تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”میں کیوں تمہیں بے وقوف بناؤں گا’ کس لیے۔” ہارون کمال نے برہم ہوتے ہوئے کہا۔ ”منصور کی فیملی سے ملاقات کا مقصد اور ہے۔ میں منصور اور اس کی فیملی کے درمیان کسی نہ کسی حد تک مصالحت چاہتا ہوں اور اسی لیے ان سے مل رہا ہوں۔”
”کیسی مصالحت؟” شائستہ مزید برہم ہوئی۔
”میں چاہتا ہوں کہ منصور اچھے طریقے سے اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ جائیداد اور بچوں کے اخراجات کے معاملے کو طے کر لے۔”
”وہ کرے نہ کرے’ اس سے تمہارا کیا تعلق ہے؟”
”تعلق ہے۔” ہارون کمال نے زور دیا۔ ”منصور علی کی بیوی’ منصور علی کے خلاف کورٹ میں کیس کرنا چاہتی ہے۔”
”تو…؟”
”تو یہ کہ میں نہیں چاہتا’ منصور علی کسی قانونی جنگ میں انوالو ہو۔ یہ اس کے ساتھ میرے بزنس کے لیے نقصان دہ ہو گا۔”
”تم نے اس کے بارے میں منصور علی کو بتایا ہے؟”
”ہاں۔”
”منصور علی کو کلینک میں تمہاری اور منیزہ کی کسی ملاقات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔”
ہارون کمال کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”میں منصور سے پوچھ چکی ہوں۔”
”میں اسے بتانے ہی والا تھا۔” ہارون نے کہا۔
”وہ عجیب سے انداز میں ہنسی۔ ”اور یقینا تم مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہو گے۔”
ہارون نے اس کا چہرہ دیکھا اور بے اختیار دل میں اسے گالی دی۔ وہ اس وقت پوری طرح اس عورت کے رحم و کرم پر تھا اور مسلسل جھوٹ بولنے پر مجبور تھا۔ وہ عورت اسے ایک بچے کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی۔
”میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ منیزہ’ منصور کے ساتھ کورٹ سے باہر ہی کوئی معاملہ طے کر لے۔”
”اور اس مقصد کے لیے تم نے وہاں روزانہ جانا ضروری سمجھا۔” شائستہ نے اس کی بات کاٹی۔ ”بائی دا وے۔ مجھے یہ سمجھاؤ کہ اس مصالحت سے بزنس کے متاثر نہ ہونے کے علاوہ تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟”
”میں یہ سب کچھ اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں کر رہا۔”




”تو پھر کس کے فائدے کے لیے کر رہے ہو۔ منصور کے فائدے کے لیے’ جسے سرے سے اس کی پروا ہی نہیں ہے۔” وہ ہنسی۔ ”جو اپنی نئی بیوی اور اولاد کے ساتھ ایک پُرمسرت زندگی گزار رہا ہے۔”
ہارون کمال نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی۔ شائستہ نے بڑی رکھائی سے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اور دوسری طرف تم ہو کہ اس کے غم میں دبلے ہو رہے ہو۔ مصالحت کی ترکیبیں سوچ سوچ کر پاگل ہوئے پھر رہے ہو۔” شائستہ نے پانی کا گلاس اٹھا کر گھونٹ بھرا۔
”ویسے مجھے حیرانی ہے ہارون! کہ تم اتنے رحم دل کب سے ہو گئے ہو کہ لوگوں میں مصالحتیں کرواتے پھرو۔ تم تو اس طرح کے آدمی نہیں تھے’ کبھی بھی نہیں تھے۔” وہ واضح طور پر اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔
”تم میری بات کو بنا سنے’ سوچے’ سمجھے بغیر مجھ پر تنقید کر رہی ہو۔”
”بالکل کر رہی ہوں کیونکہ مجھے تم سے اتنی حماقت کی توقع نہیں تھی۔ خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر تم پہلے بھی اندھے ہوتے رہے ہو مگر اس بار ایک غلط لڑکی کو دیکھ کر پاگل ہو رہے ہو۔” شائستہ نے گلاس میز پر پٹخا۔
”تم مجھ پر الزام لگا رہی ہو۔ میں منیزہ کے ساتھ انوالو نہیں ہوں۔” ہارون کمال نے برہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانستہ طورپر منیزہ کا نام لیا۔
”میں نے کب کہا کہ تم منیزہ کے ساتھ انوالو ہو۔ میں تمہارا ٹیسٹ اچھی طرح جانتی ہوں۔”
”تو …؟”
”تو … میں امبر کی بات کر رہی ہوں۔”
”تم پاگل ہو گئی ہو۔”
”نہیں’ تم پاگل ہو گئے ہو۔” شائستہ نے بھی اسی تند و تیز انداز میں کہا جس میں ہارون کمال بولا تھا۔
”اسد کو اگر تمہاری ان حرکات کے بارے میں پتا چل جائے تو وہ کیسی قیامت اٹھائے گا’ تمہیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔” اس نے حقارت آمیز انداز میں ہارون کو دیکھا۔ ”اور میں … میں وہ پہلا شخص ہوں گی جو اسد کو اس بارے میں اطلاع فراہم کرے گا۔” اس نے واضح طور پر ہارون کو دھمکی دی تھی۔
”تم یہ سمجھتی ہو کہ میں اسد کو اس لڑکی سے شادی سے منع کرنے کے بعد اب خود اس لڑکی کے عشق میں پاگل ہو رہا ہوں’ اس کیلئے وہاں جا رہا ہوں؟” ہارون کمال نے بے یقینی سے کہا۔
”نہیں’ میں نے یہ نہیں کہا کہ تم اس لڑکی کے عشق میں پاگل ہو رہے ہو۔ تم کسی سے عشق کرنے کے قابل نہیں ہو مگر جہاں تک وہاں جانے کا تعلق ہے۔ ہاں ‘ تم وہاں اسی لڑکی کے لیے جا رہے ہو۔” اس نے تضحیک آمیز انداز میں کہا۔
”اتنے سال میرے ساتھ رہنے’ مجھے جاننے کے باوجود تم میرے بارے میں یہ سب کچھ کہہ رہی ہو۔”
”ہاں’ تمہارے ساتھ اتنے سال رہنے کے بعد ہی تو میں تمہیں اچھی طرح جان پائی ہوں۔” شائستہ دو دھاری تلوار کی طرح ہو رہی تھی۔ ”اتنے سال میں نے کبھی تمہیں کسی عورت کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے نہیں روکا۔ نہ میں نے اعتراض کیا’ نہ احتجاج۔ میں خود تمہیں مواقع فراہم کرتی رہی مگر اس بار یہ نہیں ہو گا۔” پورا شہر تمہارے سامنے پڑا ہے۔ جاؤ کسی بھی عورت کے پیچھے خوار ہو مگر اس لڑکی کے پیچھے نہیں کیونکہ اس لڑکی کے ساتھ ہونے والا تمہارا کوئی افیئر مجھے اور میری فیملی کو تباہ کر دے گا اور یہ میں نہیں ہونے دوں گی۔”
شائستہ کا سانس پھول رہا تھا۔
”مجھے اس لڑکی کے وجود اور نام سے بھی نفرت ہے اور میں یہ برداشت نہیں کروں گی کہ تم اس لڑکی کے ساتھ رومانس کرتے پھرو۔ کل اس کے لیے اسد میرے سامنے کھڑا ہو گیا تھا’ آج یا آنے والے کل تم ہو جاؤ گے … اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی میں نہیں چاہتی کہ تم اور اسد اس ایک لڑکی کی وجہ سے ایک دوسرے سے منہ چھپاتے پھرو’ اس لیے میں تمہیں وارن کر رہی ہوں’ دوبارہ منصور علی کی فیملی سے تمہارا کوئی رابطہ نہیں ہونا چاہیے’ ورنہ میں کیا کروں گی’ یہ تمہیں جان لینا چاہیے۔”
وہ سرخ چہرے کے ساتھ وہاں سے چلی گئی تھی۔
ہارون کمال بالکل ساکت بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اس سے پہلے شائستہ سے کبھی اتنی نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی نفرت وہ اس وقت محسوس کر رہا تھا۔ اسے وہ عورت نہیں آکٹوپس لگ رہی تھی جس نے اس وقت اسے ہر طرح سے اسے بے بس کر دیا تھا۔ کافی سال پہلے ایک ٹین ایجر لڑکی سے شادی کرتے ہوئے اس کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں آیا تھا کہ وہ سہمی’ دبکی’ شرماتی ہوئی لڑکی اتنی بے خوف اور دلیر ہو جائے گی کہ اسے اپنی مٹھی میں لینے کی کوشش کرے گی اور اب جب ایسا ہو رہا تھا تو وہ بے یقینی کی ایک عجیب کیفیت کا شکار تھا۔ شائستہ اس کے اور امبر کے درمیان آ رہی تھی۔
اسے شائستہ کا کوئی خوف نہ ہوتا’ اگر اسد’ امبر کے لیے پسندیدگی کا اظہار نہ کر چکا ہوتا اور وہ اسد سے امبر کے بارے میں وہ سب کچھ نہ کہہ چکا ہوتا جو وہ کہہ چکا تھا۔ جوس کا گلاس اس کے سامنے ٹیبل پر دھرا تھا مگر وہ اسے پینا بھول چکا تھا۔ امبر پھر اسے اپنے ہاتھ سے نکلتی محسوس ہو رہی تھی اور وہ ایک عجیب سی تکلیف کاشکار تھا۔
٭٭٭
شہیر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد فاطمہ کے کمرے میں آیا۔ فاطمہ کھانا لگا چکی تھی۔
”ثانی اور ثومی کہاں ہیں؟” شہیر نے پوچھا۔
”وہ دونوں مارکیٹ گئے ہیں۔” فاطمہ نے بتایا۔
وہ زمین پر بچھے دسترخوان پر بیٹھ گیا۔ وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے باتیں کرنے لگے۔ شہیر اسے دن بھر کی مصروفیات بتا رہا تھا۔ وہ اسکول میں ہونے والے واقعات سے اس کو آگاہ کر رہی تھی۔ کھانے پر روز یہی ہوتا تھا۔ ثانی اور ثومی موجود ہوتے تو وہ اپنے مسائل اور جھگڑے گوش گزار کر رہے ہوتے۔ وہ نہ ہوتے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے اپنے مسائل ڈسکس کرتے۔ شہیر کے مزاج میں فطرتاً ایک جھجک تھی’ وہ کم گو تھا اور جب ثانی اور ثومی نہ ہوتے تو وہ نسبتاً زیادہ آسانی سے فاطمہ کے ساتھ اپنے مسائل یا باہر پیش آنے والی کسی پریشانی اور دقت کے بارے میں بات کرتا مگر ثانی اور ثومی کے سامنے وہ صرف ان ہی کی بات سنتا اور مشورے دیتا’ پنے بارے میں وہ کم ہی گفتگو کرتا۔ وہ ایم بی اے کر رہا تھا اور شام کے اوقات میں ایک ادارے میں پارٹ ٹائم جاب کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ ٹیوشنز بھی کرتا تھا۔ شروع سے اسکالر شپ پر پڑھنے کے باوجود وہ اب جس ادارے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا’ وہاں بہت سے ایسے اخراجات تھے جو کام کیے بغیر پورے نہیں کر سکتا تھا’ نہ ہی فاطمہ کی تنخواہ اس کی ضروریات پوری کر سکتی تھی۔
وہ یونیورسٹی سے واپس آنے کے بعد کھانا کھاتا اور پھر اپنی جاب پر چلا جاتا۔ وہاں سے اس کی واپسی تقریباً دس بجے ہوتی تھی اور اس وقت وہ اتنا تھک چکا ہوتا تھا کہ اس کا کسی سے بات کرنے کا جی نہیں چاہتا تھا۔ البتہ دوپہر کے کھانے پر وہ اور فاطمہ اگر اکیلے ہوتے تو زیادہ تر وہی بول رہا ہوتا۔ فاطمہ صرف سنتی تھی۔
آج خلاف معمول فاطمہ نے گفتگو کا آغاز کیا تھا۔ وہ اسے صبغہ اور اس کی فیملی کے بارے میں بتا رہی تھی۔ شہیر سے بہت غور سے اس کی بات سن رہا تھا۔ اسے فاطمہ کے ”سوشل ورک” پر حیرانی نہیں ہوئی تھی۔ وہ بچپن سے یہی سب کچھ دیکھتا آ رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں کو کبھی اپنے ہوش میں دوسروں کے لیے دل آزاری اور پریشانی کا سبب بنتے نہیں دیکھا تھا’ نہ ہی کسی مسئلے نے کبھی فاطمہ کو حواس باختہ کیا تھا۔ ماں کی ”اچھی شہرت” بہت سی جگہوں پر اس کی شناخت اور تعارف بنی تھی اور بہت سے موقعوں پر اس نے اس کے لیے آسانیاں بھی پیدا کی تھیں۔
اس وقت بھی جب فاطمہ اسے صبغہ کے بارے میں بتا رہی تھی تو وہ صرف خاموشی سے سن رہا تھا۔ اس کے ذہن میں صرف ایک الجھن تھی جو صبغہ سے ہونے والی ملاقات نے پیدا کی تھی۔ صبغہ جس طرح اسے دیکھ کر چونکی تھی’ وہ اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہا تھا اور اس کے اس ردعمل نے اسے کسی حد تک الجھن کا شکار کیا تھا۔
”وہ مجھے دیکھ کر اتنی حیران کیوں ہوئی تھی؟” اس نے فاطمہ کی بات سنتے ہوئے اچانک پوچھا۔
”کون’ صبغہ؟۔” فاطمہ نے رک کر کہا۔
”ہاں’ آپ نے اس سے میرا تعارف کروایا اور وہ …” شہیر اپنی بات کہتے کہتے رک گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ صبغہ کے ردعمل کے بارے میں اپنا تاثر کس طرح بتائے۔ فاطمہ اس کے ادھورے جملے پر مسکرائی۔
”ہاں’ وہ حیران ہوئی تھی۔” اس نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
”مگر کیوں؟”
”وہ سوچ رہی ہو گی کہ تم میرے بیٹے کیسے ہو سکتے ہو؟”
فاطمہ اتنے سالوں میں ان تینوں کا تعارف اپنی اولاد کے طور پر کروانے پر اس حیرت اور پھر ریمارکس کی عادی ہو چکی تھی۔ شہیر نے ماں کے تبصرے پر قدرے ناراضی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”کیوں’ میں آپ کا بیٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟” اس کی آواز میں برہمی تھی۔ ”ضروری تو نہیں ہے کہ اولاد کی شکل بالکل ماں باپ جیسی ہو۔ کچھ مختلف بھی ہو سکتی ہے اور بالکل مختلف بھی ہوتی ہے پھر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دوسروں کو منہ کھول کر دیکھا جائے۔”
فاطمہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسی۔ شہیر واقعی بُرا مان گیا تھا جبکہ ایسا بہت کم ہوتا تھا۔
”کیوں’ کس نے منہ کھول کر دیکھا تمہیں۔ صبغہ نے ؟”
”ظاہر ہے امی! میں اسی کی بات کر رہا ہوں۔”
”اگلی بار نہیں دیکھے گی۔ صرف پہلی بار ہی حیرانی ہو گی اسے۔ اب تو ساتھ والے گھر میں ہو گی۔ دیکھتی رہے گی۔ کم از کم دوبارہ کبھی منہ کھول کر نہیں دیکھے گی تمہیں۔” فاطمہ مزے سے کہہ رہی تھی۔
”مجھ میں اور آپ میں بہت مشابہت ہے۔” شہیر نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”اچھا … کیسے ؟” فاطمہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
”میری اور آپ کی رنگت میں فرق ہے مگر فیچرز تو ملتے ہیں۔”
”نہیں۔ خیر اتنے بھی نہیں ملتے۔” فاطمہ نے اس کی بات کاٹی۔
”میری آنکھیں آپ جیسی ہیں۔”
”تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں’ ان کی رنگت بھی مختلف ہے۔”
شہیر کھانا کھاتے کھاتے رک کر فاطمہ کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے نقوش میں واقعی ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے وہ کہیں اپنے چہرے میں پاتا۔ آنکھیں’ ناک’ ہونٹ’ بال’ رنگت … سب کچھ بالکل مختلف تھا۔ فاطمہ نے اسے اپنے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس نے اس کی خاموشی کو بھی محسوس کیا تھا۔ اس نے نظریں چرا کر توجہ کھانے پر مرکوز کر دی۔
”میرا دل تو آپ کے جیسا ہے۔” اس نے شہیر کو مدھم آواز میں کہتے سنا۔ وہ لقمہ منہ تک لے جاتے ہوئے رک گئی۔ شہیر نے اس کی آنکھوں میں نمی کو امڈتے دیکھا۔
”کھانے میں مرچ زیادہ ہے۔ کیوں شہیر!” اس نے شہیر کی طرف دیکھے بغیر پانی کا گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا۔ پانی کے گھونٹ کے ساتھ وہ بہت کچھ اندر لے گئی تھی’ آنسوؤں کے امڈتے ریلے کو بھی۔ شہیر نے ماں کو غور سے دیکھا۔ فاطمہ کو اکثر کسی نہ کسی بات پر کھانا کھاتے ہوئے مرچ زیادہ محسوس ہونے لگی تھی’ وہ عادی تھا۔ اس نے ماں کے سوال پر منہ میں لیے گئے لقمے کے ذائقے پر غور کیا۔
”ہاں’ شاید۔” اس نے کہا۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی ماں کی رائے سے متفق نہ ہوتا۔ ”آئندہ کم ڈالا کریں۔” اس نے کہا۔
ایک بار پھر اسے اپنی بات یاد آئی۔
”میرا دل تو آپ کی طرح خوبصورت ہے۔” فاطمہ کی آنکھوں میں اس بار نمی نہیں اتری تھی۔ وہ مسکرا دی۔ شہیر نے ایک بار پھر ماں کو غور سے دیکھا۔
”یا پھر آپ اس بار یہ کہہ دیں گی کہ آپ کا دل مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے’ وہ بھی میرے جیسا نہیں۔” فاطمہ اس کی اس تعریف پر ہنس پڑی۔
”اگر تمہارے بجائے ثمر کو دیکھ کر صبغہ منہ کھول کر حیرانی کا اظہار کرتی تو ثمر کے پاؤں آج زمین پر نہیں ٹکنے تھے۔ وہ کہتا تھا’ دیکھ لیں حسن یوسف۔ مجھے دیکھ کر لڑکیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔
شہیر اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ فاطمہ غلط نہیں کہہ رہی تھی۔ ثمر یقینا یہ نہیں تو اسی سے کچھ ملتا جلتا جملہ کہتا۔ اسے شہیر کی نسبت اپنی وجاہت کا زیادہ احساس تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!