منیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ہارون کمال کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کریں۔ وہ منصور علی کا دوست تھا’ وہ اسے اور اس کی فیملی کو منصور علی کے توسط سے ہی جانتی تھیں اور اب وہ وہاں امبر کی خیریت دریافت کرنے کے لیے موجود تھا۔
”پہلے سے کچھ بہتر ہے مگر ابھی اسے ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگے گا۔” منیزہ نے رسمی اندازمیں کہا۔ ”آپ بیٹھئے۔”
”شکریہ۔” ہارون کہتے ہوئے دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ منیزہ دیوار کے ساتھ پڑے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔
”مجھے یہ سب کچھ جان کر بہت افسوس ہوا ہے۔” ہارون کمال نے ایک بار پھر اپنے چہرے اور لفظوں میں تاسّف لاتے ہوئے کہا۔ ”منصور علی اتنا گرا ہوا آدمی ہے’ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا بھابھی۔”
”اب کیا کہوں’ بس قسمت خراب ہو تو انسان کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔” منیزہ کے منہ سے نکلے ہوئے جملوں نے اسے قدرے حیران کیا تھا۔
”آپ کی وجہ سے میں نے منصور کے ساتھ بہت جھگڑا کیا ہے’ کھری کھری سنائی ہیں اسے۔ میں اگر ڈیل کی وجہ سے مجبور نہ ہوتا تو اسی وقت اس کے ساتھ اپنا بزنس ختم کر دیتا۔”
”نہیں’ ہماری وجہ سے آپ کو کوئی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو ویسے بھی کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔” منیزہ نے افسردگی سے کہا۔
”مجھے امبر کے بارے میں پتا چلا تو میں رہ نہیں سکا۔ حالانکہ میری پوزیشن بہت آکورڈ ہے۔”
ہارون کمال کی بات پر منیزہ نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔
”میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں بھابھی! کہ میں آپ کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟”
ہارون کمال اپنے لہجے میں جتنا خلوص ظاہر کر سکتا تھا’ اس نے کیا۔
منیزہ اس کی آفر پر گڑبڑائیں۔ ”نہیں’ اس کی ضرورت نہیں۔ ہم لوگوں کو فی الحال کوئی مدد نہیں چاہیے۔”
”نہیں بھابھی! پلیز آپ تکلف مت کریں’ آپ مجھے منصور کا دوست مت سمجھیں’ منصور میرا صرف بزنس پارٹنر ہے مگر آپ لوگوں کے ساتھ تو میرے اور میری فیملی کے تعلقات تھے۔ ہارون کمال نے ان کے انکار پر کہا۔
”میں جانتا ہوں منصور مالی طور پر کسی طرح بھی آپ لوگوں کو سپورٹ نہیں کر رہا’ آپ لوگ کرائسس میں ہیں’ میں اسی لیے آپ لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔”
”نہیں ‘ چھوٹے موٹے مسائل ہیں’ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ میرا بھائی بزنس مین ہے’ منصور سپورٹ نہ بھی کرے تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔” منیزہ نے پردہ پوشی کی۔
”میں اس کے باوجود آپ لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ڈاکٹر میرا دوست ہے’ آپ جتنے عرصے امبر کو یہاں رکھنا چاہیں’ اطمینان سے رکھ سکتی ہیں۔ آپ کو اخراجات کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امبر پر ہونے والے سارے اخراجات میں منصور کے اکاؤنٹس میں سے ادا کرواؤں گا۔”
منیزہ چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکیں۔ ہارون کمال نے بڑی مہارت سے پینترا بدلا تھا۔
”منصور کا ہم لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ تو نان نفقہ دینے پر تیار نہیں’ آپ علاج کے اخراجات کی بات کر رہے ہیں۔” منیزہ نے یک دم گلہ کیا۔
”آپ دیکھیے گا’ وہ کس طرح یہ اخراجات ادا کرتا ہے۔ وہ میری بات نہیں مانے گا تو میں اس کے ساتھ اپنا بزنس ختم کر دوں گا۔”
ہارون دوٹوک انداز میں کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ والٹ نکال کر اس نے ایک وزیٹنگ کارڈ منیزہ کی طرف بڑھایا۔
”یہ میرا کارڈ ہے’ آپ کو میری ضرورت پڑے یا کوئی پریشانی ہو تو آپ میرے کسی بھی نمبر کو استعمال کر کے مجھ سے رابطہ کر سکتی ہیں اور میں خود بھی روزانہ کچھ دیر کے لیے یہاں تب تک آتا رہوں گا’ جب تک امبر کی حالت ٹھیک نہیں ہوتی۔”
اس بار اس نے جملہ مکمل کرتے کرتے امبر کی طرف دیکھا تھا پھر وہ خدا حافظ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔ منیزہ نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کارڈ اور کمرے سے نکلتے ہوئے ہارون کمال کو دیکھا۔ اسے لگا’ اللہ نے اس کے روپ میں ان کے لیے کوئی فرشتہ بھجوا دیا تھا۔
٭٭٭
”رخشی کا بیٹا ہوا ہے۔” صبغہ نے روشان کے کمرے میں داخل ہونے پر مدھم آواز میں اسے بتایا۔ روشان کا چہرہ یک دم زرد پڑ گیا۔ اس کا بدترین اندیشہ اور خواب درست ثابت ہو گیا تھا۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ صبغہ کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔ بہت دیر تک دونوں چپ چاپ بیٹھے رہے پھر صبغہ نے بالآخر اس کو مخاطب کیا۔
”تم کیا سوچ رہے ہو؟”
”کچھ نہیں سوچ رہا’ مجھے کیا سوچنا ہے۔” روشان کے لہجے میں ہلکی سی ترشی تھی۔ صبغہ نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
”کچھ نہیں ہوتا روشان! پاپا کو تم سے بہت محبت ہے۔ ایک اور بیٹا ہو جانے سے تمہاری اہمیت کم نہیں ہو گی۔”
اسے اپنے لفظوں کا کھوکھلا پن خود چبھا۔ روشان کو حیرت نہیں ہوئی’ وہ کس طرح اس کی خاموشی کو پڑھنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اسے حیرت ہوتی’ اگروہ اس کی خاموشی کی وجہ نہ جان جاتی۔
دروازے پر دستک دے کر ملازم اندر داخل ہوا۔
”صاحب آپ کو نیچے بلا رہے ہیں’ وکیل صاحب آئے ہیں۔ منصور صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ جلدی نیچے آ جائیں’ انہیں بیگم صاحبہ کے پاس ہاسپٹل جانا ہے۔” ملازم نے منصور کا پیغام صبغہ تک پہنچایا۔
”تم جاؤ’ میں آتی ہوں۔” صبغہ کے چہرے کا رنگ کچھ اور پھیکا پڑ گیا۔ روشان ایک بار پھر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
”وکیل آیا ہے۔” روشان بڑبڑایا۔ ”تم سے سائن کروانے کے لیے ؟۔”
صبغہ نے اثبات میں سرہلایا۔
”تم کیا کرو گی؟” روشان نے پوچھا۔ اس کے انداز میں بے تابی تھی۔
”میں سائن کر دوں گی۔” صبغہ نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
”صبغہ!” روشان نے اختیار کہا۔
”میں اپنے لیے تم لوگوں کو سڑک پر تو نہیں لا سکتی۔ اگر اسامہ سے علیحدگی سے ہم سب کے سرپر چھت رہتی ہے تو یہ اتنا مہنگا سودا نہیں ہے۔” اس نے روشان سے نظر ملائے بغیر کہا۔ روشان دم بخود اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”ہم لوگ صفدر انکل کے گھر جا کر نہیں رہ سکتے اور اسامہ وہ زیادہ سے زیادہ مجھے رکھ سکتا ہے مگر تم لوگوں کا کیا ہو گا۔ میں نہیں چاہتی’ میری وجہ سے تم لوگوں کی زندگی خراب ہو۔”
”تم ایک بار پھر سوچ لو صبغہ!” روشان نے کہا۔
”میں نے بہت سوچا ہے۔ اس ایک رستے کے علاوہ دوسرا کوئی رستہ مجھے نظر نہیں آ رہا۔”
صبغہ نے مسکرانے کی کوشش کی مگر’ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ چند لمحے کچھ کہنے کی کوشش کرتے رہنے کے بعد وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ روشان نے اپنے اندر نفرت کے ایک آتش فشاں کو پھٹتے محسوس کیا۔ اس نے زندگی میں منصور علی سے اس سے زیادہ نفرت کبھی محسوس نہیں کی تھی۔
٭٭٭
”یہ لو صاحبزادے تمہیں اسی کی ضرورت تھی۔” مسعود علی نے لاؤنج سے سلام کر کے گزرتے اسامہ کو روک کر ایک لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔
”امید ہے اب تمہارا دماغ ٹھکانے آ جائے گا۔” انہوں نے مزید تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔
”یہ کیا ہے؟” اسامہ نے قدرے الجھتے ہوئے اس لفافے کو دیکھا۔
”تمہاری بیوی نے خلع مانگی ہے تم سے۔” اس بار شبانہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
اسامہ کو یقین نہیں آیا۔ ”کیا ؟”
”ہاں’ کھول کر دیکھ لو۔ ہماری باتیں تو تمہارے لیے کبھی بھی قابل اعتبار نہیں رہیں۔” شبانہ نے کہا۔
اسامہ کچھ دیر پہلے ہی گھر لوٹا تھا اور رات گئے لوٹنے کی یہ روٹین پچھلے کئی ہفتوں سے تھی۔ وہ اپنی پوری فیملی سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کیونکہ سامنا ہونے پر ایک بار پھر وہی گفتگو شروع ہو جاتی تھی جس سے وہ بچنا چاہتا تھا۔ آج بہت دنوں کے بعد مسعود اور شبانہ سے اس کا سامنا ہوا تھا۔ وہ وہاں بیٹھے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ اور انہوں نے آتے ہی وکیل کا وہ نوٹس اس کے حوالے کر دیا تھا جسے انہوں نے دن کے وقت وصول کیا تھا۔
نوٹس پر نظر ڈالتے ہی اسامہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔
”امپاسبل … دھوکہ ہے یہ …” اس کے منہ سے نکلا۔ ”صبغہ کبھی مجھ سے خلع نہیں مانگ سکتی۔”
”دستخط ہیں اس کے پیپرز پر آنکھیں کھول کر دیکھو۔” مسعود غرائے۔
”آپ کا بھائی اتنا بڑا فراڈ ہے کہ اس کے لیے اس طرح کے دستخط کرنا یا کروا لینا کوئی بڑی بات نہیں۔” اسامہ اب بھی بے یقین تھا۔
”میں فون کر کے پوچھ لیتا ہوں صبغہ سے ! اس کو تو شاید پتہ تک نہیں ہو گا اس نوٹس کے بارے میں۔”
”بڑے بڑے عقل کے اندھے دیکھے ہیں میں نے۔ لیکن تمہارے جیسا نہیں دیکھا۔” مسعود کو بیٹے پر ایک بار پھر طیش آیا۔
”حقیقت دیکھ کر بھی اسے جھٹلانے کی کوشش کر رہے ہو۔”
”پاپا! میں نہیں مان سکتا کہ صبغہ مجھ سے خلع مانگے گی۔ ایک ہفتہ پہلے اس سے بات ہوئی ہے میری۔”
”ایک ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں۔” شبانہ نے مداخلت کی۔ ”اور یہ صرف تم ہی ہو جو اس کے عشق میں دیوانے ہو رہے ہو۔ ورنہ منصور علی کی بیٹی وہی کرے گی جو منصور علی چاہے گا۔”
”وہ تو اپنے گھر والوں میں سب سے سمجھ دار نکلی ہے کہ اب تک منصور علی کے گھر پر ٹکی بیٹھی ہے۔”