عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

تم جس سے ہنس کر ملتے ہو میں اس کو دوست بناتی ہوں،میں ایسی محبت کرتی ہوں، تم کیسی محبت کرتے ہو ؟

محبت….

وہ ٹھٹکی۔

اور عبداللہ کو ؟

کیا وہ بھی مجھ سے؟

تلخ طنزیہ مُسکراہٹ نے ا س کے لبوں کو چھوا۔

ذاکرہ نے حیرانگی سے ا س کے بدلتے تاثرات دیکھے۔

خود کو حیرت سے تکتی ذاکرہ کو دیکھ کے وہ سنبھلی، پر محبت سنبھلنے کہاں دیتی ہے؟

ا س کی کوشش ناکام ہو چکی تھی ۔ کیفے میں داخل ہوتا عبداللہ ،ہلکی نیلی شرٹ میں سنہرے دمکتے چہرے پہ دھوپ جیسی مُسکراہٹ سجائے، سورج ہی تو لگ رہا تھا۔

عائلہ کا ہونٹوں کی طرف کافی کا کپ لے جاتا ہاتھ ہلکا سا کانپا۔ کافی ہلکی سی چھلکی تھی شاید، ذاکرہ نے ا سے کچھ کہا تھا۔ پر اسے ہوش کہاں رہا تھا ۔ ا سے اپنا دل اپنے کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا وہ بھی صرف تب تک جب تک عبداللہ سکندر کی آواز ا س کیفے میں نہ گونجی تھی۔



اس کی آواز ،ہیملن کے پائیڈ پائپر کی انوکھی دھن تھی اور عائلہ ہیملن کے بچوں کی طرح تھی ، جنہیں پائیڈ پائپر کی دھن نے ہیپناٹائز کر کے ہمیشہ کے لیے ا ن کے والدین سے دور کر دیا تھا ۔ عبداللہ کی آواز بھی جب گونجتی تو انسان کا خرِ د سے تعلق کہاں رہنے دیتی۔

اس چھے ماہ کے عرصے میں اتنا ضرور ہوا تھا کہ بے ادب عائلہ کو ادب سے شغف ہو گیا تھا۔ اب اکثر وہ عبداللہ کی تجویز کردہ کتابوں کے علاوہ بھی اردو ادب پڑھنے لگی تھی۔ ا سے اندازہ نہ تھا کہ اردو زبان میں بڑے بڑے ماسٹر پیس موجود تھے۔ شہاب نامہ سے لے کر راجہ گدھ ، عشق کا عین سے لے کر پیر ِ کامل ، پیار کا پہلا شہر سے لے کر سفید گلاب، مصحف سے لے کر ہم جان، خدا اور محبت سے لے کر ایک محبت اور سہی، ا س نے اردو کے کئی شاہکار پڑھے۔ ادب کے بے تاج بادشاہوں کو پڑھا ۔ ا س بے ادب لڑکی کو عبداللہ کے ادب سے عشق ہو گیا تھا اور ادب نے ا س کے بند ذہن کے کئی در وا کیے تھے جس کا سہرا عبداللہ کے سر ہی جاتا تھا۔ آج عبداللہ کس کتاب کو موضوع بنائے گا۔ عائلہ سید تجسس میں ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

عبداللہ تعارفی کلمات بول چکا، تو اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کھول کے ا س میں سے اپنے پسندیدہ اقتباس پڑھنے لگا۔ کیفے پہ پراسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اتنی خاموشی کے کیفے کی دیوار پہ ٹنگی ا س بڑی سی کالی گھڑی کی ٹک ٹک کسی چرچ کے بڑے سے گھنٹے کی ڈنگ ڈنگ کے موافق لگ رہی تھی۔ 



عبداللہ بولنے لگا تو عائلہ کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہ ا س کے پسندیدہ ترین ادیب کے صدارتی انعام یافتہ ناول کے اختتام کے خوبصورت ترین جملے تھے۔ 

عائلہ نے یہ حسین اختتام جانے کتنی دفعہ پڑھا تھا کہ ا سے ایک ایک لفظ ازبر تھا۔ عبداللہ جو بول رہا تھا ا سے یاد تھا جو بولنے والا تھا ا سے پتا تھا۔ عائلہ کے لب عبداللہ کے لبوں کی جنبش کے ساتھ ہل رہے تھے۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہاشم ندیم خان کی عبداللہکھولے۔

عبداللہ بولا : ”دور سمندر کے اس پار ا فق پر سورج ڈ وب رہا تھا ۔ میں نے قدم بڑھا دیے اورزہرا میرے پیچھے چل پڑی۔میرے نقش ِ پا پراپنے نازک قدم دھرتی۔ پہلی مرتبہ عبداللہ اور زہرا کو ایک ساتھ اس ڈگر پر چلتے دیکھ کر لہریں مُسکرائیں اور ڈوبتے سورج نے کہانئی مسافتیں…. نئے سفر اور نیا ہم سفر مبارک ہو دوست۔ آنے والی سحر کے ساتھ اک نئے آسمان کا سلام اور اس ڈھلتی شام کی جانب سے تمہیں الوداع…. الوداع عبداللہ…. الوداع ۔

وہ بول رہا تھا یا صور پھونک رہا تھا عائلہ کو اپنی سماعت پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ ا س نے یہ ناول اِس کے نامعبداللہکی وجہ سے ہی پڑھا تھا پر ا سے اندازہ نہ تھا کہ یہ کتاب ا س کی پسندیدہ ترین کتاب بن جائے گی۔ ا س نے یہ کتاب لگا تار کئی مرتبہ پڑھی تھی اور آج عبداللہ سکندر ا س سے اقتباس پڑھ کے عائلہ کو دیوانہ ہی تو کر گیا تھا۔ 

عائلہ دم سادھے ا سے دیکھ رہی تھی کہ تالیوں کے شور نے اس کے خیالوں کے تسلسل کو توڑا۔

عبداللہ داد سمیٹتا ، لوگوں کے جھرمٹ میں سورج کی طرح چمک رہا تھا۔ ہجوم کچھ کم ہوا ، تو وہ اپنی مخصوص ٹیبل پہ جا کے بیٹھ گیا۔ عمران خان جلدی جلدی ا س کی مخصوص کافی لایا۔ شکریہ کہتے ہوئے عبداللہ مُسکرایا۔



عائلہ کا دل زور سے دھڑکا، ایسی مُسکراہٹ کیا کسی اور کی ہو سکتی ہے ؟

اس کے دل نے نفی میں سر ہلایا۔

کچھ تو خاص تھا اس میں جو عائلہ کو مقناطیس کی طرح اپنی اور کھینچتا تھا ۔ عائلہ کی نظریں اب بھی عبداللہ کے گرد طواف کر رہی تھیں اور عبداللہ کی نظریں تھیں کہ ا س پر اُ ٹھتیں ہی نہ تھیں۔ عائلہ ا س کی نظر کی بھیک مانگ مانگ کے تھکنے لگی تھی۔ دل تھا کہ مسلسل بغاوت پہ مائل تھا اور دماغ ا سے ا س کا مقام، روایات اور اقدار یاد کرا کے روک رہا تھا۔

ذاکرہ کو یکسر فراموش کیے ا س کی نگاہیں اب بھی عبداللہ کے گرد کسی دھمال کرتی حسینہ کی طرح ، بال کھولے ، گول دائروں کی صورت گھوم رہی تھیں۔

ذاکرہ نے ڈرتے ڈرتے اپنی گودی کی نظروں میں دیکھا۔ ہیزل آنکھیں لال ڈوروں میں پگھلتیں نظر آئیں ۔ ذاکرہ کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی۔ عائلہ کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ضد اور بغاوت کی جیت ہو چکی تھی۔ دماغ ، اقدار اور روایات کی تو محبت میں ہمیشہ سے ہار ہوئی ہے، یہ پہلی دفعہ تو نہیں ۔ پر ایک سید زادی کی بغاوت ،ا ن کی آنے والی سات پشتوں تک کو ہلا دیتی ہے۔ اِس سے پہلے کہ ذاکرہ ہمت باندھتی کچھ کہنے کو ، عائلہ ایک جھٹکے سے ا ٹھی اور بنا پیچھے دیکھے ، عبداللہ کی ٹیبل پہ اس کی سامنے والی کرسی پہ جا بیٹھی۔

ذاکرہ کو اپنی سانسیں ر کتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔

عائلہ سید کی ضدی نظریں اب بھی عبداللہ پہ مرکوز تھیں، پرعبداللہ نے کتاب سے آنکھیں نہ ہٹائیں۔

عائلہ تھوڑا سا کھنکاری۔

دو کالی چمکدار ذہین آنکھیں اس پہ اٹھی تھیں ۔ 



اُف !اِ سی ایک نظر کی چاہ نے تو عائلہ کو باغی کر دیا تھا۔ 

نظریں تھیں کہ کسی جادوگر کا سحر، عائلہ سب بھول بیٹھی۔ عبداللہ سکندر کی آنکھوں میں سوال ابھرا، عائلہ نے نظریں جھکائیں ۔ گلے میں پھنسے لفظوں اور اتھل پتھل سانسوں کو قابو میں کیا پھر بہ مشکل عبداللہ سے پوچھا : ” وہ میں پوچھنا چاہ رہی تھی کہ …. آپ نے اس کتاب کا ہی انتخاب کیوں کیا اور اس کتاب کی ان ہی سطروں کو کیوں چنا ؟

عبداللہ کی شرارت بھری نظروں سے نظریں چراتے ہوئے ، اپنی بات مختصر کی اور اپنے کانپتے ہاتھوں کو اپنی گود میں رکھتی عائلہ کی ضد اور بغاوت ہوا ہو چکی تھی۔ وہ ا س لمحے کو کوس رہی تھی جب ا س نے عبداللہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسے ذاکرہ کا خیال آیا جس کی طرف نہ دیکھتے ہوئے بھی ،اس کی کیا حالت ہوگی عائلہ کو اچھے سے اندازہ تھا ۔

یا اللہ! یہ میں نے کیا کر دیا ۔ خشک گلے کو تر کرنے کی کوشش میں وہ کئی دفعہ تھوک نگل چکی تھی۔ اپنی گود میں رکھے ہاتھوں پہ نظریں جمائے جانے ا سے کتنی دیر ہو گئی۔ پر عبداللہ کچھ نہ بولا ۔ ا س نے جھنجھلا کے نظریں ا ٹھائیں ۔

انہماک سے گھبرائی ہوئی عائلہ کو دیکھتا عبداللہ ہڑ بڑایا تھا۔ پھر خود پہ قابوپاتے ہوئے ، اگلے ہی لمحے کتاب پہ اپنے ہاتھ جماتا ، اعتماد سے عائلہ کے سوال کا جواب دیا :

یہ کتاب اس لیے چنی کیوں کہ یہ میری پسندیدہ ترین کتاب ہے بلکہ وہ پہلی کتاب ہے جس نے مجھ جیسے بے ادب کو با ادب بنا دیا۔ میں یہ سوچتا ہوں بلکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ ناولعبداللہکو پڑھنے والا خود کو کبھی عشق کرنے سے نہیں روک سکتا خواہ وہ عشق ِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی اور میں چاہتا ہوں آج کل کے اس مشینی دور میں بھی لوگ عشق کریں ۔ سچا عشق، لازوال عشق۔

و ہ خاموش ہو ا تو اپنی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ جمائے کسی سنگ ِ مر مر کے مجسمے کے مانند ہمہ تن گوش عائلہ نے حرکت کی تھی۔ اب کہ اپنی شہادت کی انگلی میں ہیرے کی انگوٹھی کو گھماتے ہوئے وہ بولی :

میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ بالخصوص یہی سطریں کیوں ؟

اس کا صاف لب و لہجہ عبداللہ کو متاثر کیے بنا نہ رہ سکا۔ چار سے پانچ مقامی زبانیں بولنے والی لڑکی کی اردو حیرت انگیز طور پر نہایت صاف تھی۔

Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!