تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”تم ابھی اتنی مجبور نہیں ہو صبغہ! جتنا تم اپنے آپ کو سمجھ رہی ہو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔” اسامہ کے لہجے میں یک دم نرمی در آئی۔
”میں جانتی ہوں’ آپ میرے ساتھ ہیں مگر … ” صبغہ نے بات ادھوری چھوڑی۔
”مگر …؟” اسامہ کے لہجے میں ہلکی سی حیرانی تھی۔
”میں اپنے آپ کو بہت بے بس محسوس کر رہی ہوں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا’ مجھے کیا کرنا چاہیے’ کیا نہیں۔ میرے لیے کیا بہتر ہے ‘ کیا نہیں۔”
”تمہارے لیے میرے ساتھ کے علاوہ کچھ بھی بہتر نہیں ہے۔ میں نے تمہارے لیے اپنے پورے خاندان کی مخالفت مول لی ہے۔ اب اگر تم پیچھے قدم ہٹاؤ گی تو میں یہ برداشت نہیں کر سکوں گا۔
تم سائن کرنے سے انکار کر دینا’ کیا کر لیں گے منصور چچا’ آخر کر ہی کیا سکتے ہیں۔ تمہیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
وہ چپ چاپ فون کا ریسیور کان سے لگائے ہونٹ بھینچے سنتی رہی۔
روشان نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے سرسری نظروں سے اسے دیکھا۔ صبغہ کے چہرے کے تاثرات نے اس کے قدم روک دیے۔ وہاں سے گزر کر اپنے کمرے میں چلے جانے کی بجائے وہ صبغہ کی طرف آ گیا۔ صبغہ اور اس کی نظریں ملیں۔
”ممی کا فون ہے؟” اس نے صبغہ کے قریب آتے ہوئے مدھم آواز میں پوچھا۔ صبغہ نے نفی میں سرہلایا۔ دوسری طرف اب اسامہ خدا حافظ کہہ رہا تھا۔ صبغہ نے فون رکھ دیا۔
”کس کا فون تھا؟” روشان نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے ایک بار پھر اس کا چہرہ غور سے دیکھا۔
”اسامہ کا۔” صبغہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”تم پریشان ہو؟” روشان نے کہا۔ ”اسامہ بھائی نے کچھ کہا؟”
”نہیں۔”
”پھر؟”
”پاپا نے آج اسامہ کو آفس بلایا تھا۔” اس بار صبغہ کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔
”کس لیے؟”
”مجھے طلاق دینے کے لیے۔”
روشان دم بخود رہ گیا۔
”اسامہ بھائی نے طلاق دے دی؟” صبغہ نے نفی میں سرہلایا۔




روشان کار کا ہوا سانس جیسے چلنے لگا۔ ”پھر؟”
”اسامہ نے طلاق دینے سے انکار کر دیا۔”
”بہت اچھا کیا انہوں نے’ بہت اچھا کیا۔”
صبغہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”پاپا گھر آ گئے ہیں۔” صبغہ نے اسے بتایا۔ ”وہ بہت غصے میں تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ اب خلع کے لیے کیس فائل کر رہے ہیں۔ چند دنوں تک وکیل آئے گا’ میں کاغذات پر سائن کردوں۔”
روشان نے بے اختیار مٹھیاں بھینچیں۔ ”اور تم نے کیا کہا؟”
”میں نے کچھ نہیں کہا۔”
”کیوں نہیں کہا۔” روشان غصے سے بولا۔ ”تم کہہ دیتیں کہ تم خلع نہیں چاہتیں اور خلع کے کاغذات پر کبھی سائن نہیں کرو گی۔ مجھے کم از کم تم سے خاموشی کی توقع نہیں تھی۔”
”میں نہیں کہہ سکتی تھی۔”
”کیوں نہیں کہہ سکتی تھیں۔ تم پاپا سے ڈرتی ہو؟”
”نہیں’ میں اور بہت سی چیزوں سے ڈرتی ہوں۔”
روشان نے الجھی نظروں سے اسے دیکھا۔ ”میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم خاموش کیوں رہیں۔ کیوں تم نے پیپرز کو سائن کرنے سے انکار نہیں کیا۔”
صبغہ نے روشان کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو تھے۔ ”پاپا نے مجھ سے کہا ہے کہ میں اگر اس سے خلع نہیں لوں گی تو وہ …”
روشان نے اس کی بات کاٹی۔
”تو وہ تمہیں گھر سے نکال دیں گے’ بس اور تم ڈر گئیں۔”
”نہیں’ انہوں نے کہا کہ وہ ہم سب کو گھر سے نکال دیں گے۔ مجھے’ رابعہ’ زارا کو … اور تمہیں۔”
روشان بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
٭٭٭
”یہ ہے روم نمبر دو۔” اس آدمی نے کہا اور واپس مڑ گیا۔ ہارون کمال نے دروازے پر دستک دی اور اندر داخل ہو گیا۔ کمرہ خالی تھا۔ بیڈ پر کوئی نہیں تھا۔ باتھ روم میں سے پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی۔ ہارون اطمینان سے کمرے میں موجود بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بکے کو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا۔ تب ہی باتھ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔
ہارون کمال برق رفتاری سے پلٹا۔ امبر ہاتھ میں تولیہ پکڑے اسے دیکھ کر ساکت نظر آ رہی تھی۔
ہارون کمال بے اختیار مسکرایا۔ ”ہیلو۔”
امبر جواب دینے کے بجائے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
”میں جانتا ہوں’ مجھے یہاں یوں اچانک دیکھ کر آپ حیران ہو رہی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں آپ کو اس حالت میں دیکھ کر حیران ہو رہا ہوں۔” ہارون نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ”کیسی ہیں آپ؟۔”
امبر جواب دینے کے بجائے تولیہ پکڑے اپنے بیڈ کی طرف بڑھ آئی۔ تولیے کو بیڈ کی پائنتی کی طرف اچھال کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کی نظریں اب سرخ گلابوں کے اس بکے پر مرکوز تھیں۔
”یہ میں آپ کے لیے لایا ہوں۔” ہارون نے بکے پر اس کی توجہ مرکوز ہوتے دیکھ کر کہا۔ امبر نے ایک نظر چہرہ موڑ کر اسے دیکھا پھر دوبارہ بکے کو دیکھنے لگی۔ ہارون کمال چلتا ہوا کرسی کے قریب آیا اور اسے کھینچ کر بیڈ کے پاس اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
امبر نے گردن موڑ کر اسے نہیں دیکھا۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ اسی طرح بکے کو دیکھتی رہی۔ ہارون کچھ دیر خاموش بیٹھا لفظوں کا انتخاب کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
”میری سمجھ میں نہیں آ رہا’ میں کس طرح آپ سے افسوس کا اظہار کروں۔” اس نے نپے تلے لفظوں میں اپنی بات کا آغاز کیا۔
”میں پچھلے کئی ماہ سے کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح آپ سے رابطہ کروں’ لیکن میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ منصور اس حد تک گر جائے گا۔”
امبر نے بکے سے نظر ہٹا کر ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھا۔
”مجھے اندازہ ہوتا کہ وہ یہ سب کچھ کرنے والا ہے تو میں کبھی اس کو یہ کچھ نہ کرنے دیتا۔ میں پوری کوشش کرتا اسے روکنے کی۔” ہارون کے چہرے پر تاسف تھا۔
”مگر اس نے مجھے پوری طرح اندھیرے میں رکھا۔ مجھے کچھ بھی پتا نہیں لگنے دیا۔ مجھے تو افسوس ہوتا ہے کہ میں نے ایسے شخص کے ساتھ بزنس کیوں شروع کیا۔” ہارون ایک لمحہ کے لیے خاموش ہو گیا۔
”میں جانتا ہوں’ آپ مجھے پسند نہیں کرتیں لیکن امبر! یقین کریں’ میں آپ کے ساتھ ہمیشہ سے ہی بہت پُرخلوص رہا ہوں۔ آپ چاہتیں تو مجھ سے مدد لے سکتی تھیں مگر آپ نے مجھے اپنا دوست نہیں سمجھا اور آج یہاں آپ کو دیکھ کر میں بتا نہیں سکتا’ مجھے کتنی تکلیف ہو رہی ہے۔ آپ جیسی لڑکیوں کی جگہ ذہنی امراض کے کلینک تو نہیں ہوتے۔”
اس کا انداز اب قدرے جذباتی تھا۔
”میں جانتا ہوں طلحہ نے جو حرکت کی ہے’ اس سے آپ کو شاک پہنچا ہے مگر اس طرح کے گھٹیا آدمی سے جان چھوٹ جانا آپ کی خوش قسمتی ہے۔ آخر تھا ہی کیا اس آدمی میں۔ آپ کے ٹکڑوں پر پلنے والا ایک معمولی رشتہ دار … اور آپ اس کو اتنا سیریس لے رہی ہیں۔”
امبر نے بکے سے اپنی نظریں ہٹالیں۔ وہ اب ہارون کمال کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”مجھے آپ سے بہت ہمدردی ہے امبر! یقین کریں’ واقعی ہمدردی ہے مگر آپ کی طلاق آپ کے لیے نعمت غیر ہائے مترقبہ ہے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اس لالچی آدمی سے آپ کی جان چھوٹ گئی جسے منصور علی نے آپ کے سر پر تھوپا تھا۔”
امبر کے چہرے اور آنکھوں میں اب بھی کوئی تاثر نہیں تھا۔
”پلیز ‘ میری بات کا جواب دیں’ کچھ تو کہیں’ اس طرح خاموشی اختیار مت کریں۔ چاہے مجھ سے پہلے کی طرح ناراض ہو جائیں’ بُرابھلا کہیں مگر کچھ بولیں۔”
ہارون کمال نے نرم لہجے میں اصرار کیا۔ ”مجھے بتائیں کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں’ آپ کو میری کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔”
وہ دونوں ہاتھ گود میں رکھے بیڈ پر بیٹھی اسی طرح پاؤں لٹکائے’ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ ہارون نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”میں نے ڈاکٹر سے آپ کے بارے میں بات کی ہے’ وہ کہہ رہا ہے کہ آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی مگر اس کے لیے آپ کو خود کوشش کرنا پڑے گی۔”
ہارون نے اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آنے پر ایک بار پھر گفتگو کا سلسلہ جوڑا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا’ دروازہ کھول کر منیزہ اندر آ گئیں۔ ہارون کمال کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئی تھیں۔ ہارون کمال انہیں دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے منیزہ سے کہا۔ ”میں امبر کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا’ اب کیسی ہے یہ ؟”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!