”تم نہیں جان سکتیں امبر! کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔” وہ دھیمے لہجے میں بات کرتا اپنی ٹائی پن اتار رہا تھا۔
امبر کی آنکھوں میں کوئی تاثر آیا اور چند لمحوں کے بعد پھر غائب ہو گیا۔ وہ ٹائی پن اتارتے ہوئے بھی اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے امبر کی آنکھوں میں پہلی بار سفید رات اور سیاہ چاند دیکھا تھا مگر وہ اتنے ہی خوبصورت تھے جیسے سیاہ رات اور سفید چاند۔
”اور میں تم سے تب سے محبت کرتا ہوں جب سے میں نے تم کو دیکھا ہے’ تم سے ملا ہوں۔”
وہ اس کے چہرے سے کھیلتی لٹوں کو ہٹا رہا تھا۔ وہ پیچھے نہیں ہٹی’ اس نے اپنے چہرے پر ہارون کمال کی انگلیوں کا نرم لمس محسوس کیا تھا۔ ماتھے سے ناک … ناک سے گال … گال سے کان … وہ اس کے بالوں کو پیچھے رکھنے کے لیے ٹائی پن اس کے بالوں میں لگا رہا تھا۔ اس کے بال اب اس کے چہرے پر نہیں آ رہے تھے۔
”طلحہ کو بھول جاؤ’ وہ تمہاری زندگی کا تاریک باب تھا’ ختم ہو گیا’ اچھا ہوا۔ تم میرے ساتھ اب ایک نئی زندگی شروع کرو گی۔” ہارون نے اس کے چہرے اور بالوں سے ہاتھ ہٹا لیے۔
”تم میرے لیے بنی تھیں’ میرے لیے ہی ہو۔ میں تمہیں اس گھر سے بڑا گھردوں گا’ جہاں سے تمہیں نکالا گیا ہے اور جہاں تمہیں جانا تھا۔ تمہارے لبوں پر کوئی خواہش آنے سے پہلے وہ چیز تمہاری دسترس میں ہو گی۔ ماضی کو بھول جاؤ’ حال میں جیو’ میرے ساتھ۔” وہ مسکرایا تھا۔
”گڈبائے۔” اس نے اپنی انگلیوں سے اس کے گال کو چھوا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
امبر وہیں کھڑی تھی’ اسی طرح بے حس و حرکت۔ ایک خوبصورت سنگی مجسمے کی طرح۔ ہارون گاڑی کو ریورس کر رہا تھا۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس امبر کو گرفت میں لیے دور جا رہی تھیں۔
”میں تم سے محبت کرتا ہوں۔” وہ اس کے لفظوں کی بازگشت کی گرفت میں تھی۔ کسی معمول کی طرح ہاتھ بڑھا کر اس نے بالوں میں لگی ہوئی ٹائی پن کو چھوا، پھر اسے اتار لیا۔ ہتھیلی پھیلا کر اس نے اس ٹائی پن اور اس میں جگمگاتے ڈائمنڈ کو دیکھا۔ لائٹس نے ڈائمنڈ کی روشنی سے اس کی ہتھیلی کو جگمگا دیا تھا۔ اس نے اپنی مٹھی بند کرلی۔ اس کے بال اب پھر ہوا سے اڑ رہے تھے۔ اور ”سنگی مجسّمے” کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھر رہی تھی۔
٭٭٭
”تمہیں ہارون سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔” ہارون اور امبر کے باہر جاتے ہی منیزہ نے صبغہ سے کہا۔
”میں نے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی۔” صبغہ نے کہا۔
”ہارون کی ہم پر اتنی ہی مہربانی کافی ہے کہ وہ ہم سے ملنے آرہا ہے۔ ڈاکٹرز کے بل اس نے ادا کر دیئے، تمہارے باپ کو ہمیں خرچا دینے کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اب ہمیں گھر کی پیشکش بھی کر رہا ہے اور تم… تم اس سے کس طرح بات کر رہی تھیں۔”
”وہ اگر ڈاکٹر کے بل ادا نہ کرتے تو میں کر دیتی۔ وہ ملنے آرہے ہیں تو یہ میرے لیے پریشانی کا باعث ہے اور آپ کے لیے بھی ہونا چاہیے۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”یہ پاپا سے ہمارے اخراجات اٹھانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ مجھے اس پر یقین نہیں ہے اور گھر کی پیشکش ان تمام باتوں سے زیادہ عجیب ہے۔”
”ہارون کو ہمارے ساتھ ہمدردی ہے۔” منیزہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”ہمدردی کی وجہ کیا ہے؟”
”ہمدردی کی کوئی وجہ ہوتی ہے؟ تم کیسی بے وقوفوں والی بات کرتی ہو۔” منیزہ نے اسے جھڑکا۔
”مفت کی ہمدردی کی وجہ ہوتی ہے ممی!” وہ اب کچھ سوچنے میں مصروف تھی۔ ”یہ اتنے بڑے بزنس مین ہیں، ان کے پاس اتنا وقت کہاں سے آجاتا ہے کہ ہر روز گھنٹہ دو گھنٹہ یہاں آکر صرف ہمدردی کے نام پر برباد کریں، میں سمجھ نہیں پا رہی۔” وہ الجھے ہوئے انداز میں ماں کو دیکھ رہی تھی۔
”اور آپ نے دیکھا امبر کا ان کے ساتھ رویہ…” منیزہ نے اس کی بات کاٹی۔
”میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا امبر ان سے بہت اٹیچ ہوگئی ہے۔” اس بار صبغہ نے ان کی بات کاٹی۔
”کیوں ہوگئی ہے اور آپ نے کیوں اس طرح ہارون کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ بار بار یہاں آئے۔” منیزہ مشتعل ہوگئیں۔
”وہ امبر کے باپ کی طرح ہے۔”
”باپ کی ”طرح” ہے۔ باپ نہیں ہے۔ کیا ہارون نے امبر کو بیٹی بنالیا ہے؟” منیزہ چند لمحے کچھ نہیں بول سکیں۔ ”میری سمجھ میں نہیں آتا ممی! آپ کیوں ہر چیز کو اتنی لاپروائی سے دیکھتی ہیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ایک مصیبت کو دعوت دے رہی ہیں۔”
”میں مصیبت کو دعوت دے رہی ہوں؟” منیزہ کو اور غصہ آیا۔ ”تم نے امبر کو دیکھا ہے، وہ اگر ٹھیک ہوئی ہے تو صرف ہارون کی وجہ سے۔ اس نے جب سے یہاں آنا شروع کیا ہے، امبر بہتر ہوتی گئی۔”
”ہارون کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ جسے وہ گھما رہا ہے۔ امبر جس حالت میں تھی، کوئی بھی اس کے پاس آکر کچھ وقت گزارتا تو اس نے ٹھیک ہو جانا تھا۔ اسے جذباتی سہارے کی ضرورت تھی اور کوئی نہ کبھی آتا’ تب بھی علاج سے اس نے ٹھیک ہو جانا تھا۔ اس میں ہارون کمال کی خدمات کے لیے اتنا ممنون ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ دو ٹوک انداز میں کہہ رہی تھی۔ ”میں اب یہ چاہتی ہوں کہ ہم یہاں سے جائیں تو آپ ہارون کمال کا شکریہ ادا کریں تاکہ وہ پھر اس طرح بار بار امبر کے پاس نہ آئے۔”
”تم بالکل اپنے باپ کی طرح خودغرض ہو کر کہہ رہی ہو۔ کام نکل گیا تو اب ہارون سے بھی جان چھڑالی جائے۔” منیزہ نے تنفر بھرے انداز میں کہا۔
”نہیں’ یہ خود غرضی کی بات نہیں ہے۔” صبغہ نے ماں کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ”ممی! آپ کو اپنی بیٹیوں کے بارے میں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ پہلے کی بات اور تھی’ اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ہمیں اکیلا رہنا ہے۔ جہاں جا کر رہیں گے’ اگر ہارون کمال وہاں بھی آتا رہا تو کیا ہو گا’ آپ نے سوچا ہے؟۔ اس کے ساتھ ہمارا کوئی کوئی رشتہ نہیں ہے۔ لوگ بہت باتیں کریں گے’ بدنام کر دیں گے۔ صرف امبر کو نہیں’ ہم سب کو۔”
منیزہ نے بے یقینی سے اپنی اس بیٹی کو دیکھا۔
”تمہارا ذہن کس طرح کا ہو گیا ہے صبغہ! اتنی تنگ نظری ‘ چھوٹا پن’ کس طرح کی باتیں سوچنے لگی ہو تم؟۔ مجھے تو لگتا ہے تمہارے ذہن پر بھی اثر ہو گیا ہے۔ تمہیں بھی علاج کی ضرورت ہے۔”
صبغہ نے بے بسی سے ماں کو دیکھا۔ منیزہ احمق ترین عورتوں میں سے ایک تھیں اور ان کی حماقت’ ان کے اپنے لیے نہیں’ ان کی اولاد کے لیے مسائل کھڑے کر رہی تھی۔ وہ پھر بھی اس حقیقت سے بے خبر تھیں یا پھر جان بوجھ کر انہوں نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔
”پلیز ممی … پلیز … مجھے جو کہنا ہے کہیں مگر امبر کو اب ہارون سے نہ ملنے دیں۔ میں نہیں جانتی کیوں … مگر ہارون کا یہاں آنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔” صبغہ سنجیدگی سے ماں سے کہہ رہی تھی۔
”اسامہ سے بات ہوئی تمہاری۔؟” منیزہ نے یک دم موضوع بدل دیا۔
”ہاں ۔” وہ جھنجلاتے ہوئے بولی۔
”تم نے اس کو سب کچھ بتایا؟”
”وہ پہلے ہی سب کچھ جانتا ہے۔”
”کیسے؟”
”روشان نے اس کو فون کیا تھا۔”
”تم نے خلع کا کیس واپس لینے کے بارے میں اس سے بات کی۔؟”
”ممی! پاپا کے وکیل اگرچہ کیس ختم کر رہے ہیں مگر میں نے اسامہ کو بتا دیا ہے کہ میں خلع ہی چاہتی ہوں۔”
”کیوں ‘ تم خلع کیوں چاہتی ہو؟۔ اسامہ بہت اچھا ہے۔”
صبغہ نے منیزہ کی بات کاٹ دی۔
”بہت اچھا ہے’ مجھے شبہ نہیں مگر میں فوری طور پر رخصتی چاہتی ہوں نہ ہی آپ لوگوں سے الگ رہنا چاہتی ہوں اور وہ یہ چاہتا ہے۔”
”تمہیں ہمارے لیے کوئی قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سب صفدر کے پاس ہی رہیں گے۔ میرا علیحدہ یا اکیلے رہنے کا کوئی ارادہ نہیں۔” منیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”وہ آپ کو اپنے پاس نہیں رکھیں گے۔”
”تب پھر میں اپنے حصے کا مطالبہ کروں گی۔”
”اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر انہوں نے آپ کو کل نکالنا ہے تو وہ آج ہی نکال دیں گے۔ ممی! آپ ہر وقت ہر شخص کے ساتھ لڑ نہیں سکتیں اور اب ان حالات میں تو یہ اور بھی مشکل ہے۔” وہ ماں کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگی۔
”وہ آپ کو اکیلے اپنے پاس رکھ لیں گے مگر ہم لوگوں کے ساتھ نہیں۔ وہ آپ سے کہیں گے کہ ہم لوگوں کو واپس بھجوائیں تو آپ کیا کریں گی۔ جائیداد کا مطالبہ … اور اس کے بدلے میں کیا ہو گا۔ وہ آپ کو بھی نکال دیں گے پھر ہم لوگ کیا کریں گے۔ کیا عدالت میں جا سکتے ہیں’ مقدمہ لڑ سکتے ہیں؟۔ لڑ سکتے تو پہلے پاپا کے خلاف اپنے اخراجات کے لیے لڑتے۔ جب آدمی پر مشکل وقت آتا ہے تو پھر اپنا حق بھی چھوڑنا پڑتا ہے اور بھی بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ ابھی ہم کمزور ہیں’ ہر طرح سے دوسروں پر انحصار کر رہے ہیں اور جن پر انحصار کر رہے ہیں’ ان سے جھگڑا نہیں کر سکتے۔ یہ کسی بھی طرح سے سمجھ داری نہیں ہے۔ ہمیں پاپا کی فیملی سے کوئی سپورٹ نہیں مل رہی’ اس لیے ہمیں آپ کی فیملی کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ ہم دونوں کو اپنے خلاف کر کے اپنے لئے مزید پریشانیاں پیدا کر لیں گے۔”
وہ رسانیت سے سمجھا رہی تھی۔
”صفدر انکل سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے گھر کے سلسلے میں ان سے بات کی ہے بلکہ جو گھر دیکھا ہے’ وہ ان کو بھی دکھایا ہے۔ انہوں نے سارے معاملات طے کر لیے ہیں بلکہ ایڈوانس بھی خود دے دیا ہے۔ امبر ایک دو دن میں یہاں سے ڈسچارج ہو کر گھر آ جائے گی۔ چند دن ہم گھر پر رہیں گے پھر نئے گھر شفٹ ہو جائیں گے۔”
منیزہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہیں مگر ان کے ماتھے پر بہت ساری لکیریں نمودار ہو رہی تھیں۔ صبغہ اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھ گئی۔ بلائنڈز کو ہٹاتے ہوئے اس نے باہر دیکھا۔ امبر دور ڈرائیووے پر کھڑی اپنی ہتھیلی پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔ صبغہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ اتنے فاصلے پر کھڑے ہوئے بھی جان سکتی تھی’ وہ اپنی ہتھیلی پر کیا دیکھ رہی تھی۔ قسمت …
٭٭٭