تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”ثمر! ماڈلنگ کرو گے؟”
وہ سریاسین کے بلانے پر ان کے پاس اسٹاف روم میں گیا تھا۔ انہوں نے اسے باہر کچھ دیر انتظار کرنے کے لیے کہا۔ وہ ڈرا میٹکس کے انچارج تھے اور ثمر ان کا چہیتا’ ہر فن مولا شاگرد … جو رول اور کام ہر ایک کرنے میں ناکام رہتا۔ وہ بالآخر ثمر کو سونپا جاتا اور ثمر کو سونپنے کا مطلب مکمل اطمینان تھا۔ وہ ایکٹنگ سے ڈائریکشن’ ڈائریکشن سے کاسٹنگ’ کاسٹنگ سے پلے رائٹنگ اور میک اپ آرٹسٹ سے لائٹ مین اور بوم آپریٹر تک ہر کام کر لیتا تھا۔ کالج کے دو سالوں میں اس کا زیادہ تر وقت ان ہی کاموں میں صرف ہوتا رہا تھا اور اس کا اثر اس کی اکیڈمک کیریئر پر بھی پڑا تھا۔ وہ نکما اسٹوڈنٹ نہیں تھا مگر شہیر اور ثانیہ کے ”A” گریڈز کے سامنے اس کے ”B” گریڈز دو اوپر نیچے رکھے ہوئے زیرو کی شکل اختیار کر لیتے۔کالج میں جا کر یہ ”B” آہستہ آہستہ ”C” میں تبدیل ہو گیا۔ ثانیہ کے بقول یہ ”C” دراصل ادھورا زیرو تھا جو اس کے ایف ایس سی کے فائنل رزلٹ کی مدد سے مکمل ہونے والا تھا اور ثانیہ سے ہر وقت جھگڑا کرتے رہنے کے باوجودثمر کو لگتا تھا کم از کم اس معاملے میں ثانیہ کی پیش گوئی پوری ہونے والی تھی مگر اسے اس معاملے میں زیادہ پروا نہیں تھی۔ پڑھائی کی طرف سے وہ فطری طور پر کچھ لاپروا تھا۔
سریاسین دس پندرہ منٹ کے بعد باہر آئے تو ثمرو ہیں باہر کوریڈور میں ٹہل رہا تھا۔
”ثمر! ماڈلنگ کرو گے؟” انہوں نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔
”کوئی ورائٹی شو ہو رہا ہے؟” ثمر نے پوچھا۔
”نہیں یار ! ٹی وی کے ایڈ کی بات کر رہا ہوں۔” انہوں نے اس بار قدرے بے تکلفی سے پوچھا۔
چند لمحوں کے لیے ثمر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ”ٹی وی کا ایڈ؟” اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں بھئی! میرے ایک دوست آج کل ایک کمرشل کے سلسلے میں یہاں آئے ہوئے ہیں۔ کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں چاہیے تھیں۔ اچھی شکل و صورت کے جو کچھ ایکٹنگ وغیرہ بھی کر سکیں۔” سریاسین نے تفصیل بتائی۔
”مجھ سے پوچھا تو میرے ذہن میں فوراً تمہارا نام آیا۔ میرے پاس تمہاری کچھ تصاویریں پڑی تھیں’ مختلف گیٹ اپ میں’ میں نے انہیں دکھائیں تو انہیں پسند آئیں۔ مجھ سے کہہ رہے تھے’ تم سے ملواؤں مگر میں نے کہا تم سے پہلے پوچھ لوں۔ کالج میں ایکٹنگ وغیرہ اور بات ہے مگر ٹی وی پر ماڈلنگ پتہ نہیں تمہیں گھر سے اجازت ملے یا نہیں۔” انہوں نے بات کرتے کرتے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
”نہیں’ نہیں’ سر! مجھے گھر سے اجازت کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔” ثمر نے فوراً سے پیشتر کہا۔
”میری امی کی تو ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ میں ایکٹر اور ماڈل بنوں۔ وہ تو بہت خوش ہوں گی اور میرے میرے بھائی تو میری کسی بات کو ٹالتے ہی نہیں۔ انہیں بتاؤں گا تو وہ خود آپ کے پاس آئیں گے۔” اس نے جھوٹ کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑے۔
”اچھا تو پھر تم ایسا کرو کہ اپنے بھائی کو میرے پاس بھجواؤ۔” سریاسین کو اس کی بات پر کسی حد تک یقین آ گیا۔
”وہ آج کل شہر سے باہر ہمارے گاؤں گئے ہیں۔ دو تین ہفتے کے بعد آئیں گے۔” ثمر نے اسی سانس میں اگلا جھوٹ بولا۔ سریاسین نے اسے غور سے دیکھا۔
”اچھا تو پھر اپنی امی سے مجھے ملوا دو۔”




”وہ تو پردہ کرتی ہیں۔ ہاں میں فون پر بھائی یا امی سے آپ کی بات کروا دیتا ہوں۔” اس نے بڑے اعتماد سے کہا۔ سریاسین نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور دو تین دفعہ اسے تھپتھپایا۔
”فون پر وہ تمہاری امی یا بھائی سے بات کرے جو تمہیں جانتا نہ ہو۔ ہر قسم کی آواز تم نکال لیتے ہو اور مجھ سے کہہ رہے ہو کہ میں فون پر بات کر لوں۔ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ گھر سے اجازت نہیں ہے اور نہ ہی ملے گی۔”
ثمر بے اختیار کھلکھلایا۔ ”جب آپ کو پتا ہے تو پھر اجازت کی بات کیوں کر رہے ہیں۔” اس نے جھینپتے ہوئے کہا۔ ”یہ پاکستان ہے’ یہاں کبھی کسی کے گھر والے ہنسی خوشی کسی کو ایکٹر بننے کی اجازت نہیں دے سکتے مگر میں نے تو شوبزنس کے علاوہ اور کہیں جانا ہی نہیں۔ آپ مجھے ملوائیں ان سے’ میں ماڈلنگ کر لوں گا۔”
سریاسین کچھ دیر اسے گھورتے رہے پھر انہوں نے جیسے ہتھیار ڈال دیے۔ جیب سے والٹ نکالا اور ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر اسے دیا۔
”ان سے جا کر ملو’ میرا ریفرنس دینا اور دیکھو’ جہاں بھی کام کرنا’ شرافت سے کام کرنا۔” سریاسین نے بات کرتے کرتے اپنا ہزار دفعہ کا دہرایا ہوا جملہ بولا۔
”سوفیصد شرافت سر!” ثمر نے سو دفعہ دہرایا جانے والا جواب دیا۔ وہ اب کارڈ پر نظریں ڈال رہا تھا۔ اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ سریاسین اس کا کندھا تھپک کر اب وہاں سے جا چکے تھے۔ ثمر کو جیسے پر لگ گئے تھے۔ اس دن وہ پورے کالج میں اڑتا پھرا تھا جو چند کلاسز وہ پہلے اٹینڈ کر لیتا تھا’ وہ بھی اس نے نہیں کی تھیں۔ سارا دن وہ تصور میں اپنے آپ کو اسکرین پر دیکھتا رہا تھا۔
گھر آ کر بھی وہ بے حد خوش تھا اور اس کی خوشی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی تھی مگر اس نے کسی کو اس کی وجہ بتانے کی حماقت نہیں کی تھی’ ورنہ اس کا نتیجہ جو ہوتا’ وہ جانتا تھا۔
ثانی نے بڑے تعجب سے اس دن اسے ظہر ‘ عصر’ مغرب اور عشاء کی نمازیں باقاعدگی اور خشوع و خضوع سے مسجد میں پڑھنے کے لیے جاتے دیکھا تھا’ ورنہ اس سے پہلے وہ نماز باقاعدگی سے نہیں پڑھتا تھا۔ عشاء کی نماز سے واپسی پر وہ جب آیا تو وہ کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
”اللہ خیر کرے’ ثمر صاحب نے آج اسلام قبول کر لیا ہے اور دھڑا دھڑ عبادت ہو رہی ہے۔ کسی اور ٹیسٹ میں فیل ہو گئے ہو یا پھر کوئی ٹیسٹ ہونے والا ہے؟”
اسے یہی شک ہوا تھا کہ وہ کالج میں ہونے والے کسی ٹیسٹ کی وجہ سے اس طرح نمازیں پڑھ رہا ہے۔ وہ پہلے بھی اسی طرح کیا کرتا تھا۔
”وہ دن گئے جب لوگ ٹیسٹ دیا کرتے تھے یا ان میں فیل ہوتے تھے۔ اب لوگ کچھ اور کریں گے۔”
ثمر کی زبان سے بے اختیار نکلا۔ اپنی کتاب پر کچھ لائنز کو انڈر لائن کرتے ہوئے ثانی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور کتاب بند کر دی۔ ثمر اپنے جملوں پر بے اختیار پچھتایا۔ ثانی بلا کی ذہین اور بال کی کھال اتارنے میں ماہر تھی اور کتاب بند کرنے کا مطلب کیا تھا’ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔
”نیند آ رہی ہے’ بڑی نیند آ رہی ہے۔” اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے جماہی لی اور پھر آنکھیں مسلتے ہوئے سُست سے انداز میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”کوئی ایکٹنگ وغیرہ شروع کرنے والے ہو تم؟” اس نے اپنی پشت پر ثانی کی سنجیدہ آواز سنی۔
”بیڑا غرق۔” ثمر زیر لب بڑبڑایا۔ ”چڑیل ہے یہ۔” اس نے کہا۔
”اور پڑھائی ختم … یا پھر کہیں آڈیشن کے لیے جانے والے ہو؟”
ثمر پیچھے مڑا۔ ”مجھ سے کچھ کہہ رہی ہو؟” اس نے بڑے معصوم سے انداز میں کہا۔
”کمرے میں’ میں اور تم دو ہی جاندار ہیں اور مجھے یقینا خود کلامی کی عادت نہیں ہے۔” وہ بے حد سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔
”تو کیا پوچھ رہی تھیں تم؟” ثمر نے سوچنے کی کوشش کی۔
”دوبارہ دہراؤں؟”
”ہاں’ ہاں … یاد آ گیا۔ تم ایکٹنگ کی بات کر رہی تھیں۔” وہ کہتے ہوئے دوبارہ اس کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔
”شیکسپیئر کہتا ہے۔” اس نے بڑا فلسفیانہ انداز اختیار کی۔ ”یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور سارے انسان ایکٹر۔ جو اس اسٹیج پر آتے ہیں’ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور یہاں سے چلے جاتے ہیں۔ تو شیکسپیئر کے اس بیان کے مطابق تو ہم سب ہی ایکٹر ہیں اور ایکٹر ایکٹنگ ہی کرتے ہیں۔”
اس نے داد طلب نظروں سے ثانی کو دیکھا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔
”میرا خیال ہے’ میں نے بڑی خوبصورتی سے تمہارے سوال کا جواب دے دیا ہے۔” اس کے تاثرات نے ثمر کو گڑبڑایا۔
”ہاں’ خوبصورتی کا تو نہیں پتہ مگر جواب مجھے مل گیا ہے۔” ثانی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”اور یہ ایکٹنگ تم کہاں کرنے والے ہو۔ کالج میں’ یا کالج سے باہر۔ میرا خیال ہے کالج سے باہر … اب کالج سے باہر کہاں پر؟ اس کا جواب تم پھر اسی خوبصورتی سے دے دو جس کا مظاہرہ تم نے ابھی کیا ہے۔”
وہ اس کی ہم عمر ضرور تھی’ مگر ثمر اس سے ہمیشہ دبتا تھا۔ اور اس وقت وہ بری طرح پچھتا رہا تھا کہ اس نے سیدھا اپنے کمرے میں جانے کے بجائے عادتاً اس کے پاس آنے کی کوشش کیوں کی تھی۔ اور اگر کر ہی لی تھی تو پھر زبان بند رکھنے میں کیا ہرج تھا۔
”ثانی! تم بے حد شکی ہو …” ثمر نے ناراضی سے کہا۔
”تم کل کالج نہیں جا رہے ہو؟” ثانی نے اس کے تبصرے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اور ضرورت سے زیادہ تجسس کرتی ہو؟”
”کالج کے بجائے کہیں اور … ؟”
”اور یہ دونوں عادتیں بہت بری ہیں۔” وہ تلملا کر کہہ رہا تھا۔
”اور یہ کوئی آڈیشن ہو گا؟”
”اور انسان کو ان دونوں عادتوں سے بچنا چاہیے۔”
”جس کا مطلب ہے کہ کل تم پھر کالج نہیں جاؤ گے۔”
”اور تمہیں تو خاص طور پر ان عادتوں سے بچنا چاہیے آخر کل کو تمہاری شادی ہونا ہے۔”
”اور پھر کہیں آوارہ گردی کر کے آؤ گے اور چند ماہ بعد تمہارے سالانہ امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔”
”لوگ کیا کہیں گے ثمر جیسے لڑکے کی بہن میں اس طرح کی عادتیں؟”
”اور تمہیں ذرا فکر نہیں ہے تم جب چاہتے ہو منہ اٹھا کر غائب ہو جاتے ہو۔”
”میں تو شرم سے مر جاؤں گا۔”
”خبردار! تم کہیں ادھر ادھر گئے ‘ میں امی کو بتاتی ہوں۔”
”امی کو مت بتاؤ۔ میں نہیں جاتا کہیں۔” ثمر نے بے اختیار ہتھیار ڈالتے ہوئے ملتجیانہ انداز میں اس سے کہا۔
”کہاں جانا تھا تمہیں؟” ثانی نے بڑے مطمئن انداز میں اس سے پوچھا۔ ثمر نے ایک ٹھنڈی سانس لی تھی۔
٭٭٭
صبغہ اس دن شام کو گھر واپس آئی تو کافی تھکی ہوئی تھی۔ وہ جاب کی تلاش کے سلسلے میں اس دن مختلف لوگوں کے توسط سے بہت سی جگہوں پر گئی تھی۔ اور اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ اپنی مرضی کے کام کا حصول بھی کس قدر مشکل کام ہے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی ملاقات لاؤنج میں صفدر کی بیوی سے ہوئی اور اس کے چہرے کے تاثرات نے اسے چونکا دیا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ گھر میں آج کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہے۔ اور کوئی غیر معمولی واقعہ کیا ہوسکتا تھا۔ وہ قدرے پریشانی کے عالم میں اپنے کمرے کی طرف گئی۔ وہاں موجود چاروں افراد اسے اندر آتے دیکھ کر خاموش ہو گئے تھے۔ منیزہ اور امبر کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ جب کہ رابعہ اور زارا عجیب سے تاثرات کے ساتھ اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
”کیا ہوا؟” اس نے کسی تمہید کے بغیر منیزہ کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔ منیزہ نے کچھ کہنے کے بجائے میز پر پڑا ایک لفافہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے لفافہ پکڑ لیا۔ وہ ایک رجسٹرڈ لفافہ تھا۔ اس کی پشت پر اسامہ مسعود علی کا نام تھا۔ لفافہ کھلا ہوا تھا۔ صبغہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اندر موجود کاغذات نکالے بغیر بھی وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اندر کیا تھا اور اسے کیا بھجوایا گیا تھا۔ اس کے ہاتھ کپکپانے لگے تھے۔
منیزہ نے کچھ کہنے کے بجائے میز پر پڑا ایک لفافہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے لفافہ پکڑ لیا۔ وہ ایک رجسٹرڈ لفافہ تھا۔ اس کی پشت پر اسامہ مسعود علی کا نام تھا۔ لفافہ کھلا ہوا تھا۔ صبغہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اندر موجود کاغذات نکالے بغیر بھی وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اندر کیا تھا اور اسے کیا بھجوایا گیا تھا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے اندر موجود کاغذات نکال لیے۔ وہ طلاق کے ہی کاغذات تھے اس نے صرف پہلے صفحے پر ایک نظر ڈالنے کے بعد کاغذات کو دوبارہ لفافے کے اندر ڈال دیا۔
”میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا تھا مگر تم نے میری بات نہیں سنی۔”
منیزہ نے اسے ملامت کی۔ صبغہ نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ بیڈ پر بیٹھی چپ چاپ اس لفافے کو ہاتھ میں لیے اس کی پشت پر تحریر اسی ایک نام کو دیکھ رہی تھی جو اسامہ کی اپنی تحریر تھا اور جو کبھی اس کے نام کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ اس نے خود اس سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا مگر اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی اور اس طرح اچانک اسے طلاق دے دے گا۔
اسامہ نے جو چپ سادھ رکھی تھی نئے گھر کے انتظامات کی مصروفیت میں اس کا دھیان ادھر گیا ہی نہیں تھا۔
”مجھے اسی دن سے خوف آتا تھا’ اسی دن سے۔” منیزہ نے روتے روتے کہا۔ ان کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔
”خوف …!” وہ لفظ اس کے ذہن میں کہیں گونجنے لگا تھا کسی بازگشت کی طرح۔ ہونٹوں کو ہلائے بغیر وہ بڑبڑائی۔
انسان کو خوف کب آنا چاہیے۔ تب جب دلوں کے درمیان محبت کا تعلق ختم ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ یا تب جب دنیا کے سامنے باندھا ہوا تعلق ختم ہو جائے۔
”دونوں بار …” اس نے جیسے اپنے سوال کا خود جواب دیا۔ دونوں بار … اسے یقین تھا یا پھر امید کہ اسامہ ایک بار پھر مصالحت کی کوشش کرے گا۔ پھر کئی بار مصالحت کی کوشش کرے گا۔ اس کے درمیان موجود تعلق قائم رہے گا۔ اس کا خیال تھا وہ سوچے گا’ اپنے رویے پر نظرثانی کرے گا۔ اس کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ اس کا خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ اس نے طلاق کا وہ فیصلہ کسی دباؤ کے تحت نہیں کیا تھا۔ تو پھر کیوں کیا تھا؟ کیا صرف اس لیے کیونکہ وہ اپنے دل کو اتنا بڑا نہیں کر سکا کہ اس کے ساتھ اس کی فیملی کو سپورٹ کر سکتا۔
”یہ سب کچھ تمہاری خواہش پر ہوا ہے اور تم نے یہ مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ ہم لوگوں کا کیا ہو گا؟”
اس نے سر اٹھا کر پہلی بار منیزہ کو شاکی نظروں سے دیکھا۔ ”کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسامہ سے طلاق کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ میری فیملی کا کیا ہو گا؟” وہ سوچ رہی تھی۔
”اگر میں نے کچھ نہیں سوچا تو اپنا نہیں سوچا … مگر ان کا …”
”پہلے کافی سیاہی تھی ہم لوگوں کے چہروں پر کہ تم نے اور مل دی۔” منیزہ اپنے چہرے کو دوپٹے سے رگڑتے ہوئے بولیں۔
”چپ ہو جائیں ممی! کیوں ایسی باتیں کر رہی ہیں۔” امبر نے بگڑ کر منیزہ کی بات کاٹی۔
”وہ پہلے ہی پریشان ہے’ آپ اسے اور پریشان کر رہی ہیں۔”
”اس نے خود مول لی ہے یہ پریشانی۔” منیزہ کو غصہ آ گیا۔ ”کس نے کہا تھا اس سے کہ یہ اسامہ سے طلاق مانگے۔ پوچھو اس سے کتنی بار منع کیا تھا میں نے اسے … مگر تمہاری طرح یہ بھی ضدی ہے۔ جو بات اس کے دماغ میں آ جائے بس وہی کرتی ہے۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!