تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”بلکہ آپ اسی وقت مجھے فون کر کے بلوالیں۔” اسامہ نے کہا۔
”میں تمہیں بلوالوں گی۔ تم فکر مت کرو … اور دیکھو تم اسے طلاق مت دینا۔” منیزہ نے کہا۔
”منصور پاگل ہو چکا ہے’ اس کو نظر ہی نہیں آ رہا کہ وہ کس کس کا گھر تباہ کر رہا ہے۔ مگر تم تو سمجھ دار ہو۔ صورت حال کو سمجھ سکتے ہو۔”
”میں جانتا ہوں … اسی لیے تو آپ سے رابطہ کیا ہے میں نے ؟” اسامہ نے مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں کہا۔ اس کا مسئلہ منیزہ سے بات کر کے بھی حل نہیں ہوا تھا۔ اور وہ ذہنی طور پر اور الجھ گیا تھا۔
”آپ بس خیال رکھیں کہ وہ آپ کے پاس آئے تو آپ اس سے میری بات کروائیں۔” اسامہ نے فون بند کرنے سے پہلے منیزہ کو ایک بار پھر تاکید دی۔
منیزہ نے اسے یقین دلایا کہ وہ یہی کریں گی۔ فون رکھ کر اسامہ اپنے کمرے میں پھر چکر لگانے میں مصروف ہو گیا۔
٭٭٭
اسامہ سے بات کرنے کے بعد منیزہ خود بھی بہت پریشان ہو گئی تھیں۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ منصور علی کے گھر میں اس طرح کی صورت حال تھی اور انہیں حیرانی تھی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود صبغہ نے اسے کیوں کچھ نہیں بتایا۔ اس نے اسامہ سے خلع کا فیصلہ کیوں کر لیا۔ وہ جانتی تھیں خلع کا یہ فیصلہ منصور علی کے دباؤ کی وجہ سے ہوا ہو گا’ مگر پھر بھی صبغہ کو منصور علی کی بات نہیں ماننی چاہیے تھی’ یا کم از کم وہ ان سے مشورہ تو کر سکتی تھی۔
وہ اسی پریشانی میں امبر کے پاس کمرے میں لوٹ آئیں۔
”کس کا فون تھا؟” امبر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ان سے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ منیزہ جواب میں کچھ کہتیں۔ امبر نے کہا۔ ”ہارون کا؟”
”نہیں۔” منیزہ نے محسوس کیا’ جیسے وہ یک دم مایوس ہوئی تھی۔
”آج ہارون نہیں آیا۔ پتہ نہیں’ کیا بات ہے؟” وہ بڑبڑائی۔ وہ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر گلدان میں لگے ہوئے ان پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔ جو ہارون کمال پچھلی رات کو لایا تھا۔
پچھلے ایک ہفتے سے وہ روز آ رہا تھا۔ امبر کے لیے پھول لاتا’ کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ کرتا اور چلا جاتا۔ منیزہ کو لگ رہا تھا ہارون کمال کے آنے سے وہ بہتر محسوس کرتی ہے۔ وہ ہارون کمال کی باتوں کا جواب دینے لگی تھی۔ آج وہ ایک ہفتہ کے بعد پہلی بار نہیں آیا تھا’ اور امبر نے اس کی عدم موجودگی کو محسوس کیا تھا۔
منیزہ صوفے پر جا کر بیٹھ گئیں۔ ہارون کمال کی روزانہ آمد کو انہوں نے کوئی معنی پہنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کیونکہ انہیں اس کے انداز میں کچھ بھی قابل اعتراض محسوس نہیں ہوا تھا۔ بلکہ انہیں اس کی اس طرح آمد ایک سہارا محسوس ہوئی تھی۔ اگرچہ انہوں نے صبغہ سے ہارون کمال کی آمد کا ذکر نہیں کیا تھا۔ مگر امبر میں آنے والی تبدیلی کو صبغہ نے بھی دو دن پہلے محسوس کیا تھا۔




”امبر بہتر ہو رہی ہے۔” دو روز پہلے جاتے ہوئے اس نے تبصرہ کیا تھا۔
”ہاں بہتر ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ اگر اسی طرح بہتر ہوتی گئی تو ایک دو ہفتے تک اس کو ڈسچارج کر دیں گے۔”
منیزہ نے اسے اطلاع دی’ مگر انہوں نے تب بھی ہارون کمال کا ذکر نہیں کیا۔ جس نے پچھلے ہفتے ڈاکٹر کے تمام ڈیوز کلیئر کر دیے تھے۔ شاید غیر شعوری طور پر انہوں نے دانستہ صبغہ سے یہ بات چھپائی تھی کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ وہ ہارون کمال کی اس امداد کو اتنے آرام سے قبول نہیں کرے گی۔ اور اب وہ سوچ رہی تھیں کہ اس ساری صورت حال کے بارے میں ہارون کمال کو آگاہ کیا جائے۔ وہ منصور علی پر دباؤ ڈال سکتا تھا کہ وہ صبغہ کی خلع کے بارے میں اس طرح کا فیصلہ نہ کرے۔ مگر یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس رات ہارون کمال نہیں آیا۔ اور اگلے دن اس کے آنے سے پہلے صبغہ آ گئی۔
منیزہ اس کو دیکھتے ہی اسے کلینک کے لان میں لے گئیں۔ وہ امبر کے سامنے اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
”منصور علی نے اسامہ کو خلع کا نوٹس بھجوایا ہے؟” منیزہ نے چھوٹتے ہی صبغہ سے پوچھا ۔
اس کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یقینا وہ بے خبر نہیں تھی۔ منیزہ نے اندازہ لگایا۔
”آپ سے کس نے کہا ہے؟” اس نے مدھم آواز میں منیزہ سے پوچھا۔
”اسامہ نے …” صبغہ نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔
”وہ آیا تھا یہاں؟”
”نہیں اس نے فون کیا تھا’ کل رات کو۔ وہ کہہ رہا تھا تم نے اسے یہاں کا نمبر دیا تھا۔”
”ہاں میں نے ہی دیا تھا۔ چند ہفتے پہلے ۔ وہ امبر کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا۔” صبغہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”منصور نے تم سے پیپرز پر زبردستی سائن کروائے ہوں گے؟” منیزہ نے تلخی سے پوچھا۔ ”میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں اسے۔”
”نہیں ممی … کوئی زبردستی نہیں ہوئی۔ میں نے خود سائن کیے ہیں۔”
”کیوں کیے ہیں؟” منیزہ نے غصے سے کہا۔
”اگر میں یہ نہ کرتی تو … تو پاپا ہم سب کو گھر سے نکال دیتے۔” وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔ ”میرے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا۔”
”دیکھا … میں نے کہا تھا نا اس نے زبردستی کی ہو گی۔” منیزہ نے کہا۔
”نہیں ممی’ انہوں نے زبردستی نہیں کی۔ انہوں نے بس چوائس مجھے ایسی دی تھی کہ میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔”
”اور تم … تم ڈر گئیں۔ تم نے فوراً سائن کر دیے۔”
”آپ کا خیال ہے کہ میں سائن نہ کرتی تو کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ہمیں گھر سے نہ نکالتے۔”
”نکال دیتا تو … کیا ہو جاتا۔ تم میرے پاس آ جاتیں۔”
”آپ کے پاس کہاں …۔ آپ کے بھائی کے گھر…؟” صبغہ کا لہجہ سپاٹ تھا۔
”وہ صرف میرے بھائی کا گھر نہیں ہے’ میرا گھر بھی ہے۔ کتنی بار بتاؤں تمہیں۔”
”گھر اس کا ہوتا ہے’ جس کے نام ہوتا ہے اور وہ ان کے نام ہے۔ میں آپ کے لیے مزید مسائل پیدا کرنا نہیں چاہتی تھی۔”
”اس لیے تم نے اپنے لیے مسائل پیدا کر لیے۔”
صبغہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ”کچھ نہیں ہوتا’ طلاق سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ امبر کو بھی تو ہوئی ہے۔”
اور اس کی حالت دیکھ رہی ہو تم؟”
”میرے ساتھ وہ سب کچھ نہیں ہو گا۔ میں تو خود طلاق لے رہی ہوں۔”
”اسامہ کا کیا ہو گا’ تم نے سوچا … اس بے چارے نے کتنا ساتھ دیا تمہارا۔”
”کچھ نہیں ہو گا ممی … اس کو کیا فرق پڑے گا۔ کوئی اور مل جائے گی اسے۔”
”اور تم … تمہیں …؟” منیزہ بات کرتے کرتے رک گئیں۔
”مجھے بھی کوئی اور مل جائے گا۔ اسامہ دنیا کا واحد آدمی تو نہیں ہے۔”
”مگر تم اور اسامہ تو ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔”
”میں اپنی محبت کے لیے اپنے بھائی بہنوں کو سڑک پر لا کر نہیں بٹھا سکتی۔” صبغہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تم سمجھتی ہو تم یہ سب کرو گی تو منصور تمہیں گھر سے نہیں نکالے گا’ بھول ہے یہ تمہاری۔ وہ تمہیں بھی گھر سے نکال دے گا۔ اس کے نزدیک کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔”
”ممی ! جب وہ وقت آئے گا’ تب دیکھا جائے گا۔ فی الحال تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔”
”اسامہ تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔”
”بات کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اسے سمجھا دیں۔”
”وہ چاہتا ہے۔ تم یہاں آؤ’ تو میں اسے بھی بلوالوں۔”
”نہیں ممی! آپ ایسا مت کریں۔ میں اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔” صبغہ نے نفی میں سرہلا دیا۔
”صبغہ ایک بار پھر سوچ لو۔”
”ممی! اب سوچنے کا وقت گزر چکا ہے۔” وہ افسردگی سے مسکرائی۔
”میں طلاق یافتہ ہوں۔ اس لیے جانتی ہوں کہ طلاق کا زخم کیا ہوتا ہے۔ یہ جو لوگ ہوتے ہیں نا’ مار دیتے ہیں’ اپنی زبانوں سے۔ جینے نہیں دیتے۔”
”جینا چاہتا بھی کون ہے … میں …؟ امبر …؟ باقی سب …؟ کوئی جینا نہیں چاہتا۔ بس اب جیسے گزرتی ہے اسے گزرنے دیں۔ زبان کے کانٹوں سے میں نہیں ڈرتی۔ آپ بھی مت ڈریں۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”تم کتنی بدل گئی ہو صبغہ! تم ایسی تو کبھی نہیں تھیں۔ اتنی بڑی کیسے ہو گئیں؟”
منیزہ نے نم آلود آنکھوں سے اسے دیکھا۔ اس کا دل چاہا وہ کہے۔
”میں بڑی نہیں’ بوڑھی ہو گئی ہوں۔”
”وقت سب سکھا دیتا ہے ممی! ” صبغہ کی آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
”وہ بھی جو ہم سیکھنا چاہتے ہیں او وہ بھی جس سے ہم بھاگتے ہیں۔ ہر چیز سکھا دیتا ہے۔ خدا حافظ۔” وہ پلٹ گئی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!