عشق”لا“ – فریال سید -داستانِ محبت

میں عبداللہ سکندر اپنے تمام تر ہوش و حواس میں ، آج اس سمندر اور ڈوبتے سورج کو حاضر وناظر مانتے ہوئے یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنا تن من دھن ، اپنی روح ، اپنا سب کچھ، عائلہ ابراہیم سید پہ پہلی نگاہ پڑتے ہی ہار بیٹھا تھا۔

ان چھے ماہ میں خدا گواہ ہے کہ میرا ایک بھی پل آپ کی یاد سے غافل نہیں رہاعائلہ ۔ ا س دن، ا س پہلی نظر ہیمیں، میں نے اپنے دل کو تمہارے ان خوبصورت قدموں کے ساتھ جاتا محسوس کیا تھا۔ اگر مجھے عمران خان تمہارے خاندان اور ا س کی روایات کا نہ بتاتا، تو میں کبھی اپنی محبت کو اتنے عرصے تک پتھر کی دیواروں میں نہ چنتا۔

عائلہ نے آنکھ اٹھا کے دور کھڑے عمران خان کو دیکھا ، وہ بھی اُسے کو دیکھ کے مُسکرایا تھا۔

عائلہ کی نظر ذاکرہ پہ نہیں گئی تھی جو ہاتھ ہلا ہلا کے اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی تا کہ اسے بتا سکے کہ اس کے فون پہ بار بار میر صاحب کی کال آ رہی تھی۔ 

عائلہ کی نظر عمران خان سے ہوتے ہوئے عبداللہ پہ آ کے رکی۔ سورج کی نارنجی شعاعیں ا س کے چہرے کو یونانی دیوتاں جیسا غرور بخش رہی تھیں ۔ وہ مزید گویا ہوا : ”عائلہ میں تمہاری اتنی عزت کرتا ہوں کہ میر ا بس چلے تو میں کسی کو منہ اٹھائے تمہارا نام تک نہ لینے دوں، کجا تمہیں دیکھنا ؟ میں نے اپنی بھی ہر ہر نگاہ کو تمہاری طرف اُٹھنے سے اسی لیے روکا تھا، ورنہ اس پہلی نظر ہی میں میں پہچان گیا تھا کے تم ہی میری زہرا ہو۔



عائلہ کی آنکھوں میں کچھ آنسو چمکے تھے۔ چھوٹی سی ناک لال ہوئی تھی اور ہونٹوں پہ مُسکراہٹ تھی۔ ا س نے کبھی خواب میں بھی اتنا حسین اقرار اور وہ بھی عبداللہ کی زبانی ا س کی خوبصورت آواز میں سننے کی ا مید نہ رکھی تھی۔ عائلہ کی آنکھوں سے دو آنسو بہے تھے۔ 

عبداللہ ایک دم سے اوپر ہوا۔ عائلہ کے مدِ مقابل کھڑے ہوتے ، ا س نے تھوڑا سا جھک کے اس کی بھوری آنکھوں میں جھانکا۔

عائلہ اچھے قد و قامت کی حامل تھی پھر بھی عبداللہ کے بہ مشکل کندھے تک آتی تھی۔ تبھی اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے لیے عبداللہ کو تھوڑا سا سر کو خم دینا پڑا۔ اس کی آنکھوں میں سچ مچ آنسو تھے۔ 

اسے لگا کے عائلہ ڈر گئی اس کی بے قراریاں دیکھ کے سن کے۔

عبداللہ پہ شرمندگی کا غلبہ شدید تھا۔ 



شرمندگی کا احساس اتنا شدید تھا کہ وہ بِنا کچھ کہے جانے کے لیے پلٹا۔ ابھی دو قدم ہی اُٹھائے تھے ا س نے کہ پہلی دفعہ ا س نازنین کی ، ہوا کے دوش پر کسی مترنم ر باب جیسی آواز نے ہوا میں سر بکھیرے تھے۔ واپسی کے لیے قدم بڑھاتے عبداللہ کے پیروں کو زمین نے جکڑا تھا۔

سامنے سے آتی ذاکرہ جو عائلہ کے فون پر بار بار چمکتی میر صاحب کی تصویر دیکھ کے عائلہ کو اس کا فون دینے آ رہی تھی ، عائلہ کی آواز سن کے پتھر کا مجسمہ بن گئی ۔

عائلہ بھیگی آواز میں کہہ رہی تھی



میں عائلہ ابراہیم سید ، اپنی تمام تر خاندانی روایات ، قبائلی اقدار ، ذات پات کے ہر فرق ، بچپن سے لگی ہر پابندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ اقرار کرتی ہوں کہ ان چھے مہینوں میں میرادل صرف عبداللہ سکندر کے لیے دھڑکا ہے۔ میری ہر آتی جاتی سانس نے عبداللہ کے نام کی تسبیح کی ہے۔ میری سماعتوں نے ہر پل عبداللہ کی ہی آواز سننے کی دعا کی ہے۔ میں نے ہر فرض اور نفلی عبادات کے بعد عبداللہ سکندر کی ایک نظر کی بھیک مانگی ہے۔ اِن چھے مہینوں میں، محبت نے مجھے کب عائلہ سید سے عبداللہ سکندر بنا دیا مجھے خود بھی احساس نہیں مگر ہاں!

مجھ سے زیادہ محبت عبداللہ سکندر سے اس روئے زمیں پہ کوئی نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی نہیں، مر کر بھی نہیں۔

سورج سمندر میں ڈوبنے کو تیار تھا۔ ا س کی شعاعیں لال رنگ میں ڈھل چکی تھیں۔

اتنے حسین اور کامل اقرارکی امید صرف اتنے ہی حسین اور کامل چہرے سے کی جا سکتی ہے۔ عبداللہ ا س دلکش ڈھلتی شام اور عائلہ کے خوبصورت اقرار کے زیرِ اثر جانے کتنی دیر یونہی چہرہ موڑے کھڑا رہا۔

عائلہ کی نظریں ا س کی چوڑی پیِٹھ پر کسی ردِ عمل کے انتظار میں گڑھی تھیں۔

ذاکرہ اِ س پر اثر لمحے کے زیرِ اثر بت بنی کھڑی تھی۔

عمران خان اب بھی کیفے کی سیڑھیوں پہ کھڑا ، دور ہی سے سہی اس لمحے کی نزاکت کو محسوس کر سکتا تھا۔

عائلہ کی آنکھوں سے اب بھی آنسو رواں تھے۔

عبداللہ دھیرے سے پلٹا۔

دور کھڑی ذاکرہ کے ہاتھ میں عائلہ کا فون پھر سے بجا تھا۔ میر صاحب کی تصویر دیکھ کے، ذاکرہ نے فکر سے لال آنسوں سے تر اپنی گودی کے چہرے کو دیکھا جسے اس وقت کچھ یاد نہ تھا ، یاد رہا تھا تو صرف عبداللہ ۔



Loading

Read Previous

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Read Next

تنہا چاند – حریم الیاس – افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!