”ہو سکتا ہے۔” ثمر نے سیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ کو تو یقینا نہیں لگتی ہو گی۔ آپ تو ہر چیز اتنے آرام سے کر رہے تھے۔ مجھے مسئلہ ہو رہا تھا۔”
”شروع شروع میں ہوتا ہے۔” ثمر نے اس کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری سمجھا۔
”ہاں ذیشان انکل بھی یہی کہہ رہے تھے۔” نایاب نے ذیشان کا حوالہ دینا ضروری سمجھا۔
”آپ بھی ذیشان انکل کے جاننے والوں میں سے ہیں؟”
”اب جاننے لگا ہوں۔”
”اوہ! میں سمجھی شاید آپ بھی فیملی فرینڈز میں سے ہیں۔” نایاب نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”بدقسمتی سے میں نہیں ہوں۔” ثمر نے یہ جملہ اپنے دل میں کہا۔
اگلی ریہرسل کے لیے کیوں ملنا شروع ہو گئی تھی۔
”آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔” نایاب نے کھڑے ہوتے ہؤے کہا۔
”مجھے بھی …”
ثمر بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔” اب تو تقریباً روز ہی ملاقات ہوا کرے گی۔” نایاب نے جانے سے پہلے کہا۔ کب تک۔”
”ہاں ایک دو ہفتے تک۔” ثمر بھی مسکرایا۔ نایاب جواباً مسکرائی اور آگے بڑھ گئی۔
٭٭٭
”تو کیسی رہی تمہاری ریہرسل؟” ہارون کمال نے نایاب سے پوچھا۔ وہ چند منٹ پہلے ہی ڈائننگ ٹیبل پر آئی تھی۔
”گریٹ۔” نایاب نے اپنے بالوں کو بڑے انداز سے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”اور کتنے دن یہ ریہرسل چلتی رہے گی؟” ہارون کمال نے کہا۔
”کتنے دن … کیا پاپا …؟ اس نے میز پر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ”یہ کوئی ڈرامہ تھوڑی ہے۔ کمرشل ہے۔ ایک دو دن میں شوٹنگ شروع کر دیں گے۔ یہ تو چونکہ سارے لوگ نئے ہیں اس لیے اتنا وقت لگارہے ہیں۔ ریہرسل میں … ورنہ تو اب تک شوٹنگ شروع ہو چکی ہوتی۔”
”اور کون ہے تمہارے ساتھ اس کمرشل میں …؟” کوئی مشہور ماڈل؟” شائستہ نے گفتگو میں پہلی بار حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں ممی۔ بتا تو رہی ہوں سارے ہی لوگ نئے ہیں۔”
”تمہاری پرفارمنس کیسی رہی؟” شائستہ نے دلچسپی لی۔
”ریہرسلز میں تو ابھی تھوڑی مشکل ہو رہی ہے۔” نایاب نے صاف گوئی سے کہا۔ ”مجھ سے لائنز ٹھیک طرح سے ادا نہیں ہو پا رہیں۔ اور بعض دفعہ ڈائریکٹر کو میرے ایکسپریشنز صحیح نہیں لگتے۔”
ہارون کمال اور شائستہ مسکرا دیے۔
”مگر ذیشان انکل کہہ رہے تھے کہ پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ شروع میں سب کے ساتھ ایسے ہی ہوتا ہے بعد میں سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ آپ کی بات ہوئی ان کے ساتھ؟” نایاب نے بات کرتے کرتے اچانک ہارون سے پوچھا۔
”نہیں میری ذیشان سے بات نہیں ہوئی۔” ہارون نے کہا۔
”مگر وہ تو مجھ سے کہہ رہے تھے کہ آج آپ کو فون کریں گے؟” نایاب نے قدرے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
”اس نے کہا ہو گا مگر مجھے بہرحال اب تک فون نہیں کیا۔ اسے کوئی خاص بات کرنا تھی؟”
”پتا نہیں’ یہ انہوں نے مجھے نہیں بتایا۔ نہ ہی میں نے پوچھا۔ مگر مجھے لگتا ہے میری ماڈلنگ کے بارے میں ہی آپ سے کچھ کہنا ہو گا۔”
”اچھا یا بُرا …؟” ہارون نے قدرے شوخ انداز میں نایاب سے پوچھا۔
”ظاہر ہے اچھا ہی کہیں گے۔ بُرے کا تو میں خود آپ کو بتا رہی ہوں۔” نایاب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پتا ہے پاپا! ذیشان انکل اپنے نئے ایڈ کے بارے میں بھی مجھ سے کہہ رہے تھے۔ ” نایاب کو اچانک یاد آیا۔
”کیا کہہ رہے تھے؟” ہارون نے دلچسپی لی۔
”ایڈ کرنے کا کہہ رہے تھے۔”
”اور یہ کس چیز کا ایڈ ہے؟”
”شیمپو کا …”
”پھر تو واقعی تمہیں ہی اس ایڈ میں ہونا چاہیے۔” شائستہ نے مسکراتے ہوئے اپنی بیٹی کے چمک دار خوبصورت بالوں کو دیکھا۔
”ایک کمرشل کافی نہیں ہے تمہارے لیے؟” ہارون کمال نے پہلی بار سنجیدگی سے کہا۔
”ایک کمرشل …؟” نایاب نے حیرانی سے کہا۔ ”پاپا ایک کمرشل سے کیا ہوتا ہے۔ ایک کمرشل دیکھ کر تو لوگ کسی کو یاد نہیں رکھتے ۔ میں شہرت حاصل کرنا چاہتی ہوں۔”
”ایک کمرشل سے بھی بہت شہرت مل جائے گی تمہیں۔ میں چاہتا ہوں تم اپنی زیادو توجہ اپنی اسٹڈیز پر رکھو۔ ہارون نے کہا۔
”اسٹڈیز کا کیا ہے پاپا! وہ تو ہوتی رہے گی۔ اب ایک چانس مل رہا ہے تو …”
ہارون نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”کم از کم تمہیں چانس کی تلاش نہیں ہونی چاہیے۔ تم جب کمرشل کرنا چاہو گی’ میں تمہارے لیے کوئی نہ کوئی کمرشل ارینج کروا دوں گا۔”
”مگر پاپا! جو بات ابھی ماڈلنگ کرنے میں ہے’ وہ چند سال بعد تو نہیں رہے گی۔” نایاب نے ہارون کی بات کاٹی۔ ”ابھی تو سب مجھے ٹی وی پر دیکھ کر حیران ہو جائیں گے۔ میرے کلاس فیلوز کتنا جیلس ہوں گے۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ چند سال بعد تو کچھ مزہ ہی نہیں رہے گا۔”
”کرنے دو ہارون! کیا فرق پڑتا ہے۔” شائستہ نے مداخلت کی۔
”دو چار کمرشل کر لینے سے کیا آفت ٹوٹ پڑے گی۔ اسے ویسے بھی فائن آرٹس میں دلچسپی ہے اور شوبز کو بھی تم اسی کا حصہ سمجھو۔”
”ایک آدھ کمرشل سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر میں نہیں چاہتا یہ دوسری لڑکیوں کی طرح کمرشلز کے پیچھے خوار ہوتی پھرے۔” ہارون نے شائستہ سے کہا۔
”کون خوار ہو رہا ہے کمرشلز کے پیچھے۔ بتا تو رہی ہے ذیشان خود ہی اپنے کرشل کے لیے کہہ رہا ہے۔” شائستہ نے ایک بار پھر اس کی وکالت کی۔
”اور پھر پاپا یہ بھی تو دیکھیں۔ پیسے کتنے مل رہے ہیں۔” نایاب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”خیر پیسہ تمہارا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ہی تمہیں ذہن میں یہ رکھنا ہے کہ یہ تمہارا پروفیشن ہے۔” ہارون کمال ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔
”ہابی کے طور پر ماڈلنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں ‘ مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ میری اکلوتی بیٹی کمرشلز یا ایڈورٹائزمنٹس کے لیے خود کو exploit کرواتی پھرے۔”
”I know it very well” نایاب نے سر کو جھٹکا۔ ”میں بھی تو مذاق کے طور پر ہی ایسا کہہ رہی ہوں۔” اس نے چمچ اپنی پلیٹ میں رکھا اور نیپکن اٹھایا۔ ”آپ لوگ خوامخواہ میں ہی سیریس ہو گئے۔ پروفیشن کون بنا رہا ہے شوبز کو۔”
”بس کھانا ختم …” شائستہ نے اس کی بات کاٹی۔ اس کی نظر نایاب کی پلیٹ پر تھی۔
”ڈائٹنگ کر رہی ہوں ممی۔” نایاب نے جیسے ماں کو یاد دلایا۔
”خیر اب ڈائٹنگ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے کچھ کھایا ہی نہ جائے۔”
”اور پھر تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے تمہارا وزن پہلے ہی کم ہے۔ ” شائستہ نے جیسے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”یہ تو آپ کہہ رہی ہیں کہ وزن کم ہے۔ میں تو کمرشل کی ریہرسل کے دوران لڑکیوں کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔” نایاب کو جیسے کچھ یاد آیا۔
”ممی …! اتنی اتنی سلم لڑکیاں تھیں کہ مجھے ان پر رشک آ رہا تھا۔ مجھے تو لگ رہا تھا وہاں سب سے موٹی میں ہی ہوں۔ بلکہ مجھے تو یہ خدشہ ہو گیا تھا کہ ذیشان انکل کہیں مجھے اپنے کمرشل سے نکال ہی نہ دیں۔”
”خیر یہ تو ناممکن ہے۔ میری بیٹی کو کوئی کمرشل سے نکال سکتا ہے۔” ہارون کمال نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
”کیوں نہیں نکال سکتے۔ مجھ سے بہتر کوئی نظر آئے گا تو وہ اسے ہی لیڈ دیں گے۔ مجھے تو نہیں … کل سہیل انکل کے بیٹے ٹونی کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔”
”کیا ہوا؟ کیا ذیشان نے اسے ایڈ سے نکال دیا؟” شائستہ نے یک دم چونک کر کہا۔
”نہیں’ نکالا تو نہیں مگر لیڈ میں نہیں رکھا۔” نایاب نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟”
”ایک اور لڑکا آ گیا تھا۔ ثمر نام ہے اس کا۔”
”اچھا …” ہارون کو کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
”پاپا! میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ وہ کتنی اچھی ماڈلنگ کر رہا تھا۔” نایاب کے اندز میں ستائش تھی۔ ”سیٹ پر موجود تمام لوگ کو حیران کر دیا اس نے ۔ ذیشان انکل نے پیشن گوئی کی ہے اس کے بارے میں۔
”کیا؟” شائستہ کو کچھ دلچسپی پیدا ہوئی۔
”وہ کہہ رہے تھے کہ وہ ایک ٹاپ ماڈل بنے گا۔ وہ خود بھی اس سے بہت متاثر نظر آ رہے تھے۔”
”کس کا بیٹا ہے؟” ہارون نے بالآخر پوچھا۔
”یہ تو میں نے نہیں پوچھا … میری اس سے کچھ دیر بات ہوئی تھی۔ مگر میں نے اس کی فیملی کے بارے میں نہیں پوچھا۔” مگر کوئی اچھی فیملی ہی ہو گی۔ اس کو دیکھنے سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی اچھی فیملی سے ہی تعلق رکھتا ہے۔” نایاب نے اپنی رائے دی۔
”اور ٹونی …” اس کا کیا ری ایکشن تھا۔” شائستہ کو ٹونی یاد آیا۔
”ٹونی؟” نایاب بے اختیار ہنسی۔ ”پہلے تو بہت ہی بری طرح ری ایکٹ کیا اس نے ۔ مگر پھر بعد میں ذیشان انکل نے اسے سمجھایا تو ٹھیک ہو گیا۔ مگر ظاہر سی بات ہے وہ بہت دل برداشتہ تھا۔ ذیشان انکل اس کی بھی بہت تعریف کر رہے تھے۔ مگر جو بات ثمر میں ہے وہ ثمر میں ہی ہے۔ He is the best نایاب نے جیسے فیصلہ دیا۔”
”پہلے بھی ماڈلنگ کر چکا ہے؟” شائستہ نے پوچھا ۔
”نہیں ممی! یہی تو بات ہے کہ وہ بھی سب کی طرح پہلی بار کمرشل کر رہا ہے۔ مگر لگتا ہی نہیں کہ یہ اس کا پہلا کمرشل ہے۔ ذیشان انکل نے تو اپنے اگلے کمرشل کے لیے بھی اسے ہی لینے کا فیصلہ کیا ہے۔” نایاب نے بتایا۔
”پاپا سن رہے ہیں نا آپ میری بات؟” نایاب نے کھانا کھاتے ہوئے ہارون کو اچانک مخاطب کیا۔ اسے یوں لگا تھا جیسے ہارون کی توجہ کہیں اور تھی۔
”بالکل سن رہا ہوں۔ تم بولتی رہو۔” ہارون نے چونک کر مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھے لگا آپ میری بات سن ہی نہیں رہے۔” نایاب نے کہا۔
”ایسا ہو سکتا ہے؟ ابھی کتنی باتیں باقی ہیں تمہاری؟” ہارون کمال نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”بس ختم ہو گئی ہیں۔ اب آپ کو کل بتاؤں گی کہ کل کیا ہوا۔” نایاب نے ٹیبل سے اٹھتے ہوئے کہا۔ ہارون کمال مسکراتے ہوئے اسے جاتا دیکھتا رہا۔
”اس کی خوبصورتی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے”۔ اس کے کمرے سے نکل جانے کے بعد ہارون نے شائستہ سے کہا۔
شائستہ جواباً مسکرا دی۔
”یہ کمرشلز کا شوق کہاں تک جائے گا؟” ہارون کو یک دم جیسے کچھ یاد آیا۔
”تم کیوں پریشان ہو رہے ہو۔” شائستہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”شوق ہے شوق ہی رہے گا۔ اور پھر تم ہی نے اجازت دی ہے اسے ماڈلنگ کی۔”
”میں نے صرف ایک کمرشل کی اجازت دی تھی۔ وہ بھی اس لیے کیونکہ ذیشان کا کمرشل تھا اور نایاب کو شوق تھا مگر میں یہ تو نہیں چاہتا تھا کہ اب اگلا کمرشل بھی وہ پوچھے بغیر ہی سائن کر لے۔” ہارون نے اعتراض کیا۔
”اگلا کمرشل بھی اگر ذیشان کا ہے تو کیا حرج ہے۔”
”مگر ہر اگلا کمرشل ذیشان کا نہیں ہو گا۔” ہارون نے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ شوق کی خاطر بھی اس طرح دھڑا دھڑ کمرشل کرے۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں اس سے بات کرنا چاہیے۔”
”میں کیوں …؟ تم کیوں نہیں بات کر لیتے۔ ابھی تو سامنے یہیں بیٹھی تھی۔ تم منع کر دیتے۔” شائستہ نے کندھے اچکائے ہوئے کہا۔
”تم جانتی ہو’ میں اس کی کوئی بات رد نہیں کر سکتا۔” ہارون کمال نے مسکراتے ہوئے جیسے بے بسی سے اپنے کندھے جھٹکے۔
”تو پھر یہ مشکل کام مجھے کیوں سونپ رہے ہو کہ میں اس کو زبردستی روکوں اور اس کی نظروں میں بری بنوں۔” تم اسے اچھے طریقے سے سمجھا سکتی ہو۔”
”میں اسے اچھے یا برے کسی بھی طریقے سے نہیں سمجھاؤں گی۔” شائستہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ”اور تمہیں بھی اتنا کنزرویٹو ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو چار کمرشلز میں کام کر لینے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ آج کل اچھی اچھی فیملیز کی لڑکیاں ماڈلنگ کر رہی ہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔”
”میں کنزرویٹو نہیں ہوں۔ میں صرف یہ نہیں چاہتا کہ کل کو اسے کوئی پریشانی ہو۔ تم اچھی طرح جانتی ہو’ ماڈلنگ کے ساتھ کتنے مسائل ہوتے ہیں۔”
”میں اچھی طرح جانتی ہوں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ نایاب کو اس قسم کے کسی رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا’ وہ ہارون کمال کی بیٹی ہے۔ اس کے لیے اتنا تعارف بہت کافی ہے۔”
شائستہ نے کمال بے خوفی اور اعتماد سے کہا۔ ہارون کمال اس کی شکل دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭