تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”جو ہونا تھا وہ ہو گیا’ اب بس کریں۔ آپ کے اس طرح بولنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔” امبر نے ایک بار پھر جھنجلا کر کہا۔
صبغہ کچھ کہے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی’ لفافے کو اس نے بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور واش روم میں چلی گئی۔ شاور لیتے ہوئے اس نے اپنے ذہن کو بیڈ روم میں پڑے اس لفافے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اپنے ذہن کو اسامہ مسعود علی سے ہٹا نہیں پا رہی تھی۔
اسے زندگی میں کبھی بھی اسامہ سے اپنی محبت پر شک نہیں رہا تھا’ مگر اتنی محبت … کہ اسے لگ رہا تھا جیسے پوری دنیا یک دم کوئی hell-holeبن گئی ہے۔
گھنٹہ بھر بعد وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی’ کمرے میں نائٹ بلب روشن تھا۔ رابعہ اور زارا اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ وہ جانتی تھی وہ جاگ رہی ہوں گی۔ منیزہ کمرے میں نہیں تھیں اور امبر … منیزہ کے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ صبغہ کچھ کہے بغیر نیم تاریکی میں دروازے کی طرف جانے لگی۔
”کہاں جا رہی ہو؟” اس نے پشت پر امبر کی آواز سنی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا’ وہ اب بیڈ پر نہیں تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ اندھیرے میں دونوں ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
”کچن میں…” اس نے مدھم مگر مستحکم آواز میں کہا۔ ”بھوک لگ رہی ہے مجھے۔”
امبر چند لمحوں کے لیے خاموش رہی’ جب صبغہ نے پلٹ کر دروازہ کھول دیا تو اس نے امبر کو کہتے سنا۔ ”میں بھی آ رہی ہوں۔”
وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے کچن میں داخل ہوئیں۔ صبغہ نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کر دی۔ صفدر انکل کی فیملی بہت جلد کھانا کھانے کی عادی تھی۔ اور خود وہ لوگ بہت دیر سے کھانا کھایا کرتے تھے۔ اس گھر میں آنے کے بعد اس عادت اور معمول میں تبدیلی آ گئی تھی۔ صرف یہ ہوا تھا کہ وہ لوگ صفدر انکل کی فیملی کے ساتھ ٹیبل پر کھانا نہیں کھایا کرتے تھے بلکہ اپنے کمرے میں ہی کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ آج خلاف معمول پہلی بار وہ اتنی دیر سے کچن میں آئی تھیں کہ ملازم بھی کچن صاف کرنے کے بعد وہاں سے جا چکا تھا۔
کسی قسم کی گفتگو کے بغیر دونوں نے کھانا فریج سے نکالا اور صبغہ اسے مائیکروویو اون میں گرم کرنے لگی۔ امبر نے برتن نکال کر کچن میں رکھی ہوئی چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دیے پھر وہ صبغہ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ صبغہ مائیکروویو سے کھانا نکال رہی تھی۔
”تم روئی ہو؟” اس نے دھیرے سے پوچھا۔ اس کی نظریں صبغہ کی متورم آنکھوں پر تھیں۔
”ہاں…” صبغہ نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا۔ ”رونا حق بنتا تھا میرا۔” امبر کو اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نظر آئی وہ کچھ نہیں بول سکی۔ صبغہ اب کھانا ڈائننگ ٹیبل پر رکھ کر بیٹھ گئی تھی۔ امبر اس کے پاس آ کر دوسری کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ صبغہ کی ساری توجہ چاولوں کی پلیٹ پر مرکوز تھی وہ ادھر اُدھر سے بے نیاز بڑے اطمینان سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔ امبر بے یقینی سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی اس کی متورم آنکھیں اس کی دلی کیفیت کو واضح طور پر بتا رہی تھیں۔ مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ یوں کھانا کھا رہی تھی جیسے کچھ دیر پہلے کچھ بھی نہیں ہوا ہو۔




”تم کیوں نہیں کھا رہیں؟” صبغہ نے بہت دیر تک اپنے چہرے پر اس کی نظریں محسوس کرنے کے بعد یک دم سر اٹھا کر اس سے کہا۔
”میں …؟” مجھے بھوک نہیں۔” امبر یک دم گڑبڑائی۔
”میری وجہ سے نہیں ہے؟” صبغہ نے اگلا سوال کیا۔ امبر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”مگر میں تو کھانا کھا رہی ہوں۔ دیکھو”۔ صبغہ نے چمچ کو منہ میں ڈالنے سے پہلے تھوڑا سا اٹھا کر اسے دکھایا۔ ”تم بھی کھاؤ۔ کھانا نہ کھانے سے کیا ہو گا؟” اس نے چاول منہ میں ڈال لیے۔ ”آج نہیں کھائیں گے۔ کل کھانا پڑے گا۔ بھوکا تو نہیں رہا جا سکتا۔” اس نے پانی کا گلاس اٹھا لیا۔
”تم اگر مجھے تسلی دینے کے لیے میرے پاس آ کر بیٹھ ہو۔” اس نے پانی کا گھونٹ لے کر کہا۔ ”تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ سب کچھ ہونا ہی تھا۔ آج نہیں تو کل ہو جاتا۔ مگر …”
”تم نے اسامہ سے طلاق کا مطالبہ کیوں کیا تھا۔” امبر نے دھیمی آواز میں پوچھا۔ ”وہ اچھا تھا … طلحہ سے تو بہت اچھا تھا۔” امبر نے جیسے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
صبغہ نے اس کے چہرے کو دیکھا۔ ”ہاں اچھا تھا … مگر اتنا اچھا نہیں تھا جتنا اچھا اسے ہونا چاہیے تھا۔ یا جتنے اچھے انسان کی مجھے ضرورت تھی۔”
”تمہیں کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا … کوئی پچھتاوا’ کوئی تکلیف …۔” امبر نے جیسے ایک بار پھر اسے بے یقینی سے دیکھا۔
”پچھتاوا؟… نہیں … تکلیف؟” وہ قدرے توقف سے بولی۔
”انسان ہوں’ تکلیف تو محسوس کروں گی۔ مگر تکلیف سہنے کی عادت ہے مجھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔” امبر نے اس کے گیلے بالوں کو دیکھا جو چھوٹے سے جوڑے کی شکل میں گردن سے بہت اوپر لپیٹے گئے تھے۔ اس کی گردن ابھی بھی نم تھی۔ صبغہ بات کر رہی تھی اور وہ لاشعوری طور پر بار بار اس کی گردن کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کی حرکت اس کی گردن پر بھی محسوس ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر لفظ اپنی گردن سے ادا کر رہی ہے۔
”میری زندگی اسامہ مسعود علی کے ساتھ ختم نہیں ہوئی … جیسے اس کی زندگی میرے ساتھ ختم نہیں ہوئی۔” اس نے غور سے امبر کا چہرہ دیکھا۔ ”تعلق ختم ہو تو تکلیف ہوتی ہے’ مگر آدمی مرتا تو نہیں۔”
”تم بہت بہادر ہو … میری طرح نہیں ہو …” امبر نے یک دم اعتراف کیا۔ ”میں تو … میں تو بہت کمزور ہوں مجھے تو … میں کسی بھی بات کو ذہن سے نہیں نکال سکتی۔” وہ آہستہ آہستہ کہنے لگی۔ ”تم ہر چیز کو مختلف طرح سے لیتی ہو۔”
”ہاں’ میں ہر چیز کو مختلف طرح سے لیتی ہوں۔” صبغہ نے اس کے دوبارہ بولنے سے پہلے کہا۔ ”میں ممی کی طرح یہ نہیں سمجھتی کہ ایک شخص کے طلاق د یدینے سے میرے چہرے پر کوئی سیاہی پھیر دی گئی ہے۔”
”لوگ … تو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔” امبر نے اٹکتے ہوئے کہا۔
”ہاں لوگ’ ایسا ہی سمجھتے ہیں پھر …؟ کیا کیا جائے …” صبغہ ایک لمحہ کے لیے رکی۔ ”اپنے منہ پر واقعی سیاہی پھیر لی جائے؟”
امبر نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کے چہرے پر دکھ کا سایہ تھا۔ اضطراب اور پریشانی لیے ہوئے پُرسکون لہجہ۔
”انسان دنیا میں لوگوں کے لیے نہیں جیتا … اپنے لیے جیتا ہے۔ جیسے میں اپنے لیے جیوں گی۔ اور تم کو بھی اپنے لیے جینا ہے۔” وہ دوبارہ کھانا کھانے لگی۔
”تم میں بہت حوصلہ ہے صبغہ…!” امبر نے چند لمحوں کے بعد کہا۔ صبغہ نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے اسے دیکھا۔
”پہلے نہیں تھا۔ اب آ گیا ہے … ایسے حالات میں آ ہی جاتا ہے۔”
امبر چپ چاپ اسے دیکھتی رہی پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ”مجھ میں تو نہیں ہے۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”تم میں بھی آ جائے گا۔” صبغہ نے اپنے ہاتھ سے اس کے گال کو تھپتھپایا۔ ”کچھ وقت لگے گا پھر …” صبغہ یک دم رک گئی۔ اسے لگا اس کی آواز بھی بھرا رہی ہے۔ اس نے رک کر اپنا گلا صاف کیا۔ ”پھر تم میں بھی حوصلہ آ جائے گا۔”
امبر کے آنسو اب اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔ ”نہیں … مجھے نہیں لگتا کہ وہ وقت کبھی آئے گا۔ اس وقت سے بہت پہلے مر جاؤں گی۔”
اس نے بازو اٹھا کر صبغہ کی گردن میں ڈال دیے اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی۔ صبغہ کے گلے میں کھانا کھاتے ہوئے پہلی بار پھندا لگا تھا۔
٭٭٭
ذیشان اسد نے سامنے بیٹھے ہوئے لڑکے کا پورٹ فولیو بند کر دیا۔ پورٹ فولیو دیکھے بغیر بھی وہ پہلی نظر اس لڑکے پر ڈالتے ہی یہ جان گیا تھا کہ وہ ایک غیر معمولی چہرہ تھا وہ بیس سال سے ایڈور ٹائزنگ سے وابستہ تھا اور اب اسے کسی نئے ماڈل کو ہائر کرنے کے لیے پورٹ فولیو کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ ایک نظر میں ہی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی اسکریننگ کر لیتا تھا۔ اور سامنے بیٹھا ہوا لڑکا بلاشبہ فوٹو جینک تھا۔ تقریباً ویسا ہی چہرہ جیسے چہرے کی وہ تلاش میں رہتا تھا۔
پورٹ فولیو نے اسے حیران نہیں کیا تھا۔ آڈیشن نے اسے حیران کر دیا تھا۔ اس نے اس عمر کے بہت کم لڑکوں میں اتنا ارتکاز اور اعتماد دیکھا تھا۔ ایک گھنٹے کے ڈیشن کے بعد اسے پہلی بار دقت محسوس ہوئی تھی۔ اس کمرشل کے لیے اس نے دس کے قریب نئے لڑکے لڑکیوں کو لیا تھا اور اس میں چار ایسے تھے جو مین ماڈلز تھے۔ وہ اپنے جاننے والوں میں سے پہلے ہی ان دو لڑکوں کا انتخاب کر چکا تھا جسے اس نے مین ماڈلز رکھنا تھا مگر اب ثمر ثوبان سمیع کو دیکھتے ہوئے اسے اچھی طرح اندازہ ہو رہا تھا کہ اسے کمرشل میں کسی گروپ میں سے ایک لڑکے کا رول نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اس کے نقش بے حد تیکھے اور تاثرات بے حد اٹریکٹو تھے۔
”تو پھر …؟” ذیشان اسد نے کندھے اچکاتے ہوئے اپنے اسسٹنٹ سے پوچھا۔ ”یا تو اس کو فرنٹ میں لے کر آئیں’ یا پھر …؟” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
”یا پھر …؟” ذیشان نے اس کے آخری دو لفظ دہرائے۔
”یا پھر اس کو اس کمرشل میں لیں ہی نہیں۔”
”کیوں …؟”
”آپ خود کیمرہ سے اس کو دیکھ رہے ہیں یہ پیچھے کھڑی رکھنے والی چیز ہے۔ پوری اسکرین پر چھایا ہوا ہے۔ دیکھنے والے کی نظر خود ہی اس کے اوپر چلی جائے گی تو آگے کھڑا بندہ کیا کرتا رہے گا۔” ذیشان اپنے اسسٹنٹ کی بات پر مسکرایا۔
”اس کا مطلب ہے اسے آگے ہی لانا پڑے گا۔” وہ بڑبڑایا۔
ریہرسل سے ایک دن پہلے ثمرثوبان سمیع گرومنگ کی گئی تھی۔ اس کو ایک ٹرینڈی ہیئرکٹ دیا گیا’ ثمر کے لیے یہ ناقابل یقین تھا وہ زندگی میں پہلی بار کسی پروفیشنل ہیئر ڈریسر سے بال بنوا رہا تھا۔ اور بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ اس کے لیے یہ تجربہ بھی ناقابل فراموش تھا۔
مگر شاید آگے آنے والے تجربے اس کے لئے کچھ زیادہ ناقابل فراموش ثابت ہونے والے تھے۔ پہلی ریہرسل پر اس نے نایاب ہارون کمال کو دیکھا تھا۔ اور وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ ثمر ہی کی طرح وہ وہاں موجود تمام لڑکیوں سے منفرد اور ممتاز لگ رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکا تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے ثمر کو کوئی بہت عجیب سا احساس ہوا تھا۔ مگر وہ اس احساس کو کوئی نام دینے سے قاصر تھا۔
اور اس دن وہاں پہلی بار ہی وہ اس فرق سے آشنا ہوا تھا جو اس کے اور وہاں موجود دوسرے نو لڑکے لڑکیوں کے درمیان تھا۔ وہ تمام لوگ اپر کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے لیے وہ کمرشل تفریح کا ذریعہ تھا۔ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے لیے وہ کمرشل ”شناخت کا سوال ” تھا۔ وہ نو کے نو لوگ کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اپنے تعلیمی اداروں کی معرفت سے۔ اپنی فیملیز کے توسط سے۔ اپنے دوستوں کے ذریعہ سے۔ ثمر ثوبان سمیع وہاں odd one out تھا۔ اور وہ اپنی اس حیثیت سے واقف تھا۔ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ ریہرسلز کے دوران اس کی پرفارمنس نے دوسروں کو اس سے بہت مرعوب کر دیا تھا۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ تھا کہ وہاں کھڑے تمام لڑکے شکل و صورت کے معاملے میں ہی نہ ٹیلنٹ میں … اور وہ اس بات سے بھی آشنا تھا کہ وہ کامیابی کے تیسرے لازم سے محروم تھا۔ اسٹیٹس اور شاید اٹھارہ انیس سال کی زندگی میں پہلی بار ہی اس نے اس چیز پر اتنا غور کیا تھا۔ وہ ثانیہ اور شہیر کی طرح کسی قسم کے کمپلیکس کاشکار نہیں تھا۔ مگر ان دونوں کے برعکس زندگی میں اس کی ترجیحات وہ تھیں کہ اسے کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ان حقیقتوں سے دوچار ہونا تھا۔ جن سے وہ اب دو چار ہو رہا تھا۔
”ہیلو! میرا نام نایاب کمال ہے۔” وہ ریہرسل کے بعد کچھ دیر کے لیے ریلیکس کرنے کے لیے بیٹھے تھے۔ جب نایاب آ کر اس کے برابر کی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
”ثمر ثوبان۔” اس نے مسکرا کر اپنا نام دہرایا۔
”میں جانتی ہوں۔” وہ جواباً مسکرائی۔ ”ذیشان انکل کتنی دیر سے آپ کا نام لے رہے تھے۔”
”ذیشان انکل! ایک اور رشتہ …” ثمر نے دل ہی دل میں کہا۔ وہاں اس کے سوا موجود نو کے نو افراد ذیشان اسد کو کسی نہ کسی رشتے سے پکار رہے تھے۔
”آپ بہت اچھا پرفارم کر رہے تھے۔” نایاب نے مسکرا کر ثمر کی تعریف کی۔
”آپ بھی بہت اچھا پرفارم کر رہی تھیں۔” ثمر نے جواباً تعریف کرتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے معذرت کی۔ وہ ریہرسل میں اس کی پرفارمنس دیکھ کر خاصا مایوس ہوا تھا وہ صرف خوبصورت تھی۔ مگر ایک ماڈل کے طور پر پرفارمنس دیتے ہوئے جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ ان سے مکمل طور پر محروم ہی لگ رہی تھی۔ وہ بے تحاشا نروس تھی۔ ڈائیلاگز بولتے ہوئے اس کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ خیر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ بعد میں پیچھے ڈبنگ کے ساتھ جنگل تھا اور اسے کور کر لیا جاتا۔ مگر وہ باقی بھی تقریباً تمام چیزوں سے محروم تھی۔ اس کی مسکراہٹ واضح طور پر کنفیوز نظر آ رہی تھی۔ اور اس کا فٹ ورک کسی طرح بھی ٹھیک ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ ثمر کو حیرت ہو رہی تھی کہ اسے ماڈلنگ کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ مگر پھر یہ سوال وہاں موجود چند دوسری لڑکیوں اور لڑکوں سے بھی پوچھا جانا چاہیے تھا۔ اور اب جب وہ اس سے یہ کہہ رہا تھا کہ اس نے بھی بہت اچھا پرفارم کیا تھا تو اس کا دل کانوں کو ہاتھ لگانے کو بھی چاہ رہا تھا۔
”تھینکس …!” اس کی تعریف پر وہ بے اختیار سرخ ہوئی۔ شاید پورے دن میں یہ پہلا اچھا جملہ تھا جو اس کی پرفارمنس پر کسی نے دیا تھا۔ یا پھر اسے یہ احساس ہوا تھا کہ وہ کہیں اس کا مذاق نہ اڑا رہا ہو۔
”آپ کے سامنے تو میری پرفارمنس کچھ بھی نہیں تھی۔ آپ پہلی بار ماڈلنگ کر رہے ہیں؟” اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اگلا سوال کیا۔
”ہاں … ”
نایاب نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا’ آپ بہت اچھے ہیں۔”
”اب میں کیا کہوں’ بس یہ کام کرنے میں مجھے مزہ آتا ہے۔”
ثمر نے مختصراً کہا وہ زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی سے اتنی لمبی بات کر رہا تھا’ اور وہ بھی اس لڑکی سے جسے وہ ٹھیک سے جانتا بھی نہیں تھا۔
”آپ کیا کرتے ہیں؟” نایاب نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد پوچھا۔
”میں پڑھتا ہوں۔”
”میں بھی۔” وہ بے اختیار خوش ہوئی۔ ”میں اے لیولز کر رہی ہوں۔”
”میں پری انجینئرنگ کر رہا ہوں … اگر ہوئی تو … ” ثمر نے آخری تین لفظ اپنے دل میں کہے اس وقت بے اختیار اسے ثانیہ یاد آئی تھی۔
”ماڈلنگ بہت مشکل کام ہے۔” وہ پھر چند لمحوں کے لیے خاموش رہنے کے بعد بولی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!