شکیل عادل زادہ – گفتگو

حسن عمر: ہمارے ہاں بچوں کے ادب پر بالکل کام نہیں کیا جا رہا۔اس کی کیا وجہ ہے؟

شکیل: اصل میں جس چیز کی طلب ہوتی ہے، اس پر کام کیا جاتا ہے۔ برکاتی صاحب نے بہت کام کیا  ہے، وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ شروع سے ہمدرد میں رہے، نونہال سے وابستہ ہوگئے۔ جو کام مولوی اسمعیل میرٹھی نے کیا ،سبحان اللہ، وہ کسی نے نہیں کیا۔

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

ہم نے یہ نصاب پڑھا تھا ، اس سے ہماری اردو مضبو ط ہوئی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بچہ تو آپ کا پہلے ہی انگریزی کی طرف جاتا ہے اور والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے انگریزی سکول میں داخلہ مل جائے۔ ان کی طلب بھی برحق ہے کیوں کہ وہ اپنے بچے کا گھاٹا نہیں چاہتے۔ اُردو بول کر جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس کا آپ کو اندازہ ہے۔ ایک اُردو ایم اے لے آئیے اور ایک انگریزی ایم اے لے آئیے، کس کو ملازمت پہلے ملے گی؟ یہ والدین کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے۔

میرے تین بچے ہیں، دو بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا۔ بیٹی نے مائیکروبیالوجی میںایم ایس سی کیا، انگریزی زبان میں اس لیے کہ اردو میں تو کتاب ہی نہیں ہوتی۔چھوٹی بیٹی نے انڈس ویلی سے آرٹ میں گریجویشن کیا، اس کا بھی اردو سے تعلق نہیں ۔ بیٹے نے انگلینڈ سے کمپیوٹر سائنس آئی ٹی میں ماسٹرز کیا ، وہ اب کینیڈا میں ہے، اُردو سے اُسے کوئی دل چسپی نہیں۔ جب گھر میں اُردو اخبار آتے تھے تو انہیں گالی لگتے تھے جبکہ روزی وہ اردو کی کھاتے تھے۔

حسن عمر: قہقہہ

آپ اُردو  سکرپٹ کو مقبول کروائیں۔دیکھئے ڈان ٹیلی ویژن ناکام ہوگیا۔ کیوں؟کیوںکہ وہ پورے کا پورا انگریزی ہی تھا جب کہ لوگ اُردو سنتے  اور سمجھتے ہیں۔ علاقائی زبانوں کے چینل بھی زیادہ لوگ نہیں دیکھتے کیوںکہ وہ سمجھ نہیں پاتے۔ ملکی چینلز کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔جس میں بیس کے قریب تو علاقائی زبانوں کے جب کہ باقی سب اردو کے ہیں۔ ایک بات میں آپ کو بتاؤں کہ دیہات کے وہ لوگ جو پیلے سکولوں سے  پڑھے ہیں، بہت اچھی اردو بولتے ہیں۔آپ پٹھان کو دیکھیں بہت اچھی اردو بولتے ہیں۔پبلشنگ کا جو کام پنجاب کی سائیڈ پر ہوا ہے، وہ کہیں اور نہیں ہوا ۔ حیدرآباد دکّن، دلّی، لکھنو، لاہور۔ لاہور ہمیشہ آگے رہا۔ اب تو اُردو کے بے شمار  پبلشرز ہیں وہاں پر۔

حسن عمر: آپ آج کل اپنا کوئی کام نہیں کررہے؟

شکیل: اب نہیں کرتا، بس آج کل جیو میں سکرپٹ دیکھتا ہوں، یہ بھی ان لوگوں کی محبت ہے جو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھا ہے۔

حسن عمر: آپ کے بعد اس فیلڈ میں آنے والے مدیران میں سے کون سے ایسے ہیں جس کے بارے میں آپ یہ کہہ سکیں کہ یہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔

شکیل: اب تو ڈائجسٹ نیچے جارہاہے، ڈائجسٹ کی وہ اشاعت نہیں رہی،جو ہمارے زمانے میں تھی، اُردو پڑھنے والی نسل پرانی ہو رہی ہے۔ نئی نسل اُردو سے دور جا رہی ہے۔ اخباروں کی اشاعت بھی کم ہوگئی ہے۔اب لوگ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر سب کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ ادبی رسالے چھپتے ہیں، وہ چھپتے رہیںگے۔باقی جوفکشن، جاسوسی، سسپنس ڈائجسٹ ہیں ان کی اشاعت بھی نیچے جارہی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی ایسے ہیں جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ پڑھنا جن کا ذوق ہے۔ ایسے لوگوں کے دم سے  کہانی کبھی نہیں مرے گی۔ اچھی اور عمدہ کہانی کی مانگ برقرار رہے گی۔ شہروں میں  ڈائجسٹ زیادہ نہیں پڑھے جاتے۔ گوٹھ دیہاتوں میں زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر مایوس کن صورت حال ہے۔

حسن عمر: یہ صورت حال بہتر کیسے ہوسکتی ہے؟

شکیل: نصاب سے۔حکومت نے اعلان کرتو دیا کہ قومی زبان اردو ہوگی، لیکن کچھ کیا نہیں۔اُردو کو  بیوروکریسی نہیں چلنے دیتی کیوں کہ اس کی بالادستی انگریزی میں ہے،اردو میں وہ بالادست نہیں رہے گی۔آپ اردو میں درخواست لے کر جائیں تو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔یہ رویہ ختم ہونا چاہییاور یہ اُسی وقت ختم ہو گا جب آپ کا ملک معاشی طور پر مستحکم ہوگا۔دیکھئے  کہ دنیا میں دوسرے ملکوں نے اپنی اپنی زبانوں کو زندہ رکھتے ہوئے کتنی ترقی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی زبان پر ہی انحصار کرتے ہیں نہ کہ کسی غیر ملکی زبان پر۔ شروع میں یہ سمجھا گیاکہ اردو مہاجروں کی زبان ہے، جو بالکل غلط ہے۔ابھی آپ نے ہی کہا کہ لاہور میں سب سے زیادہ اُردو پبلشنگ کا کام ہورہا ہے۔ لاہور نے کتنے بڑے بڑے اُردو شاعر پیدا کیے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان، صوفی غلام مصطفی تبسم کئی بہت سے بڑے نام یہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔

Loading

Read Previous

چشمہ – انعم سجیل – افسانچہ

Read Next

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!