شکیل عادل زادہ – گفتگو

حسن عمر: کون سا طرزِ تحریر آپ کو زیادہ  پسند ہے؟

شکیل: کئی ایک  ہیں۔ لیکن مجھے یہ کہنے میں باق نہیں کہ یورپ میں کہانی کو اس کی اصل روح کے ساتھ لکھا گیا ہے۔

حسن عمر: اس میں تو کوئی شبہ نہیںسر،اصل میں ہمارے ہاں تجربے ہی نہیں کیے جاتے ۔ وہاں پر سائنس فکشن، مسٹری، تھرلر، ہارر۔۔۔ہر چیز پر لکھا جا رہا ہے۔

شکیل: یہاں تو یہ سب شعبے ادب میں شمار ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اُردو میں کہانی کاری ابھی شروع ہی ہوئی ہے، ویسے بھی اردو زبان کی عمر ہی کیا ہے؟ ڈھائی،تین سو سال۔انگریزی کی بھی زیادہ عمر نہیں ہے، لیکن جرمن ادب کمال کا ہے،روسی ادب کا جواب نہیں۔

حسن عمر: کوئی  ایسی ادبی صنف جو آپ کو ناپسند ہو، جس کے بارے میں آپ کہیں کہ یہ میں نہیں پڑھ سکتا؟

شکیل: ہم نے سب رنگ میں ایک معیار رکھا تھا کہ کہانی بہت زیادہ ثقیل نہ ہو، زیادہ گھمائو پھرائو والی نہ ہو کہ  تجریدی ادب میں آجائے، کہانی ایسی ہو جو پوری کی پوری پڑھنے والے کی سمجھ میں آجائے، یورپ کی کہانیوں کے تراجم میںبھی ہمارا اوّلین معیار یہ ہوتا تھا کہ ان میں کہانی پن ہونا چاہیے۔ عالمی سطح پر بے شمار ایسے ادیب ہیں جو بہت اچھا لکھتے ہیں۔ نام گنوانے بیٹھا تو فہرست بہت طویل ہو جائے گی۔ پوری دنیا کا ادب پڑھنا تو مشکل ہے  بس جو جو اچھی اور معیاری تحریریں ہاتھ جو لگتی گئیں ہم ان کے تراجم چھاپتے گئے۔ انگریزی ادب میں Edgar Ellan poe،O Henry، موپساں، کافکا جیسے کچھ ادیب ہیں جو ذرا مشکل لکھتے ہیں، انہیں ہم نے کبھی نہیں چھاپا۔ تجرباتی طور پر ایک کہانی کافکا کی چھاپی تھی لیکن ظاہر ہے کہ کافکا بہت مشکل ہے۔ اردو ادیبوں میں سے ہم نے بیدی صاحب، کرشن چندر، عصمت آپا ، قرة العین حیدر کو کبھی  نہیں چھاپا۔قرة العین یو ں تو اردو ادب میں سرفہرست ہیں، لیکن ان کے ہاں کہانیوں میں کہانی پن کم اور ادب زیادہ نظر آیا۔ ہمارے بورڈ کے انتخاب میں ان کی کہانی کبھی نہیں آئی، ”حسب نسب” جیسی کوئی کہانی کبھی پسند آئی بھی تو وہ پہلے عالمی ڈائجسٹ نے چھاپ دیں یا کسی اور نے۔ عینی باجی سے تعلقات ہمارے بہت اچھے تھے، وہ سب رنگ کی بھی گرویدہ تھیں، انہوں نے اپنے نہ چھپنے پر کبھی برا نہ منایا تھا۔ (ہنستے ہیں)، رام لعل، بلونت سنگھ بہت اچھا لکھتے ہیں، سید رفیق حسین ،ابوالفضل صدیقی جنہوں نے جانوروں پر بہت اچھی کہانیاں لکھی ہیں، اسد محمد خان جن کی ”باسودے کی مریم” بہترین کہانی ہے۔ سب رنگ میں جو کہانیاں چھپ چکی ہیںان کا بھی اگر انتخاب شائع کیا جائے ، تو بہت عمدہ ہوگا۔

حسن عمر: سب رنگ کے زمانے میں موصول شدہ کہانیوں میں کارآمد تحریروں کا تناسب کیا تھا؟ کون سی چیزایسی ہوتی تھی جس کو دیکھ کر آپ کہتے تھے کہ یہ کیا لکھ کر بھیج دیا ہے،جس کو آپ فوری طور پر ریجیکٹ کردیتے تھے؟

شکیل: ہمیں پورے ملک سے کہانیاں موصول ہوتیں مگر ان میں سے اکا دکا ہی قابل غور ہوتی تھی۔ ہمارے ڈائجسٹ کے تین حصے تھے۔ ایک اُردو ادب سے انتخاب، دوسرا تراجم اور تیسرا نئے لکھنے والوں اور قسط وار سلسلوں کے لیے مختص تھا۔ انگریزوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کی زبان کے ادب سے فوراً ترجمہ کرلیتے ہیں اور دیگر زبانوں کی نسبت انگریزی سے اُردو ترجمہ کرنا بہت سہل ہے لہٰذا ہمارے لیے آسانی ہوجاتی تھی۔روسی کہانی کا ترجمہ انہوں نے انگریزی میں کیا، ہم نے فوراً اردو میں کرلیا۔ہم اپنے موجودہ کہانی کار سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے لیے کہانی لکھیں۔ کرشن چندر، جن سے میرے بڑے اچھے تعلقات تھے، ان سے ایک بار سب رنگ کے لیے ایک سیریل لکھنے کی فرمائش کی، تو انہوں نے ایک قسط لکھ بھیجی جس کا نام تھا ”سونے کا سنسار”جو ہمیں پسند نہ آئی۔۔اب مسئلہ یہ تھا کہ کرشن چندر کو واپس کیسے کریں؟ آخر ہمت کر کے میں نے انہیں خط لکھا کہ یہ ہمارے خانے میں فٹ نہیں بیٹھتی( ہنستے ہوئے) انہوں نے از راہ ِ شفقت مجھ سے  پوچھا کہ پھر میں کیا لکھوں تمہارے لیے؟ تو میں نے عرض کیا کہ آپ گدھے کی سرگزشت جیسی کہانی، الف لیلیٰ جدیدلکھیں۔ آئیڈیا انہیں بہت پسند آیا، لیکن ان دنوں ان کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی اور وہ لکھ نہ پائے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال پر میں انڈیا جانا چاہتا تھا لیکن ویزہ نہ مل سکا۔ میں ان کے انتقال کے بعد گیا تو ان کی بیگم نے مجھے ایک کمرہ دکھایا اور کہا کہ شکیل یہ کمرہ انہوں نے تمہارے لیے رکھا تھا، یہ قلم جس سے وہ لکھتے تھے۔ سینئر رائیٹرز سے عموماً ہم اپنے لیے لکھنے کا نہ کہتے تھے کیوں کہ تحریر پسند نہ آنے کی صورت میں انہیں منع کرنا بالکل اچھا نہ لگتا تھا۔ ایک بار ابن انشاء نے مجھے ممتاز مفتی کی ایک کہانی چھاپنے کے لیے دی ، کہانی  پڑھی پسند نہ آئی۔اب منع کریں تو کیسے کریں، ایک طرف ابن انشائ، دوسری طرف ممتاز مفتی۔ ہم نے جواب ہی نہ دیا خاموشی اختیار کر لی۔ کوئی تین چار سال کے بعد ابن انشاء لندن چلے گئے تھے، ایمبیسی میں۔وہاں سے خط میں انہوں نے ذکر کیا کہ بھائی ایک کہانی بھیجی تھی ممتاز مفتی کی اس کا کیا ہوا؟بتایا کہ پسند نہیں آئی تھی۔ انہوں نے کہا واپس کر دیتے۔ کہا کہ انہیںکیسے واپس کرتا، آپ تھے نہیں یہاں۔ کہنے لگے تم مجھے بھیج دیتے، چلو  اب واپس بھیج دو۔ بڑے ادیبوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات کے پیشِ نظر ہم اُن سے لکھوانے سے اجتناب کرتے تھے۔ اسی لیے میں نے کبھی قاسمی صاحب سے اپنے لیے لکھنے کا نہیں کہااور  ادبی پرچوں میں جو چیزیں چھپتی تھی ان میں غیر دلچسپ چیزوں کی اوسط زیادہ تھی۔

حسن عمر: ہماری فیلڈ یعنی اشاعتی شعبے کا تاثر یہ ہے  کہ رائٹرز اپنے وعدے پر پورا نہیں اُترتے ، وقت پر کام نہیں دیتے۔ آپ اس بات  سے کس حد تک متفق ہیں؟

شکیل: بے حد متفق ہوں۔ یہ تو میں نے سب رنگ میں بھگتا بھی ہے۔ مجھے تو رائٹرز نے بڑے دھوکے بھی دیے ۔ کبھی ایڈوانس لے کر مکر گئے، یعنی نہیں لکھا اور لکھاتو کچھ عرصے تک لکھا اور پھر غائب۔اب نام کیا لوں، بہت لکھاری  تھے جو وعدے کے پابند نہیں تھے۔ سب رنگ کے لکھاریوں میں  شوکت صدیقی وعدے کے پابند تھے ،وہ جانگلوس لکھتے ہمارے لیے اور وقت پر قسط دیتے تھے، اسد محمد خان اپنا کام  وقت پر پہنچاتے تھے اور ویسے بھی ہم لکھواتے کم تھے۔ تراجم پر زیادہ زور تھا۔ میں اس بات سے بالکل متفق ہوں  کہ ادیبوں اور شاعروں میں یہ غیر سنجیدہ رویہ بدرجہ اتم پایہ جاتا ہے، وہ اپنے عہد کی پاسداری نہیں کرپاتے۔

Loading

Read Previous

چشمہ – انعم سجیل – افسانچہ

Read Next

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!