”تم منیزہ سے ملتے رہتے ہو؟” منصور سے ہارون کی ملاقات اگلے دن ہوئی تھی اور منصور کا انداز بالکل بدلا ہوا تھا۔ ہارون کو شائستہ سے ہونے والی گفتگو کے بعد ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے ابھی منصور کو بھی بہت ساری وضاحتیں دینی پڑیں گی اور وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار تھا۔
”ہاں’ میں منیزہ اور امبر سے مل رہا ہوں۔” ہارون نے بڑے متحمل انداز میں کہا۔
”اور تم نے اس کے بارے میں مجھے بتانے کی زحمت تک نہیں کی۔” منصور برہم ہوئے۔ ”اگر بھابھی مجھے نہ بتاتیں تو مجھے تو پتا ہی نہ چلتا۔”
”شائستہ بے وقوف ہے۔” ہارون نے کہا۔ ”پتا نہیں’ اس نے تم سے کس طرح بات کی ہے۔”
منصور نے تلخی سے اس کی بات کاٹی۔ ”نہیں’ میں نہیں سمجھتا کہ وہ بے وقوف ہیں۔ انہوں نے مجھے یہ سب کچھ بتا کر بہت اچھا کیا ہے۔”
”کیا بتایا ہے اس نے تمہیں؟” ہارون یک دم محتاط ہو گیا۔
”یہی کہ تم باقاعدگی سے منیزہ اور امبر کے ساتھ مل رہے ہو۔ وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا میں اس کے بارے میں جانتا ہوں مگر میرے تو فرشتوں تک کو خبر نہیں تھی۔”
”منصور ! میرے ان دونوں سے ملنے کی کوئی وجہ تھی۔” ہارون کمال نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔ کم ازکم شائستہ نے امبر کے ساتھ اس کے کسی افیئر کے بارے میں منصور کو نہیں بتایا تھا۔
”اور دیکھو’ تمہیں میرے ان سے ملنے کا کتنا فائدہ ہوتا رہا۔” اس نے کہا۔ ”میں نے تمہیں اسامہ اور صبغہ کی آپس میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا۔” منصور نے اس کی بات کاٹی۔
”مگر تم نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ تم خود وہاں منیزہ اور امبر سے ملنے جاتے رہے ہو۔”
”میں تمہیں بتانے ہی والا تھا مگر اس سے پہلے ہی تمہیں شائستہ سے پتہ چل گیا۔ میری وہاں تمہاری سابقہ بیوی سے اتفاقی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ امبر کے علاج کے لیے اسے وہاں لے کر آئی ہوئی تھی اور امبر کی حالت ان دنوں خاصی خراب تھی۔ میں شروع میں تو صرف ہمدردی کے جذبے کے تحت ان سے ملنے جاتا تھا’ منصور کسی دلچسپی کے بغیر اس کی باتیں سن رہے تھے۔ ”بلکہ میں تم سے بھی کہنے والا تھا کہ تم بھی امبر کی خیریت دریافت کرنے جاؤ۔”
”میری طرف سے وہ مرے یا جئے’ مجھے اس کی پروا نہیں۔” منصور نے یک دم بات کاٹ کر کہا۔
”ہاں’ مجھے تم سے اسی طرح کے ردعمل کی توقع تھی’ اس لیے میں نے تم سے یہ بات نہیں کی۔” ہارون نے جلدی سے کہا۔ ”بعد میں مجھے اچانک پتا چلا کہ منیزہ تم پر کیس فائل کرنا چاہتی ہے۔ میں نے ضروری سمجھا کہ میں اسے سمجھاؤں۔”
”کیس فائل کرنا چاہتی ہے تو بڑے شوق سے کرے’ کون ڈرتا ہے اس سے۔ میں اس کو کورٹ کے چکر لگوا کر اتنا ذلیل کروں گا کہ اس کا دماغ ٹھکانے آ جائے گا۔” منصور مزید برہم ہوئے۔
”وہ صرف کیس نہیں کرنا چاہتی تھی’ وہ اخباروں میں تمہارے خلاف بیان بھی دینا چاہتی تھی۔ تم چیمبر کے ممبر ہو’ بزنس کمیونٹی میں تمہاری ایک ساکھ ہے۔ اگر تمہاری سابقہ بیوی اور بچے اٹھ کر تمہارے خلاف اخباروں میں بیان دینا شروع کر دیں اور ساتھ یہ کہیں کہ اس نے دھکے دے کر ان کو گھرسے نکالا ہے اور اپنی بیٹیوں تک کا خیال نہیں کیا تو لوگوں کی ہمدردیاں کس طرف ہوں گی’ تمہیں پتا ہونا چاہیے۔” وہ بڑی چالاکی سے اپنے پتے استعمال کر رہا تھا۔
”تمہارے ساتھ ساتھ میرا نام بھی خراب ہوتا کیونکہ تم میرے بزنس پارٹنر ہو اور پھر سب سے بڑی بات چیمبر کے الیکشنز قریب ہیں۔ تمہیں تو اس طرح کی مقدمہ بازی اور بیان بازی کے بعد کوئی اپنے گروپ کی طرف سے کھڑانہ کرتا۔”
منصور علی اس بار قدرے سنجیدگی سے اس کی بات سن رہے تھے۔
”اور تمہارے ساتھ ساتھ میرے ووٹ بینک میں بھی کمی آتی۔ مجھے اس متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے کچھ تو کرنا ہی تھا۔” وہ ان کے بہترین خیر خواہ کی طرح گفتگو کر رہا تھا۔
”تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ہر چیز کو پہلے سے بھانپ کر اس کے مطابق پلاننگ کرتا ہوں۔ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کرتا اور اس طرح کا جھگڑا یقینا کوئی معمولی بات نہیں ہو سکتی تھی۔” وہ چند لمحوں کے لیے رکا۔
منصور علی کے ماتھے کی شکنوں میں قدرے کمی آ چکی تھی۔
”تمہیں تو میں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ میں نے تمہاری بیٹی کے میڈیکل بلز کی ادائیگی کی ہے۔”
”کیوں کی ہے تم نے۔” منصور علی بھڑکے۔ ”منیزہ اپنے بھائی کے گھر بیٹھی ہوئی ہے’ وہ کرتا۔”
”مگر وہ تمہاری اولاد پر کچھ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہے۔”
”یہ ان کا مسئلہ ہے’ میرا نہیں اور تمہیں بھی ان کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ تمہیں کم از کم ہر ماہ انہیں اخراجات کے لیے کچھ رقم ضرور دینا چاہیے۔” ہارون کمال نے کہا۔ ”وہ لوگ اگر کورٹ میں جاتے ہیں تو کورٹ بھی ان کے حق میں فیصلہ کرے گا اور تمہیں مجبور کر دے گا کہ تم اپنے بچوں کے اخراجات کے لیے انہیں رقم دو۔”
”میں ان لوگوں کو ایک پیسہ نہیں دوں گا۔”
”سوچ لو’ میں نے صورت حال تم پر پوری طرح واضح کر دی ہے۔ منیزہ کے خیالات بھی تم تک پہنچا دیے ہیں اور ممکنہ نتائج سے بھی تمہیں آگاہ کر دیا ہے’ حل بھی تجویز کر دیا ہے۔ اب تم اگر پھر بھی اپنے فیصلے میں تبدیلی نہیں لاتے تو ٹھیک ہے’ میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔” وہ رکا اور اس نے ایک سگریٹ سلگایا۔
منصور اس پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ ”جہاں تک میرا تعلق ہے’ میں اب منیزہ سے یا تمہاری فیملی سے رابطہ نہیں کروں گا کیونکہ شائستہ کا خیال ہے کہ ہمیں تمہارے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے اور تمہارے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تم پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔”
وہ شائستہ کے ساتھ ہونے والے اختلاف کو بڑی کامیابی سے اپنے لیے استعمال کر رہا تھا۔
”تم ویسے بھی میری بیوی کی نیچر کو جانتے ہو’ وہ دوسروں کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے’ نہ ہی دخل اندازی کرتی ہے مگر میرا معاملہ مختلف ہے۔ میں دوستوں کو ہر ممکنہ حد تک نہ صرف بچانے کی کوشش کرتا ہوں بلکہ ان کی مدد بھی کرتا ہوں۔” اس نے سگریٹ کا کش لگایا۔
”شائستہ ویسے بھی اس طلاق کے بعد تمہارے بارے میں کچھ زیادہ اچھی رائے نہیں رکھتی اور تمہارے ساتھ میری دوستی کو چونکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا’ اس لیے وہ تمہیں میرے اچھے دوستوں میں سے بھی ماننے سے انکار کر رہی ہے اور میں تمہارے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور گہرائی کے بارے میں اس کو سمجھانے سے قاصر ہوں۔”
منصور کے چہرے پر موجود تناؤ اب مکمل طور پر غائب ہو چکا تھا۔
”تم اپنے معاملے کو بہتر طریقے سے ہینڈل کر سکتے ہو اور تمہیں کرنا چاہیے۔ میں دوبارہ اس معاملے میں نہیں پڑوں گا کیونکہ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میری نیک نیتی کو تم بھی کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کرو۔”
”مجھے تمہاری نیک نیتی پر کوئی شبہ نہیں ہے۔” منصور علی نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔ ”کم از کم تم یہ ذہن میں کبھی مت لانا کہ میں تمہاری نیت کے بارے میں کسی شک کا اظہار کر رہا ہوں۔ ” منصور علی سنجیدگی سے کہہ رہے تھے۔
”میں اس پورے معاملے کے بارے میں غور کروں گا اور بہت جلد تمہیں بتاؤں گا کہ میں کیا کرنے والا ہوں میں تمہاری تجویز پر بھی غور کروں گا۔” ہارون کمال مطمئن ہوتے ہوئے اس کے آخری جملے پر الجھے۔
”میری تجویز؟” اس نے سوالیہ انداز میں کہا۔
”ہاں ‘ تم ماہانہ اخراجات کی بات کر رہے تھے۔” منصور علی نے کہا۔ ”میرا خیال ہے’ مجھے ان لوگوں کو ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم دے ہی دینی چاہیے۔ اس سے کم از کم اس عورت کا منہ بند رہے گا۔”
ہارون کمال کا منہ کھلا رہ گیا۔ کسی نے اس کے پیٹ میں جیسے گھونسا مارا تھا۔ اسے اپنا سارا پلان غارت ہوتا ہوا نظر آنے لگا تھا۔ منصور علی کو جھوٹی وضاحتیں دینے کے لیے استعمال کی جانے والی ایک بات جس کے بارے میں اسے سو فیصد یقین تھا کہ منصور اس پر رضامند نہیں ہو گا’ اب اس کے گلے کی ہڈی ثابت ہونے والی تھی۔ منصور کی طرف سے ماہانہ اخراجات اٹھانے کا مطلب تھا کہ اب وہ امبر کی فیملی کی مالی مدد کر کے ان پر جو اثر و رسوخ قائم کر سکتا تھا’ وہ موقع اس کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ وہ منصور کا منہ دیکھ رہا تھا۔
”کورٹ میں جانے کی صورت میں بھی تو پیسہ خرچ ہو گا تو وہ خرچ ایسے ہی سہی۔”
منصور سوچتے ہوئے کہہ رہے تھے اور ہارون کمال پچھتا رہا تھا۔ اس کے ستارے آج کل پوری طرح گردش میں آئے ہوئے تھے۔
”ہاں’ تم سوچ لو اور پھر کوئی فیصلہ کرو۔” ہارون کمال نے اپنے دماغ کے گھوڑے کہیں اور دوڑاتے ہوئے سرسری انداز میں کہا۔ وہ اپنے آپ کو بے تحاشا کوس رہا تھا۔
٭٭٭
اگلے چند دن صبغہ ہر روز کرائے کے گھر میں آ کر وہاں ہونے والا مرمت کا کام دیکھتی رہی۔ فاطمہ نے جن مزدوروں کا انتظام کیا تھا’ وہ واقعی بڑی محنت اور اچھے طریقے سے کام کر رہے تھے۔ صبغہ چند گھنٹے وہاں گزارتی پھر جب فاطمہ گھر آ جاتی تو وہ اسے گھر بھیج دیتی۔
”اب ان کی نگرانی میں کروں گی’ تم چلی جاؤ۔” صبغہ پر ان کے احسانات کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔
وہ اگلے چند دنوں میں ثانیہ اور ثومی سے بھی ملی تھی۔ شہیر کی طرح ثمر نے بھی اس سے صرف رسمی علیک سلیک کی تھی مگر ثانی اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی تھی۔ دونوں کے درمیان کچھ بے تکلفی پیدا ہو گئی تھی۔
ایک ہفتے میں کام مکمل ہونے کے بعد وہ منیزہ کو وہاں لے کر آئی۔ منیزہ گھر کو دیکھ کر بے حد ناخوش ہوئیں تھیں اور اس کا یہ ردعمل صبغہ کے خلاف توقع نہیں تھا۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ ایک بڑے گھر اور پوش علاقے سے دو کمرے کے گھر اور مڈل کلاس علاقے میں آنا کتنا دشوار تھا مگر ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ منیزہ’ امبر کو لے کر واپس گھر آ چکی تھیں او اس کے گھر آنے کے اگلے ہی دن صفدر اور اس کی بیوی نے ان سے شفٹنگ کی بات کی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی کی تیاریاں بھی کر رہے تھے اور انہوں نے اس حوالے سے بھی منیزہ کو جگہ کی کمی کا جتا دیا تھا۔ منیزہ پر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ کم از کم اس گھر میں مزید رہنا ان کی خواہش کے باوجود بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ صبغہ کے کرائے پر لیے گئے گھر کو دیکھنے کے لیے بھی آ گئی تھیں اور یہاں آ کر اس گھر کو دیکھ کر ان کی ناخوشی اور اضطراب میں اضافہ ہوا تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ وہ اس وقت صبغہ کے ساتھ گھر دیکھنے آئیں’ جب فاطمہ گھر پر موجود نہیں تھی۔ ماں کو بجھا بجھا دیکھنے کے باوجود صبغہ انہیں وہاں کے کم کرائے’ اچھے ماحول اور بہت سی دوسری آسانیوں کے بارے میں بتاتی رہی مگر منیزہ کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہاں سے منیزہ کے ساتھ واپس صفدر کے گھر جاتے ہوئے منیزہ خاموش تھیں اور صبغہ بے حد مایوس اور بد دل۔
”مجھے وہ گھر پسند نہیں آیا’ کوئی اور گھر دیکھنا چاہیے۔” رات کو صفدر سے ملاقات پر منیزہ نے بالآخر ان سے کہہ دیا تھا۔
”کیوں ‘ کیا خرابی ہے اس گھر میں؟۔” صفدر نے قدرے ناگواری سے کہا۔ ”میں خود وہ گھر دیکھ چکا ہوں اور مجھے تو ٹھیک ہی لگا ہے۔”
”وہ بہت چھوٹا ہے۔” منیزہ نے دبی زبان میں کہا۔
”دو کمرے تم لوگوں کے لیے کافی ہیں۔ یہاں تو تم لوگ ایک کمرے میں رہ رہے ہو۔” اس بار منیزہ کی بھابھی نے کہا۔
”یہاں تو مجبوری ہے۔”
”تو وہاں بھی مجبوری سمجھ کر گزارہ کر لینا۔” منیزہ کی بھابھی نے کھٹاک سے کہا۔ منیزہ نے صفدر کو دیکھا جس کے ماتھے پر بل آہستہ آہستہ بڑھتے جا رہے تھے۔
”مگر اس گھر میں سہولتیں نہیں ہیں۔”
”کیا سہولتیں نہیں ہیں۔ بجلی’ پانی’ گیس سب کچھ ہے۔ ہاں ماربل نہیں لگا ہوا یا اٹیچ باتھ اور امریکن کچن نہیں ہے تو کرایہ بھی تو کم ہے۔ بجلی اور گیس کا بل بھی تو کم آئے گا اور ان حالات میں جتنے اخراجات کم ہوں’ تمہارے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔” صفدر نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا۔
”مگر بھائی جان! ہم کبھی محلے میں نہیں رہے۔ ہمیں تو اس طرح کے ماحول میں رہنے کی عادت ہی نہیں ہے جو ماحول وہاں کا ہے۔” منیزہ نے کہا۔
”وہاں رہنا شروع کرو گی تو عادت پڑ جائے گی۔ وہاں بھی انسان ہی رہتے ہیں۔” صفدر کی بیوی نے ٹکڑا توڑ انداز میں کہا۔
”صبغہ نے مجھے بتایا تھا’ ساتھ والے گھر میں بہت اچھی خاتون رہتی ہیں اور باقی محلے کے لوگ بھی اچھے ہیں’ یہ کافی ہے۔ تم نے ویسے بھی گھر کے اندر رہنا ہے’ باہر نہیں۔” اس بار صفدر نے کہا۔
”میں سوچ رہی تھی اگر کہیں اور گھر … میرا مطلب ہے اسی کالونی میں۔” صفدر نے ان کی بات کاٹی۔
”یہاں پر کرائے بھی زیادہ ہیں اور ایڈوانس بھی پھر بلز بھی ہوں گے۔ یہ سب کون دے گا۔ میں تو افورڈ نہیں کر سکتا۔ میں تو یہی ہے کہ دو چار ہزار ہر ماہ دے دوں۔ اس سے زیادہ تو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔” وہ صفدر کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔
”جب تم افورڈ کر سکو گی تو پھر جس کالونی میں دل چاہے گھر لے لینا’ ہمیں کیا اعتراض ہو گا۔” منیزہ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔
صفدر کے پاس سے اٹھ کر آنے کے بعد بھی منیزہ نے ہار نہیں مانی تھی۔ انہوں نے ہارون کمال کو کال کی۔ ہارون نے بڑی خوشی اور مسرت کے عالم میں کال ریسیو کی۔
”ہارون بھائی! آپ اپنے کسی گھر کی بات کر رہے تھے’ جہاں ہم شفٹ ہو سکیں۔” مختصر سی تمہید کے بعد منیزہ نے کہا۔
”ہاں’ مگر صبغہ نے تو گھر کا انتظام کر لیا تھا؟”
”ہاں مگر وہ گھر بہت چھوٹا اور بہت ہی گندے علاقے میں ہے۔ ہم وہاں نہیں رہ سکتے۔”
”میں جانتا تھا’ اسی لیے میں نے آپ کو آفر بھی کی تھی مگر اب تو ایک مسئلہ ہو گیا ہے بھابھی!”
”کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟” منیزہ کا دل بے اختیار ڈوبا۔
”میں کل صبح کی فلائٹ سے انگلینڈ جا رہا ہوں’ وہاں کچھ دن رہوں گا۔ وہاں سے آنے کے بعد ہی کچھ کر سکوں گا۔”
”کتنا عرصہ رہیں گے وہاں؟”
”حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر کوشش کروں گا کہ جلد آ جاؤں بلکہ آپ کو انفارم بھی کر دوں گا اپنے پروگرام سے۔”
کچھ دیر دونوں میں بات ہوتی رہی پھر منیزہ نے قدرے مایوسی کے عالم میں فون رکھ دیا۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ فوری طور پر انہیں اسی مکان میں جانا تھا اور وہاں جانے کا تصور ہی اس وقت ان کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔
وہ جب اپنے کمرے میں واپس آئیں تو امبر سو رہی تھی۔ صبغہ اس کے برابر میں بیڈ پر لیٹی کسی سوچ میں ڈوبی تھی جبکہ رابعہ اور زارا اپنا ہوم ورک کرنے میں مصروف تھیں۔ منیزہ کو اس وقت صبغہ پر بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا۔ نہ وہ اس گھر کا انتخاب کرتی’ نہ انہیں وہاں جانے کے بارے میں سوچنا پڑتا اور کیا تھا اگر وہ ہارون کمال کی آفر کو اس دن قبول کر لیتیں۔ صبغہ نے منیزہ کے کمرے میں داخل ہونے پر ان کے تاثرات سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کر لیا تھا۔ منیزہ اسے مخاطب کیے بغیر اپنے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی۔ صبغہ لیٹے لیٹے گردن موڑ کر ماں کو دیکھتی رہی۔ وہ انہیں مخاطب کرنا چاہ رہی تھی مگر پھر اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔
٭٭٭