”سارنگ نے فون اُٹھایا۔ آواز سُنی نہ بولا۔ چاچے نے کہا یا ر سجن بول، وہ پھر بھی نہ بولا۔میں کہتا رہا سارنگ بول۔ کہہ دے جو دل میں ہے وہ تب بھی نہ بولا۔ میں نے غصے سے کہا سارنگ بول۔” لہجہ کپکپا رہا تھا چاچے کا۔

”وہ تب بھی نہ بولا؟” حسن حیرت سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔ ”مانا کہ سارنگ بدل سکتا ہے مگر اتنا؟ وہ تب بھی نہ بولا۔ اس نے فون رکھ دیا۔”

چاچے کا لہجہ سیلاب کی مانند تھا۔

حسن نے بے بسی اور دکھ سے دیکھا۔

”اور سارنگ نہیں بولا۔ اس نے تجھ سے بات نہ کی۔ وہ میرے لیے آج سے مر گیا۔”

”نہ حسن بخش نہ۔ سارنگ کو بد دعانہ دے۔ سارنگ نے بات نہ کی، وہ جیتا رہے تو سمجھ سارنگ نہیں چاچا مر گیا۔”

حسن بخش نے اس کے آنسو دیکھے، جو بہ رہے تھے۔ اس کا دل چاہا کہ وہ سارنگ کو رسوں سے باندھ کر خوب مارے، یا پھر خود کو۔

”اوہ وہ گدھا اس لائق ہو گیا کہ اب وہ ہم سے بات نہیں کرے گا۔ اور میں اسے معاف نہیںکروں گا۔ مولا بخش نہ رو مولا بخش۔”

”رونے دے، حسن آج رو لینے دے۔کل جب وہ رو ئے گا تو اسے رونے مت دینا۔” مولا بخش کے آنسو گالوں کو تر کرنے لگے۔

”او حسن بخش سارنگ آج چاچے سے روٹھا ہے فون اٹھایا بات نہ کی۔ سنتا رہا۔”

”اسے کہنا حسن بخش! اسے کہنا کبھی تو بھی چاچے کو فون کرے گا تو وہ بھی فون نہ اٹھائے گا۔ اگر اٹھا لیا تو بات نہ کرے گا، روٹھ جائے گا۔اور جب چاچا روٹھ گیا نا اک دن تو سارنگ تو روئے گا۔ تو جب روئے گا تو پتا لگے گا دکھ کیا ہوتا ہے۔”مولا بخش جیسے سب کچھ کہہ دینا چاہتا تھا۔ کچھ توقف کے بعد بولا۔

”مگر بھائو حسن! وہ روئے تو اس کو رونے نہ دینا۔”

اتنا کہہ کر اس نے اپنی آنکھیں خود ہی پونچھ لیں اور باہر اوطاق کی جانب چل دیا۔

حسن کے پائوں جم گئے تھے جیسے۔ دل کیا زمین پھٹے اور وہ سما جائے۔

او سارنگ بے غیرتے، تجھے چاچے نے جان دے کر پالا ہے کمینے۔

آج تو اس کا فون نہیں اٹھاتا، اٹھا یا تو بات نہیں کرتا۔

سارنگ تو آج کے بعد ابے کے لیے مر گیا۔

آنکھیں بھر آئیں۔ منجی پہ سر نہوڑائے بیٹھ گیا۔ ہمت نہ ہوئی کہ جا کر مولا بخش کو دیکھتا۔

دن ڈھلا، شام ہوئی اور شام سے رات ہو گئی۔

سبھاگی سر پہ آکھڑی ہوئی۔ ”ادا حسن مولا بخش کو لے آ۔ دل بڑا پریشان ہے۔ دوپہر سے خالی پیٹ نکل گیا ہے۔ اللہ جانے کھیتوں پر گیا ہے یا شہر۔ ابھی تک نہیں لوٹا۔”

وہ چپ چاپ گھر سے نکل آیا۔بھرجائی کو تسلی دینا چاہتا تھا، نہ دے سکا۔ کبھی انسان کی زبان اس کا کہا نہیں مانتی۔وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔کہہ نہیں پایا۔ دل تو اس کا بھی پریشان تھا۔اُداس تھا۔ جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا، جیسے قید میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔جیسے رونے کو کُرلا رہاتھا۔

وہ سمجھ نہ سکا۔ وقت نے سمجھانا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

Read Next

شریکِ حیات قسط ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!