وہ سمجھتا تھا،سب سمجھتا تھا۔

اس کی پریشانی، لہجہ، بات کرنے کا انداز، سب ہی وہ جانتا تھا کہ وہ کیا سُننا چاہ رہی ہے۔

مگر وہ یہ سوچ کر نہ کہہ سکا کہ اس کے لیے اچھے رشتے آرہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی زیادہ قابل ہو وہ کس آسرے پر اسے روکے، منع کرے۔اس کے گھر والوں کا ری ایکشن جو تصویریں دیکھ کر ہوا تھا، وہ ناقابل یقین تھا۔

اسے اندازہ تھا ایسی صورت میں طوفان آجانا ہے وہاں۔ اسے وقت چاہیے تھا، بہت وقت۔ ریذیڈنسی مکمل کرنے تک کا وقت یا پھر گھر والوں کا اعتماد حاصل کرنے تک کا وقت۔ وہ کیا کہتا اسے؟ کس اُمید پر روکتا؟

دل بہت بوجھل تھا۔ اسے پہلی بار اپنی کم ہمتی نظر آئی اور خود پہ غصہ آیا یا پھر گھر والوں پر یاان کے پیدا کیے گیے حالات پر۔وہ اسے مایوس کر چکا تھا۔ وہ خود کو مایوس کر چکا تھا۔

اس کی خود سے جنگ شروع ہو چکی تھی، خواہ خود کو کتنا بھی کول ڈائون کرتا۔ ابھی کیفیت تازہ تازہ تھی۔

فون بجا، اس کا خیال تھا کہ شیبا کا ہو گا۔ اسکرین دیکھی تو گھر سے تھا۔دوبار سوچنے کے بعد تیسری بیل پر کال ریسیو کی، بولا نہیں صرف کان سے لگا لیا۔آگے چاچا بول رہا تھا۔

”سارنگ۔” وہ بس اتنا کہہ سکا ۔

اسے جیسے کسی نے جکڑ لیا ہو، ابا تو بگڑتا تھا بُرا بھلا کہتا تھا اور اسے اپنی صفائی دی جا سکتی تھی۔

”سارنگ، بول سجن۔”

چاچا بگڑتا تھا نہ لڑتاتھا۔ آزمائش میں ڈال دیا یہ کہہ کر کہ بول سجن۔

وہ اسے کہہ رہے تھے کہ بولو۔ مطلب اسے بات کی وضاحت کرنا تھا، سب کچھ بیان کرنا تھا اور صفائی دینی تھی، وہ یہی سوچ رہا تھا۔

یہ جانے بغیر کہ چاچے نے کس لیے فون کیا ہے کیا کہنا چاہتا ہے اور کیا پوچھنا۔

”سارنگ تو بول۔” سجن کا لفظ غائب تھا۔

لہجے میں کچھ غصہ در آیا۔

”میں تجھے کہتا ہوں بول دے سارنگ جو تو کہنا چاہتا ہے۔”

اور اس نے کھٹ سے فون بند کر دیا۔

بہت مشکل تھا چاچے کے سامنے منہ کھولنا۔

وہ صرف یہ سوچ رہا تھا کہ وہ ان کی نظر میں گرا ہے، اعتبار کھویا ہے، وہ انہیں کیا کہے۔

کیا شکایت کرے ،کیا سمجھائے، کیا صفائی دے اور اُدھر خالی فون ہاتھ میں لیے چاچا جیسے سکتے میں تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

Read Next

شریکِ حیات قسط ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!