خواب زادی — ابنِ عبداللہ

اس کی آنکھوں میں خوابوں کے مردہ بیج دبے ہوئی تھے جیسے پھولوں کے بیج زمین میں گرتے ہیں اور پھر بہار کے موسم میں اسی جگہ سے اگتے ہیں۔
لیکن اس کی آنکھیں بنجر ہوچکی تھیں۔۔وہ احساس کی دھوپ جس تلے خواب نمو ہوتے ہیں پھلتے پھولتے ہیں کبھی نکلی ہی نہیں ۔
اس کی آنکھیں اس خط کی طرح تھیں جس میں کسی کی موت کی خبر ارسال کی گئی ہو ۔بھاری سی بوجھل سی۔
اس کی روح زخموں سے چور تھی لیکن شہر کے مسیحا روح سے نہیں جسم سے سروکار رکھتے تھے۔




اس شہر میں کوئی بھی روح کے زخم نہیں سیتا ہے۔
بوڑھے نے بینچ سے ٹیک لگائی اور پارک میں کھیلتے بچوں کو دیکھنے لگا۔
کیا اسے محبت ہوئی تھی۔کیا اس نے کسی پر اعتبار کیا تھا؟
لڑکی نے بوڑھے کو خاموش ہوتے دیکھ کر پوچھا۔
ہاں !!بوڑھے سیدھا ہوا اور اس کی چہرے پر مسکراہٹ جیسی کیفیت پیدا ہوئی۔
کس سے؟
لڑکی نے بے چینی سے پہلو بدلا اور اشتیاق بھری نظروی سے داستان گو کو دیکھنے لگی۔
دس سال کی عمر میں اس نے گلی سے رنگ برنگے چوزے خریدے تھے ان میں سے گلابی رنگ کا تھا سب سے تیز ترار، جب وہ چلتی تو سب سے پہلے وہی اس کی پیچھے بھاگ کر آتا تھا۔اس لڑکی نے بس اسی نھنے سے چوزے پر اعتبار کیا تھا اور وہی اس کی پہلی محبت تھا۔
وہ اس سے بہت ساری باتیں کرتی تھی اور وہ اس کی باتیں سنتا تھا۔۔
کم از کم اس لڑکی کا تو یہی ماننا تھا
جب وہ اس اداسی بھری باتیں کرتی تھی وہ چوزہ اس کی ہتھیلی پر آہستہ آہستہ چونچ مارتا تھا جب وہ ایسے کرتا تو اسے لگتا وہ اسے تسلی دے رہا ہے تھپک رہا ہے۔
وہ خواب زادی نہیں جانتی تھی کہ ان چوزوں کا رنگ وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔
اور وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ محبتوں کی زندگی گلی میں بکنے والے رنگ برنگ،چوزوں کی طرح بہت کم ہوتی ہے۔




ایک روز صبح جب وہ سو کر اٹھی تو وہ چوزہ بیمار تھا۔اور شام تک ہزار کوششوں کے باوجود وہ اسے بچا سکی تھی۔
وہ پورا مہینہ روتی رہی تھی۔
اس کا دوست اور غم خوار جو نا رہا تھا ۔
یتیم کے خانے کے باغ میں اس چوزے کو دفناتے ہوئے اس لگا جیسے وہ اپنی وہ ساری باتیں وہاں دبا رہی جو وہ اس سے کہنا چاہتی تھی جو اب وہ کسی سے نا کہہ پائے گی۔
کہانی سننے والی لڑکی کی آنکھوں میں ان کہی باتوں کی نمی ابھری تھی ۔۔
تو وہ اب وہ لڑکی کہاں ہے۔ ؟
شاید وہ مزید کہانی کا درد برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
وہ لڑکی بیس سال کی عمر میں اس وقت مر گئی جب شہر کے لوگوں اندھے ہونے لگے اور ان کی آنکھوں میں شیطان کی آنکھیں اگ آئیں ان کے اندر برائی اور ہوس کی امر بیل پھیل گئی ۔
تب اس لڑکی نے خدا سے دعا مانگی کہ وہ اس کی آبرو کی رکشا کرے اور اس کی تاریک زندگی میں اور کسی گہری تاریکی کا اضافہ نا کرے۔
خدا نے اس کی فریاد کو سن لیا اور اسے اپنے جہاں کے لئے چنا۔
داستان گو نے آنکھیں بند کر لیں اور پھر جیسے چشم تصور میں اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے بولا ۔
اب وہ جنت کے بالا خانوں میں ٹہلتی ہے اس کے باغوں میں تتلی کی اڑتی ہے۔اس کی آنکھوں میں نور کی روشنیاں ہیں اور اس کے خواب تعبیریں پیدا کرتے ہیں۔
بوڑھے نے آنکھیں کھولیں اور سامنے بیٹھی لڑکی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے دو بارہ بولا ۔
ہر بڑی مصیبت کے ساتھ بڑا انعام نازل کیا جاتا ہے، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
ہر تاریکی کے بعد روشنی ہے۔
خدا ہمیں کبھی بہت کچھ چھین کر آزماتا ہے تو کبھی بہت کچھ دے کر۔
اور ہم عنقریب آپ کو وہ کچھ نوازیں گیں کے آپ خوش ہوجائیں گے
یہ وعدہ ہے۔
یہ شہر آج تک نہیں سمجھا کہ وہ خواب زادی اچانک مر کیسے گئی۔وہ اس کی بیماری کی تلاش میں پریشان ہوتے رہے قیاس آرئیاں کرتے رہے۔وہ
نہیں جانتے تھے کہ بیماری وہ خود ہیں جس کی بدولت وہ اور اس جیسے سینکڑوں لوگ خاموشی سے مرجاتے ہیں۔
پر کوئی مانتا ہی نہیں کہ انہیں علاج کی ضرورت ہے۔
بوڑھے داستان گو مسکراتے ہوئے کہانی سمیٹ لی اور سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھنے لگا جس کے چہرے پر خواب زادی کے جنت میں ہونے کی خبر سن کر اطمینان پھیل رہا تھا۔
ہر سخت راستے کے اختتام پر بہت راحت بھری منزل ملتی ہے۔
اس نے دل میں کہا اور واپس کھیلتے بچوں کو دیکھنے لگا جہنوں نے کافی لمبا سفر طے کرنا تھا۔۔۔۔!!
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۳

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!