عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

اس دن سے عائلہ کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی ، وہ تھا کہ ا س کے دماغ سے جاتا ہی نہ تھا وہ قابض تھا اس کے دل دماغ اور ہوش و حواس پہ۔

آج اگر وہ عمران خان سے اس کا نہ پوچھتی تب بھی اس نے طے کر لیا تھا کہ روز یہاں آکے اس کا انتظار کرے گی۔ ایک ہفتہ تو کیا وہ پوری زندگی اس کیفے میں اس کی ایک جھلک کے انتظار میں گزار دے۔

عائلہ گلاس وال کے پار ساحل پہ سر پٹختے سمندر کی لہروں کو دیکھ رہی تھی۔ آج وہ اکیلی آئی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ذاکرہ یا اماں ا سے اس طرح عبداللہ کے پیچھے خوار ہوتے دیکھ کوئی غلط مطلب لیں ۔ عائلہ کوئی فیری ٹیل میں رہنے والی لڑکی نہ تھی، ا سے اچھے سے اندازہ تھا کہ محبت ا ن کے قبیلے میں مرد عورت دونوں کے لیے وہ ممنوع علاقہ تھی جس پر قدم دھرنے کی سزا موت تھی۔ پر وہ چاہتی تھی محبت کرے، وہ چاہتی تھی اس میٹھے احساس کو محسوس کرے، ا سے پتا تھا محبت کو پانا جرم تھا ، قبیلے سے بغاوت کرنا جرم تھا ، پر ا س محبت کو دل میں چھپانا تو جرم نہ تھا ۔ 



سمندر پہ ٹکی اس کی بران آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی۔ ہاں! صرف اپنے دل میں اس کی محبت چھپا لینا کیسا جرم کیسا دھوکا؟ 

سید زادی ایسی محبت تو کر سکتی ہے ۔ وہ مُسکرائی اور خود کو تسلی دیتے ہوئے اپنی کافی کی طرف متوجہ ہوئی۔

السلام و علیکم!“

عائلہ سید ٹھٹکی اس نے اِ دھر اُدھر، ا س بھاری خوبصورت آواز کے تعاقب میں حیران نظریں دوڑائیں ۔ بالکل ویسے جیسے پیاسا پانی کی تلاش میں دیکھتا ہے ۔ 

اپنے مخصوص کونے میں کالی شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیے، اپنے خاص انداز میں ابتدائیہ کلمات کہتا وہ عبداللہ ہی تھا۔ 

عائلہ کو لگا جیسے سب کچھ رک سا گیا تھا۔ کیفے کی دیوار پہ ٹنگی وہ بڑی سی کالی گھڑی، وہاں موجود بولتے لوگ، دیوار پار آتی جاتی سمندر کی لہریں، اپنی کافی میں چمچ گھماتا ا س کا ہاتھ، کافی کے کپ سے اُٹھتا دھواں ، اُس کی سانسیں ، اُس کی دھڑکن اور اُس کی آنکھیں۔ اسے اپنے ارد گرد کا ماحول تحلیل ہو تا محسوس ہوا۔ا سے لگ رہا تھا ا س کے گرد کوئی نہ تھا ، کوئی آواز نہ تھی ۔تھا تو صرف عبداللہ جو ا سے بولتے ہوئے دکھائی اور سنائی دے رہا تھا۔

عائلہ اپنی پلکیں جھپکنے سے بھی ڈر رہی تھی کہ کہیں ، عبداللہ اس کی نظروں سے دور نہ ہو جائے۔ اسے سانس لینے سے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ سانس لے اور عبداللہ کی آواز آنا بند ہو جائے۔

وہ آج ایک انگلش ناول کا خلاصہ دے رہا تھا جو مولانا رومی کی ذات پہ مبنی ہے۔ وہ کچھ اقتباسات پڑھ رہا تھا، اپنی ذاتی رائے پیش کر رہا تھا۔

پورے کیفے میں ہو کا عالم تھا ، کیوں کہ جب عبداللہ بولتا، تو صرف وہی بولتا اور باقی سب سنتے۔ اس کا لب و لہجہ ، آواز ،انداز ، ہر ہر بات سے خود اعتمادی ٹپک رہی تھی۔ اس کا یہ انداز کسی کو بھی کتابوں اور ادب کی طرف راغب کر سکتے تھے پھر وہ تو عائلہ تھی جو ا س کے قدموں میں اپنا دل ، اپنا قیمتی دل ،اس کی ایک نظر کے عوض رکھنے کو تیار تھی اور خود میں مگن عبداللہ اب اختتامیہ کلمات کہہ رہا تھا۔ا س کونے والی میز پہ سنگ مر مر کا مجسمہ بنی بیٹھی اپنے دل میں ا س کی ایک نظر کی بھیک مانگتی لڑکی سے یک سر بے نیاز۔



عبداللہ کے خاموش ہوتے ہی جیسے پورا کیفے جاگ اُٹھا۔ تالیوں کی گونج نے عائلہ کو بھی احساس دلایا کہ ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے کا کوئی جواز نہیں، ذرا اِ دھر اُ دھربھی دیکھ لو۔ عائلہ نے پلکیں جھکا کے کافی کو دیکھا، تو ا سے احساس ہوا وہ ٹھنڈی ہو چکی تھی اور اس میں چمچ گھماتا ا س کاہاتھ ابھی تک ا سی انداز میں چمچ پہ ٹکا تھا ۔ اسے اپنی انگلیاں اکڑتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔ اس نے گلاس وال کے پار نگاہ دوڑائی، آسمان پہ لال جامنی شفق کسی حسینہ کے آنچل کی طرح بکھری ہوئی تھی۔ سورج کی سنہری رنگت، کسی با حیا چہرے کی سُرخی کی طرح لال پڑ گئی تھی۔

عائلہ کو احساس ہوا ا سے یہاں کافی دیر ہو چکی تھی۔ یہ عبداللہ کی آواز کا جادو ہی تو تھا جس کے زیرِ اثر عائلہ سب بھول جاتی تھی۔ ا س کے ذہن میں بابا کی آواز گونجی:

عائلے میرا بچہ! ہماری بیٹیاں مغرب سے پہلے گھر آ جاتی ہیں اور مغرب کے بعد گھر سے باہر قدم نہیں رکھتیں۔

عائلہ تیزی سے اٹھی، اپنا والٹ اور فون اٹھایا۔ ایک نظر ا س کی تلاش میں کیفے پہ ڈالی ، پر وہ نہ تھا۔ وہ دل ہی دل میں تھوڑی اُداس ہوئی، پر وہ زیادہ سوچنا نہیں چاہتی تھی ا سے گھر پہنچنا تھا۔ جلد سے جلد مغرب سے پہلے ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ ا س کا کیفے میں آخری دن ہو ۔ 

اس نے سر پہ چادر ٹھیک کی اور تیزی سے دروازے کی طرف قدم بڑھائے ۔ ا سے آتا دیکھ کر گارڈ نے دروازہ کھولا۔ باہر نکلتی عائلہ نے عجلت میں بوڑھے گارڈ کو شکریہ کہا۔ وہ مڑی ہی تھی کہ کسی سے ٹکرا گئی۔ ا س کا چہرہ بے اختیار اگلے کے کندھے پہ لگا تھا۔ عائلہ کا سامان زمین پہ بکھر چکا تھا ۔ ا س نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا ۔ اگلا جیسے ہی اس اچانک افتاد سے سنبھلا، تو کہنے لگا :



معذرت چاہتا ہوں ، آپ کو لگی تو نہیں؟

اس کی بات ادھوری رہ گئی اور عائلہ اپنی تکلیف بھول حیران ا سے دیکھنے لگی۔ وہ عبداللہ تھاجسے آنے کی عجلت تھی اور عائلہ کو جانے کی، تبھی یہ تصادم ا ن کے نصیب میں تھا۔

عبداللہ اپنی بات بھول خود کو حیرت سے تکتی ا س نازک سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔

Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!