سراب — زارا رضوان

’’تم شادی کر لوجہاں تمہارے پیرنٹس چاہتے ہیں۔‘‘ شاکرکا مختصر جواب اس کو بے مول کرگیا۔
’’یہ کیسی محبت ہے؟ اپنے ہونے کا احساس دِلا کرکہہ دینا کسی اور کی ہو جا اِتنی آسانی سے کہہ بھی کیسے دیا تم نے؟ کیوں محبت کا احساس جگایا؟ کیوں میرے جذبات کے ساتھ کھیلے؟ کیوں مجھے کھڑے کھڑے بے مول کر دیا؟ آخر کیوں شاکر؟ کیا قصور تھا میرا؟۔‘‘ ایمن کا ہر لفظ ہچکیاں لے کر رو رہا تھا، سسک رہا تھا، آہ و بکا کر رہا تھا مگر افسوس! وہ کہاں دیکھ سکتا تھا، لفظوں کو کوئی دیکھ سکا ہے بھلا ؟ اِس میں چھپا درد، دکھ، آنسو، شدتِ کرب وہی سمجھ سکتا ہے جو ویسے ہی جذبات رکھتا ہو۔
’’تمہاری محبت کی قدر کرتا ہوں سوئیٹ پرنسز میں تم سے ویسی محبت کرتا ہوں جیسے اپنے سوشل میڈیا دوست سے۔ یہ وہ محبت نہیں جو تم نے سمجھی’’۔ وہ اسے اب بھی فیس بک آئی ڈی سے پکار رہا تھا یعنی اس کی زندگی میں ایمن کا وجود اب تک سوئیٹ پرنسز ہی تھا نا کہ ایمن صابر۔
’’جذبوں کا اِظہار، شدت کیا تھا وہ سب؟۔‘‘ ایمن گنگ رہ گئی۔
اوہ کم آن یار! تم ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو۔ تم جیسی لڑکی ہر لڑکے کے ساتھ اور میرے جیسا لڑکا ہر لڑکی کے ساتھ ایسی باتیں کر تاہے۔
Its not like that. Not at all‘‘
ایمن کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ شاکر نے اس کوان لڑکیوں کی لائن میں لا کھڑا کیا، جو لڑکوں سے بات کرنے کوبُرا سمجھتی ہیں نہ گناہ۔
’’میں کئی باراپنے اسٹیٹس میں کہہ چکا ہوں یہ فیس بک کم فیک بک زیادہ ہے۔ فیک کا مطلب تو سمجھتی ہو۔ہر بندہ نقلی ہے، چہرے پر چہرہ چڑھایا ہوا ہے جو دِکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہے وہ نظر نہیں آتا۔‘‘
’’میں ایسی نہیں ہوں۔‘‘ اس نے اپنا دفاع کیا۔
’’مجھے کیا پتا، میں کون ساتمہیں پرسنلی جانتا ہوں سوائے اِس کے تم راحیل کی کزن ہو۔‘‘
ایمن کے سر پر جیسے بم گرا۔
“how do you know him”
’’وہ میرا کولیگ ہے۔ اِس سے زیادہ جاننے کی ضرورت نہیں تمہیں۔مجبوری ہے تب ہی پیچھے ہٹ رہا ہوں ورنہ میں دوستی توڑنے کا قائل نہیں۔‘‘
’’میں لعنت بھیجتی ہوں مرد عورت کی دوستی پر۔‘‘ وہ بپھر گئی۔
’’بائے ۔‘‘ شاکر نے جواب دیا۔کرسی کی پشت پر سر رکھے وہ پُرسکون ہوگیا۔ ایک بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا۔ میں لعنت بھیجتی ہوں مرد عورت کی دوستی پر۔ ایمن کے اِس جملے نے اس کو اندر تک سرشار کر دیا۔
ایمن نے لاگ آؤٹ کیا اورپھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تذلیل،ارمانوں کا خون، ٹھکرائے جانے کا احساس اسے اپنا آپ بے معنی، بے مول لگا اس نے سب آنسوؤں میں بہنے دیا۔
٭…٭…٭





جیسے ہی صابرالحسن اندر داخل ہوئے روتی ہوئی ایمن کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔
’’ایمی! کیا ہوا بیٹا؟ کیوں رو رہی ہو؟‘‘ اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔ وہ روئے جا رہی تھی کہتی بھی تو کیا۔ صابر نے اس کو رونے دیا تاکہ دِل کا غبار ہلکا ہو۔
’’میں ٹھیک ہوں ابو۔‘‘ آنسو پونچھتے ہوئے ایمن نے خود کو سنبھالا۔
’’ میری ایک دوست کے والد کا اِنتقال ہوگیا ہے۔ وہ اس کو بہت پیار کرتے تھے۔ کیسے رہے گی یہ سوچ کربس دِل بھر گیا۔‘‘ اِس سے بہتر بہانہ کوئی نہ ملا۔
’’اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ موت بر حق ہے بیٹا، کوئی اپنے پیارے کو کھونا نہیں چاہتا مگر سب کو جانا ہے ایک دِن۔ کہو تو ساتھ چلوں تمہارے۔‘‘ ان کو یہ وقت مناسب نہ لگا بات کرنے کا۔
’’نہیں ابو۔ میں برداشت نہیں کر سکوں گی اس کا رونا۔پھر کسی دِن چلی جاؤں گی۔ آرام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم آرام کرو۔‘‘
’’کیا بات ہوئی؟‘‘ جیسے ہی صابر الحسن کمرے میں داخل ہوئے رقیہ بیگم نے فورا پوچھا۔
’’تم بھی حد کرتی ہو۔ بیٹھنے تو دو۔‘‘ صابر الحسن صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔ گھونٹ گھونٹ پانی پیا۔ گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اوربات نہ کرنے کی وجہ بتا دی۔
’’اچھا کیا۔‘‘ رقیہ بیگم نے کہا اورکپڑے الماری میں رکھنے کے لیے بڑھ گئیں۔
٭…٭…٭
’’کیا کر رہی ہو۔‘‘ موبائل پر چلتے ہاتھ پل بھر کو رکے۔
’’نظرکمزور تو نہیں آپ کی۔ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ ہمیشہ کی طرح تڑخ کر جواب دیا۔ راحیل بنا کچھ کہے اسے دیکھتا رہا۔ ایمن انجان بنی اپنے آپ میں مگن رہی جیسے اس کے سوا وہاں کوئی موجود ہی نہ ہو۔
’’میں نے پہلے بھی کہا تھا اپنا طرزِ تخاطب بدل لو کیوں کہ ہمارا رِشتہ بدلنے والا ہے۔ ٹیک اِٹ سیریس۔‘‘ کافی دیر بعد راحیل نے مخاطب کیا
’’وائی شڈ آئی۔
’’ہٹ دھرمی، ضد ، اکڑ اِنسان کو توڑ دیتی ہے ایمی۔‘‘ اسے شدت سے اپنی بے عزتی محسوس ہوئی۔
’’غلط !ایک دم غلط کہا اِنسان کو اِن میں سے کچھ نہیں توڑتا۔ ہٹ دھرمی، ضد اور نہ ہی اکڑ اِنسان کو محبت توڑتی ہے صرف محبت۔‘‘
’’تم کسی کو پسند کرتی ہو؟‘‘ راحیل کے پوچھنے پر ایمن خاموش رہی۔ نظریں موبائل کی بند سکرین پر گاڑے وہ ذہنی طور پر کہیں اور تھی۔
’’میں نے کچھ پوچھا ہے ایمی۔ تمہیں کوئی اور پسند ہے؟‘‘ اس نے راحیل کی طرف دیکھا۔ کیا کچھ نہیں تھا اس کی آنکھوں میں۔ خاموش محبت، ان کہی چاہت، پاکیزہ جذبوں کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر پراس کا لہجہ اس کی نظروں سے بالکل متضاد تھا۔ تڑپتاسوال، خاموش شکوہ، ٹوٹتا مان، شکستہ خواب، ان کہی دمکتی محبت۔ ایمن نظروں کی تاب لا سکی نہ اس کے لہجے کی تپش کو برداشت کر پائی۔ چہرہ اِس حد تک نیچے کر لیا جیسے زمین میں سما جانا چاہتی ہو۔ شاید وہ ڈر گئی تھی کہ راحیل اس کی آنکھوں میں وہ سب کچھ نہ دیکھ لے جو اس نے راحیل کی آنکھوں میں اپنے لیے دیکھامگرنہیں راحیل کی آنکھوں میں ایسا کچھ نہیں تھا لیکن اس کی اپنی آنکھوں میں تھا ہی کیا؟۔ ٹوٹے دِل کی کرچیاں، مرجھائے جذبوں کی پتیاں، مان و اعتماد کا بکھرا وجود، محبت کی تذلیل اور ٹھکرائے جانے کا غم اس نے ہار نہ مانی تھی، شاکر سے پھر بات کرنے کا عزم لیے بیٹھی تھی، اسے یقین دِلانے کے لیے کہ وہ اور لڑکیوں کی طرح نہیں ہے مگر راحیل کی آمد نے سب ڈانواں ڈول کر دیا۔
ایمن کی خاموشی اسے بہت کچھ سمجھا رہی تھی۔ راحیل کو وہاں کھڑا رہنا اپنی توہین لگا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا۔ آنسو ایمن کی آنکھ سے نکلا اور دوپٹے میں جذب ہو گیا۔
راحیل کے جذبوں کو نظر انداز کر تے ہوئے اپنااکاؤنٹ لاگ اِن کیا۔ اپنی اور شاکر کی کنورسیشن دوبارہ پڑھنے بیٹھ گئی۔ ایک ایک لفظ دِل چیررہا تھا۔دِل کو پتھرکیا، عزتِ نفس کوایک جانب پر رکھا ، شعر لکھا اور سینڈ کر دیا۔
اُداسی روح کے اندر کہیں پر
تمہارا نام لکھ کر رکھ گئی ہے
محبت عزتِ نفس، انا ، خود داری اور غیرت کو دیمک کی طرح یوں چاٹ جاتی ہے کہ کسی کو پانے کی چاہ میں اِنسان کچھ بھی کر جانے پر مجبور ہو جاتاہے۔ جھک جانے پر ۔ہار جانے پر۔ مگر ہار جیت کہاں معنی رکھتی ہے۔ معنی رکھتی ہے تو محبوب کی چاہت۔محبت کا جواب محبت سے ملے تواِنسان خود کو ہوا میں اڑتا محسوس کرتا ہے، یوں لگتا ہے ساری دنیا اس کی دسترس میں آ گئی ہو۔ دِل میںمحبت کابیج بو کرپانی نہ دیا جائے تو پودامرجھا جاتا ہے۔ احساسِ چاہت دِلا کر کنارہ کر لیا جائے تو دِل ہر شے سے کنارہ کر لیتا ہے، خوشی سے، آسودگی سے، خواہشوں سے یہاں تک کہ خود سے بھی۔
اس نے بھی ایسا ہی کیا ۔ خود کو تنہا کر لیا۔ پریشان حال،افسردہ، شکستہ۔ کم مائیگی کا احساس کچوکے لگاتا تو دِل تڑپ جاتا۔
میسج سین ہوا لیکن جواب ندارد!
’’شاکر یہ کیسی محبت ہے؟کس چیز کا بدلہ لیا ہے مجھ سے؟ محبت کی آگ لگا کر خاموش بیٹھے ہیں بنا دیکھے کہ میرا وجود کس قدر جھلس گیا ہے۔ جل کر خاکستر ہوگیا ہے۔ راحیل میرا کزن ہے تو کیا ہوا۔ یہ جان کر کہ وہ میرا کزن ہے کیا تمہاری محبت ختم ہو گئی ہے؟ جواب دو۔ کچھ تو بولو۔‘‘ دوبارہ میسج سینڈ کیا۔
شاکر نے عجیب سا منہ بنا کر میسج پڑھا۔ اسے کیا پتا تھا جانے ان جانے میں وہ ایک معصوم دِل سے کھیل رہا ہے۔ وہ اِس کھیل کا عادی بن چکا تھا۔ وہ اس سے بھی دِل لگی کر رہا تھا جیسے سب سے کرتا تھا لیکن کوئی اس کو سیریس کہاں لیتی تھی۔ مسکا لگانا، تعریفیں کرنا، بچھ بچھ جانا اس کی عادت تھی لیکن اِس باریہ عادت اس کو مہنگی پڑ گئی تھی جو محبت کا طوق بن کر کسی کے گلے میں جھول رہی تھی۔
مٹی میں ملا دے کہ جدا ہو نہیں سکتا
اب اس سے زیادہ میں ترا ہو نہیں سکتا
ایمن نے میسج دیکھاجس میں ہر بات واضح تھی لیکن وہ تو جیسے سمجھنے کو تیار ہی نہ تھی۔
’’کیوں نہیں ہو سکتے میرے؟‘‘
’’تم سمجھتی کیوں نہیں یار‘‘
’’تمہیں راحیل سے کیا خدشہ ہے؟ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ٹرسٹ می۔‘‘ اس نے یقین دہانی کرائی۔
’’اوہ گاڈ! راحیل راحیل راحیل یارمجھے راحیل کا ڈر خوف نہیں۔ وہ میرا کولیگ ہے دیٹس ایٹ…‘‘
’’پھر کیا مجبوری ہے۔‘‘
’’تم تو پیچھے ہی پڑ گئی ہو میرے۔ بُرا ہوا جو تمہیں رپلائی کر بیٹھا۔‘‘
’’میں پیچھے پڑی ہوں؟ شاکرمیرے پیچھے لگ کر تم نے مجھے محبت کا یقین دِلایا اورجب میں نے تمہارے ساتھ قدم ملائے توتم پیچھے ہٹ گئے ہو۔ یہ کہاں کا اِنصاف ہے؟ کیسی دشمنی کی ہے میرے ساتھ۔ نہ دِن میرے ہیں نہ راتیں۔ تمہارا خیال، تمہاری باتیں، تمہاری سوچ، تمہاری؟‘‘ ایمن کو اس کا طرزِ تخاطب توہین آمیز لگا۔
’’اِنف اِز اِنف۔ میں سب سے اِس طرح کا ہنسی مذاق کرتا ہوں۔ میرا اسٹیٹس دیکھ لو بلکہ وہ تو تم روز ہی دیکھتی ہو۔ پھر بھی مجھ سے شکوہ۔‘‘ اس نے ایمن کی بات کاٹ کر بُری طرح جھڑکا۔
’’ایک بات کا جواب دے دو‘‘
’’پوچھو‘‘
’’کیا سب لڑکیوں سے محبت کا اِظہار کرتے ہو؟ چاہت کے رنگ بکھیر کر اُن کی زندگیاں بھی اسی طرح بے رونق کرتے ہو جیسے میری کی؟‘‘ شاکر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایمن اس کی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی۔
’’نہیں۔‘‘ اس میں ہمت نہ تھی مزید کچھ کہتا۔
’’پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟‘‘
’’ میں تھوڑا فلرٹی ہوں پر تمہارے ساتھ کچھ زیادہ کر گیا یہ میری غلطی ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں ۔ تم مجھے اچھی لگتی ہوں لیکن میں تمہیں اپنا نہیں سکتا۔تم جہاں تمہارے والدین کہتے ہیں شادی کر لو۔ میرا ساتھ تمہیں کچھ نہیں دے گا سوائے بٹوارے کے اب میسج مت کرنا تمہیں ان فرینڈ کر رہا ہوں۔ ٹیک کئیر۔ بائے۔‘‘ شاکر کا تفصیلی جواب اس پر منوں مٹی ڈال گیا۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔سر بینچ پر رکھے اپنی تذلیل پر، ٹھکرائے جانے پر رو پڑی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۲

Read Next

جزدان میں لپٹی دعائیں — آدم شیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!