جیسے ہی میسج کی بیپ بجی اس نے فورا موبائل اٹھایا اور میسج پڑھنے لگی۔ چہرے پر مدھم مسکراہٹ بکھر گئی۔ الٹے ہاتھ سے بریڈآملیٹ کھاتے ہوئے سپیڈ سے میسج ٹائپ کرنے لگی۔ رقیہ بیگم نے تیکھی نظروں سے دیکھا۔ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات واضح تھے۔
’’کبھی چھوڑ بھی دیا کرو اِس منحوس کاپیچھا۔ جسے دیکھو اِسی میں گھسارہتا ہے جیسے کھانے کو پیسے دیتا ہو۔‘‘
’’امی جان ضروری نہیں ہر چیز کھانے کے لیے پیسے دے۔ کچھ چیزیں اِنسان کوتفریح اور سکون دینے کے لیے ہوتی ہیں۔‘‘ ساتھ ساتھ ٹائپنگ جاری تھی۔
’’اِس میں سکون کہاں ہے؟ سکون چاہیے تو نماز پڑھو، قرآن پڑھو ، اللہ کو یاد کرو۔‘‘رقیہ صابرنے بریڈ پر جیم لگا کر اس کی پلیٹ میں رکھا۔ وہ خاموشی سے میسج ٹائپ کرتی رہی۔
’’بعد میں بات ہوگی۔ آئی ایم ہیونگ بریک فاسٹ ۔‘‘ میسج سینڈ کیا پھر ٹیبل پر پڑی چیزوں کی تصاویر بنانے لگی۔ موبائل ایپ سے اچھی طرح امیج کو ایڈٹ کیا، کیپشن لگا کرپوسٹ کا بٹن دبا دیا۔وہ جانتی تھی تھوڑی ہی دیر میں لائک اور کمنٹس کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اُس نے موبائل واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔
’’یہ لیں رکھ دیامنحوس کو، اب خوش۔‘‘ر قیہ بیگم نے اس کی طرف دیکھ کر منہ بنایا اور پھر چائے پینے لگ گئیں۔ مسکراہٹ اب تک اس کے چہرے پر رقص کر رہی تھی۔
٭…٭…٭
’’حد ہے تھوڑا صبر نہیں کر سکتے ناشتہ کر رہی تھی۔‘‘ گاڑی کا ہارن سُن کر ایمن بھاگی بھاگی آئی۔ سانس پھولا ہوا تھا چہرہ دھوپ کی تمازت سے چمک رہا تھا۔
’’تھوڑا سا ؟ میڈم پچھلے بیس منٹ سے کھڑا ہوں۔روز مجھے آفس کے لیے لیٹ کروا دیتی ہو۔ اب بیٹھو بھی۔ ‘‘ اسے کھڑا دیکھ کر بولا تو وہ فوراً بیٹھ گئی۔
’’یہ تم کیا ہر وقت فیس بک میں گُھسی رہتی ہو۔ جب دیکھو موبائل ہاتھ میں رہتا ہے۔ کبھی تو جان بخش دیا کرو۔‘‘ ایمن کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کرراحیل جل ہی تو گیا۔
’’جان کس کی بخشوں؟ فیس بک کی یا موبائل کی؟‘‘ بات کاٹ کر ٹائپنگ کرتے ہوئے ایمن نے شوخی سے کہا۔
’’ہوسکے تو دونوں کی۔‘‘ راحیل نے تپ کرجواب دیا۔ اس کی شوخی راحیل کو ایک آنکھ نہ بھائی مگر ایمن نے کوئی جواب نہ دیا اور کمرے کی جانب بڑ گئی۔
٭…٭…٭
مسٹر فیک بک کی طرف سے ایک شعر ٹیگ کیے جانے پرکتنی دیر وہ اِن لفظوں کے حصار میں کھوئی رہی۔ لائک کا بٹن دبا کر پوسٹ میں دِل والا آئی کن منتخب کیا۔
’’کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں جو ابھی تک اپنی تصویر نہیں دِکھائی نہ ہی اپنا نمبر دیا؟‘‘تھوڑی دیر بعد مسٹر فیک بک کامیسنجرپر میسج آیا ۔
’’تو تم نے کون سا اپنا نام بتایا ہے اب تک؟‘‘ فوراً جواب دیا۔
’’اُف! تم بھی کمال کرتی ہو۔ میری تصاویر مع میری فیملی کی تصاویر دیکھ لیں ۔ اب بھی نام کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ ‘‘
’’بالکل‘‘ مختصر سا جواب ملا۔
’’تم نے بھی تو اپنے نام پر آئی ڈی نہیں بنائی۔ سوئٹ پرنسز میں نے کبھی اعتراض کیا؟ نہیں نا۔ کیوں کہ میرے لیے تم پرنسز ہی ہو۔‘‘ سوئٹ پرنسزکا دِل دھڑکا۔
’’میری بات اور ہے۔ تم مجھے پرنسز کہتے ہو وہ ٹھیک ہے لیکن مجھے تمہیں مسٹر فیک بک کہہ کر مخاطب کرنا بہت عجیب لگتا ہے۔ آئی مین تم خود سوچو نقلی کتاب۔‘‘
’’حقیقت ہے جناب! فیس بک میں سب فیک ہوتا ہے، اسٹیٹس، تصاویر، جنس، جگہ ،سب نقلی دنیا ہے حقیقت سے کوسوں دور۔‘‘
’’خیر اب ایسا بھی نہیں۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے فریب و جھوٹ کی بہ جائے اپنا اصل پیش کیا ہے اور فیس بک چلا رہے ہیں۔‘‘ سوئٹ پرنسز نے اس کی بات سے اِختلاف کیا۔
’’میں نے کب اِنکار کیا اِس بات سے۔ وہ لوگ سیلیبرٹی ہیں یا شاعر، رائٹر یا سنگر وغیرہ جن کو سب جانتے ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو فیملی فرینڈز سے فرینڈز تک چلے آرہے ہیں۔‘‘ مسٹر فیک بک کی بات پر اس نے لائک کا آئی کن بنایا۔
’’اچھا! چلو اِک کام کرتے ہیں۔ تم مجھے اپنی تصویر دِکھاؤ، میں تمہیں اپنا نام بتا دوں گا۔ ٹھیک ہے؟‘‘ مسٹر فیک بک نے ڈیل کی۔ کافی دیر تک وہ لیپ ٹاپ کو تکتا رہا لیکن میسنجرمیں کوئی میسج نہ آیا۔
’’یہ کیسی شرط ہے؟‘‘کافی دیر بعد اس نے جواب دیا۔
’’شرط؟ محبت شرط سے ماورا ہوتی ہے پرنسز۔‘‘
’’محبت؟ ہم اچھے دوست ہیں۔ محبت کے لیے ایک دوسرے کو جاننا ضروری ہے، مراسم ضروری ہیں۔ ایسے کیسے محبت ہو سکتی ہے؟‘‘ مسٹر فیک بک کے اِس میسج نے اس کے اندر ایک عجیب سی بے چینی بھر دی۔
’’تم مجھے جانتی ہو۔ مجھے دیکھا ہوا ہے۔ کیا جاب کرتا ہوں اس سے واقف ہو۔ مجھے دیکھو صرف تمہاری آئی ڈی کو لے کر چل رہا ہوں مگر پھر بھی محبت ہو ہی گئی جس دِن تمہارا میسج نہیں آتا دِل بے چین ہو جاتا ہے۔ صبح ، دوپہر، شام، رات تمہارے میسج کی ڈوز چاہیے ہوتی ہے۔ اپنافون، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ ادھورا لگتا ہے بلکہ نہیں ادھورا تومیں خود ہو جاتا ہوں۔‘‘
میسج دیکھ کر اس کا دِل دھڑکا۔ کافی دیر ٹٹولا تو پتا چلا ایسا تو اس کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ جب تک مسٹر فیک بک کا میسج نہ آئے وہ بے چین رہتی ہے، بار بار موبائل چیک کرتی ہے۔ اپنا اِنٹرنیٹ پیکج کبھی ختم ہونے نہیں دیتی جب کہ باقی فرینڈز کے لیے اس کی سوچ ایسی نہیں ہے اور نہ ہی دِل یوں دھڑکتا ہے۔
’’کہاں گئی؟‘‘ کافی دیر تک جواب نہ ملنے پر میسج آیا۔
’’بعد میں بات کرتی ہوں۔ کھانا کھا لوں۔‘‘ جلدی سے رپلائی کیا اور کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی۔
’’سمجھ بیٹھاکہ تمہیں محبت ہوگئی ہے مجھ سے، ہائے میں تو غلط فہمی کا شکار ہوا۔
میسج کی بیپ ہوئی تو منہ تک جاتا نوالہ رک گیا۔ کھانا کھاتے میسج پڑھا تو دِل کو بے سبب، بے وجہ بے قرار پایا۔اُلجھی سوچیں ، منتشر دھڑکن اور بے چین پل، کھانے میں رغبت ختم ہوچکی تھی۔
اُس کے دل کی آنکھوں نے یہ منظر بہت غور سے دیکھا۔
٭…٭…٭
’’ایمن۔‘‘
’’جی ابو۔‘‘ صابر صاحب کے پکارنے پر کمرے تک جاتے اُس کے قدم رُک گئے۔
’’بیٹا اگرکسی ٹیسٹ وغیرہ کی تیاری نہیں کر رہی تو ایک کپ چائے بنا دو۔ تمہاری امی کپڑے پریس کر رہی ہیں۔‘‘ قریب کی عینک اتار کراس کو بہ غور دیکھتے ہوئے بولے۔
’’جی ابو! ابھی لائی۔‘‘ موبائل کو سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ کچن کی جانب بڑھ گئی۔
حرکت کافی غیراِخلاقی تھی مگرنہ چاہتے ہوئے بھی ان کو موبائل اٹھا نا پڑا۔ کال ہسٹری ، میسجز یہاں تک کانٹیکٹس چیک کیے لیکن کوئی مشکوک نمبر ملا نہ ہی ایسا میسج جس سے وہ غلط اندازہ لگا سکتے۔ موبائل واپس رکھا، قریب کی عینک سیٹ کی اوردوبارہ کتاب میں گم ہو گئے۔
’’یہ لیں ابو آپ کی ادرک والی چائے۔‘‘ ایمن نے چائے کا کپ تھمایا۔
’’جیتی رہو بیٹا۔‘‘
’’ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے ایمی۔‘‘ وہ جانے ہی کو تھی جب انہوں نے مخاطب کیا۔
’’میں سمجھی نہیں ابو۔‘‘ وہ حقیقتاً نہ سمجھ سکی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
’’بیٹھو بیٹا! دیکھو تمہاری امی کو شکایت ہے کہ تم موبائل بہت زیادہ استعمال کرنے لگی ہو۔ یہ اچھی بات نہیں۔ اِس سے آئی سائیٹ متاثر ہو سکتی ہے اوربھی کئی نقصانات ہیں۔‘‘ کتاب بند کی اورعینک اتار کر ٹیبل پر رکھ دی۔
’’ایسی تو کوئی بات نہیں ابو وہ بس کسی فرینڈ کا میسج آجائے تو الگ بات ہے ورنہ اِتنا تویوز نہیں کرتی۔‘‘
’’بہرحال اعتدال میں رہ کر استعمال کرو۔‘‘ عینک لگا کر دوبارہ کتاب کھول لی ساتھ ساتھ چائے پینے لگ گئے۔ ان کی خاموشی کا مطلب تھا وہ جاسکتی ہے۔
’’کوئی مجھیایسا نمبر نہیں ملا جو مشکوک ہو۔ کُل ستائیسنمبرز ہیں زیادہ ترفیملی ممبرز کے ہیں یا اس کی دوستوں کے۔تمہیں پورا یقین ہے کہ…‘‘ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی
’’ماں کی نظریں وائی فائی کے سگنل سے زیادہ تیزہوتی ہیں صابر صاحب۔ وہ سب کچھ معمول سے ہٹ کرکررہی ہے’’۔ چائے کا کپ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’کیا کہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ چشمہ اتار کر میز پر رکھااور سر مسلنے لگے۔
’’سمجھنا کیا ہے۔ پیپرزکے فورا بعد شادی کردینی چاہیے۔‘‘ انہوں نے اپنے تئیں فیصلہ کیا۔
’’یہ کیا بات کر رہی ہورقیہ؟ ایک شک کی بنیاد پرایسا کرنا قطعاً ٹھیک نہیں یا تو اس سے کھل کر بات کی جائے۔‘‘ وہ ایک دم کھڑے ہو کر ٹہلنے لگے۔ اپنی بیٹی پر ان کو خود سے زیادہ بھروسہ تھامگررقیہ بیگم کی بات بھی نظرانداز نہ کر سکتے تھے۔ آخر کو وہ ماں ہیں اور اولاد کو ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا۔
’’نکاح تو کر سکتے ہیں نا؟‘‘ رقیہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ہاں اِس پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘‘ وہ ابھی تک کش مکش میں تھے۔
’’غور نہیں صابرصاحب عمل کرنا ہے۔ میں آج ہی بلکہ ابھی جا کرراحیل سے بات کرتی ہوں۔‘‘
’’جیسے آپ کی مرضی پر ایمن کی رضامندی بھی ضروری ہے رقیہ بیگم۔‘‘
’’آپ بے فکر رہیں۔ میں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کروں گی۔‘‘
٭…٭…٭