مولا بخش صحن میں چار پائی پر لیٹا کروٹیں بدلتا رہا۔

نیند اتنی بے زار کیوں ہے مجھ سے؟

سندھو دودھ کا گلاس لے آئی تھی۔

”ابا کھیر (دودھ) پی لیں۔”

”کھیر کھٹا ہو گیا ہے سندھو، اسے ڈھک کے رکھ دے۔”

”نہیں ابا کھیر کھٹا نہیں ہوا۔تازہ تازہ آیا ہے باڑے سے۔” وہ اٹھا اور دو گھونٹ لیے، نہ لیتا تو پتا تھا کہ اُس نے پریشان ہو جانا تھا۔

”میرے منہ کا ذائقہ کھٹا ہو گیا ہے سندھو۔ بس یہ واپس لے لے۔”

”ابا اور لے لے تھوڑا سا۔”

”ابا کی جان دو گھونٹ تیرے لیے پیے۔ تو بول کہ ابا زہر پی لے، ابا وہ بھی پی لے گا۔”

”نہیں ابا، اللہ نہ کرے ایسا ہو کہ سندھو کہے کہ ابا زہر پی لے۔اگر ایسا ہوا تو سندھو سب سے پہلے خود کو کہے گی، سندھو تو خود زہر پی لے۔”

”سندھو کی حیاتی تو بہت لمبی ہو گی، ابا نے دعائوں میں مانگی ہے۔”

”سندھو اتنی لمبی حیاتی لے کر کرے گی کیا بھلا ابا۔”

”سندھو سو سکھ دیکھے گی۔ سندھو رانی بنے گی، میری دعا ہے۔” آنکھیں نم، لہجہ گیلا۔

”سندھو پریوں کی رانی بنے گی۔”

”بن گئی رانی نکل آئے پر۔ اب رہنے دیں ابا کوئی اور دعا کریں۔”

”پگلی ابا کی دعائوں سے مایوس ہو گئی؟ابا کی د عا رَد نہیں جاتی۔ ہر وہ دعا جو دل سے کی جائے اور وہ ابا کرے سندھو کے لیے، یا پھر سندھو ابا کے لیے۔ وہ دعا چھپر چھائوں بن جاتی ہے۔”

”ابا تیرا یقین کتنا اچھا ہے نا؟”

”سندھو یقین ایسا ہو کہ بندہ مر جائے پر یقین بھری دعا نہ مرے۔”

”’ابا تو مشکل باتیں کرنے لگا ہے۔”

”میں سدا سے ایسا ہوں سندھو۔ تجھے ابا کی باتیں اب اوکھی لگنے لگی ہیں۔”

”ابا! مجھے ڈر لگتا ہے۔” ساتھ بیٹھ گئی۔

”ابا کی سندھو کیوں ڈرتی ہے؟”

”وہم آتے ہیں ابا۔”

”وہم نہ رکھا کر سندھو۔ دل کو کمزور کر دے گا یہ وہم۔”

”ادھر آ بیٹھ۔ تجھے کچھ باتیں بتائوں۔ دیکھ سندھو! حیاتی بڑی اوکھی ہے۔ اس میں بڑے بڑے دکھ ہیں مگر سندھو یہ حیاتی سوہنی بھی بڑی ہے۔دیکھ اب یہ تجھ پر ہے کہ تو دکھوں کو زیادہ پاس رکھتی ہے یا پھر سُکھوں کو۔جس کو جتنی عزت دے گی، وہ اتنا ہی سر چڑھ کر بولے گا۔میں تجھے بہادر دیکھنا چاہتا ہوں سندھو۔” مولا بخش جیسے کسی ان ہونی کے ہو جانے کے خوف میں مبتلا تھا۔تھوڑی دیر بعد دوبارہ بولا۔

”انسان کے اندر جو دل ہے نا، اس میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔اسے نہ ڈرایا کر۔ اسے ڈرائے گی تو پچھتائے گی۔ اس کی ہمت بندھا۔آزمائشیں بھی بندے کے صبر کی شان ہیں۔اللہ اُن سے بچائے تجھے، اگر یہ سر پہ آجائیںتو ہمت کر کے مقابلہ کیا کر۔ابا نے سندھو کو دلیر بنایا ہے نہ کہ بھگوڑی، بزدل، پھسکڑی، وہمی۔”

سندھو مسکرا دی۔ ”ابا تیری باتیں ایسی ہیں جیسے حبس کے موسم میں ٹھنڈی ہوا۔ جیسے اندھیرے میں بڑا سا جگنو، لالٹین کی جگمگ جگمگ کرتی بتی۔” وہ ہنس دیا اس کی بات پر۔

”ابا لگتا ہے جیسے زندگی میں کسی پل کوئی دکھ ہی نہ ہو اور کسی پل دکھ ہی دکھ ہوتا ہے۔”

”دکھ ایک دن دُھل جاتا ہے۔”

اس بات کو یاد نہ بھی رکھو تو یہ بات اسے یاد رہنی تھی، آنے والے وقت نے اسے یہ ضرور بتانا تھا جو آج اسے مولا بخش بتا رہا تھا، جو سندھو کا اباتھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

Read Next

شریکِ حیات قسط ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!