”میں کل صبح کتنے بجے آؤں ؟” صبغہ نے پوچھا۔
”آپ اپنی سہولت کے مطابق آ جائیں۔ صبح جلدی آ جائیں گی تو مزدور مطلوبہ سامان لا کر کام جلدی شروع کر دیں گے۔”
”میں مزدوروں کو پیسے دے دوں’ تو وہ خود ہی سارا سامان لے آئیں گے؟” صبغہ نے اس سے پوچھا۔
”ہاں وہ لے آئیں گے۔ اگر محلے میں سے کوئی ہوا تو پھر تو آپ اعتماد رکھیں کہ وہ قابل بھروسہ ہیں’ لیکن اگر کہیں باہر سے مزدور آتے ہیں تو پھر میں اپنے بیٹے سے کہوں گی’ وہ مزدوروں کو سامان لا دے گا۔”
”مجھے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں نے سارا کام آپ لوگوں کے کندھوں پر ڈال دیا۔”
صبغہ کو پہلی بار کچھ شرمندگی سی محسوس ہوئی۔
”ایسی کوئی بت نہیں’ محلے کے لوگ ایک دوسرے کے … کام آتے رہتے ہیں۔ آپ لوگ یہاں آئیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔” فاطمہ نے ایک بار پھر اسے ٹوکا۔
”صبح جب آپ آئیں گی تو میں گھر پر نہیں ہوں گی۔ میری بیٹی او ربیٹا دونوں گھر پر ہوں گے۔ میں انہیں سب کچھ بتا دوں گی۔ آپ گھر کی چابی مجھے دے دیں تاکہ میں آج اندر سے مزدوروں کو ایک بار گھر دکھا دوں۔ یا پھر کل صبح آپ جلدی آ جائیں مزدوروں کے آنے سے بھی پہلے۔”
صبغہ نے بیگ کھول کر چابیاں نکال لیں۔
”آپ چابیاں رکھ لیں’ اگر آج مزدوروں کا انتظام ہوتا ہے تو شام کو انہیں گھر دکھا دیں۔” فاطمہ نے چابیاں پکڑ لیں۔
صبغہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”میں اب چلتی ہوں۔”
فاطمہ بھی کھڑی ہو گئی۔
”آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میری ممی کو بھی ہو گی۔ آپ کی وجہ سے میرے بہت سے کام آسان ہو گئے ہیں۔”
صبغہ نے ایک دفعہ پھر مسکراتے ہوئے فاطمہ کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی۔
”مجھے بھی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ کی ممی سے ملاقات کا انتظار رہے گا۔ آپ اگر برانہ مانیں تو ایک بات آپ سے کہنا چاہتی ہوں۔ ” فاطمہ نے نرم آواز میں کہا۔
”نہیں’ میں بُرا نہیں مانوں گی۔ آپ کہیں۔” صبغہ نے کہا۔
”یہاں کسی سے یہ مت کہیں کہ آپ کے والدین میں علیحدگی ہو چکی ہے۔”
صبغہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”یہ خود کو غیر محفوظ کر لینے والی بات ہے۔”
وہ چپ چاپ فاطمہ کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”لوگ وجہ نہیں جانتے۔ صرف رائے دینا چاہتے ہیں۔ آپ کے والدین کے درمیان جو بھی اختلافات اور ان کے جو بھی نتائج رہے ہوں گے’ ان سے آپ واقف ہیں یہ لوگ نہیں۔ یہ تو صرف اندازے لگائیں گے۔ اپنی سمجھ کے مطابق’ اپنی ذہنیت کے مطابق … اور ہر اندازہ بے ضرر نہیں ہوتا۔”
وہ اب بھی اسی طرح کھڑی دم سادھے فاطمہ کو دیکھ رہی تھی۔
”یہ لوگ بہت اچھے ہیں۔ ملنسار ہیں’ ہمدرد ہیں’ مگر انسان ہیں۔ انسان کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ آپ سب کو یہی بتائیں کہ آپ کے والد بیرون ملک میں ہیں۔ اس صورت میں کم از کم آپ کو فضول سوال و جواب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ میں بھی ہر ایک سے یہی کہوں گی۔ اور یہ بھی کہوں گی کہ آپ ہمارے ملنے والوں میں سے ہیں۔”
صبغہ نے ہونٹ کاٹتے ہوئے سرہلا دیا۔
”باقی سب کچھ ٹھیک ہے’ زندگی میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔ اچھے دن نہیں رہتے بُرے دن بھی نہیں رہتے۔” وہ صبغہ کے ساتھ باہر صحن میں آتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ”انسان کی زندگی جب تک ہے’ تنگی اور کشادگی تو آتی رہتی ہے۔”
صبغہ کا دل چاہا وہ اس سے کہے کہ یہ صرف تنگی نہیں ہے’ وہ کہاں سے کہاں آ گئے تھے۔ کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔
وہ دروازے سے کچھ فاصلے پر تھے’ جب دروازے پر دستک ہوئی … فاطمہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ سلام کر کے اندر آنے والے شخص نے صبغہ کو حیرت زدہ کیا تھا۔ وہ بے حد وجیہہ تھا۔ اس کا قد تقریباً چھ فٹ تھا اور فاطمہ اور وہ خود ایک دم ہی اس کے سامنے پستہ قامت لگنے لگے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوا تھا اور فاطمہ سے بات کرتے کرتے اسے دیکھ کر چونکا تھا۔ اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔
”یہ میرا بڑا بیٹا شہیر ہے۔ اور شہیر! یہ ہمارے ساتھ والے گھر میں آئی ہیں۔”
صبغہ کا ذہن بھک سے اُڑ گیا تھا۔ شہیر … اور فاطمہ … وہ ان دونوں کے چہروں پر بے یقینی سے نظریں دوڑانے لگی تھی۔ شہیر ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالتے ہوئے رسمی علیک سلیک کے بعد وہاں رکا نہیں تھا۔ وہ فاطمہ کو خدا حافظ کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل آئی۔ مگر اس کا ذہن الجھا ہوا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ شہیر جیسا وجیہہ شخص فاطمہ کا بیٹا ہو سکتا ہے۔ مگر وہ اس کا بیٹا تھا اور اسے دیکھتے ہوئے اسے یوں بھی لگ رہا تھا جیسے وہ اسے کہیں دیکھ چکی تھی۔ کہیں مل چکی تھی۔ ایسا ہوتا تو وہ نہیں تو کم از کم شہیر ہی اسے پہچان لیتا۔ وہ واپسی کے راستہ میں جتنا اس کے بارے میں سوچتی رہی اس کا یقین پختہ ہونے لگا۔ کہ وہ پہلے بھی اس کو کہیں دیکھ چکی ہے۔ وہ شناسا تھا۔
٭٭٭
”تم آج کل شام کے وقت کہاں ہوتے ہو؟” شائستہ نے پوچھا تو گلاس میں جوس ڈالتے ہوئے ہارون کمال کا ہاتھ رک گیا’ اس نے شائستہ کو دیکھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ دودھ میں کارن فلیکس ڈال رہی تھی۔
”کہیں نہیں۔” وہ دوبارہ جوس گلاس میں ڈالنے لگا۔ شائستہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”کہیں نہیں؟” اس نے قدرے عجیب سے انداز میں کہا۔ ”کہیں نہیں کا کیا مطلب ؟”
اس بار ہارون نے قدرے غور سے شائستہ کو دیکھا۔ وہ اس کے چہرے سے کچھ اندازہ لگانا چاہتا تھا۔
”کہیں نہیں کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟” اس نے شائستہ کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے سوال کیا۔
”یہ تم کو بتانا چاہیے۔ سوال میں نے کیا تھا۔” شائستہ کا لہجہ چبھتا ہوا تھا۔
”کہیں نہیں کا مطلب یہی ہے کہ میری مصروفیات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔” ہارون نے جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے معمول کے انداز میں کہا۔ ”جو میں پہلے کر رہا تھا’ وہی اب کر رہا ہوں۔ پہلے تو کبھی تم نے میری شام کی مصروفیات میں دلچسپی نہیں لی۔ ” اس نے جوس کا گھونٹ بھر کر کہا۔ ”اب اچانک تم پوچھ رہی ہو تو مجھے حیرانی ہو رہی ہے۔ جان سکتا ہوں کہ تم نے میری شام کی مصروفیات کے بارے میں کیوں پوچھا؟
وہ پتا نہیں اپنے کون سے اندازے کی تصدیق کرنا چاہتا تھا۔
”ہاں ۔ پوچھ سکتے ہو۔” شائستہ نے کارن فلیکس کھاتے ہوئے کہا۔ ”بہت عرصے سے شام کو تم سے ملاقات نہیں ہوئی تو میں نے سوچا کہ تم سے پوچھنا چاہیے کہ آخر شام کو ہر جگہ سے کہاں غائب ہو جاتے ہو۔”
”بہت عرصے سے ؟” ہارن کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ ”ہم تو پچھلے پانچ سال سے شام اکٹھی نہیں گزار رہے۔” اس نے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھ دیا۔ ”اور تمہیں آج خیال آیا ہے کہ میں شام کہاں گزارتا ہوں۔”
”کیا ہم اس ایشو پر بحث کریں گے؟” شائستہ کا انداز یک دم بدل گیا۔ ”میں نے تم سے صرف یہ پوچھا ہے کہ تم شام کو کہاں ہوتے ہو۔ پانچ سال اگر نہیں پوچھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آج بھی نہیں پوچھ سکتی۔ میں تمہاری بیوی ہوں’ تم سے کبھی بھی یہ سوال کرنے کا حق رکھتی ہوں۔”
”جانتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو اور اسی لیے یہ سوال سن کر اس کا جواب دے رہا ہوں۔ بحث کیے بغیر بتا چکا ہوں کہ میں کسی بھی خاص جگہ پر نہیں ہوتا’ میری مصروفیات بدلتی رہتی ہیں اور ان مصروفیات کے ساتھ میری شام کی روٹین بھی بدلتی رہتی ہے۔”
ہارون کمال نے بھی اپنا انداز یک دم تبدیل کر لیا تھا۔ اس کی چھٹی حس بتا رہی تھی کہ شائستہ کے ان سوالات کی وجہ اتنی عام نہیں ہے’ جتنی وہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا اسے اس کی آج کل کی مصروفیات کی بھنک پڑ گئی تھی۔
شائستہ کچھ دیر اس کے جواب پر پلکیں جھپکائے بنا اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ہارون کمال نے اپنے تاثرات کو حتی المقدور نارمل رکھنے کی کوشش کی مگر یہ آسان کام نہیں تھا۔ شائستہ کی چبھتی ہوئی نظریں جیسے اس کے آرپار دیکھ رہی تھیں۔
”کل شام کہاں تھے تم؟” بلی بالآخر تھیلے سے باہر آ گئی تھی۔
ہارون نے جوس کا گلاس دوبارہ اٹھا لیا۔ اس نے کل شام کی مصروفیات پر ایک نظر دوڑائی۔ امبر کے پاس جا کر وقت گزارنے کے علاوہ دوسری کوئی ایسی مصروفیت نہیں تھی جسے وہ شائستہ کے حوالے سے قابل اعتراض سمجھتا اور وہ اس مصروفیت کا ذکر کرنے سے پہلے اس بات کا یقین کر لینا چاہتا تھا کہ شائستہ اسی مصروفیت کے حوالے سے اسے کریدنے کی کوشش کر رہی تھی یا کوئی اور وجہ تھی۔
”کل شام میں کلب گیا تھا۔” ہارون کمال نے ذہن پر زور ڈالنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔ ”ایک دوست سے ملا تھا۔” شائستہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
”بزنس کے حوالے سے بھی ایک آدمی سے ملا تھا۔” وہ خاموش ہو کر شائستہ کو دیکھنے لگا۔
”بس کل شام تم نے یہی کچھ کیا تھا؟”
”نہیں’ چند اور کام بھی کیے تھے مگر وہ اتنے اہم نہیں تھے۔” ہارون کمال نے اس سے نظریں چراتے ہوئے جوس کا ایک اور گھونٹ لیا۔
”مگر میں سمجھتی ہوں’ ‘ہ چند کام زیادہ اہم ہیں’ کم از کم میرے لیے۔” وہ چبا چبا کر بولی۔
”تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟” وہ سنجیدہ ہو گیا۔
”میں صرف یہ پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ تم آج کل ڈاکٹر جاوید کے کلینک کے چکر کیوں کاٹ رہے ہو؟”
ہارون ایک لمحہ کے لیے ساکت ہوا۔ وہ کب سے یہ جانتی تھی کہ وہ ڈاکٹر جاوید کے کلینک پر جا رہا ہے۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔ ”کافی دنوں سے۔”
”میں جانتی ہوں اور اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہی’ صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تم وہاں کس لیے جا رہے ہو؟” اس نے ہارون کی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔
”جب تم یہ جانتی ہو کہ وہاں کتنے دن سے جا رہا ہوں تو پھر یقینا یہ بھی جانتی ہو گی کہ کس لیے جا رہا ہوں پھر ان سوالوں کا فائدہ کیا ہے؟” اس بار ہارون کمال کا لہجہ بھی اکھڑ تھا۔
”ہاں’ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم وہاں کس لیے جا رہے ہو مگر میں تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں۔”
شائستہ کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ ابھری جیسے وہ اس وقت ہارون کمال کو شائستہ کا سامنا کرنے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ وہ یقینا آج بُرا پھنسا تھا’ اپنی تمام احتیاطوں کے باوجود۔
”میں وہاں منصور علی کی فیملی کے لیے جا رہا ہوں۔” اس نے بالآخر کہا۔ اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ”اور یہ تم جانتی ہی ہو گی۔”
شائستہ کے ہونٹوں پر زہر میں بجھی ہوئی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ”بہت اچھی طرح…” اس نے کارن فلیکس کا پیالہ پیچھے دھکیل دیا۔
”منصور علی کی کون سی فیملی ہے وہاں۔ امبر اور منیزہ؟” اس نے تیز آواز میں کہا۔ ”سابقہ بیوی اور وہ بیٹی جسے وہ گھر سے نکال چکا ہے۔ کیا تم اسے منصور کی فیملی کہنے میں حق بجانب ہو؟”
ہارون کمال نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ شائستہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اور فرض کرو’ کسی نہ کسی طرح میں یہ مان بھی لوں کہ وہ منصور علی کی فیملی ہی ہے پھر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تم کس رشتے اور حوالے سے ان سے ملنے کے لیے جا رہے ہو؟”
”میں وہاں اپنے کسی کام کے لیے گیا تھا۔” ہارون کمال نے کمزور لہجے میں کہا۔ ”یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ منیزہ مجھے وہاں مل گئی ور اس کے اصرا کرنے پر میں امبر کو دیکھنے چلا گیا۔”
”اور پھر تم نے اپنا فرض سمجھا کہ تم ہر روز وہاں جا کر امبر کی عیادت کرو۔” شائستہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”میں روز وہاں صرف اس کی عیادت کے لیے نہیں جا رہا’ مجھے کچھ اور کام بھی ہیں۔”
”اور وہ کام کیا ہیں’ میں جان سکتی ہوں؟” شائستہ کے لب و لہجے کی تندی و تیزی میں کمی نہیں آ رہی تھی۔
”ضروری نہیں ہے کہ میں ہر بات تم کو بتاؤں۔”
”اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ تم ہر بات مجھ سے چھپاؤ۔”
”میں تم سے کچھ بھی نہیں چھپا رہا۔” ہارون کمال نے قدرے مدافعانہ انداز میں کہا۔ ”منصور علی کی فیملی سے ملاقات اتنا اہم واقعہ نہیں ہے کہ میں اس کا ڈھنڈورا پیٹتا پھروں۔”
”تمہیں یاد ہے کہ تمہارا بیٹا اس لڑکی کے عشق میں دیوانہ ہو کر پھر رہا ہے جس کے ساتھ ملاقات کو تم اتفاقی کہہ رہے ہو اور جسے تم کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہو۔” شائستہ نے میز پر ہاتھ مار کر کہا۔
”اور تم … تم وہی ہو جس نے اپنے بیٹے کو اس لڑکی سے شادی کی فرمائش پر نہ صرف ملک سے باہر بھیج دیا بلکہ اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی بھی دی اور اب تمہارا اصرار ہے کہ یہ ملاقاتیں ”اتفاقیہ” ہیں اور اتنی اہم نہیں کہ تم مجھے ان کے بارے میں بتاتے۔”
”میں تمہیں اس کے بارے میں وقت آنے پر بتا دیتا۔”
”اور وہ وقت کب آتا ؟ دس سال بعد؟”
”رائی کا پہاڑ مت بناؤ شائستہ!”
”تم بھی مجھے بے وقوف سمجھنے اور بنانے کی کوشش مت کرو۔”