تیتری کی کوک گائوں میں سنائی دے رہی تھی۔ روٹی پکانے کے بعد خواتین نے سردی کی شدت کو کم کرنے کے لیے کوئلے انگیٹھیوں میں ڈال کر کمروں میں لا رکھے تھے۔ احمد دین دالان میں لیٹی اپنی ماں کے مائوں دبا رہا تھا۔ ایک طرف اس کے تینوں بیٹے اپنی کتابیں بستوں میں ڈال رہے تھے جب کہ پانچ سالہ بیٹی مریم کپڑے کی گڑیا لیے ان کے پاس بیٹھی تھی۔ لیکن اس کی دل چسپی گڑیا میں نہیں تھی، نگاہیں بھٹک کر بار بار بھائیوں کی کتابوں، کاپیوں اور پنسلوں پر جارہی تھیں۔
”بھا جی! میں یہ پنسل لے لوں؟” مریم نے سب سے چھوٹے بھائی دانش سے پوچھا۔
”نہیں!” دانش نے اس سے پنسل چھینی اور بستے میں ڈال دی۔ مریم منہ بسور کر ایک طرف ہو بیٹھی، لیکن زیادہ دیر کتابوں اور پنسلوں سے لاتعلق نہ رہ سکی اور پھر بڑی آس سے بڑے بھائی کو متوجہ کیا۔
”ہارون بھا میں آپ کی پنسل سے لکھ لوں؟” ہارون نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر بڑوں سا ظرف دکھاتے ہوئے کہا:
”ہاں لے لو پنسل اور اس پرانی کاپی پہ لکھو۔”
احمد نے ماں کے پائوں دباتے ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھا، جو اب پنسل سے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھی۔ اس کا معصوم چہرہ ان جانی خوشی سے دمک رہا تھا۔ احمد کو بے اختیار اس پر پیار آگیا۔ ویسے بھی اسے بیٹیاں بہت پسند تھیں اور تین بیٹوں کے بعد مریم گویا اس کی شرفِ قبولیت پانے والی دعا تھی۔
”مریم یہاں آئو۔” احمد نے آواز دی۔
”آئی ابا جی۔” مریم نے کاپی پنسل اٹھائی اور احمد کے پاس آگئی۔
”میری بیٹی سکول جائے گی؟” احمد نے پوچھا۔
”ہاں جی ابا جی۔” مریم نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں احمد دین اسے سکولے بھیج دے، دو چار جماعتیں پڑھ لے گی تو کوئی سُرت (عقل) آجائے گی۔” اماں نے کہا۔
”ہمم!” احمد دین سوچنے لگا۔ مریم پھر سے اپنی جگہ پر بیٹھ کر پنسل سے کاپی پر لکیریں لگانے لگی۔ اتنے میں آسیہ باداموں والا دودھ لے کر آگئی۔ سب کو دودھ کے گلاس تھما کر وہ کوئلوں کو الٹ پلٹ کرنے لگی۔ منجھلے ارشد نے اپنا گلاس ختم کیا اور پھر مریم کا گلاس اٹھا لیا۔
”ارشد رکھو اسے یہ مریم کے لیے ہے۔” ہارون نے اسے ٹوکا۔
”مریم! میں یہ دودھ پی لوں؟” ہارون نے پوچھ کر گویا اپنا فرض پورا کیا۔
مریم نے نظر اٹھا کر بھائی کو دیکھا اور بولی۔
”ہاں جی پی لو۔”
”آسیہ! مریم کے لیے اور دودھ لے آئو۔” احمد نے یہ منظر دیکھ کر کہا۔
”دودھ ختم ہوگیا ہے۔” آسیہ بولی۔
”گھر میں دو بھینسوں کے ہوتے ہوئے دودھ ختم ہوگیا، عجیب بات ہے۔” احمد دین جھلایا۔
”میرا مطلب ہے باداموں والا دودھ ختم ہوگیا۔” آسیہ نے کہا۔
”تو زیادہ بنالیا کرو۔” احمد بولا، پھر مریم کو بلا کر گود میں بٹھایا اور اپنا گلاس اس کے منہ سے لگا دیا۔
”چل میری دھی جلدی سے یہ دودھ پی لے۔ اور جا کر سو جا۔” احمد دین نے کہا۔ مریم نے آدھا گلاس دودھ پیا اور اچھلتی کودتی سونے چلی گئی۔
”کتنی پیاری ہے نا میری دھی، کتنے ایثار والی۔ اپنی چیزیں چپ چاپ بھائیوں کو دے دیتی ہے۔ اب دودھ کی مثال ہی لے لیں۔” احمد دین نے کہا۔
”جھلیا سب عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں، محبت اور ایثار کا پیکر۔ اپنی بہن کو بھول گیا جس نے اپنے حصے کی زمین بھی تیرے نام لکھ دی۔”اماں نے کہا۔
”ٹھیک کہتی ہو اماں۔ صبح چکر لگائوں گا آپا کی طرف۔” احمد کے دل میں بے اختیار بہن کا پیار امڈ آیا۔
”ہاں چلے جانا، خوش ہو جائے گی۔ عورت کی تو ساری حیاتی باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے گرد گھومتی رہتی ہے۔” اماں نے کہا۔
”ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں! اب آسیہ کو ہی دیکھ لو۔ جتنا کھانے پینے کا خیال اپنے بیٹوں کا رکھتی ہے، اتنا مریم کا نہیں رکھتی۔” احمد دین نے کہا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے، وہ ماں ہے اور ماں کو ساری اولاد پیاری ہوتی ہے۔” اماں نے کہا۔
”آپ مانو یا نہ مانو پر مجھے معلوم ہے، اسے بیٹوں سے زیادہ پیار ہے۔ تین بیٹوں کے بعد بھی کبھی اس نے بیٹی کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ پر میں بہت دعائیں کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ گناہ گار پر بھی رحمت کر دے۔ ایک بیٹی دے دے۔” احمد نے کہا۔
”اچھا!” اماں مسکرا دیں۔
”تو اور کیا؟ مریم مجھے تینوں بیٹوں سے زیادہ پیاری ہے۔ میری جند (زندگی) ہے وہ، میری ”رحمت” ہے وہ۔” احمد دین سرور میں بول رہا تھا۔
”پتر! ہمارے معاشرے میں بیٹوں کی نعمت ساتھ نہ ہونا، تو یہ رحمت بھی زحمت بن جاتی ہے۔” اماں تلخی سے بولیں۔
”پر مجھے بیٹیاں بہت پیاری لگتی ہیں۔” احمد دین نے کہا۔
”لیکن اتنی پیاری کسی کو نہیں لگتیں کہ ان کی چاہ میں دوسری شادی کر لی جائے۔” آسیہ نے دھیمے سے لہجے میں تلخ حقیقت بیان کردی۔ احمد دین چپ سا ہوگیا۔
”بیٹی کو اس کا حق دینا ہی اس سے اصل محبت ہے۔” آسیہ نے کہا۔
”ہاں تو دوں گا نا میں سارے حق اپنی بیٹی کو۔” احمد دین نے کہا اور آسیہ بے یقینی سے اسے تکتی رہی۔
اگلے دن احمد دین نے آسیہ کو مریم کے ساتھ سکول میں داخلے کے لیے بھیجا۔ آسیہ مریم کو سکول چھوڑ کر آئی تو احمد دین کو بے چینی سے گھر کے آنگن میں ٹہلتا ہوا پایا۔
”کیا ہوا خیر تو ہے دانش کے ابا؟” آسیہ نے چادر اتار کر تہ کرتے ہوئے کہا۔
”تو بتا مریم رو تو نہیں رہی تھی؟” احمد دین نے بے چینی سے پوچھا۔
”ہاں جب جماعت کے کمرے میں چھوڑا تو میری چادر کا کونا پکڑ رکھا تھا۔ اور منہ بسور رہی تھی۔” آسیہ نے کہا۔
”اب رو نہ رہی ہو۔” احمد کی بے چینی صاف ظاہر تھی۔
”نہیںاستانی جی نے بہلا لیا ہوگا۔ ویسے بھی اسے سکول جانے کا بڑا شوق تھا۔ دو چار دن میں عادی ہو جائے گی۔” آسیہ نے تسلی دی۔
”ہاں! اس کا شوق دیکھ کر ہی تو میں نے اسے سکول داخل کرانے کا سوچا، ورنہ میرا خیال تھا کہ دو تین سال بعد سکول بھیجوں گا۔ ابھی چھوٹی ہے۔” احمد دین نے کہا تو آسیہ نے سر جھٹکا اور چادر اٹھا کر اندر چلی گئی۔
دو چار دن میں مریم تو سکول جانے کی عادی ہوگئی مگر جب تک مریم گھر نہ آجاتی احمد دین بے چین رہتا۔
مریم ذہین بچی تھی اور پڑھائی لکھائی کی شوقین بھی، سو وقت اور عمر کے ساتھ علم کے زینے چڑھتی گئی۔ ہر جماعت میں اول، ہر امتحان میں کامیاب، اور پھر باپ کی محبت کا امتحان بن کر اپنا حق لینے اس دن سامنے آکھڑی ہوئی، جب میٹرک میں پچاسی فیصد نمبروں سے کامیابی حاصل کرلی اور آگے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کردیا۔ آسیہ کے ذریعے یہ خواہش احمد تک پہنچی تو اس نے صاف انکار کردیا۔
”جھلی ہوگئی ہے آسیہ تو وہ مزید کیسے پڑھ سکتی ہے؟ پنڈ میں کوئی کالج تو ہے نہیں۔” احمد دین نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”وہ شہر جا کر پڑھنا چاہتی ہے۔” آسیہ نے مریم کے دل کی بات اسے بتائی۔
”دماغ ٹھیک ہے تیرا؟ آج تک کوئی کڑی شہر پڑھنے کے لیے نہیں گئی۔ لوگ کتنی باتیں کریں گے۔” احمد دین کا لہجہ دو ٹوک تھا۔
”کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہو، مگر آج تک پنڈ میں کسی کڑی نے دسویں میں اتنے نمبر بھی تو نہیں لیے نا۔” آسیہ نے اسے منانے والے انداز میں کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے مگر پڑھائی کے لیے شہر بھیجنا، نا بھئی نا۔” احمد دین نے گویا اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
”میرا بھی بڑا دل کرتا ہے کہ مریم ڈاکٹرنی بن جائے یا پھر وڈے کالج کی استانی۔” آسیہ کے لہجے میں حسرت بول رہی تھی۔
”نہ بھئی! کہہ دیا نا میں اسے شہر نہیں بھیج سکتا، لڑکی ذات ہے اللہ نہ کرے۔”… احمد دین نے دہل کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”دل تو میرا بھی ڈرتا ہے مگر مریم کو آگے پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔” آسیہ نے کہا۔
”دس جماعتیں پڑھ لیں کافی ہے۔ اب اسے گھر داری سکھا۔ کوئی سینا پرونا سکھا اسے۔” آپا کی نو (بہو) بننا ہے اس نے آپا کو کوئی شکایت نہ ہو۔” احمد دین نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
”آپا کہہ رہی تھیں کہ سکندر پڑھنے کے لیے اب باہر کے ملک جارہا ہے۔” آسیہ نے کہا۔
”ہاں معلوم ہے مجھے! کیسا قابل اور لائق جوائی (داماد) ملا ہے ہمیں، ورنہ اپنے تینوں پتر تو مشکل سے ہی دس پاس کر سکے ہیں۔” احمد دین نے بڑے فخریہ انداز میں کہا۔
”ہماری دھی بھی تو لائق ہے۔” آسیہ کے لہجے میں بھی فخر تھا۔
”کڑیوں کا کیا لائق یا نالائق ہونا، بس اللہ ان کے نصیب اچھے کرے۔ اپنے گھر میں خوش رہیں، راج کریں۔ مقدر سے کون لڑ سکتا ہے؟ بس اللہ محفوظ رکھے ہر قسم کی بلائوں، مصیبتوں سے” احمد دین نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”
”آمین… لیکن دانش کے ابا تعلیم پر مریم کا بھی اتنا ہی حق ہے نا جتنا سکندر کا۔” آسیہ نے آخری حربہ اپنایا۔
”فیر اوہی گل۔ سکندر مرد ہے، وہ کہیں بھی چلا جائے، جا سکتا ہے۔ اس نے کمائی کرنی ہے۔ اور ہم مریم کو اتنا پڑھا کر کیا کریں گے؟ آخر اس نے چولہا چوکی ہی کرنی ہے۔” احمد دین نے جھلاتے ہوئے کہا۔
آسیہ اور مریم نے احمد دین کو منانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ لوگوں کا خوف، رسموں، روایتوں سے اٹا صدیوں کا جمع کیا ہوا سوچوں کا ڈھیر مریم کی راہ میں حائل ہوگیا اور مریم اپنے اس حق سے دست بردار ہوگئی، جسے مذہب نے ہر مرد عورت کے لیے فرض قرار دیا ہے۔
سکندر نے انتظار کی طنابیں اس کے ہاتھ میں تھمائیں، منگنی کی ڈور سے اسے باندھا اور پڑھنے کے لیے باہر چلا گیا اور مریم گھر داری کرکے انتظار کے اس سفر پر چل پڑی جس کی منزل شادی تھی۔
جہیز کے کپڑوں پر کڑھائیاں کر کرکے مریم کی انگلیوں میں چھید ہوگئے۔ گول روٹی بنانے کے چکر میں انگلیاں انگار ہوگئیں۔ پیٹی سامان سے بھر گئی، پرچھتی پر شنیل کی رضائیاں اور مون لائٹ کے گدے رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ صندوق رنگ رنگ کے جوڑوں سے بھر گئے۔ ہر فصل کے اترنے پر سونے کے زیورات بنتے رہے مگر شادی کی منزل نہ آئی۔
سکندر کی پڑھائی ختم ہوگئی۔ ریسرچ کرنے لگا اور پھر وہیں نوکری کرلی۔ جب آتا تو اگلے چکر پہ شادی کا وعدہ کرکے چلا جاتا۔ وقت بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ آنگن میں ان کے بچوں کی قلقاریاں گونجنے لگیں، بھابھیوں کو اکلوتی نند چبھنے لگی۔ پھر اک روز احمد دین بھی تھک گیا۔
”اماں تو آپا سے پوچھ نا کہ کب کرے گی سکندر اور مریم کا بیاہ کب تک اسے بٹھائے رکھوں۔” احمد دین نے ماں سے کہا۔
”ہاں اماں اتنے سال ہوگئے ہیں، پنڈ میں اس کی عمر کی ساری کڑیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ تین، تین بچوں کی مائیں بن گئیں اور ہماری مریم…” آسیہ نے فقرہ ادھورا چھوڑا۔
”ہاں میں تے آپ ایہو سوچ رہی تھی کہ ماجدہ سے بات کروں کہ کڑی کی عمر نکلی جارہی ہے۔” اماں نے بھی فکرمندی سے کہا۔ لیکن اس سے پہلے ہی آپا ساجدہ خود چلی آئی اور آکر ماں کے قدموں میں بیٹھ کر ہاتھ جوڑ دیئے۔
”کیا ہوا ساجدہ؟” اماں نے گھبرا گئیں۔
”اماں مجھے معاف کردے” ساجدہ نے روتے ہوئے کہا۔
”کی گل اے پتر؟ (کیا بات ہے۔)” اماں کا دل ان جانے خدشات سے دھڑک اٹھا۔
”اماں مجھے معاف کردے۔” ساجدہ نے روتے ہوئے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی۔
”کڑیے کچھ دس تے سہی۔ (بتا تو سہی) اماں نے اسے سنبھالتے ہوئے کہا۔”
”اماں سکندر نے مریم کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کردیا ہے۔” ساجدہ کے حملے نے گویا سب کی سماعتوں پر بم گرا دیا۔ اماں ڈھے سی گئی۔
”اماں! مجھے معاف کردے، احمد آسیہ مجھے معاف کردو۔” وہ اب بھائی بھابھی کی طرف متوجہ ہوئی۔ احمد اور آسیہ سکتے کے عالم میں بیٹھے تھے۔
”احمد” آپا نے پکارا۔
”مگر کیوں؟ کیوں آپا کیا کمی ہے میری بیٹی میں؟”… احمد دین چیخ پڑا۔
”انکار کی کیا وجہ ہے آپا؟” آسیہ شکست خوردہ لہجے میں بولی۔
”وہ… وہ کہتا ہے ان پڑھ گنوار سے شادی نہیں کروں گا۔” آپا نے وجہ بتائی۔
”ان پڑھ کہاں ہے؟ پوری دس جماعتیں پاس ہے۔” احمد دین نے تقریباً چیختے ہوئے۔
”پتا ہے اسے پر وہ نہیں مانتا۔ کہتا ہے میں اتنا پڑھ لکھ گیا ہوں اب شادی بھی کسی بہت پڑھی لکھی لڑکی سے کروں گا۔ احمد تو مجھے معاف کردے۔” آپا ایک بار پھر اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی مگر احمد تو جیسے سکتے میں چلا گیا تھا۔
آپا ساجدہ فرش پر بیٹھی اماں کے قدموں میں آنسو پونچھتی رہی اور پھر خاموشی سے چادر اٹھا کر چلی گئی۔
”ہائے! اب مریم کا کیا ہوگا؟” بڑی بھابھی نے دوہتڑسینے پر مارا۔
”کیسا داغ لگ گیا۔” منجھلی نے بھی فقرہ کسا۔
”اب کون بیاہے گا اسے؟ اتنے سال سکندر کے نام پہ بیٹھی رہی ہے۔” چھوٹی بھابھی نے بھی بولی پر اپنا فرض ادا کیا۔
مریم نے سب سنتی رہی، سارے آنسو دل میں اتارے اور چولہے پر جا کر روٹی بنانے لگی۔
”میں تو جی ترلے ڈالتی رہی کہ دھی رانی کو شہر بھیج دو پڑھنے کے لیے۔ مگر آپ نہیں مانے۔” آسیہ کی آواز بھیگ رہی تھی۔
”بھلی لوک جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ اس کی شادی سکندر سے نہیں لکھی تھی، یہ قسمت کے کھیل ہیں۔” احمد دین کا لہجہ ٹوٹے کانچ کی طرح تھا۔ وہ آسیہ سے زیادہ خود کو تسلی دے رہا تھا۔
”ٹھیک کہہ رہے ہو آپ! یہ قسمت کی بات ہے لیکن اگرہم اسے پڑھا دیتے وہ اپنے شوق سے ڈاکٹرنی یا استانی بن جاتی، اپنا رستہ، زندگی کا مقصد ڈھونڈ لیتی تو اپنے لیے بھی رحمت ہوتی دوسروں کے لیے بھی۔” آسیہ نے روہانسی لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔
احمد دین خاموش رہا۔ وہ جھکے شانوں کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا، کندھے پر صافہ ڈالا اور تھکے تھکے قدموں سے باہر جانے لگا۔
”ابا جی! روٹی کھالیں۔ پھر آپ واپس آتے آتے رات کر دیتے ہو۔” مریم نے ہموار لہجے میں باپ کو پکارا جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
احمد دین نے اپنے آنسو پئے اور پلٹ آیا۔ مریم کے سر پر ہاتھ رکھ کر خاموش سا دلاسہ دیا اور ہولے سے بولا۔
”اپنے پپو کو معاف کردینا جس نے تجھے رحمت سے زحمت بنا دیا۔”
٭…٭…٭