جنریٹر — یاسر شاہ

وہ کوئی عام ایجاد نہیں تھی۔
منٹوں میں جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے والا ایک جادوئی آلہ تھا۔
ایک ہی بٹن دبانے سے انسان دوزخ کی آگ سے نجات پا کر ساتویں آسمان کے پرسکون بادلوں میں پہنچ جاتا تھا۔
کیسی ٹھنڈی ہوا تھی۔۔۔۔
ایسی ہوا جو گرمی سے چکرائے سر کو فوراََ آرام پہنچا دے۔ ایسی ہوا جو بدن کو چھوتے ہی سارے دن کی تھکن کو غائب کر دیتی تھی۔ محنت اور مشقت میں بہایا ہوا پسینہ جو جسم پر بدبودار کیچڑ بن کر چپک جاتا تھا وہ ایسے خشک ہوتا، کہ چِپ چِپ کرتے کپڑے تو دور کی بات ،پورا بدن روئی کی طرح ملائم محسوس ہونے لگتا۔
یہ ہوا نہیں یہ تو ایک نعمت تھی۔ جس کو میسر ہوجائے اس کو جینے کا مزہ آجائے۔
بس ایسی ہی ٹھنڈی ہوا میں چند گھنٹوں کے لئے آرام کرنا چاہتا تھا۔ اس ہی ٹھنڈی ہوا میں کچھ دیرسونے کی خواہش تھی۔
مجھے اپنے کیے پر نہ کوئی رنج ہے اور نہ ہی کوئی ندامت ۔۔
بس اب جائو۔۔مجھے کچھ اور گھنٹوں کے لئے اس نرم بستر پر اور ٹھنڈی ہوا میں کچھ دیر اور سونے دو۔
بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
میرے اندازے کے مطابق مجھے کوئی ڈیڑھ بجے نیند آئی ہوگی۔
یہ میں یقین سے اس لئے کہہ سکتا ہوں کیوںکہ پتا نہیں کس منحوس کی بد دعا لگی جو رات ایک یا ڈیڑھ بجے سے پہلے نیند آتی ہی نہیں۔ آنکھوں میں نیند بھری ہوتی اور بدن بھی تھکن سے ٹوٹتا مگر نہ جانے کیوں؟۔۔جیسے ہی ــ’’کوارٹر‘‘ میں آکر چارپائی پر لیٹا ہوں، یہ کم بخت نیند فوراََ بھاگ جاتی ہے۔
پوری رات کروٹیں بدل بدل کر خدا سے دعا کرتا رہتا ہوںکہ نیند آجائے۔ تھوڑی دیر کے لئے ہی آنکھ لگ جائے۔ کچھ نہیں تو ایک دو گھنٹے کی نیند ہی میسر ہوجائے بس اس کے بعد تو آگے تھکاوٹ ہی تھکاوٹ۔ صبح سویرے ، دن چڑھتے ہی اس تنور یعنی اپنے کوارٹر سے نکل کرصاحب جی اور بیگم صاحب کا ناشتہ بنانا ہوتا ہے اور یوں گرمی سے جلتے جسم اور نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ میں ایک اور دن گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔
ہمیشہ کی طرح آج رات بھی ٹھیک دو بجے مجھے بدتمیزی سے جگایا گیا۔’’انٹر کام‘‘ کی وہ منحوس ’’بیل‘‘ کانوں میں ایسے گونج رہی تھی جیسے کوئی صور پھونکا جا رہا ہو۔ اپنا سر کھجاتے اُٹھا تو فوراََ اندازہ ہوگیا کہ یہ جو آدھے گھنٹے کی نیند ملی غنیمت ہے۔ آگے کی رات اب بہت اذیت سے گزرے گی۔
پسینہ پونچھتے ہوئے میں نے انٹرکام اُٹھایا اور فرماںبرداری سے کہا: ’’جی صاحب جی‘‘
آگے سے وہ چلائے۔ ’’صاحب جی کا چاچا ۔۔کیا گھوڑے بیچ کر سوتے ہو تم جو تمہیں احساس نہیں کہ پچھلے بیس منٹ سے بتی گئی ہوئی ہے۔ گرمی سے براحال ہو رہا ہے ہمارا۔ جنریٹر خود آن ہوگا کیا؟‘‘
’’معاف کیجئے گا صاحب جی ۔۔۔پتا ہی نہیں چلا۔۔‘‘
’’ہاں پتا ہی نہیں چلا۔۔ہم جب پسینوں میں بھیگ بھیگ کر بیمار ہوجائیں گے تب احساس ہو گا تمہیں۔۔کیا ہم انسان نہیں۔۔ ؟ یا ہم گرمی میں پڑے پڑے مر جائیں؟ جائو فوراََ جا کر ’’جنریٹر‘‘ چلائو تاکہ ہمارا اے سی چل سکے۔ تم جانتے ہو صبح میری لاہور کی فلائٹ ہے۔ اگر میری نیند پوری نہیں ہوئی تو تمہارا وہ حشر کروں گا تم یاد رکھو گے۔‘‘
میں نے اپنے صاحب جی سے مزید معافیاں مانگیں اور پھر اپنی ٹوٹی چپلوں میں پائوں ڈال کر ’’جنریٹر‘‘ چلانے گیا۔ صاحب کی ڈانٹ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ غصے کے ساتھ اپنی قسمت پر ہنسی بھی آرہی تھی۔ صاحب فرمارہے ہیں ’’ہم انسان نہیں‘‘۔۔؟ پھر کہتے ہیں ’’میرا وہ حشر کریں گے کہ میں یاد رکھوںگا۔‘‘ اگر وہ انسان نہیںتو میں کیا۔۔؟ وہ تو پھر اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں آرام سے سوتے ہیں۔ بیس منٹ میں کون سا ان کا کمرہ اُبلنے لگا ہو گا، جو ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ اور میں۔۔؟ ایک ٹوٹے ہوئے ’’پیڈسٹل فین‘‘ کا رخ اپنی طرف کر کے پوری رات خاموشی سے گزار دیتا ہوں اور آج تک اپنی انسانیت پر کبھی شک نہیں کیا۔ آئے بڑے میرا برا حشر کرنے والے! اس گرمی میں تو رات مجھے گزارنی پڑتی ہے۔ اس سے زیادہ اور برا حشر کیا ہوسکتا ہے؟
ویسے یہ جنریٹر چلانا بھی بہت مشکل کام ہے۔ اس کو چلانے کے لئے بڑی جان چاہئے اور کوئی دو تین بار کشتی لڑوں تب جا کر یہ ’’جنریٹر‘‘ چلنے کا نام لیتا ہے۔ جب ایک بار ’’آن‘‘ ہو کر گرجتا ہے تو اس بات سے ہی خوشی ملتی ہے کہ اب صاحب جی اور بیگم صاحبہ چین سے سو سکیں گے۔
میں نے چہرہ اوپر کیا اور اے سی کی طرف دیکھا۔ واہ بھئی واہ۔۔جنریٹر بھی کتنی انوکھی ایجاد ہے، جو صرف امیروں کے لئے ہی بنائی گئی ہے۔ ہم جیسے غریب اسے باہر سے چلا ضرور سکتے ہیں مگر کمرے میں جا کر اس کی بدولت چلنے والے اے سی کی ٹھنڈی ہوا سے ہمیشہ محروم ہی رہ جاتے ہیں۔کبھی کبھار کھانا یا چائے پیش کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ کبھی خدا نے وفات کے بعد جنت کی کھڑکیاں ہمارے لئے بھی اگر کھولیں تو ضرور جنت میں بھی ہر جگہ ــ’’جنریٹر‘‘ اور اُن کی بدولت ’’اے سی‘‘ ہی لگے ہوں گے۔ جہاں چکراتے دماغ اور جلتے ہوئے جسم کو ہمیشہ ٹھنڈی ہوا کا سکون مل سکے گا۔
اوپر دیوارپر لگے اے سی سے دو چار پانی کے قطرے ٹپک کر میرے ہاتھ پر گرے۔ میں نے وہی قطرے اپنے منہ پر مل لئے۔ اس اے سی سے ٹپکتا ہوا پانی بھی کتنا مزے دا ر ہوتا ہے۔ چلو اگر اندر کی ٹھنڈی ہوا نہیں تو ان دو چار قطروں سے ہی سکون حاصل کرتے ہیں۔کچھ قطرے منہ پر ملے اور کچھ تو پی بھی لئے۔ واپس آکر میں نے اپنا معذور سا پنکھا چلایا اور دوبارہ آنکھ لگانے کی کوشش کی۔
٭٭٭٭
ڈھائی بجے کمبخت انٹر کام پھر بجنا شروع ہوا۔ اس بار صاحب کے لئے ایک موٹی سی گالی نکلی۔
’’ارے خبیث آدمی کیا کھا کر سوئے ہو جو تمہیں کسی چیز کا ہوش نہیں ‘‘صاحب جی پھر ’’انٹر کام‘‘ پر غرائے۔
آنکھیں ملتے ہوئے میں نے پہلے تو معافی مانگی پھر پوچھا ’’کیا ہوا صاحب جی۔۔؟؟‘‘
’’اوپر سے پوچھ رہے ہو کیا ہوا؟ ہوش نہیں تمہیں۔۔؟ پچھلے دس منٹ سے جنریٹر ٹرپ ہو چکا ہے اور اے سی بند ہے۔ جا کر دیکھو۔‘‘
’’جی میں ابھی دیکھتا ہوں۔۔‘‘
’’پٹرول کتنا ہے اُس میں ۔۔؟؟کم تو نہیں ہوگیا۔؟ کتنی مرتبہ کہا ہے کہ ہر رات جنریٹر کا پٹرول دیکھ کر سویا کرو‘‘۔
’’صاحب جی میں نے دیکھا تھا۔ پٹرول ختم نہیں ہوا ہوگا۔‘‘
’’تو پھر لوڈپڑ رہا ہوگا۔ تم نے تو اپنا پنکھا تو نہیں چلایا ہوا؟‘‘
میں نے فوراََ جھوٹ بولا ’’نہیں سر ۔۔میں نے نہیں چلایا‘‘
’’بکواس کرتے ہو۔سب جانتا ہوں تم لوگوںکی چالاکیاں۔۔یہ جنریٹر ہم نے اس لئے لگوایا ہے کہ رات کو صر ف ایک کمرے کا اے سی چل سکے۔ تمہیں اگر زیادہ گرمی لگتی ہے تو باہر صحن میں جا کر سو جایا کرو۔ کسی اور کمرے کی لائٹ نہیں جلنی چاہئے ورنہ ’جنریٹر‘ پر لوڈ پڑے گا۔ اب جائو فوراََ دیکھو کیا ہوا ہے؟‘‘
’’جی سر۔۔‘‘
پھر میں نے وہی کیا جس کا حکم مجھے دیا گیا۔ آنکھیں ملتے ہوئے نیند کی مد ہوشی میں جا کر ’’جنریٹر‘ ‘سے دوبارہ کشتی کی۔ جب وہ چل پڑا تو اس بار اپنا پنکھا چلائے بغیر گرمی اور پسینے میں ہی چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭٭
خدا کی شان میں گستاخی کبھی نہیں کرنی چاہئے مگر یا اللہ! یہ مچھر بھی کیا شے ہے؟ ایسی تخلیق کا مقصد ہی کیا جو آدمی کو صرف نقصان ہی پہنچاتی ہے۔ ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے علاوہ مچھروں نے اس دنیا کو دیا بھی کیا ہے؟ان کے وجود کا تو صرف ایک ہی مقصد ہے۔۔غریبوں کی راتیں کالی کرنا۔
پنکھے کے بغیر یہ مچھر انسان کو ایسے کھا تے ہیں جیسے کہ کوئی پرانا دشمن حملہ کر رہا ہو۔ جگہ جگہ کاٹ کاٹ کر اس نے جسم چھلنی کر دیا ۔ باقی جو کسر بچی تھی میں نے خود کو کھجا کھجا زخمی کر لیا۔
اگر مشکل سے کھجلی کو بھول کر ایک دو منٹ کے لئے آنکھ لگ بھی جائے تو پھر یہی مچھر کان میں بھنبھنا نا شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر مارنے کی کوشش کروتو اپنا تھپڑ خود ہی اپنے منہ ہی پر پڑتا ہے۔ ’’واہ بھئی واہ!‘‘ ہم بے قصور اپنے آپ کو ہی مار رہے ہیں۔
سمجھ نہیں آتاکہ اپنی بدقسمتی پر قہقہے لگائوں یا آنسو بہائوں۔۔
ان مچھروں سے تنگ آکر میں تین بجے باہر صحن میں جاکر لیٹ گیا۔ اگر مچھروں نے کاٹنا ہی ہے تو اس گرم کمرے میں رہنے کا کیا فائدہ۔ باہرصحن میں ہی جا کر اپنے ہتھیار ڈال دوں۔ کم از کم کوئی بھولی بھٹکی ہوا کا جھونکا تو مل جائے شاید۔
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)

Read Next

بلا عنوان — نظیر فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!