رعنا کی چھتری — روبینہ شاہین

عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا مگر حمدان ابھی تک کمرے سے نہیں نکلا تھا۔ ان کے گھر عصر کے بعد کوئی نہیں لیٹتا تھا۔ امی نے بچپن ہی سے یہ بات ان کے کانوں میں ڈال دی تھی کہ عصر کے وقت سونا اچھا نہیں ہوتا، اس سے انسان کی عقل جاتی رہتی ہے۔ امی کو پریشانی لاحق ہوئی تو وہ کمرے میں چلی آئیں جہاں حمدان بخار میں تپ رہا تھا۔ حمدان کو اس حال میں دیکھ کر ان کے ہاتھ پاؤں پھو ل گئے۔ تین دن بعد خدا خدا کر کے اس کا بخار اترا تھا، مگرتکان ابھی بھی باقی تھی۔ رنگ پیلا پڑ چکا تھااور ہونٹوں پر چپ کے تالے۔
حمدان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رعنا اس حد تک ماڈرن ہوگی۔ سڑکوں پہ سرِعام ناچتی پھرے گی مگرابھی بھی دل رعنا کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ بالآخر دل اور دماغ کی جنگ میں دل جیت گیا۔ حمدان نے رعنا سے با ت کرنے کا سوچا۔ رہی بات اُس کے کردار کی تو وہ شادی کے بعد اسے سمجھا لے گا۔ وہ ایک بار پھر سپنوں کی چھتری تانے محو خواب ہو چکاتھا۔
وہ دن اُس کی زندگی کا انتہائی حسین دن تھا جب رعنا کو اس کے نام کی انگوٹھی پہنا دی گئی۔ یہ احساس بڑا روح افزا تھا کہ اُس کی دل عزیز ہستی اب اُس کے نام کر دی گئی ہے۔خوشیوں کے ڈھیر سارے موتی وہ اپنی زنبیل میں جمع کیے ایک خوب صورت زندگی کا خواب بن رہا تھا۔ طے یہ پایا کہ ایک سال بعد شادی کر دی جائے گی۔ منگنی کو آٹھ ماہ گزر چکے تھے۔ حمدان کی امی نے تیاریاں شروع کردیں۔ جب کہ رعنا ابھی شادی کو تیار نہ تھی۔ اس کا مؤقف تھا کہ میں ابھی زندگی انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔ حمدان کو اس کے رویے اور لہجے دونوں عجیب لگے تھے لیکن وہ چپ کر گیا۔
رعنا کو حمدان کی کمزوری کا اندازہ تھا، سو وہ خوب ناز اٹھواتی۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جو مرد کو غلام بنا کر خود حکومت کرنا چاہتی ہیں اور ہر جائز اور ناجائز بات منوانا اپنا حق سمجھتی ہیں۔
برسات کا موسم ایک بار پھر آیا تھا۔ آج موسم کی پہلی بارش تھی۔ اس کا پلان تھا کہ رعنا کے ساتھ مل کر آؤٹنگ پر جایا جائے۔ یہی سوچ لیے وہ آفس سے گھر آ رہا تھا کہ اُس کی آنکھوں نے وہ منظردیکھا جو اس کے ہوش اُڑا گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رعنا بائیک پر ایک لڑکے کے ساتھ بیٹھی تھی۔ جس طرح وہ بیٹھی تھی، وہ منظر اس کو ساری کہانی سنا گیا۔ اس کے قدم وہیں رک گئے۔ بادل گرج رہے تھے اور بارش تیز ہوتی جا رہی تھی لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ بادل برس رہے تھے اور اندر اس کا دل۔ اس کی ساری حسیات تھم گئی تھیں۔ بس ایک ہی بات اس کے حواس پر طاری تھی، رعنا اب اس کی نہیں رہی۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی ہونے والی بیوی کا کردار اتنا گھٹیا ہو؟بالآخر فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس نے بائیک دوڑا دی۔
اس نے کسی سے کچھ کہے بغیر منگنی توڑ دی۔ صبا باجی پوچھ پوچھ کے تھک گئی مگر اس کے چپ ٹوٹنی تھی نہ ٹوٹی۔ زندگی اب چل رہی تھی کیوں کہ نبض چل رہی تھی۔ زندگی ہار کے جینا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ دل والوں سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے۔ ساری رات اس کے کمرے کی لائٹ جلتی رہتی۔ اسے دیکھ دیکھ کراماں کو ہول اُٹھتے۔ پر وہ شادی نام کی چیز سے ہی الرجک ہو چکا تھا۔
’’تیری دو ٹکیاں دی نوکری وے میرا لاکھوں کا…‘‘ یاد کے دریچے سے کوئی گنگنایا تھا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ لاحول ولا قوۃ پڑھتا اور چل دیتا، مگر کچھ لمحے بڑے طاقت ور ہوتے ہیں۔ اسیر کر لیتے ہیں۔ وہ پرندے جنہیں اپنی پرواز پر بڑا مان ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں۔ نہ جانے کیوں؟ رب کی حکمتیں رب ہی جانے۔ حمدان بھی اسیر کر لیا گیا تھا یا ہو گیا تھا یہ تو وہی جانتا ہے۔ اس نے آسمان کی طرف پرنم آنسوؤں سے دیکھا۔ مالک میں رہائی چاہتا ہوں، صرف رہائی۔ اس کے اندر کسی نے قہقہہ لگایاتھا۔
’’محبت میں رہائی؟ بابا اس میں جو قید ہو جائے اسے رہائی نہیں ملتی۔ ‘‘
دو سال بیت گئے۔ پھر اس نے سنا رعنا کی شادی ہو گئی ہے۔ اس رات وہ بہت رویا۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے دل سے نکال دیا۔ کہہ دینے سے کوئی کیسے دل سے نکل سکتا ہے؟ دل کی حالت دگرگوں تھی۔ کہیں سکون نہیں تھا۔ اس کی بھوک اور نیند اُڑ گئی تھی۔ وہ اتنا بے ترتیب کبھی نہیں رہا تھا۔ بالآخر نیند کی گولیاں آخری سہارا تھیں۔ جب بہت تھک جاتا تو خواب آور گولیاں کھا کے سو جاتا نہیں تو جاگتا رہتا۔ رعنا کے لیے اب اس کا دل عجیب عجیب باتیں سوچتا۔ اس کا دل کرتا وہ بھی اس کی زندگی ایسے اجاڑے جیسے اس نے اجاڑی۔ وہ بھی روئے، جیسے وہ روتا ہے۔ وہ بھی جاگے جیسے وہ جاگتا ہے۔ محبت کا چولا اتر چکا تھا۔ اب نفرت اپنے رنگ دکھا رہی تھی۔ نفرت جو محبت سے کم ظالم نہیں ہوتی۔ محبت میں اگر دل جلتا ہے تو نفرت میں دماغ۔ اب وہ دماغی مریض بن چکا تھا جو ہر وقت انتقامی منصوبے سوچتا۔
رعنا سے بچھڑے ہوئے اسے یہ پانچواں سال تھا ۔ وہ ایک بھیگی بھیگی شام تھی۔ بارش کے بعد موسم نکھر چکا تھا۔ وہ مارکیٹ سے دودھ لینے نکلا تھا۔ بادل بہت گہرے تھے۔
’’حمدان رکو۔ یہ چھتری لیتے جاؤ۔ بادل بہت ہیں۔ بھیگ گئے تو زکام ہو جائے گا۔‘‘ اماں کے لہجے میں فکر مندی عیاں تھی۔ اس نے ایک نظر چھتری کو دیکھا اور خاموشی سے چھتری پکڑ کر چل دیا۔
گلی کی نکڑ والی دکان بند تھی۔ سو اسے دودھ لینے مارکیٹ آنا پڑا، جو آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ دودھ لے کے واپس جا رہا تھا جب ایک منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا۔ وہ رعنا تھی۔ اپنی تمام تر رعنائیوں سے محروم۔ بے رنگ چادر اوڑھے۔ دو بچوں کو انگلیاں تھمائے۔
’’کہا تھا نا گھر میں رک جاؤ۔ اب بارش میں بھیگو، مرو اب۔ پھر بخار چڑھ گیا تو تمہارا باپ میری جان آ لے گا۔‘‘ رعنا کی زبان کانٹے اُگل رہی تھی۔ پھر ایک شیڈ کے نیچے وہ بچوں کو لے کرکھڑی ہو گئی۔
’’کیا یہ غصیلی آواز اسی کی تھی؟‘‘ وہ اس کی زبان اور لب ولہجے پر غور کر ہی رہا تھا جب اُس کی نظر حمدان پہ پڑی۔ فق چہرے کے ساتھ وہ اس کو دیکھے گئی۔ کچھ لمحے وہ گڑبڑائی پھر بچوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔ حمدان نے چھتری اس کے ایک بچے کو پکڑائی جس نے وہ خوشی سے تھام لی۔ رعنا کی نظر چھتری پہ پڑی۔ یہ وہی چھتری تھی جو اس نے حمدان کو دی تھی۔ ایک بھیگی شام اسے یاد آئی اور جلدی سے چھتری تان کے چھتری دینے والے کی طرف دیکھا، تو وہ جا چکا تھا۔ رعنا کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ سمجھ نہ آیا زیادہ پانی بارش کا تھا یا اس کے آنسوؤں کا۔ اس نے نم آنکھوں سے اس مہرباں کو دیکھنا چاہامگر وہ اوجھل ہو چکا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ذاتی — نظیر فاطمہ

Read Next

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!