شکیل عادل زادہ – گفتگو

حسن عمر: میرا اپنا تعلق بھی ایک مہاجر گھرانے سے ہے، لیکن ہمارے ہاں بھی ویسی اُردو نہیں بولی جاتی جیسا کہ ماضی میں بولی جاتی تھی، اس میں بھی انگریزی شامل ہو گئی ہے۔

شکیل: اس کی وجہ بھی نصاب ہے۔ اس مسئلے کا آغاز سرسید احمد خان کے زمانے سے ہوا تھا۔ انہوں نے  پسماندہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے جیسا عظیم کام انجام دیا، دنیا کے ساتھ مل کر چلنا سکھایا لیکن ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ انگریزی ہمیں کھا لے گی۔ انگریزی نے ہمیں کھا لیا۔ یہ قدرت کا اصول ہے کہ  بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا لیتی ہے۔ اردو زبان میں میٹرک کے بعد آپ بتائیں کوئی کتاب ملتی ہے،انٹرمیڈیٹ میں شاید مل جائے لیکن اس کے بعد؟

حسن عمر: مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کالج اور یونیورسٹی بنانے کی جو کوششیں کی تھیں۔ آپ کے نزدیک ان کی کیا اہمیت ہے؟

شکیل: وہ اردو کی پہلی یونیورسٹی بنانے کے لیے اکیلے ہی کوشش کرتے رہے جو بے کار گئیں۔ بے کار اس لیے گئیں کہ ہمارے ملک میں تکنیکی و سائنسی علوم کی درسی کتب اُردو میں دستیاب ہی نہیں۔ جب اعلیٰ تعلیم کی اُردو کتب ہی نہیں تو اُردو یونی ورسٹی کس لیے؟ ہندوستان سے اردو گئیکہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے۔ انڈیا سے ہمارے بھانجے بھانجیاں ہمیں ہندی میں خط لکھتے ہیں۔ بنگلہ دیش نے اُردو کو  دھتکار دیا۔ اب صرف پاکستان میں رہ گئی، لیکن یہاں  بھی تعصبات کی نظر ہوگئی پھر انگریزی نے اسے چت کردیا۔آپ کو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنی ہے تو اردو میں تو نہیں کرسکتے نا۔لیکندوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے  کوئی کتنا ہی انگریزی دان کیوں نہ ہو، انگریزی میں منیر نیازی جیسا شعر نہیں کہہ سکتا۔ پنجاب میں لوگ اُردو بولنا  عزت سمجھتے ہیں۔ علاقائی زبانیں بھی اتنی ہی معتبر ہونی چاہیں۔ پنجابی بھی ہماری زبان ہے، گجراتی ہماری زبان ہے اور سندھی بھی ہماری زبان ہے۔ تو کیوں ہم ان سے نفرت کریں؟ یہ غلطی ہم مہاجروں نے کی کہ سندھی صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن سندھی نہیں پڑھتے( ہنستے ہیں)۔

(اس ہی دوران ٹی وی پر چلنے والی ایک نیوز سلائیڈ دیکھتے ہیں)

دیکھئے انہوں نے لفظ ”گندہ” کو غلط لکھا ہے، ‘ہ’ سے لکھنا چاہیے انہوں نے گندا لکھ دیا ۔

حسن عمر: غلط العام الفاظ ہمارے ہاں بہت زیادہ ہوگئے ہیں ان کی درستی کیسے کی جا سکتی ہے؟

شکیل: زبان کو  سب سے زیادہ خراب کررہے ہیں آپ کے TV والے۔ یہ لوگ اُردو زبان کا جتنا نقصان کر رہے ہیں اور کوئی نہیں کر رہا۔ اُردو لکھاری ہی غلط زبان لکھ رہے ہوتے ہیں۔ میں گھنٹوں بیٹھ کر نہ صرف ان کی درستی کرتا ہوں بلکہ کڑھتا بھی ہوں۔اب یہ لفظ ہے تشویش ناک اس میں تشویش علیحدہ لکھتے ہیں اور ناک علیحدہ۔ لیکن یہ لوگ ملا کر  لکھتے ہیں جو غلط ہے۔ابھی کسی نے یہاں پر مسودہ بھیجا اس میں ہوش کو حوش اور صمد بانڈ کوسمد بانڈ لکھا ہے۔

حسن عمر: کوئی ایک پیغام جو نئے لکھنے والوں کو آپ دینا چاہیں؟

شکیل: پڑھیں۔۔۔۔خوب سارا پڑھیں۔۔۔بغیر مطالعہ کے مصنف نہیں بنتے۔ پہلے خوب پڑھنا چاہیے، پھر لکھنا چاہیے۔ کم مطالعہ کا جوآدمی لکھنا شروع کرتا ہے وہ اکارت جاتا ہے۔

Loading

Read Previous

چشمہ – انعم سجیل – افسانچہ

Read Next

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!