سارنگ شش و پنج میں مبتلا تھا۔ شیبا نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے کہا۔

”کچھ نہیں،گائوں میںزمین کا مسئلہ بن گیاہے۔”

”اور تم اتنے پریشان ہو؟” وہ اس کی آنکھوں میں جھوٹ کا شائبہ ڈھونڈ رہی تھی۔

”زمین کا مسئلہ ہمارے ہاں زندگی کے مسئلے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔”

”مسئلہ کیا ہے؟”

”ایک زمین بک گئی، دوسری برسات کے پانی نے ڈبو دی۔ ”

”بہت خرچہ کیا تھا۔”

وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔

کھیتوں کے بیچ مولا بخش اور حسن کھڑے تھے۔

دونوں افسردہ تھے، دونوں مایوس تھے اور کافی دیر سے چپ تھے۔

کتنی محنت کی تھی سارنگ پر، کھیتی کی طرح خرچہ کیا۔ پالا پوسا، بڑا کیا اور اب؟

آدھی زمین میری وجہ سے بک گئی۔آدھی برسات کے پانی میں ڈوب گئی۔فصل ضائع ہو گئی۔

”کھیتی ڈوب گئی مولا بخش، آدھی بک گئی، آدھی ڈوب گئی ۔”

مولا بخش نے اس کے کندھے پر بازو پھیلایا۔ جس فصل میں وہ کھڑے تھے، وہ اس موسم میں اُگائی جاتی تھی۔ فصلوں کا موسم گزر چکا تھا۔کھیتی کے بیج ابھی زمین میں اپنا اناج تلاش کر رہے تھے اور زمین ڈوب گئی۔

مولا بخش بھی سمجھ گیا۔ بازو کندھے پر پھیلا دیا۔وقت کسی کا ساتھی نہیں، بدل ہی جاتا ہے۔ حسن بھی اس پہلو کو سمجھتا تھا۔

فصل ضائع ہو گئی۔ اس کا مطلب ہے اس بار اناج مہنگا پڑے گا، نوالہ نوالہ سوچ سوچ کر لینا ہو گا ۔ سب کو فکروں نے آگھیرا۔

”اب نوالہ حلق سے نہیں اُترے گا، سب کچھ بدلا بدلا لگ رہا ہے ادا مولا بخش، یہاں تک کہ روٹی کا ذائقہ بھی۔”

”ایک سارنگ کے بدلنے سے پوری دنیا بدلی ہوئی لگتی ہے۔ تھک گیا تھا سوچ سوچ کر۔”

”غلطی کی بھائو مولا بخش، بہت بڑی غلطی کی جو اسے اتنی دور پرائے دیس بھیج دیا جہاں تیری پہنچ نہ میری پہنچ۔”

”تو فکر نہ کر حسن بھا۔ میں سارنگ سے بات کروں گا۔”

”تو بات کرے تو زیادہ دکھی ہو گا۔ اس لیے نہ کرنا۔”

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

Read Next

شریکِ حیات قسط ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!