وہ شام کو چھ بجے گھر پہنچی۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی وہ ٹھٹک گئی۔ منصور کی گاڑی پورچ میں کھڑی تھی۔ وہ اس وقت گھر پر نہیں ہوتے تھے’ مگر اس وقت موجود تھے۔ رخشی کے نام کیے ہوئے گھر میں اب صاعقہ منتقل ہو چکی تھی اور بیٹے کی پیدائش کے بعد وہ چند دنوں سے صاعقہ کے پاس ہی تھی۔ منصور خود بھی وہیں رہ رہے تھے اور آج کل گھر نہیں آ رہے تھے مگر اس وقت وہ گھر پر موجود تھے۔
اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھتے ہوئے وہ لاؤنج میں داخل ہوئی۔ منصور سامنے صوفہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ صبغہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اسے ان کا چہرہ پڑھنا آ گیا تھا اور وہ اس وقت ان کے چہرے کو پڑھ رہی تھی۔ ان کی آنکھیں صبغہ پر جم گئی تھیں۔ ان کے ماتھے پر سلوٹیں تھیں۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے صوفے پر بیٹھے تھے اور انہوں نے صبغہ کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر بھی اٹھنے کی یا کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اس پر نظریں جمائے اسے اندر آتا دیکھتے رہے۔ صبغہ ان سے نظریں چرا گئی تھی۔ کچھ اور اندر آنے پر اس نے منصور کو سلام کیا۔
”تم کہاں سے آ رہی ہو؟” انہوں نے کا جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا۔
وہ رک گئی۔ صوفے کی پشت پر اپنے ہاتھ رکھ کر اس نے ان کی کپکپاہٹ روکنے کی کوشش کی۔
”میں مارکیٹ گئی تھی کچھ چیزیں لینے کے لیے۔” صبغہ نے کہا پھر کہنے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا’ وہ خالی ہاتھ تھی۔
”کہاں ہیں وہ چیزیں؟” ان کی آواز میں ٹھنڈک تھی۔
”میں کارڈ لینے گئی تھی۔” صبغہ نے فق ہوتی ہوئی رنگت کے ساتھ کہا۔
”پسند نہیں آئے’ اس لیے واپس آ گئی۔”
”اور یہ کارڈ تمہیں …۔” وہ اب اسے اس کلینک کا ایڈریس بتا رہے تھے’ جہاں پر امبر ایڈمٹ تھی۔ صبغہ کا حلق خشک ہو گیا۔ منصور اب اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
”پاپا ! میری بات تو سنیں۔” اس نے منصور کو کھڑے ہوتے دیکھ کر کہا۔
”نہیں ‘ اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ تم امبر اور اس کی ماں سے ملوگی تو میں تمہیں اس گھر سے نکال دوں گا۔”
”پلیز پاپا …” وہ گڑگڑائی۔ منصور نے بات جاری رکھی۔
”اور تم صرف ان دونوں سے نہیں بلکہ اس کمینے سے بھی مل کر آئی ہو۔” وہ چلا نہیں رہے تھے’ صرف بلند آواز میں بول رہے تھے۔
”میں اس سے ہمیشہ کے لیے ہر تعلق توڑ کر آئی ہوں’ میں صرف اس لیے وہاں گئی تھی۔” صبغہ نے بے اختیار کہا۔
”تم جس کام کے لیے بھی گئی تھیں’ کیوں گئی تھیں؟ میری آنکھوں میں دھول جھونک کر … نہیں … صبغہ! تم ابھی اور اسی وقت رابعہ اور زارا کو لو اور اس گھر سے چلی جاؤ۔”
”پاپا! پلیز … پلیز میری بات سنیں۔” وہ ایک بار پھر گڑگڑائی۔
”میں تمہارے ساتھ وہ نہیں کرنا چاہتا جو میں نے امبر اور اس کی ماں کے ساتھ کیا۔ روؤ یا چلاؤ جو چاہے کرو مگر یہاں سے چلی جاؤ۔ ابھی اور اسی وقت۔” منصور علی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
وہ کپکپاتے ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹتی انہیں دیکھتی رہی۔ وہ اب اس کے بالکل سامنے کھڑے تھے۔
”ٹھیک ہے’ میں چلی جاتی ہوں مگر رابعہ اور زارا کیوں … انہوں نے تو کچھ نہیں کیا۔” اس نے بالآخر کہا۔
”مگر میں انہیں بھی نہیں رکھوں گا۔ وہ اوپر اپنا سامان پیک کر رہی ہیں’ تم بھی کرو اور چلی جاؤ۔”
”اگر رابعہ اور زارا میرے ساتھ جائیں گی تو پھر روشان بھی جائے گا۔ وہ بھی یہاں نہیں رہے گا۔” اسے یقین تھا منصور علی اس کی اس بات پہ تڑپ اٹھیں گے اور اس سے کہیں گے کہ وہ روشان کو نہیں لے جا سکتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا’ انہوں نے بڑے اطمینان سے ہاتھ کو جھٹکا اور سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔ ”روشان کو لے جانا چاہتی ہو’ لے جاؤ۔ مجھے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔”
اور پھر انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے بلند آواز میں روشان کو پکارا۔ ”روشان … روشان …”
وہ چند لمحوں میں سیڑھیوں میں نمودار ہوا۔
”یہ تینوں اس گھر سے جا رہی ہیں۔ تم اگر جانا چاہتے ہو تو تم بھی چلے جاؤ … اور دوبارہ کبھی اس گھر میں مت آنا۔” روشان ریلنگ پکڑے گم صم سیڑھیوں پہ کھڑا رہا۔ صبغہ نے منصور کو دیکھا۔
”ہم نہیں آئیں گے … کبھی نہیں آئیں گے۔’و وہ تیز قدموں سے سیڑھیوں کی طرف گئی اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
”آؤ روشان! سامان پیک کریں۔” روشان کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچا۔
روشان نے بازو چھڑا لیا۔ صبغہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے رک گئی۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ وہیں کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ نیچے لاؤنج میں کھڑے منصور کو دیکھ رہا تھا۔
”کیا ہوا؟” صبغہ نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔” اس نے صبغہ کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”تو پھر آؤ … آ کیوں نہیں رہے؟” صبغہ نے دوبارہ اس کا بازو تھاما۔
”میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا صبغہ!” اس نے جیسے صبغہ کے کانوں میں سیسہ انڈیلا تھا۔ صبغہ نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ ایک بار پھر اس کے ہاتھ سے اپنا بازو چھڑوا رہا تھا۔
”میں یہیں رہوں گا ‘ تم لوگ چلے جاؤ۔” وہ کہتے ہوئے رکا نہیں’ بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
صبغہ پتھر کے بُت کی طرح وہیں کھڑی رہی۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس کا رنگ فق تھا۔ روشان غائب ہو چکا تھا۔ صبغہ نے پلٹ کر نیچے لاؤنج میں دیکھا۔ منصور کمر پر دونوں ہاتھ رکھے فاتحانہ انداز میں کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
ایک لمحے کے لیے زمین جیسے اسے اپنے پیروں کے نیچے سے نکلتی محسوس ہوئی تھی۔ ریلنگ پر ہاتھ رکھ کر اس نے خود کو سہارا دیا۔
”تم نے دیکھ لیا۔ روشان تم لوگوں کے ساتھ نہیں جانا چاہتا’ وہ اسی گھر میں رہنا چاہتا ہے۔”
منصور علی نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ صبغہ اس قدر صدمے کی حالت میں تھی کہ وہ منصور علی کی بات پر کسی ردعمل کا اظہار بھی نہیں کر سکی۔ دم سادھے صرف انہیں دیکھتی رہی۔
”ان دونوں کو ساتھ لو اور یہاں سے چلی جاؤ۔ ڈرائیور تم تینوں کو تمہاری ماں کے پاس چھوڑ آئے گا۔”
صبغہ نے مڑ کر ایک بار پھر روشان کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا پھر وہ خالی الذہنی کے عالم میں سیڑھیاں چڑھتی گئی۔
رابعہ اور زارا کے کمرے کا دروازہ کھولنے پر اس نے انہیں بندھے سامان کے ساتھ متوحش پایا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر اس کی طرف آ گئیں۔ صبغہ نے اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کی۔
”تم دونوں نے اپنا سامان پیک کر لیا ہے؟” اس نے اپنی آواز کی کپکپاہٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”پاپا! ہمیں کیوں نکال رہے ہیں؟ ہم نے کیا کیا ہے؟ زارا نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے روہانسی آواز میں پوچھا۔
”یہ سوال جواب ہم بعد میں کریں گے۔” صبغہ نے ہونٹ بھینچ کر کہا۔ ”ابھی تم لوگ اپنا سامان پیک کر لو۔”
”ہم نے کر لیا ہے۔” رابعہ نے کہا۔ وہ صبغہ کے چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
”ہم دوبارہ یہاں کبھی نہیں آ سکیں گے’ نہ ہی کوئی چیز منگوا سکیں گے’ اس لیے اپنی تمام چیزیں ساتھ لے چلو۔” صبغہ نے انہیں ہدایت دی۔ ”میں اتنی دیر میں اپنا سامان پیک کر لیتی ہوں پھر تم لوگوں کے پاس آتی ہوں۔” وہ مڑ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
اپنے کمرے میں سوٹ کیس کھول کر وہ بہت دیر تک بے مقصد اس کے پاس کھڑی رہی۔ وہ اس کی زندگی کا ایک اور بھیانک دن تھا۔ کچھ چیزوں کو اس نے اپنے ہاتھ سے گنوایا تھا۔ باقی چیزیں اس سے چھین لی گئی تھیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے روشان کا نفی میں ہلتا سر تھا۔ وہ اپنے انکل کے گھر جانے پر ان کے تاثرات کو یہیں کھڑے کھڑے دیکھ سکتی تھی۔ وہ کلینک میں ایک بستر پر بیٹھی امبر کو دیکھ سکتی تھی اور پھر چہروں کی ایک لمبی قطار تھی جو اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی تھی۔ اس نے زندگی میں کبھی شطرنج نہیں کھیلی تھی۔ اسے صرف آسان اور سادہ کھیل میں دلچسپی تھی اور اسے قسمت نے شطرنج کی بساط پر بٹھا دیا تھا’ جہاں اس کے سامنے کھڑا ہر مہرہ اسے پیٹنے کے لیے تیار تھا۔ اسے صرف قدم بڑھانا تھا۔ صرف ایک چال چلنی تھی اور ہر چال کا انجام اسے پہلے ہی نظر آ رہا تھا۔ مات ہر خانے میں اس کا انتظار کر رہی تھی۔
زندگی میں پہلی بار وہ مکمل شکست کے گھپ اندھیرے میں جا کھڑی ہوئی تھی اور پہلی بار اسے اپنی حالت پر رونا نہیں آرہا تھا۔ وہ کس کس بات پر آنسو بہا سکتی تھی اور کب تک۔
کھلی وارڈ روب کے پٹ پر ہاتھ رکھے وہ کچھ دیر پہلے کی کیفیت کو سر سے جھٹکنے کی کوشش کرتی رہی پھر اس نے وارڈ روب سے اپنا سامان نکالنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے پاس موجود تمام قیمتی چیزیں نکال رہی تھی۔ زیورات’ نقدی’ پرائز بانڈز’ سرٹیفکیٹس’ گھڑیاں’ کیمرے۔ اس نے بہت کم کپڑے بیگ میں رکھے تھے۔ اس کا بیگ صرف ان چیزوں سے بھرا ہوا تھا’ جنہیں وہ ضرورت کے وقت استعمال کر سکتی تھی۔
آدھے گھنٹے کے بعد وہ رابعہ اور زارا کے کمرے میں آ گئی۔
”تم اپنے بیگ اٹھا لو’ ہم یہاں سے جا رہے ہیں۔”
اس نے اندر آتے ہی ان دونوں سے کہا۔ رابعہ اور زارا نے اپنے سوٹ کیس کھینچنے شروع کر دیے۔ صبغہ نے ان کی مدد کرنے سے پہلے ان کی وارڈ روب اور درازوں کو اچھی طرح چیک کیا۔ ان سے مختلف چیزوں کے بارے میں پوچھا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اپنی ضرورت کی تمام چیزیں پیک کر چکی ہیں تو اس نے ان کے بیگز دروازے سے باہر رکھ دیے’ جہاں اس کا اپنا سامان پہلے ہی رکھا ہوا تھا۔ منصور اب نیچے لاؤنج میں نظر نہیں آ رہے تھے۔ روشان کے بیڈ روم کا دروازہ بند تھا۔
”روشان بھائی نے ابھی سامان پیک نہیں کیا۔؟” رابعہ نے روشان کے کمرے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
صبغہ نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا۔ ”روشان نہیں جا رہا۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”کیوں ؟” رابعہ نے جیسے حیران ہو کر پوچھا۔
”وہ یہیں رہنا چاہتا ہے۔”