جنریٹر — یاسر شاہ

ناشتے کی ٹرے میں نے بہت نفاست سے ’سیٹ‘ کی۔ٹوسٹ کے کنارے ویسے ہی کاٹے جیسے صاحب اور بیگم صاحبہ کو پسند تھے۔ صاحب اور بیگم صاحبہ صرف ’امپورٹڈ‘ مکھن کھانا پسند کرتے ہیں۔اس بات پر تھوڑی ہنسی آئی۔بیگم صاحبہ اتنے امیر آدمی کی بیوی ہونے کے باوجود مکھن کی پریشانی میں ہی مبتلا رہتی ہیں۔اُنہیں ہر گھڑی یہی وہم ستائے رکھتا کہ نوکروں میں سے کوئی چپکے سے ان کا ’’امپورٹڈ‘‘ مکھن نہ چرالے۔ ارے مکھن تو مکھن ہوتا ہے۔ انگریزی ڈبے میں ملے یا مٹی کے پیالے میں گھر کا بنایا ہوا۔ہمیں کیا۔۔مگر قسم سے یہ امیر لوگ بھی بہت عجیب ہیں۔مہنگے سے مہنگے کپڑے پہن کر بڑی سے بڑی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں لیکن گھر آ کر ان کو یہی فکر کھاتی رہتی ہے کہ کوئی ان کا ’’امپورٹڈ‘‘ مکھن نہ چرالے۔ خدایا تیری شان۔
اف خدایا۔۔اس کچن میں بھی کتنی گرمی ہوتی ہے ۔۔پورے گھر میں سب سے گرم کمرہ ہمیشہ کچن ہی ہے جو اُبل رہا ہوتا ہے۔کبھی سوچتا ہوں کہ آخرت میں شاید دوزخ بھی ایک کچن کی شکل ہوگا اور گناہ گاروں کو یہی سزا ملے گی کہ وہ چولہوں پر گرم گرم چائے اور روٹیاں بنا کر نیک اور نمازیوں کو پیش کریں، جو جنت میں بیٹھے اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں آرام کر رہے ہوں گے۔
اب جی للچایا کہ جلدی سے یہ ٹرے اوپر کمرے میں پہنچا دوں تاکہ میں بھی کچھ سیکنڈ اے سی کی ٹھنڈی ہوا کا لطف اُٹھائوں۔
حسبِ عادت دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹا یا اور جیسے ہی صاحب کی آواز آئی’’کم اِن‘‘۔۔میں فوراََ کمرے میں داخل ہو گیا۔
ہمیشہ کی طرح اندر گھستے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے جنت میں پہنچ گیا ہوں۔
اے سی کی ٹھنڈی ہوا نے جیسے ہی میرے بدن کو چھوا پوری رات کی تھکن ایسے غائب ہوگئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ وہ پسینہ جو سوکھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، فوراََ خشک ہو گیا۔وہی دماغ جو گرمی سے پھٹ رہا تھا اور تقریباََہوش کھو بیٹھا تھا، اُسے ایک دم ایسا آرام ملا جیسے زندگی میں کبھی کوئی پریشانی تھی ہی نہیں۔
فرماںبرداری سے ٹرے صاحب کے سامنے رکھ دی جو اخبار پڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر خبریں سن رہے تھے۔ بیگم صاحبہ نیند میں بے ہوش پڑی تھیں جیسے واقعی میں آخری سانس لے کر جنت پہنچ گئی ہوں۔
میں نے جان بوجھ کر بہت آہستگی سے کام کیا تاکہ ٹھنڈی ہوا کا مزہ تب تک لیتا رہوں جب تک صاحب خود جانے کا نہیں کہہ دیتے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’یہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔۔!‘‘ صاحب جی نے خبریں دیکھتے ہوئے کہا۔۔’’انسانیت تو بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اور ا ب تو صرف قتل ، ڈکیتی اور چوری جیسے گناہوں نے اس ملک کو اپنے شکنجے میں قید کر رکھا ہے۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا کیوںکہ میں اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ اگر صاحب بھولے بھٹکے سے کبھی ایسی گفت گو مجھ سے کر بھی لیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ میرے جواب کے منتظر ہوں۔ اپنی رائے دے کر میں ان کی شان میں گستاخی ہی کر سکتا ہوں۔
’’کل پھر موبائل فون کے چکر میں ایک شریف آدمی کو سگنل پر مار دیا۔‘‘ صاحب نے مجھے خبر سنائی اور پھر کہا۔
’’خیال رکھا کروکہ گیٹ پوری رات اچھی طرح سے بند رہا کرے۔ بیچ میں اُٹھ کر ایک دو بار دیکھ لیا کرو۔پتا نہیں کیسے کیسے مجرم پھر رہے ہوتے ہیں گیٹ کے باہر۔۔‘‘
’’جی بالکل صاحب جی۔۔اور کچھ۔۔؟‘‘
ناشتہ تو سامنے رکھ دیا تھا مگر کمرہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ بس تھوڑی اور دیر اس ہی کمرے میں کھڑا رہوں۔ مگر میری پھوٹی قسمت۔۔صاحب نے فوراََ ہاتھ ہلا کر اشارہ کر دیا کہ میں وہاں سے چلاجائوں۔
’’صاحب جی وہ میں کمرہ ٹھیک کر دوں ابھی۔۔؟‘‘ میں نے یہ بھی کوشش کی۔
’’کوئی ضرورت نہیں۔۔بیگم صاحبہ جب بازار جائیں گی تب کر لینا۔ ڈرائیور سے کہوتیار رہے بس آدھے گھنٹے میں ائیر پورٹ کے لئے نکلنا ہے۔‘‘
مایوسی سے میرا منہ اُتر گیا۔ سر جھکائے میں نے اس پرسکون ٹھنڈی ہوا کو الوداع کہا اور واپس آ کے اُس تنور میں چلا گیا جس میں پوری رات گزری تھی اور اب آگے کا پورا دن بھی ایسے ہی کاٹنا تھا۔
نیند اب آنکھوں میں بھر چکی تھی۔ کھڑے کھڑے حالتِ بے داری میں بھی خواب آنا شروع ہو گئے۔ سر ایک بار پھر چکرانے لگا۔ سوچا باہر جا کر دھوپ میں اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کروں۔ مگر باہر اور بھی برا حال تھا۔ اب تو تپتی دھوپ سینے میں خنجر کی طرح کھب رہی تھی۔ جسم ایسے جل رہا تھا جیسے آگ کی چنگاریوں کی بارش ہو رہی ہو۔
گارڈ ابھی بھی آرام سے سویا ہوا تھا۔ ’’جنریٹر‘‘ کی آواز اب کانوں میں ایسے گونج رہی تھی جیسے یہ ’مشین‘ نہیں کوئی پھنکارتا ہوا اژدھا ہو۔ گاڑی دیکھ کر اور کوفت ہو رہی تھی کیوںکہ کچھ ہی دیر میں اس گاڑی کا بھی اے سی ’آن‘ہونے والا تھا اور میرے علاوہ سب ہی ٹھنڈی ہوا کے مزے لوٹتے، اور میں۔۔؟؟ میں ہمیشہ کی طرح کھڑا دیکھتا ہی رہتا۔ اچانک نظر دیوار سے لگی بندوق پر پڑی۔اور پھر۔۔۔
نجانے کیا سوجھی۔۔یہی تو میں خود نہیں جانتا۔بس بار بار جنت کا وہی منظر آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا جہاں صاحب جی آرا م سے بیٹھے چائے پی رہے تھے اور بیگم صاحبہ سکون کی نیند سو رہی تھیں۔ وہ نیند جو مجھے عرصے سے نصیب نہیںہوئی۔
گیٹ پر تالا اور کنڈی مضبوطی سے لگی تھی۔ مگر گیٹ کے اندر میرا پارا چڑھتا جا رہا تھا۔
میں نے بندوق اُٹھائی اور واپس صاحب کے کمرے کی جانب بڑھا۔
زندگی میں پہلی بار دروازہ کھٹکھٹائے بغیر اس ’بیڈروم‘ میں داخل ہوااور بندوق پکڑے کمرے میں آکھڑا ہوا۔
صاحب نے ایک نظر اُٹھا کر میری جانب دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ بیگم صاحبہ کی نیند تو ہمیشہ سے ہی پکی تھی۔
کچھ دیر میں یوں ہی کھڑا رہا۔ اے سی کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھاتا رہا۔ اس بار مجھے اس ٹھنڈے کمرے سے کوئی نہیں نکال سکے گا۔
میں نے بندوق کا رُخ صاحب جی کی طرف کیا جو چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے اخبار پڑھ رہے تھے۔ شاید وہ اسی لئے اتنے اطمینان سے بیٹھے تھے کہ گیٹ پر تالا لگا ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ محفوظ ہیں۔
میں نے ’گن‘ چلائی اور پہلی گولی صاحب کے سینے میں اتار دی۔ پھر مڑکر بیگم صاحبہ کو بھی گولی مار دی۔
بعد میں کیا ہوا ۔۔کیا نہیں۔۔میں نہیں جانتا ۔ یہ اندازہ ضرور ہوا کہ ’گولی‘ کی آواز سن کر گارڈ جان گیا ہوگا کہ اس کی غفلت کی نیند کے دوران کسی نے اس کی بندوق وہاں سے اُٹھالی ہے۔ پھر اُس نے وہی کیا ہو گا جس کی اُس سے اُمید تھی۔دیوار پھلانگ کر اپنی جان بچانے بھاگ گیا ہوگا۔
ڈرائیور نے بھی اندر آنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید نہانے میں مصروف تھا یا شاید ’شاور‘ کے نیچے پانی کے شور میں اُسے کوئی آواز نہیں آئی ہو گی۔
اور میں ان دونوں کا شکر گزار اس لئے ہوں کہ ان کی خود غرضی کی وجہ سے مجھے چند گھنٹے اس جنت میںآرام کرنے کا موقع مل گیا۔
بندوق زمیں پر رکھی اور بستر پر لیٹ گیا۔بستر خون میں بھیگ کر لال ہو چکا تھا مگر مجھے اس سے کیا غرض۔ مجھے تو اے سی کی وہ ٹھنڈی ہوا نصیب ہو رہی تھی جس سے میرے چکراتے ہوئے سر کو آرام مل رہا تھا۔
آگے میری قسمت میں کیا لکھا تھا میں نہیں جانتا تھا نہ ہی مجھے کوئی پرواہ تھی۔ ہتھکڑیاں ، سلاخیں، پھانسی۔ جو بھی۔۔اس وقت مجھے صرف ایک ہی چیز کی طلب تھی۔ ادھر ، اس ٹھنڈے کمرے میں اور اس نرم گداز بستر پر کچھ گھنٹو ں کی نیند۔
جو بھی ہونا ہے ۔۔ بس بعد میں ہو۔۔
ان دونوں کی مغفرت کی دعا بھی نہیں کی۔ لبوں سے دعا نکلی تو صرف یہ کہ اگلے کچھ گھنٹوں کے لئے یہ ’جنریٹر‘ چلتا رہے اور کہیں ’پٹرول ‘ ختم نہ ہوجائے اور نہ ہی جنریٹر ’ٹرپ‘ ہو۔
چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ چھا گئی۔
پھر آنکھیں بند کر کے پہلی بار میں نے زندگی کی سب سے بہترین نیند کا فائدہ اُٹھایا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Read Next

بلا عنوان — نظیر فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!