سارنگ نے پہلا سمسٹر کلیئر کیا اور بڑے شان دار طریقے سے کلیئر کیا ، شیبا کو حیرانی تھی۔اسے توقع تھی کہ اگرچہ وہ ایک پڑھاکو لڑکا ہے مگر سمسٹر کے اختتام تک فراز سلیم کی طرح اس کے بھی پرخچے اُڑ جائیںگے، مگر سب کچھ اس کی توقع کے برعکس ہوا تھا۔

وہ جس کامیابی کے ساتھ انٹرویو پاس کر کے یہاں پہنچا تھا اور جتنی لگن سے وہ دھڑا دھڑ ٹریننگ کلاسز میں کارکردگی دکھا رہا تھا، یہ محنت اسے مستقبل میں ایک ماہر ہارٹ اسپیشلسٹ کے روپ میں لانے والی تھی۔

شیبا اس سے ایک ڈیڑھ سال سینئر تھی۔ دونوں کی کلاسز الگ تھیں مگر ہسپتال میں ہائوس جاب اور ٹریننگ کے دوران سینئر اور جونیئر اسٹوڈنٹس اور ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اپنے اساتذہ کی نگرانی میں زیادہ تر ایک ساتھ ہی ڈیوٹی آورز اٹینڈ کرتے تھے۔

سارنگ کے ساتھ اس کی بات چیت سرسری سی تھی۔یہ بات فراز سلیم نے بھی محسوس کی تھی کہ وہ گروپ میں سارنگ کو ذرا کم ہی لفٹ کراتی ہے۔

”تمہیں آخر ہم معصوم پاکستانی لڑکوں کے ساتھ اللہ واسطے کا کیسا بیر ہے؟” فراز سے تو وہ کافی چڑتی تھی۔ اس کی بے وجہ ہنسی مذاق اوربے موقع محل بات کو اچھالنے کی عادت سے، مگر اس کے باوجود اس کی فراز کے ساتھ اچھی دوستی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ حرکتیں  اس کا آکسیجن ہیں۔ وہ آئے دن پاکستان سے موصول ہونے والا کوئی بھی ٹینشن بھرا خط ان سب دوستوں کو پڑھ کر سُنانے لگتا۔ اپنی ہنسی مذاق کی طرح وہ ٹینشن بھی شیئر کرنے کا عادی تھا۔

اور سارنگ جو اپنی دُھن میں مگن، کتابوں میں سر دیے، ٹریننگ کے بعد گھر اور گھر میں یا تو اسٹڈی یا تھوڑی دیر کا آرام، وہ کم از کم فراز نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے اپنی پڑھائی کی اہمیت کا علم تھا کیوں کہ اس کے پاس اس اسپیشلائزیشن کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کے دن رات کا واحد مقصد یہی تھا جسے حاصل کرنے کے بعد اسے سندھ واپس لوٹنا تھا اور اپنے ملک کے ایک پس ماندہ علاقے میں بستے ہوئے ہر ایک فرد کے خواب کی تعبیر بننا تھا۔ اس کے پاس یہاں سے سمسٹر خراب کر کے ناکام لوٹ کر جانے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

اس لیے اس نے سمسٹر کلیئر کرنے کے لیے جیسے سر دھڑ کی بازی لگائی ہوئی تھی۔

سمسٹر کلیئر ہونے کے بعد جب رزلٹ انائونس ہوا،اُسی شام پروفیسر شہاب نے اسے ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ پروفیسر شہاب کافی خوش تھے، فرح نے اسے بہت ساری دعائیں دیں۔شیبا، جوپورے ڈنر میں چند رسمی جملوں کے بعد خاموش بیٹھی تھی، مگر دل ہی دل میں وہ بھی اعتراف کر رہی تھی، وہ حیران تھی۔

واپسی پر گھر سے نکلتے ہوئے اس نے سارنگ کی کھلے دل سے تعریف کی ۔وہ تعریف جو کم از کم وہ اپنے ماں باپ کے سامنے دانستہ نہیں کر رہی تھی۔اگلے دن سینٹر سے نکلنے کے بعد اس نے تمام دوستوں کے ساتھ مل کر اسے ٹریٹ دی ۔ اگلے سمسٹر کو ڈسکس کرتے ہوئے اس نے اپنا ریسرچ پیپر بھی اس کے ساتھ شیئر کیا۔

وہ کھلے ذہن کا مالک تھا۔ خوبیاں بہت جلد پکڑ لیتا تھا اور خامیوں پر قابو پانا بھی اسے آگیا تھا۔ شیبا اس کی صلاحیتوں کی معترف تھی۔ وہ شیبا کی ذہانت سے متاثر تھا۔بعض باتوں میں دونوں کے خیالات بھی ملتے تھے۔ اکثر کمپنی شیئر کرنے کے دوران بات کرنے کے بعد عقدہ کھلتا ہے کہ اگلا بندہ آپ کا ہم خیال دوست ہے یا پھر بہت اچھا دوست، جو بغیر ہم خیالی کے بھی آپ کو سکھاتا ہے اور آپ سے سیکھتا جاتا ہے۔

خوبیاں سمجھنے اور پلس پوائنٹ پک کرنے والے لوگ شیبا کو پسند تھے۔آہستہ آہستہ اس کا نام بھی شیبا کی گڈ بک میں شامل ہو گیا ۔

یہ دوسرے سمسٹر کا آخری پیریڈ تھا جب کلاس سے فری ہونے کے بعد کیفے میں ایک ساتھ کافی پیتے ہوئے باتوں کے درمیان اس نے خود سے یہ اعتراف کیا تھا۔

اس نے، شیبا نے۔

شیبا جو دنیا میں بہت کم لوگوں سے متاثر ہوتی تھی۔ ہر بیٹی کی طرح، اس کا بھی پہلا آئیڈیل اس کا باپ ہی تھا جس کا اظہار اس نے کبھی ان کے سامنے نہ کیا تھا۔اس کے باوجود بھی وہ جانتے تھے کہ شیبا ان کے کام، ذہانت، حرکتوں اور باتوں کی وجہ سے انہیں کتنا آئیڈئیلائز کرتی ہے اور ہمیشہ اُنہی کی طرح دوسروں کو لاجواب کرتی ہے۔اس کے باوجود بھی وہ ان سے بہت بڑے بڑے اختلافات رکھتی ہے۔ جس وجہ سے ان کو محسوس ہوا تھا کہ ان کے آئیڈل ا زم کا بت ٹوٹنے ہی والا ہے۔

وہ اس دور کی نوجوان ہے۔ اسے اپنے سے دو قدم آگے چلنے والے آئیڈیل کی تلاش ہے، جو اس پر فوقیت رکھتا ہو۔ جس کا لاشعوری طور پر ان کو بھی انتظار تھا۔وہ جو ان کی بیٹی کے مقدر کا ستارہ۔وہ جو مقدر کو ستارہ بناتا۔جو ان کی نظر میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہو گا۔جو ان کی شہزادی کو شہزادہ بن کر بیاہنے آئے گا۔

پروفیسر شہاب کسی باپ کی طرح اپنی بیٹی کو انمول سمجھنے والے اس کے لیے واقعی کسی ہیرے کے آرزو مند تھے۔ یہ ان کی خواہش کا ان پر حق تھا یا پھر ان کا اس خواہش پر کہ وہ اب اس کے بارے میں سوچیں۔ ویسے ہی جیسے وہ آج سے تیس سال پہلے خود اپنے بارے میں سوچتے تھے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

Read Next

شریکِ حیات قسط ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!