’’اندر آ جائیں۔‘‘دستک پر راحیل نے کہا۔
’’ارے خالا جان آپ۔ مجھے بلا لیا ہوتا۔ آپ نے کیوں زحمت کی؟‘‘ لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’کنواں کبھی پیاسے کے پاس گیا ہے؟‘‘ رقیہ بیگم نے کہا تو راحیل نے نا سمجھی کے عالم میں دیکھا۔
’’راحیل‘‘ رقیہ بیگم جھجھک گئیں۔ انہیں سمجھ نہیں آئی کہ کیسے بات کریں۔
’’خالہ جان!بیٹا کہتی ہیں اور جھجکتی بھی ہیں۔ آپ بے جھجھک مجھ سے کہہ ڈالیں جو بھی بات ہے۔‘‘ راحیل نے ان کے ہاتھ میں ہاتھ رکھا تو رقیہ بیگم کا اعتماد بحال ہوا۔
’’ایمن کے پیپرز ختم ہونے والے ہیں، میں چاہتی تھی ایگزام کے بعد شادی کر دوں اس کی۔‘‘
’’یہ تواچھی بات ہے خالا جان۔ دیکھا کوئی رِشتہ؟‘‘
’’بیٹا وہ صفیہ اورظہور کی خواہش تھی کہ تم اور ایمن میرا مطلب ہے انہوں نے ایمن کے پیدا ہوتے ہی اسے تمہارے لیے مانگ لیا تھا لیکن اگر تمہیں کوئی اور پسند… بیٹا۔‘‘آج رقیہ بیگم کو اندازہ ہوا بیٹی کی ماں ہوکررِشتے کی بات کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔
’’میری زندگی کورے کاغذ کی طرح ہے خالا جان اور دِل کے کاغذ پر کسی کا نام بھی درج نہیں۔ امی ابو کی خواہش اورآپ کی چاہت سر آنکھوں پر۔ ایمن یوں بھی مجھے دِل سے عزیز ہے۔‘‘ راحیل نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ رقیہ بیگم کے کندھے سے بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا۔ اب ایمن سے بات کرنا تھی جو فی الوقت پیپرز کے بعد کرنے کا اِرادہ کیا ۔
صفیہ اور رقیہ دو بہنیں ایک ہی گھر بیاہ کر آئی تھیں۔صابر الحسن ، شاکر الحسن، ظہور الحسن ، منظور الحسن چار بھائی تھے۔ منظور الیکٹریکل انجینئر تھے۔ یو ٹی ایس آسٹریلیا سے انجینئرنگ کی وہیں جاب ملی تو فیملی (دوبیٹے شاہ رخ اورعبید اور ایک بیٹی عنایہ) کو لے کر سیٹل ہو گئے۔ شاکر الحسن چائلڈ اسپیشلسٹ تھے جوصابرکے گھر سے دو گلی پیچھے رہتے تھے۔ اِن کی دو بیٹیاں تھیں ثانیہ اور مہرین۔ظہور کڈنی اسپیشلسٹ تھے جن کی شادی رقیہ بیگم کی بہن صفیہ سے ہوئی۔اِن کے دو بیٹے تھے راحیل اور شکیل۔ جب کہ صابر ایک فرم میں بڑے عہدے پر فائزاپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اِن کی ایک ہی بیٹی تھی ایمن۔ چوں کہ دونوں بہنیں ایک ہی گھر میں بیاہ کر آئی تھیں اِس لئے سلوک و اِتفاق کی وجہ سے انہوںنے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ ایمن کی پیدائش پر صفیہ نے راحیل کے لیے اس کو اپنی بہن سے مانگ لیاتھا۔
صفیہ اورظہورالحسن کے ساتھ زندگی نے وفا نہ کی۔وہ دونوں ایک کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے۔ شکیل اورراحیل کی پرورش رقیہ اور صابر الحسن نے کی۔ شکیل نے اِنٹرمیڈیٹ کرتے ہی باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی جسے دونوں میاں بیوی نے تردد کے بعد مان لیا۔
٭…٭…٭
’’اب فارغ ہوئی ہوں کھانا کھا کر۔‘‘ دوبارہ میسج آیاتو اس نے فورا جواب دیا۔
’’آج دال کھائی ہے یا کوئی سبزی تب ہی پکچر نہیں لگائی۔ ایم آئی رائٹ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘۔ مختصر میسج کیا۔
’’کیا نہیں؟‘‘ پوچھا گیا۔
’’امی نے آلو کوفتے بنائے تھے ۔ بے دھیانی میں امیج بنانا یاد نہیں رہا۔‘‘
’’دھیان کہاں ہے پرنسز کا ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے؟‘‘
’’کہیں نہیں بس پڑھائی کی وجہ سے۔‘‘
’’پڑھائی یا میں؟‘‘
’’دونوں۔‘‘ اسے دِل سے اعتراف کرنا پڑا۔
’’یہ تو سیاسی بیان ہوا ۔‘‘
’’کچھ بھی سمجھ لو۔‘‘ میسج لکھا ساتھ میں دِل والا آئی کن بنایا۔ تھوڑا جھجھک ہوئی مگر دل پر جبر کرے سینڈ کر دیا۔
’’ارے واہ!آج دِل دے ہی دیا۔‘‘ جواب میں اس نے دِل والے آئی کن کی لائن لگا دی۔
’’دِل تو کب کا دیا ہوا تھا بتایا آج ہے کہ‘‘
’’کہ‘‘
’’ یہ دِل آپ کا ہوا۔‘‘ وہ شوخ ہوئی۔
’’دِل میں جگہ دے ہی دی ہے تویہ بتا کب دیدار کرواؤگی اپنا؟۔‘‘ وہ اسی بات پر آگیا۔
’’میرا نام شاکر ہے۔ کیا کرتا ہوں، کہاں رہتا ہوں تم سب جانتی ہو۔ میرے جذبات سے بھی غافل نہیں تم۔‘‘ وہ شش و پنج میں تھی کہ میسج آیا۔
’’پرسنالٹی کے حساب سے نام پرانا نہیں؟ اووو اچھا… اب سمجھی تب ہی نام صیغۂ راز میں رکھا گیا تھا۔‘‘ میسج سینڈ کیا۔
’’نام نیا یا پرانانہیں ہوتا مادام۔ نئی یا پرانی سوچ ہوتی ہے۔ اینی ویز اب تمہاری باری۔‘‘ شاکر نے کہا۔
’’ویٹ (اِنتظار)‘‘ اب کی بار بنا جرح کیے وہ مان گئی۔اپنا مان، اعتماد، دِل دے دیا تو تصویر کی کیا بات!
دروازہ بند کرکے جلدی سے ہلکا میک اپ کیا۔ مختلف زاویوں سے آٹھ دس سیلفیاں لے کر اچھی والی سیلفی کو ایفیکٹ دے کر سینڈ کیا۔
’’آر یو ریڈی ٹو سی می۔‘‘ اس نے ہائپ کریئٹ کیا۔
’’شدت سے۔‘‘
’’اِٹس می ایمن! ایمن صابر۔‘‘ تصویر کے ساتھ کمنٹ لکھ کر ساتھ میں سمائلی آئی کن بنایا۔
’’پکچر ڈیلیٹ کر دینا دیکھ کر۔‘‘بے وقوفانہ سی بات جو ہر لڑکی تصویر بھیجنے کے بعد کہتی ہے اور یقین رکھتی ہے مدِمقابل ایسا ہی کرے گا۔
اس کو سو وولٹ کا جھٹکا لگا۔اسے لگا آسمان گھومنے لگا ہے یا وہ حواسوں میں نہیں۔‘‘ وہ سر پکڑ کر بیٹھا تھا جب بیپ ہوئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ کافی دیر بعد جواب نہ آیا تو پوچھا گیا۔
’’کچھ نہیں۔ تھوڑا بزی ہوں۔ بعد میں بات کرتا ہوں۔‘‘ وہ فورا سائن آؤٹ ہو گیا۔
ایمن حیران و پریشان فیس بک میسنجردیکھتی رہ گئی۔ آج سے پہلے اس نے اس ٹون میں کہاں میسج کیا تھا۔
٭…٭…٭
شاکر کی مصروفیت گھنٹوں سے دِنوں پر محیط ہو گئی۔ تین دِن گزر گئے لیکن اس کی جانب سے کوئی میسج نہ آیا۔سارا سارا دِن وہ فیس بک میسنجر چیک کرتی کہ شاید جواب آیا ہو۔ بار بار میسج کرتی لیکن میسج کو دیکھ کر بھی وہ کوئی رپلائی نہ کرتا۔وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی۔ بھوک پیاس سب مر چکی تھی۔ سب کے سامنے خود کونارمل رکھنے کی کوشش کرتی کہ کوئی محسوس نہ کرلے لیکن جیسے ہی کمرے میں آتی دِل بے چین ہو جاتا۔
’’اس نے جب سے تصویر دیکھی ہے کوئی بات نہیں کی۔ میں اس کو پسند نہیں آئی شاید۔ نہیں نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میری معصومیت و خوب صورتی کے تو سب گرویدہ ہیں پھر شاکر کیسے۔ نہیں کوئی اور بات ہے۔ شاید مصروفیت مگر میسجز تو وہ مسلسل دیکھ رہا ہے۔ شاید وقت کی کمی کے باعث۔‘‘ اس کی بڑبڑاہٹ جاری تھی جس کا خلاصہ تھا۔ ’’شاید‘‘ شاکرکا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔وہ گھائل ہو چکی تھی، محبت اپنا وار کر چکی تھی۔
٭…٭…٭
’’خیریت؟ میں دیکھ رہا ہوں تم کئی دِنوں سے پریشان ہو’’۔ ایمن کو ٹیرس پر ٹہلتا دیکھ راحیل نے پوچھا۔ اس کے چہرے میں بے چینی کو راحیل نے واضح طور پر محسوس کیا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں۔ ایگزام کی وجہ سے۔‘‘
’’ٹہلنے کی بجائے اگر تیاری کر لو تو زیادہ بہترنہ ہو۔‘‘
’’میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ (you dont need to tell me)‘‘ ہمیشہ کی طرح ایمن نے راحیل کوجھاڑ کر رکھ دیا۔
’’مائنڈ یور لینگویج، آئی ڈو نیڈ مس ایمن صابر !بیکوز یو آر گوئنگ ٹو بی مائی بیٹر ہاف آئندہ بدتمیزی کرنے سے پہلے سوچ لینا۔‘‘ راحیل نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی تو وہ حیرانی سے اس کا یہ روپ دیکھتی رہ گئی۔ اس نے آج تک ایمن سے اِس انداز میں کہاں بات کی تھی۔
’’امی یہ سب کیا ہے؟‘‘ سلاد کاٹتی رقیہ بیگم کے ہاتھ رک گئے۔ انہوں نے سوالیہ نظروں سے ایمن کو دیکھا جس کا لہجہ بتا رہا تھا، وہ غصے میں ہے۔ وہ دوبارہ سلاد بنانے میں مگن ہو گئیں۔
’’میں آپ سے پوچھ رہی ہوں کچھ۔‘‘ جواب نہ پاکر اس نے تپ کر کہا۔
’’سکینہ تم ذرا باہر جاؤ۔‘‘ ماسی جی اچھا کہہ کر کچن سے باہر چلی گئی۔
’’پہلے یہ بتاؤ یہ کون سا طریقہ ہے بات کرنے کا؟‘‘ رقیہ بیگم اس پر برس پڑیں۔
’’سوری امی! وہ راحیل نے بات ہی ایسی کی کہ رہا نہ گیا۔‘‘ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ قدرے نرم پڑ گئیں۔
’’وہ کہتا ہے کہ وہ اور میں… میرا مطلب وہ کہتا ہے میری شادی اس سے ہو گی۔‘‘ اس نے جھجھک کر بات مکمل کی۔
’’تو کیا غلط کہا اس نے۔ صفیہ آپا نے تمہاری پیدائش پر ہی کہہ دیا تھا کہ وہ تمہیں اپنی بہو بنائیں گی۔‘‘ کھیرے کو پلیٹ میں رکھتے ہوئے بولیں تو ایمن کا دِل پل بھر کو دھڑکا۔ شاکر سے دوری کے خیال نے اس کو ہولا دیا۔
’’ہم دونوں میں ذرا بھی انڈراسٹینڈنگ نہیں ہے۔ میرا مطلب اس کو میری ہر بات سے اِختلاف رہتا ہے، ہم دونوں کی سوچ الگ ہے۔‘‘ اس نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’اِس بات کی گارنٹی کہ جس سے تمہاری شادی ہو گی تمہاری اس سے انڈرسٹینڈنگ ہو گی؟ دیکھو بیٹا ذہنی ہم آہنگی کے لیے ایک عرصہ چاہیے ہوتا ہے۔ اچھی زندگی گزارنے کے لیے سوچوں کا ملنا ضروری نہیں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں جس کی سوچ آپس میں ملتی ہو وہی اچھی زندگی گزارسکتے ہیں۔ دو متضاد سوچ رکھنے والے کپل بھی بہت اچھی زندگی گزارتے ہیں۔‘‘ رقیہ بیگم نے اُسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ زبردستی وہ بہرحال نہیں کر سکتی تھیں۔
’’میں نے اس کو اِس نظر سے کبھی نہیں دیکھا نہ سوچا۔‘‘ ایمن نے شکستہ لہجے میں کہا۔ ماں کی باتیں اسے بہت حد تک درست لگیں۔
’’تو اب سوچ لو۔ کوئی جلدی نہیں۔‘‘
’’سوچنے کے بعد بھی دِل نہ مانا تو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں زبردستی کی قائل نہیں ایمی۔یہاں دِل نہ مانا تو کہیں اور تو کرنی ہی ہے شادی۔ مگر تمہارے خدشات ہر رِشتے پر لاگو ہوتے ہیں یا…‘‘ رقیہ بیگم نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ ایمن کی سوالیہ نگاہوں کو وہ دیکھ چکی تھیں۔
’’یا تم کسی اور کو پسند کرتی ہوتو بتاؤ۔‘‘ انہوں نے آخر پوچھ ہی لیا۔
ایمن خاموش کھڑی میز کا کونا کُھرچتی رہی۔ کیا کہتی؟ کس کا نام لیتی؟ اس کا جو پچھلے پانچ دِن سے غائب تھا جوآگ بھڑکا کریوں خاموش بیٹھا تھاجیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دھواں دھواں ہر منظر!
’’نہیں امی۔ ایسا کوئی نہیں ہے۔‘‘یہ کہنا ایمن کے لیے کتنا عذاب تھا، کوئی ایمن سے پوچھتا۔ وہ جانتی تھی ایسا ہے جو بہت اہم ہے۔شکستہ الفاظ، زرد چہرہ!رقیہ بیگم ماں تھیں۔ بیٹی کے الفاظ میں چھپی مایوسی اُن سے چھپی نہ رہ سکی۔ وہ مصلحتاً خاموش رہیں۔
٭…٭…٭
دل پر پتھر رکھ کر اس نے پہلے ایک نظم بھیجی اور پھر دو چار اشعار لیکن جواب ندارد۔
تھوڑی دیر بعد میسنجر کھولاتو میسج سین (seen) تھا پھر بھی کوئی جواب نہ ملا۔اشعار سے اپنے جذبات کا اِظہار کرنے سے بہتر اس کو کھل کر بات کرنا لگا۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے لکھا۔
’’شاکر! ایسا کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ؟ تم تو کہتے تھے جب تک مجھ سے بات نہ کرو دِن نہیں گزرتا۔ کتنے دِن گزر گئے ہیں یوں منہ موڑے بیٹھے ہو جیسے جانتے ہی نہیں۔اگر نہیں پسند تو بتا دو۔ تمہارا بغیر کچھ کہے یوں خاموش رہنامجھے توڑ رہا ہے۔ میری ذات کی نفی کر رہا ہے۔ میری عزتِ نفس کو پامال کر رہا ہے۔ امی میری شادی کرنا چاہتی ہیں، میں کیسے تمہارا نام لوں؟ کس حق سے لوں؟ تم نے تو اس دِن سے ہر تعلق توڑ رکھا ہے۔ میسج دیکھ کر جواب نہیں دیتے۔ ایک بار فیصلہ کر دوشاکر۔ میرے حق میں یا میرے خلاف۔‘‘
کتنی دیرجواب کے اِنتظار میں بیٹھی رہی۔ دو منٹ۔ پانچ منٹ۔ گیارہ منٹ۔ کرتے کرتے گھنٹہ گزر گیا۔ احساس تب ہوا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ جلدی سے سائن آؤٹ کیا۔موبائل سائیڈ پر رکھ کر کتاب کھول لی۔ سونیا بادام والا دودھ لیے کھڑی تھی۔
٭…٭…٭
’’بی بی جی! آپ کہتی تھیں وہ بادام والا دودھ نہیں پیتی پر ایمی باجی نے تو گلاس ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔‘‘ سونیا نے فاتحانہ انداز میں خالی گلاس رقیہ بیگم کو دِکھایا۔
’’بوتا خوش نہ ہو جھلی بندہ پریشان ہووے یا الجھن دا شکار ہووے تاں اونوں پتا نئی لگدا او کی کر ریا اے۔ پیپر ایں نہ تدے اونا پی لیتا ورنہ کدی منہ وی نہ لگاندی (زیادہ خوش نہ ہو جھلی! جب بندہ پریشان ہو یا اُلجھن کا شکار ہو تو اسے پتا نہیں چلتا وہ کیا کر رہا ہے۔ پیپر ہیں تب ہی پی لیا ورنہ کبھی منہ بھی نہ لگاتیں) سکینہ نے شیلف میں پلیٹس جماتے ہوئے بیٹی سے کہا۔
رقیہ بیگم بہت کچھ نوٹ کر رہی تھیں، دیکھ رہی تھیں، سمجھ رہی تھیں۔ بیٹی کے چہرے پر پریشانی کے رنگ، اُڑی اُڑی رنگت اورمعمول سے ہٹ کر عمل۔
٭…٭…٭