جنریٹر — یاسر شاہ

چار بجے پھر آنکھ کھلی۔
اب میں پسینے میں ڈوب رہا تھا اور گرمی سے سر بھی بہت بُری طرح سے چکرا رہا تھا۔ میں نے گیٹ کی جانب دیکھا تو سامنے گارڈ کرسی پر پائوں پسارے ایسے گہری نیند سو رہا تھا جیسے گھوڑے اور گدھے سب ایک ساتھ بیچ ڈالے ہوں۔ مجھے اس کی گہری نیند پر بہت رشک آیا۔کاش میں بھی اس طرح سو سکتا۔ یہی خواہش لئے میں کچھ دیر ’گارڈ‘ کو خراٹے لیتے دیکھتا رہا۔ کوئی اور دن ہوتا تو میں اس کو ڈانٹ کر جگا دیتا ۔ ’’نالائق آدمی یہاں پر سکون کی نیند لینے کے لئے نہیں بلایا ہے تمہیں۔ صاحب نے ادھر گارڈ اس لئے رکھوایا ہے کہ یہ ہماری حفاظت کر سکے۔ گیٹ کے باہر جتنے ڈاکو،چور،قاتل اور دہشت گرد منڈلا رہے ہیں ان سب سے ہمیں محفوظ رکھنا اس ’’گارڈ‘‘ کا فرض ہے۔‘‘ مگر یہ ہے کہ جیسے ہی آتا ہے بندوق کو دیوار سے ٹیک دے کھڑا کر تا اور جوتے اتار کر فوراََ سو جاتا ہے۔
ایک دن میں نے اسے ڈانٹا اور سمجھایا۔ ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو صاحب سے شکایت کر دوں گا۔
مگر گارڈ نے جواب دیا۔ ’’میری روزی روٹی چھین کر تمہیں کیا ملے گا؟ ایسے صاحب کی شاباشی جو تجھے اگست کی گرمی میں بھی پنکھا چلانے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
وہ کہہ تو ٹھیک ہی رہا تھا۔ساری عمر میں نے صاحب کی خدمت کرتے گزار دی مگر کیا اجر ملا اس وفاداری کا؟ سیاہ بے نیند راتیں اور بد قسمتی۔
’’اگر کوئی چور یا ڈاکو گھر میں گھس جائے تو؟ ہمارا کیا ہوگا؟ ‘‘ میں نے گارڈ سے یہ بھی پوچھا تھا۔
’’کیا ہونا ہے۔۔تمہارے اور میرے صندوق میں کون سے خزانے چھپے ہوئے ہیں جو چور اور ڈاکو ہماری طرف رُخ بھی کریں گے۔ انہیں جو چاہئے وہ تو صاحب کے پاس ہے جو دروازے بند کر کے اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں پرسکون نیند سو رہے ہیں۔‘‘ گارڈ نے جواب دیا۔
’’مگر پھر بھی۔۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’پھر بھی کیا۔۔یہ جو گیٹ پر اتنا بڑا تالا ہے کیا یہ کافی نہیں دہشت گردوں کو باہر رکھنے کے لئے؟‘‘
’’اور اگر وہ گیٹ پھلانگ کر اندر آگئے تو۔۔؟‘‘
’’تو پھر انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ میں اپنی زندگی صاحب کی رکھوالی کرنے میںنہیں کھونے والا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ مجھے ایسے ناشکرے صاحب کی رکھوالی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں جنہوں نے مجھے یہاں رکھا ہی اس لئے ہے کہ اگر کوئی ڈاکو یا چور سامنے آجائے تو میں ان کے لئے اپنی جان کی قربانی دے دوں۔نہ بابا نہ۔۔میں اپنی جان بچائوں یا ان کی۔۔‘‘
’’بہت خود غرض آدمی ہو تم۔۔‘‘
’’یہ خود غرضی نہیں سمجھ داری ہے۔ اور تم کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہو؟ یہ جوامیر لوگ اپنی حفاظت کے لئے بڑے بڑے گیٹ تعمیر کرتے ہیں، بڑی بڑی کمپنیز کے گارڈ بھرتی کرتے ہیں۔۔اندر ’’الارم سسٹم‘‘ لگواتے ہیں۔ یہ کیا سمجھتے ہیںکہ بہت محفوظ ہو گئے ہیں ؟ارے جب موت آنی ہوتی ہے نہ تو کوئی گیٹ کا تالایا گارڈ کی بندوق اُسے روک سکتی۔ بڑے بڑے محلوں میں خود کو قید کر کے حفاظت نہیں ملتی۔ جھوٹی تسلی ہی ملتی ہے۔‘‘
میں نے گارڈ کو اور زیادہ نہیں جھڑکا۔ یہ مناسب بھی نہیں تھا۔ حقیقت سے تو میں بھی واقف تھا۔ یہ بے چارہ پورا دن نوکری کر کے رات کو ’گارڈ‘ کی ’ڈیوٹی‘ پر آتا تھا۔ تو پھر پورے دن کی تھکن یہ جاگ جاگ کر تو نہیں اتار سکتا۔
آج جب گرمی کے مارے سر چکر ا رہا تھا تو اُسے دیکھ کر حسد ہونے لگا۔ اُسے نیند تو آرہی تھی۔ مجھے تو پوری رات صاحب نے اس کمبخت ’جنریٹر‘ کی وجہ سے جگائے رکھا۔ اب جسم تھکن سے ٹوٹ رہا تھا اور آنکھوں میں نیند بھری ہوئی تھی مگر اب سونے کا کیا فائدہ۔ یااللہ آگے کا دن کیسے گزرے گا۔
٭٭٭٭
صبح پانچ بج کر دس منٹ پر ڈرائیور پہنچااور ساتھ ہی پاگلوں کی طرح گیٹ کھٹکھٹانے لگا۔ نالائق گارڈ نے تو بے دار ہونا نہیں تھا اس لئے مجھے اُٹھ کر گیٹ کھولنا پڑا۔
’’یہ بے غیرت ایسے سوتا ہے، جیسے اپنے بیڈروم میں پڑا سو رہا ہو۔‘‘ ڈرائیو ر نے اندر آتے ہوئے کہا۔
’’سونے دو اُسے۔ پوری رات لائٹ گئی ہوئی تھی ۔ مجھ سے تو سویا نہیں گیا،اسی کی نیند پوری ہوجائے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کیا جنریٹر پھر خراب ہو گیا ہے ؟‘‘ ڈرائیور نے پوچھا۔
’’نہیں خراب تو نہیں ہوا مگر ’’لوڈ‘‘ زیادہ پڑ رہا تھا اس لئے صاحب نے منع کیا کہ میں اپنا پنکھا نہ چلائوں۔‘‘
ڈرائیو ر بہت ہنسا اور بولا: ’’اس لئے کہتا ہوں گاڑی چلانا سیکھ لے۔ ڈرائیور کی نوکری پھر بہتر ہوتی ہے۔ ہمیں اے سی کی وہ ٹھنڈی ہوا تو نصیب ہوتی ہے جسے تم جیسے بے چارے ترستے ہو۔‘‘
میں کچھ سمجھا نہیں اس لئے چپ رہا۔
’’ چلو پھر تم ’’کچن‘‘ میں کام کر کے پسینا پونچھتے رہنا۔ اے سی والے بیڈروم اور ڈرائنگ روم میں پانچ منٹ سے زیادہ بیٹھنے کی آس جو کبھی پوری نہیں ہوگی بلکہ جب چائے یا کھانا پیش کرنے اندر جاتے ہو تو ایک عجیب ہی کیفیت ہوتی ہوگی۔ بس چند سیکنڈ کے لئے جنت کی یہ ہواچھو کر باقی دن ترستے رہوگے۔ پورا دن بہانے ڈھونڈتے رہتے ہو کہ اے سی والے کمرے میں چند سیکنڈ کے لئے کیسے جا سکوں تاکہ تھوڑا پسینہ خشک ہوجائے۔مگر نوکر کی یہ حیثیت کہاں کہ وہ اس کمرے میں بیٹھ سکے جہاں اس کا صاحب بیٹھاہو۔ یہ دیکھ لے ہم ڈرائیورز کو ایسی کوئی حسرت نہیں۔گاڑی تو ایک ہی ہوتی ہے اور صاحب کو اے سی تو چلوانا ہے۔ اس کے بہانے ہم بھی دھوپ اور گرمی سے بچے رہتے ہیں۔‘‘
’’اور جب بیگم صاحبہ دکان میں جاتی ہیں پھر؟ تب تو تجھے اے سی بند کر کے گرمی میں بیٹھنا پڑتا ہوگا نا۔۔؟‘‘
’’جی نہیں ۔۔۔بیگم صاحبہ سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ گاڑی کبھی گرم بھی ہو۔ اس لئے وہ سختی سے کہہ جاتی ہیں کہ گاڑی کا اے سی چالو رہے تاکہ جب وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھیں تو گاڑی ٹھنڈی ہی ملے۔ ہم تو حکم مانتے ہیں بھائی۔۔اور اس حکم فرمانی میں ہمارا بھی بھلاہوجاتا ہے۔‘‘
دل تو چاہا رکھ کر ایک تھپڑ لگائوں اس منحوس ڈرائیور کو۔ ایسے مزے لے لے کر میرا دل جلا رہا تھا مگر پھر یہ بھی ایک احساس تھا کہ بات تو صحیح ہی کہہ رہا تھا۔
’’چل تو بیٹھ۔۔میں تیرے لئے چائے لاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں ابھی نہیں۔۔میں نہا کر وردی پہن لوں۔ ابھی تو بہت ٹائم ہے۔ شاید ایک گھنٹہ اپنی آنکھ بھی لگا لوں۔ چائے بعد میں پی لوںگا۔‘‘
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Read Next

بلا عنوان — نظیر فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!