تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

مسعود علی نے بھی مداخلت کرنا ضروری سمجھا۔ ”امبر کی طرح حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماں کے ساتھ نہیں گئی اور تم … تم… سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے لیے ہر چیز کو ٹھوکر مار دے گی۔”
”میں جب تک اس سے بات نہیں کر لیتا۔ تب تک …” اسامہ اب فون کا ریسیور اٹھائے پریشان انداز میں ان سے کہہ رہا تھا۔
مسعود علی نے اس کی بات کاٹی۔ ”تب تک تم ہماری بات پر یقین نہیں کرو گے۔ مت کرو…” انہوں نے بلند آواز میں کہا۔ ”تمہیں تو خلع ہو جانے کے بعد بھی یقین نہیں آئے گا کہ خلع ہو چکی ہے۔”
اسامہ نے کچھ نہیں کہا۔ وہ نمبر ملانے کے بعد اب دوسری طرف فون کے اٹھائے جانے کا انتظار کر رہا تھا۔
چند لمحوں تک بیل ہوتے رہنے کے بعد دوسری طرف سے ملازم نے فون اٹھایا۔
”میں اسامہ بول رہا ہوں۔ صبغہ سے میری بات کرواؤ۔”
”صاحب نے منع کیا ہے صبغہ بی بی سے بات کروانے سے۔”
دوسری طرف سے ملازم نے کہا۔ اسامہ بے اختیار پچھتایا۔ پریشانی میں وہ ملازم سے اپنا تعارف کروا گیا تھا۔ ورنہ پچھلے کچھ عرصہ سے وہ ہمیشہ آواز بدل کر صبغہ کا دوست بن کر اسے بلانے کے لیے کہتا اور ملازم ہمیشہ صبغہ کو بلا لیتا۔
”دیکھو’ مجھے اس سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ تم اسے بلادو۔” اس بار اسامہ کے لہجے میں غیر محسوس طور پر نرمی اور لجاجت آ گئی۔
”اسامہ صاحب! میں آپ کی بات نہیں کروا سکتا۔ صاحب کہتے ہیں کہ آپ یہاں فون نہ کیا کریں۔”
ملازم نے کھردرے انداز میں کہا اور فون رکھ دیا۔ اسامہ نے ہونٹ کاٹے وہ فوری طور پر دوبارہ فون کر کے آواز بدل کر صبغہ کو بلوانے کے لیے کہہ سکتا تھا۔ مگر ملازم کو شک ہو سکتا تھا اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ آئندہ وہ کسی دوست کے کہنے پر بھی اسے بلانا بند کر دے۔
”کیوں … ہو گئی بات ؟”ریسیور رکھتے ہی شبانہ نے دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ”اسامہ نے جواب نہیں دیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں فون کے آس پاس ٹہلتا رہا۔
”اسی ذلت اور خواری سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے’ تمہیں اور اپنے آپ کو۔” مسعود علی نے کہا۔ ”مگر تم پر تو بھوت سوار تھا۔’ اس کے عشق کا۔” وہ استہزائیہ انداز میں ہنسے۔
”بیوی ہے میری’ ممی میں اسے اس طرح نہیں چھوڑ سکتا۔” شبانہ نے اس کی نقل اتاری۔ ”اب کیا ہوا اس بیوی کو … دیکھ لیا تم نے کہ اس کے نزدیک تمہاری یعنی اپنے شوہر کی کیا وقعت ہے۔”




”پلیز ممی چپ ہو جائیں۔” اسامہ اس بار برداشت نہیں کر سکا۔ ”میں پہلے ہی پریشان ہوں اور آپ دونوں میری پریشانی میں اضافہ کر رہے ہیں۔”
”پریشانی تو ابھی شروع ہونی ہے تمہاری۔” مسعود علی نے تلخی سے کہا۔ ”جب کورٹ کچہری کے چکر لگنے شروع ہوں گے تو تمہیں دانتوں تلے پسینہ آ جائے گا۔” انہوں نے کہا۔
”دینی تو تمہیں طلاق ہی تھی’ خود دیتے تو کم از کم عزت ہوتی۔ خاندان میں کہ ہم نے چھوڑا اس کی بیٹیوں کو۔” ان کی آواز بلند ہو گئی۔ ”اب وہ ہر ایک کو بتائے گا کہ اس نے کس طرح ہم سے جان چھڑائی۔ ہم اور ہمارا بیٹا تو اس کے پاؤں پڑ رہے تھے کہ نہیں منصور یہ طلاق مت ہونے دو۔ ہمارے بیٹے کو اپنا داماد رہنے دو۔”
”یہ رشتہ آپ کی پسند’ آپ کی مرضی سے ہوا تھا۔” اسامہ سے مسعود کا انداز برداشت نہیں ہوا۔ ”میں نے گھر سے بھاگ کر اس سے شادی نہیں کی تھی۔” وہ بول رہا تھا۔ ”نہ آپ کی منتیں کی تھیں کہ آپ اس لڑکی سے میرا نکاح کریں۔ پھر اس طرح کے طنز کیوں کر رہے ہیں مجھ پر۔”
”ہم نے رشتہ جوڑا تھا تو ہمیں توڑنے دیتے۔ اتنی طرف داری کیوں کی تم نے اس کی۔” شبانہ نے تیز آواز میں کہا۔ ”ماں باپ کو دو کوڑی کا کر دیا اس کے سامنے۔ اب دیکھا کیا صلہ پایا۔”
”تمہارے جیسے لڑکے یہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ تو عقل سے پیدل ہیں’ تم لوگ زیادہ ذہین ہو۔ رشتوں اور زمانے کے رواجوں کو ان سے زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہو۔” مسعود علی کہہ رہے تھے۔ ”تمہارا تو چچا تھا میرا تو بھائی تھا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کس فطرت کا ہے۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔” وہ بولتے جا رہے تھے۔
”جانتا تھا’ وہ یہی کچھ کرے گا اور اسی طرح کرے گا۔ اسی لیے کہہ رہا تھا کہ طلاق دے دو’ اس کی بیٹی کو۔ تمہارا رشتہ اس سے کہیں اچھے خاندان میں کر دیتا’ مگر تم تو چپکے رہنا چاہتے تھے اس کے ساتھ۔” منصور علی کا دم چھلا بن کر … کروڑپتی سسر کے داماد کا ٹھپہ لگوا کر۔ اب بھگتو اپنے لالچ کی سزا۔” مسعود علی نے کہا۔
”میں لعنت بھیجتا ہوں’ اس کروڑپتی سسر پر اور اس کی دولت پر۔” اسامہ تلملایا۔
”یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ اس سے چپکے رہنے کے لیے میں صبغہ کو طلاق نہیں دے رہا تھا۔ اپنے بھائی کی دولت میں آپ کو دلچسپی تھی’ مجھے نہیں۔”
”بکواس مت کرو۔” منصور علی دھاڑے۔
”آپ نے دولت کے لیے ہی رشتے جوڑے … اب روپیہ ملنے کے آثار نہیں رہے تو ایک رشتہ خود توڑ دیا۔ دوسرا رشتہ مجھ سے تڑوانے کی کوشش کی۔ پھر مجھے کیوں لالچی کا خطاب دے رہے ہیں۔” اسامہ اب اشتعال میں آ گیا۔
”میرے کون سے مربعے چھین کر لے گیا ہے آپ کا بھائی … کچھ نہیں ملا تو آپ کو ہی نہیں ملا۔”
چند لمحوں کے لیے مسعود اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔ پھر شبانہ نے کہا۔
”تم دونوں کو اب آپس میں لڑنے کی ضرورت نہیں ہے’ جو ہو گیا ‘ سو ہو گیا۔” انہوں نے جانتے بوجھتے مصالحانہ انداز اختیار کیا۔ ”اسامہ! تم ابھی طلاق لکھ کر اسے بھجوا دو’ تاکہ یہ معاملہ ختم ہو جائے۔ جان چھوڑو اس کی’ بلکہ سر سے اتارو اس بلا کو۔”
”میں جب تک صبغہ سے بات نہیں کر لیتا’ میں اسے طلاق نہیں دے سکتا۔” اسامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”دیکھا … دیکھا تم نے اپنے بیٹے کو … یہ اسے نہیں چھوڑے گا۔ وہی اس کو دھتکاریں گے۔” مسعود علی کو پھر طیش آیا۔
”آخر تم سننا کیا چاہتے ہو صبغہ سے ؟” شبانہ کو بھی غصہ آ گیا۔ ”یہی کہ وہ تم سے خلع چاہتی ہے۔ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔”
”میں جانتا ہوں’ وہ کبھی یہ نہیں کہے گی۔” اسامہ اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”خلع کا یہ نوٹس منصور نے اس کے سائن کیے بغیر بھجوا دیا ہے۔” مسعود علی تیز آواز میں بولے۔
”ہاں ایسا ہی ہوا ہو گا۔” اس بار شبانہ نے اپنے’ ماتھے پر ہاتھ مارا۔ ”کاش کہ طلحہ کی طرح تمہارے پاس بھی تھوڑی بہت عقل ہوتی۔”
”تاکہ آپ مجھے ساری زندگی ضرورت پڑنے پر کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتے ہوئے میری خرید و فروخت کا کام اپنی مرضی کی قیمت پر کر سکتے۔” اسامہ نے زہریلے انداز میں کہا اور جھپاک سے لاؤنج سے نکل گیا۔
مسعود اور شبانہ اس کے جملے پر سلگے۔ ”انداز دیکھا تم نے اس کا۔” مسعود نے شبانہ سے کہا۔
”یہ سب آپ کا قصور ہے۔ آپ کو ہی شوق تھا اپنے بھائی کے ہاں یہ رشتے کرنے کا۔” شبانہ نے مسعود علی کو الزام دیا۔
”مجھے شوق تھا’ یا تمہیں شوق تھا۔ کس نے مجبور کیا تھا ان رشتوں کے لیے مجھے۔” مسعود علی کو اس بار شبانہ پر غصہ آیا۔
”ہاں ہر کام آپ میری مرضی سے ہی کرتے ہیں۔ ساری عمر فرماں بردار ہو کر تو گزاری ہے آپ نے۔” شبانہ کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔
”ہاں میں ہی احمق تھا کہ تمہاری خواہش پر اس مصیبت میں پھنس گیا۔ نہ میں تمہاری بات سنتا’ نہ منصور کے ساتھ کاروبار کا سوچتا۔ … اپنا کام کر رہا ہوتا تو آج میں اور میرے بیٹے اس حالت میں نہ ہوتے۔” مسعود علی نے بھی بدلہ چکایا۔ شبانہ لاؤنج سے نکلتے نکلتے واپس پلٹیں۔
اگلا ایک گھنٹہ ان کے درمیان جھگڑے میں گزرا۔ جب کہ اوپر اپنے کمرے میں اسامہ مسلسل صبغہ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر صبغہ سے رابطہ کرنے میں ناکام ہونے پر اس نے بالآخر منیزہ کو فون کیا۔
منیزہ کو اس کال پر حیرانی ہوئی تھی۔ وہ امبر کے ساتھ کلینک پر ہی تھیں اور اسامہ نے اس سے پہلے امبر کا حال احوال دریافت کرنے کے لیے فون کیا تھا’ نہ ہی وہ وہاں آیا تھا۔ مگر اب اچانک اس کی کال آنے پر وہ قدرے تشویش میں مبتلا ہو گئیں۔ اور ان کی یہ تشویش صحیح ثابت ہوئی تھی۔ اسامہ نے کسی تمہید کے بغیر انہیں خلع کے نوٹس کے بارے میں بتا دیا۔ منیزہ دھک سے رہ گئی تھیں۔
”صبغہ دو دن پہلے میرے پاس آئی تھی۔ اس نے ایسا کوئی ذکر نہیں کیا۔” انہوں نے بے اختیار کہا۔
”اس سے آخری بار میری بات ایک ہفتہ پہلے ہوئی تھی۔ اس نے تب مجھ سے بھی ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔” اسامہ نے انہیں بتایا۔
”وہ مجھ سے یہی کہہ رہی تھی کہ وہ طلاق نہیں چاہتی۔” اسامہ کو اس کی گفتگو یاد آ رہی تھی۔ ”وہ کچھ کنفیوز اور پریشان ضرور تھی’ مگر اس نے کسی بھی طرح اس قسم کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ خلع چاہتی ہے۔ وہ ایسا کچھ کہتی تو میں اس کو خلع دے دیتا۔ وکیل کے نوٹس کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔” اسامہ نے کہا۔
”مجھے لگتا ہے’ یہ نوٹس اس کی لاعلمی میں بھجوایا گیا ہے۔ اس نے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہوتا تو وہ مجھے نہیں تو کم از کم آپ کو تو ضرور بتاتی۔”
”دو دن پہلے وہ میرے پاس آئی تو کچھ چپ چپ اور پریشان سی لگ رہی تھی۔” منیزہ کو یاد آیا۔
”میں نے اس سے پوچھا بھی مگر وہ یہ کہہ کر ٹال گئی کہ طبیعت خراب ہے۔ اب پتا نہیں واقعی طبیعت خراب تھی یا پھر وہ یہی بات مجھ سے چھپانا چاہ رہی تھی۔”
اسامہ کو شاک لگا۔ ”آپ کا مطلب ہے یہ نوٹس اس کے علم میں ہے۔ یہ اس نے بھجوایا ہے؟”
”میں نے یہ نہیں کہا۔ میں تو صرف تمہیں بتا رہی ہوں کہ وہ دو دن پہلے پریشان لگ رہی تھی۔” منیزہ نے کہا ”ضروری تو نہیں کہ اس کی پریشانی کی وجہ نوٹس ہی ہو۔ اس گھر میں میرے بچوں کے لیے اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔” منیزہ کا دل بھر آیا۔
”آپ مجھے یہ بتائیں کہ اس وقت میں اس سے رابطہ کیسے کروں؟” اسامہ کو انہیں تسلیاں دینے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے اس وقت اپنی پڑی ہوئی تھی۔
”آپ اس کو فون کر دیں’ اور اس سے کہیں کہ وہ یا تو مجھے فون کرے یا پھر مجھ سے گھر سے باہر آ کر کہیں ملے۔ مجھ سے تو کوئی اس کی بات نہیں کروا رہا۔ میں نے بہت کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔”
”اسامہ! میں بھی اب اس سے بات نہیں کر سکتی۔ صبغہ نے گھر فون کرنے سے منع کر دیا ہے۔ وہ کہہ رہی تھی اس کے پاپا بہت ناراض ہوتے ہیں۔ ملازم بھی ہر وقت فون کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ وہ اب خود فون کر سکتی ہے’ نہ ہی فون اٹھا سکتی ہے۔ چند ایک بار میں نے روشان سے بات کرنے کے لیے فون کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر انہوں نے میری بات اس سے نہیں کروائی۔ اور فون بند کر دیا۔ ” منیزہ نے اسامہ کو بتایا۔
”اس نے آپ کو بتایا کہ وہ آپ سے ملنے اب کب آئے گی؟” اسامہ نے کہا۔
”نہیں … ایسا تو کچھ نہیں کہا۔ مگر ہو سکتا ہے ایک دو روز میں پھر آئے۔ وہ اسی طرح دو تین دن کے بعد چکر لگاتی رہتی ہے۔” منیزہ نے اطلاع دی۔
”وہ آپ کے پاس آئے تو آپ میرا پیغام اسے دیں۔” اسامہ نے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!