سراب — زارا رضوان

’’باجی چائے۔‘‘ سونیا ٹرے لئے کھڑی رہی۔
’’لے جاؤ۔ نہیں پینی۔‘‘
’’آپ نے ناشتہ نہیں کیا۔دوپہر کو کھانا بھی نہیں کھایا۔ شام کو لان میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ سب ٹھیک تو ہے باجی۔‘‘ سکول جانے کی وجہ سے اس کی اردو ماں کی نسبت کافی بہتر تھی لیکن لہجے میں پنجابی ٹچ آ جاتا تھا۔
’’اگر سب ٹھیک نہ ہوا تو کیا تم ٹھیک کر دو گی؟۔‘‘ ایمن نے تنک کر پوچھا۔
’’شاید کر دوں،یا شاید کوئی پتے کی بات بتا دوں جس سے آپ کے وہ زخم مندمل ہو جائیں جو آپ سب سے چھپا رہی ہیں’’۔سونیا کی بات پر ایمن نے چونک کر اس کو دیکھا جس کا چہرہ بہت کچھ بتا رہا تھا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا، میں کیا چھپا رہی ہوں سب سے۔‘‘ ایمن کا لہجہ مدھم تھا لیکن غصے کا عنصر شامل تھا۔
’’باجی۔‘‘ سونیا نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ ایمن نے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو میں سن رہی ہوں تم کہو۔
’’آپ کو پتا ہے اماں مجھے یہاں کیوں لاتی ہیں تاکہ میں گھر میں اکیلی نہ رہوں۔ ٹونی اور بٹو تو سارا دِن ورکشاپ ہوتے ہیں اور میں اکیلی۔‘‘
’’پہلے بھی تو تم اکیلی رہتی تھی۔‘‘ ایمن اس کی بات کا مطلب نہ سمجھ پائی کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہے۔
’’پہلے بات اور تھی باجی۔‘‘ ایمن نے الجھی نظروں سے دیکھا جیسے سمجھنے سے قاصر ہو۔
’’باجی غور سے سننا۔ آپ کو ساری بات کی سمجھ لگ جائے گی۔‘‘ سونیا سمجھ گئی کہ وہ الجھن کا شکار ہے۔
’’میری دوست مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اکثر میرے گھر پڑھنے آتی تھی ہم لوگ مل کر پڑھتے تھے۔ وہ بہت ذہین اسٹوڈنٹ تھی۔ اس کا بھرا(بھائی) دوبئی سے سب کے لیے گفٹ لایا تو اس کو بڑا والا موبائل دیا۔ وہ پہلے تو اِتنا استعمال نہیں کرتی تھی پر آہستہ آہستہ وہ فون میں لگی رہتی۔ میرے گھر آ کر بھی وہ فون سے چپکی رہتی جس کے نتیجہ اس کے کم نمبر آنے کی صورت میں نکلا۔‘‘
’’تم جو کہنا چاہتی ہو وہ کہو۔‘‘ ایمن اکھڑ گئی۔ سونیا کی باتیں اُس کی سمجھ سے باہر تھیں۔
’’وہی تو کہہ رہی ہوں۔ آپ حوصلے سے سنیں تو۔ چائے پئیں ساتھ ساتھ‘‘ایمن نے چائے کا کپ اٹھالیا۔
’’میں نے بہت کہا شبانہ فون کا استعمال نہ کیا کرو تم فیل ہو جاؤ گی۔ اس نے میری ایک نہ سنی۔ آپ کو پتا ہے جب وہ موبائل میں بزی ہوتی تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے، ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی، رنگ لال ہو جاتا۔ میں سمجھ گئی معاملہ کچھ اور ہے۔ میں نے بہت سمجھایا کہ وہ جس راستے پر چل رہی ہے وہ غلط ہے۔ اس نے کہا وہ اس کا فیس بک کا دوست ہے، اس کو پسند کرتا ہے اس سے شادی کرے گا۔ مجھے اس کی تصویر دِکھائی۔ کافی گورا چٹا لڑکا تھا ۔ دیکھنے میں راحیل بھرا (بھائی) کی طرح اچھے گھر کا لگتا تھا۔شبانہ نے اپنی کتنی ہی تصویریں اس کو بھیجیں۔ یہ دھڑا دھڑ۔فون پر لمبی لمبی باتیں ہونے لگ گئیں۔ گفٹس دینے لگ گیا۔ شبانہ جھوٹ بولتی کہ دوست نے دیا ہے۔ میں نے کہا یہ غلط ہے، سب سراب ہے، دھوکہ ہے، یہ لڑکے وقت گزاری کے لیے دوست بناتے ہیں نہ کہ شادی کے لیے۔ اس نے میری ایک نہ مانی۔‘‘ وہ سانس لینے کو رکی۔ ایمن کا دِل دھک دھک کر رہا تھا۔ اسے لگا سونیا اسے اسی کی کہانی بتا رہی ہو۔
’’پھر۔‘‘ سکینہ کی خاموشی لمبی ہوئی تو ایمن نے پوچھا۔





’’پھر کیا تھا ایمی باجی۔ شبانہ نے اس کو زور دینا شروع کر دیا کہ شادی کے لیے ماں باپ کو گھر بھیجے کیوں کہ شبانہ کی نسبت بچپن سے اپنے تایا زاد سے طے تھی۔ وہ لوگ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کر دیتے ہیں اِس لیے لڑکے والوں نے اس کے والدین کو کہا تعلیم کو چھوڑو شادی کا سوچو۔ اس لڑکے نے شبانہ کوخوب بے عزت کیا۔ کہا کہ مڈل کلاس ہو کر امیر گھر کے لڑکے پھانسنے کیلئے فیس بک استعمال کرتی ہو تم لوگ تاکہ گفٹ وغیرہ لو۔ وہ تم بہت زیادہ اور قیمتی لے چکی ہو اب جس سے مرضی شادی کرو۔ میرے پیچھے کیوں پڑی ہو۔ شبانہ نے خود کشی کی دھمکی دی تو کہتا دھمکی مت دو تمہاری تصویریں فیس بک میں جگہ جگہ ڈال دوں گا۔ چپ چاپ واپس پلٹ جا۔ شبانہ نمانی نے نیند کی گولیاں کھا لیں۔ اچھا ہوا بروقت بچا لیا ۔ ورنہ اس چندری نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ماں باپ کو ذلیل کرانے کی۔ لوگوں نے باتیں تو خوب بنائیں مگر پردہ ڈل ہی گیا۔ ڈھائی ماہ ہو گئے ہیں شادی کو۔‘‘سونیا چپ ہو گئی۔ ایمن سمجھ چکی تھی وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔
’’اماں ڈر گئیں کہ میں گھر میں اکیلی ایسی ویسی باتیں نہ سوچوں۔ خالی دماغ شیطان کا گھر بن جاتے ہیں اِس لیے۔اس نے مجھے کہا کہ سکول سے سیدھا یہیں آ جایا کروں پھر رات کو اُن کے ساتھ ہی گھر جاؤں۔‘‘ ایمن نے کچھ نہ کہا۔ چائے کے خالی کپ کو ہاتھ میں تھامے بیٹھی رہی۔
’’باجی آپ جب بھی موبائل استعمال کرتی ہیں میرا دِل ہول جاتا ہے۔ تب آپ مجھے ایمی باجی نہیں بلکہ شبانہ لگتی ہیں۔ وہی مسکراہٹ، وہی ایکسپریشنز۔ میں آپ سے عمر میں چھوٹی ہوں باجی لیکن عقل کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا۔‘‘
’’تم کہنا چاہتی ہو میں بے عقل ہوں۔‘‘ ایمن نے پوچھا۔
’’یہ جونقلی محبت کا خول ہوتا ہے نہ باجی یہ بڑے سے بڑے عقل مند کوبے عقل بنا دیتا ہے جیسے شبانہ جیسی ذہین لڑکی کو بنایا۔ آپ بھی تو اسی مٹی کی بنی ایک لڑکی ہیں۔‘‘
’’محبت نقلی نہیں ہوتی سونیا۔‘‘ ایمن کو محبت کیلئے یہ لفظ اچھا نہ لگا۔
’’ہوتی ہے باجی… بالکل ہوتی ہے جیسے شبانہ کی محبت، آپ کی محبت۔ اس لڑکے کی محبت جس نے شبانہ کواپنی چاہت کا جھوٹا یقین دِلایا ۔ اس لڑکے کی محبت جس نے آپ کو ورغلایا۔ اصلی محبت تو بہت پاکیزہ اور انمول ہوتی ہے ایمی باجی جس میں سب سے اہم چیز عزت ہوتی ہے، مان ہوتا ہے، اعتماد ہوتا ہے۔ بغیر اِن کے محبت بھی محبت ہے بھلا؟ سب سراب ہے۔‘‘ ایمن کووہ ماسی کی بیٹی کم ایک رہنما زیادہ لگی جو بھٹکے ہوئے کو راستہ سمجھا رہی تھی۔
’’تم جاؤ ۔ مجھے آرام کرنا ہے۔‘‘
’’جی ٹھیک۔ امید کرتی ہوں جب اٹھیں گی تو وہی پرانی والی ایمی باجی ہوں گی ہنستی کھیلتی۔‘‘ ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا تو ایمی کو اثبات میں سر ہلانا پڑا۔
٭…٭…٭
’’اصلی محبت تو بہت پاکیزہ اور انمول ہوتی ہے ایمی باجی جس میں سب سے اہم چیز عزت ہوتی ہے، مان ہوتا ہے، اعتماد ہوتا ہے۔ بغیر اِن کے محبت بھی محبت ہے بھلا۔‘‘ سکینہ کا ایک ایک لفظ ایمن کے دِل پرپھوار بن کر برساتھا۔ وہ کم عمر ہو کر اس کو محبت اورسراب کا فرق سمجھا گئی تھی۔ اس کا دِل ہلکا ہو چکا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو گئی اور اپنی پہلی زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ نہ لوٹی تو اس کی شوخی۔بے مول ہونے کا احساس اس کواکثر غمگین کر دیتا۔
’’کیسے ہو رہے ہیں پیپرز؟‘‘ آئس کریم کپ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت اچھے۔‘‘ ایمن نے مُسکرا کر کہا تو راحیل کو نہ صرف اپنی سماعت بلکہ بصارت کی کمزوری پر شبہ ہوا۔ ایمن اس کے ساتھ ہنس کر بات کرلے نا ممکن ۔
’’واؤ… دیٹس گریٹ… بیسٹ آف لک۔‘‘
’’تھینکس۔‘‘ وہ دوبارہ اکنامکس کے سوالوں میں گم ہو گئی۔
’’آئس کریم پگھل گئی۔‘‘
’’اوہ سوری۔‘‘
’’اِٹس اوکے۔ تم تیاری کرو میں چلتا ہوں۔‘‘ راحیل کے لیے اِتنا کافی تھا کہ وہ نارمل ہو گئی ہے۔پگھلی ہوئی آئس کریم اٹھا کر وہاں سے چلا گیا۔
٭…٭…٭
ایمن کی رضامندی سے پیپرز کے بعد رقیہ بیگم نے راحیل اورایمن کی شادی کے دِن رکھ دیے۔ شرجیل بھی اپنی بیوی کے ساتھ پہنچ گیا تو رونق دوبالا ہو گئی۔ اس نے اپنی پسند سے شادی کی تھی اِس لیے رقیہ بیگم اپنی بیٹی اوربھانجے کی شادی بہت دھوم دھام سے کرنا چاہتی تھیں۔ سب ارمان پورے کرنا چاہتی تھیں۔ صابر الحسن کے کہنے پر شرجیل کادعوتِ ولیمہ بھی رکھ دیاتاکہ خاندان والوں کو باتیں کرنے کا موقع نہ ملے۔
ایمن بجھے دِل کے ساتھ سب تیاریاں کر رہی تھی۔ شاکر راحیل کا کولیگ تھا اور وہ اِنوائیٹڈ نہ ہو ممکن نہیں۔جیسے جیسے دِن قریب آ رہے تھے اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ راحیل نے اس کے چہرے پر اضطراب دیکھا، ان کہی بے چینی جو ہر وقت اس کے وجود کا احاطہ کیے رکھتی، لب کچھ کہنے کوبے تاب۔ اسے لگتا وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن کہہ نہیں پا رہی۔
’’ایمی۔‘‘ہاتھوں میں تہ شدہ کپڑوں کا ڈھیر اٹھائے کمرے تک جاتی ایمن پلٹی۔
’’مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ آؤ پلیز۔‘‘ اس کے ہاتھوں سے کپڑے لے کر کمرے تک لے گیا۔
’’یہیں رکھ دیں۔‘‘ بیڈ کی طرف اِشارہ کیا۔
’’رکھ دیں۔عزت کے ساتھ مخاطب کرنے کا شکریہ۔ تشکر جناب۔‘‘ وہ تھوڑا سا جھکا۔
’’طنز کر رہے ہیں؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’نہ… ہرگز نہیں۔ اچھا لگا اِن فیکٹ۔‘‘
’’آپ کو کچھ کہنا تھا شاید۔‘‘ ایمن اصل بات کی طرف لائی۔
’’شاید نہیں یقینا کہنا ہے بلکہ کچھ باتوں کو کلیئر کرنا بہت ضروری ہے تاکہ آنے والی زندگی خوش گوار بن سکے۔‘‘
ایمن کا دِل مٹھی میں آگیا۔ اسے لگا شاکر نے راحیل کو سب بتا دیا ہے۔ واہمے، منفی سوچیں، عین ممکن ہے راحیل کی طرف سے ساری عمر کا طعنہ! اسے اپنا گڑگڑانا یاد آیا، عزتِ نفس کو ایک طرف رکھ کر شاکر سے محبت کی بھیک مانگنا یاد آیا، ذلت، رسوائی، کم مائیگی!
’’کیا تم پر خالہ جان نے شادی کیلئے دباؤ ڈالا ہے ؟‘‘ وہ خاموش کھڑی ناخن کھرچتی رہی۔
’’دیکھو ایمن اگر تم خالہ جان کے دباؤ میں آکر شادی کیلئے راضی ہوئی ہو تو بتا دو میں خود منع کر دوں گا لیکن زبردستی کی شادی ہرگز نہیں، یہ چار دِن کا ساتھ نہیں عمر بھر کی بات ہے۔‘‘
’’مجھے کسی نے زور نہیں دیا۔ یہ سب میری مرضی اور رضامندی سے ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے مختصر جواب دیا۔
’’مرضی اور رضامندی کے ساتھ خوشی کا لفظ استعمال کرتی تو مجھے سکون مل جاتا۔ بہرحال میرے لیے اِتنا کافی ہے۔‘‘ راحیل نے کہا اور چلا گیا۔ایمن کی جان میں جان آئی کہ وہ شاکر والے معاملے سے لاعلم ہے۔ یعنی شاکر نے اس کو نہیں بتایا۔ شکر ہے بھرم رہ گیا۔
اس نے لیپ ٹاپ اٹھایا اور فیس بک اکاؤئنٹ ڈی ایکٹیویٹ کرنے کے لیے لاگ اِن کیا۔ غیراِرادی طور پر شاکر کی پروفائل وزٹ کرنے لگی۔ اِرد گرد سے بے خبر وہ اس کے ہر اسٹیٹس کو پڑھتی، کبھی تصویریں دیکھنے لگتی۔
’’اِس کی تصویریں آپ کے پاس کہاں سے آئیں باجی؟‘‘ ایمن ایک دم ہڑبڑا گئی اور لیپ ٹاپ کا ڈھکن گرا دیا۔
’’تمہیں مینرز نہیں کسی کے کمرے میں آنے کے لیے ناک کیا جاتا ہے۔‘‘
’’سوری باجی۔پر بتائیں نا یہ تصویریں کہاں سے لیں آپ نے؟ یہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔ لڑکیاں تو اِس کے گرد مکھیوں کی طرح چمٹی رہتی ہیں۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو تم؟ یہ ایسا لڑکا نہیں ہے۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔‘‘
’’یہ عسکری ۳میں رہتا ہے، ایک ہی بھائی ہے دو بہنیں ہیں ۔ ایک شادی شدہ ایک میٹرک کر رہی ہے۔‘‘ ایمن کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سونیا کی تمام تر معلومات درست تھیں۔
’’تم یہ سب کیسے جانتی ہو؟‘‘
’’یہ وہی نامراد ہے جس کی وجہ سے شبانہ نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔ محبت کے سنہری خواب دِکھا کر بے چاری کی آنکھوں سے نیندبھی نوچ کر لے گیا۔‘‘ ایمن کے ہاتھ لرز گئے۔
’’ بلیک میل وغیرہ تو نہیں کرتا؟‘‘ آنے والا وقت اس کوخوف ناک نظر آنے لگا۔
’’یہ تو پتا نہیں باجی آپ محتاط رہنا۔ اِس کی باتوں میں نہ آنا۔ اگرآ چکی ہیں تو راستہ بدل دیں۔ آپ کا اصل راستہ راحیل بھائی کی طرف جاتا ہے باجی۔ وہ حقیقت ہے اور یہ سراب۔‘‘
’’تم نے میرے دِل کا بہت بڑا بوجھ اتار دیا سونیا۔‘‘ پنجابی ٹچ میں اردو بولتی ہوئی پر ایمن کو آج پیار آیا۔ اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔
٭…٭…٭
جیسے جیسے دِن گزر رہے تھے، ایمن کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ راحیل سے ساری باتیں کلیئر کر لینا چاہتی تھی جیسے راحیل نے کی۔ وہ چاہتی تھی کم از کم اِس حال میں اس کے نکاح میں جائے کہ اس کا دِل صاف ہو۔کبھی جھجھک آڑے آ جاتی کبھی خوف کہ ساری بات سن کر اُس کا ردِ عمل کیاہو۔ بات تو ہر صورت کرنا ہی ہوگی۔ اگر راحیل کے جذبے سچے ہوئے تو وہ مجھے معاف کر دے گا۔ اس نے سوچا اور مطمئن ہو گئی۔
آج اسے مایوں بیٹھنا تھا۔ شرجیل کی بیوی کنزی بار بار اس کو چھیڑتی تو وہ منہ نیچے کر لیتی۔ کنزی جسے شرم سمجھ رہی تھی وہ درحقیقت ایک ڈر تھا۔جب تک وہ راحیل سے بات نہ کر لیتی اِس ڈر سے نجات نہ پا سکتی تھی۔
’’بھابی اب بس بھی کریں۔‘‘ ایمن نے تھک کر کنزیٰ کو منع کیا۔
’’سونیا ایک کام کر دو گی پلیز۔‘‘ جیسے ہی کنزیٰ کمرے سے گئی۔ کپڑے استری کرتی سونیا کو کہا۔
’’کیوں نہیں‘‘
’’راحیل کو بلا دو مجھے ا س سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’شادی میں تین دِن باقی ہیں باجی۔ اِتنی بھی کیا جلدی۔‘‘ سونیا نے جان بوجھ کر چھیڑا۔
’’اچھا بلاتی ہوں۔‘‘ایمن کو پریشان دیکھ کر کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
’’آجایئے۔‘‘ دستک پر فوراً جواب دیا۔
’’تم نے بلوایاتھا۔‘‘ راحیل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ایمن کی نگاہیں جھک گئیں۔ غیراِرادی طور ہر ہاتھوں کو مسلنے لگی۔
’’آپ میرے پاس آئے تھے کچھ کلیئر کرنے۔ اصولاً مجھے آنا چاہیے تھابات کرنے کے لیے مگر سب گھر پر موجود ہیں اِس لیے مناسب نہ لگا تو بلوا لیا۔‘‘
’’ہاں کہو… کیا بات ہے؟‘‘
’’وہ راحیل بات یہ ہے کہ دراصل میں اِس رِشتے پر دِل سے راضی ہوں۔ آپ کوئی ایسی ویسی بات…‘‘ اسے سمجھ نہ آئی کیسے بات شروع کرے۔
’’یہ تم بتا چکی ہو۔‘‘ اس نے بات کاٹ کر کہا۔
’’ایکچوئیلی۔‘‘تھوڑا ڈرتے تھوڑاجھجھکتے ایمن نے شروع سے آخر تک سب راحیل کو بتا دیا۔ کئی بار لڑکھڑائی، کئی بار رُکی لیکن راحیل کے حوصلہ افزا رویے نے بات مکمل کرنے میں کافی مدد دی۔
’’شکر ہے تمہیں جلدی احساس ہو گیا ۔ ورنہ شاکر جیسے لڑکوں سے کچھ بعید نہیں۔ وہ لڑکیاں ٹشو پیپر کی طرح بدلتا ہے۔ کوئی اچھا دِن تھا جب میرا کمپیوٹر خراب ہوا۔ اس کے سسٹم سے ڈیٹا لینا تھا۔ ایم ڈی نے مجھے کہا کہ سسٹم شئیرنگ فولڈر سے ڈیٹا اٹھا لوں۔ میں ڈیٹا اٹھا ہی رہا تھا کہ فیس بک پر میسج آیااور غلطی سے اوپن پر کلک ہوگیا۔ مجھے جھٹکا لگا جب تمہاری تصویر دیکھی۔ اپنا وہم سمجھاکیوں کہ پکچرکافی چینج تھی لیکن تمہارے بیڈ ڈیزائن اورٹیبل لیمپ نے کنفرم کر دیا کہ آئی ایم ناٹ رانگ۔‘‘ راحیل چپ ہو گیا۔
’’شاکر میرے سر پر ہی کھڑا تھا۔ کافی عجلت میں لگ رہا تھا۔ وہ میسج شاکر نے نہیں میں نے کیا تھا کہ بزی ہوں۔ تب اس سے بات کی اوربتایا کہ تم میری کزن ہو لہٰذا آئندہ تم سے کوئی رابطہ نہ رکھے وغیرہ وغیرہ۔ تھوڑا بہت دھمکی بھی دی کہ میرے چاچو کے دوست رینجرز میں ہیں اگر بات نہ مانی تو اچھا نہ ہو گا۔ اِس لیے وہ پیچھے ہٹ گیا۔‘‘
’’تم نے صرف تصویر ہی دیکھی۔ مم میرا مطلب ۔‘‘
’’تصویر دیکھ لینا ہی کافی تھاایمی۔ تم جیسی لڑکی کسی لڑکے کو ایسے ہی تصویر نہیں بھیج سکتی۔‘‘
’’Im sorry Raheel. I know I was wrong.میں سراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ اس کی چکنی باتوں نے مجھے باور کرایا کہ ۔‘‘ وہ رک گئی۔ راحیل سمجھ گیا وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ لہجے کی پختگی، آنکھوں کی نمی اِس بات کی گواہ تھی کہ وہ سچ کہہ رہی ہے اور پشیمان ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۲

Read Next

جزدان میں لپٹی دعائیں — آدم شیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!