئی تھی میں تمہارے پاس مگر تمہارا تو دل بھر چکا تھا نا اور نیا شکار تمہارے جال میں پہلے سے موجود تھا، اسی لیے تم نے بڑی آسانی سے بہانہ بنا کر مجھ سے جان چھڑا لی، لیکن تم مرد بھول جاتے ہو کہ ساری زندگی ہزار عورتوں سے تعلق بنا لو مگر تمہاری زندگی میں ایک دن ایک عورت ایسی ضرور آجاتی ہے کہ جو تمہاری پوری زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ مگر تم تو اپنی جوانی اور مردانگی کے نشے میں چور تھے۔ بھلا یہ سب کیونکر سمجھتے؟ پھر دیکھو رب نے تمہیں عمر بھر تنہا رکھا۔ وہ شخص جو اپنی میٹھی باتوں کے جال میں ہر عورت پھنسا لیتا تھا، عمر بھر عورت کے قرب کو ترسا۔ خیر اب چلتی ہوں۔اپنا خیال رکھنا۔اللہ کی امان ۔
اور پھر ابن عبداللہ اسے پکارتا رہ گیا۔
”رکو رکو آمنہ نور میری بات سنتی جاؤ۔”وہ ہاتھ اٹھا کر تیزی سے چلایا۔
مگر آنکھ کھلتے ہی سارا منظر بدل چکا تھا۔ اس کے آس پاس لوگوں کا ہجوم تھا اور ہر شخص اپنی اپنی دھن میں چل رہا تھا۔
”آمنہ نور جا چکی ہے ابنِ عبداللہ! اب کسے ڈھونڈتے پھر رہے ہو۔”عقب سے آواز آئی تھی۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش شخص ہاتھ میں تسبیح تھامے اس کی طرف متوجہ تھا۔ روشنی اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔وہ تیزی سے نظر جھکا گیا۔
”آپ بتا سکتے ہیں کہ آمنہ نور کہاں ہے؟ میں بہت دور سے صرف اس سے ملنے آیا ہوں۔”
”ہاں! جانتا ہوں۔ مگر آمنہ نور اب تم سے نہیں مل سکتی۔”
”کیوں؟ آخر کیوں؟” مجھے ایک بار اس کے پاس لے چلیں آپ کو رب کا واسطہ۔” وہ ہاتھ جوڑے ملتجی تھا۔
”ٹھیک ہے میں لے چلتا ہوں مگر یاد رکھنا تم وہاں ٹھہر نہیں سکو گے۔”
٭…٭…٭
قبرستان پہنچ کر بزرگ نے ایک تازہ بنی ہوئی قبر کی جانب اشارہ کیا۔
”یہ ہے آمنہ نور کا آخری ٹھکانہ۔ کل رات ہی اس کی تدفین ہوئی ہے۔مگر دیکھو! یہاں رکنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے تم میرے ساتھ آؤ۔”
وہ سکتے کی سی کیفیت میں ان کے پیچھے چلنے لگا۔ کئی میل پیدل چلنے کے بعد بزرگ اسے لیکر ایک چھوٹے سے گھر میں داخل ہوا۔
” یہ ہے آمنہ کا گھر اور ہاں اس کا پیغام ہے جو وہ تمہارے نام لکھ کر گئی تھی۔ یہ پڑھ لینا اور اس گھر کی چابی اب تمہارے پاس رہے گی۔ چاہو تو یہاں رہو نہیں تو واپس لوٹ جانا۔”یہ کہہ کر بزرگ رکے نہیں اور دروازہ کھول کر تیزی سے کہیں روپوش ہو گئے۔
٭…٭…٭
کہانی اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی مگر ابنِ عبداللہ کے لیے ابھی سزا ختم نہیں ہوئی شاید۔
کہنے اور سننے والے کہتے ہیں کہ ابنِ عبداللہ برس ہا برس صحرا کی دھول میں بھٹکا، دیوانہ وار آمنہ نور کو پکارتے پکارتے اور جدائی کے اس غم کو سہتے سہتے ایک دن ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا، لگتا تھا کہ جیسے اسے صبر آچکا ہو اور پھر جلد ہی صحرا کی خاک کا حصہ بن گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بے اثر — سحرش مصطفیٰ

Read Next

چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!