صبغہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو ٹھٹک کر رک گئی۔ ہارون کمال’ امبر اور منیزہ کے ساتھ کمرے میں موجود تھا۔ اس کے اندر داخل ہونے پر تینوں اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہارون کمال اسے دیکھ کر خیر مقدمی انداز میں مسکرایا۔ وہ جواباً مسکرا بھی نہیں سکی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد کچھ الجھے ہوئے انداز میں امبر کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”آپ کی ممی بتا رہی تھیں کہ آپ علیحدہ گھر لے کر وہاں رہنا چاہتی ہیں۔” ہارون کمال نے اچانک ہی وہ موضوع چھیڑ دیا جس کی وہ توقع نہیں کر رہی تھی۔
اس نے ایک نظر منیزہ پر ڈالی پھر ہارون کو دیکھا’ جو اب سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
”میں آپ کی ممی سے کہہ رہا تھا کہ ان حالات میں یہ ایک بہت دانش مندانہ قدم ہے اور یہ قدم آپ لوگوں کو منصور کے گھر سے نکل آنے کے فوری بعد اٹھا لینا چاہیے تھا۔”
صبغہ کسی رائے کا اظہار کیے بغیر ہارون کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ وہاں ”ہمدردی” کا تاثر تھا۔ وہ اس ”ہمدردی” کو جانچنے میں مصروف تھی۔ اس نے ایسی ”ہمدردی” بہت سے لوگوں کے چہروں پر دیکھی تھی۔ اس کے لیے یہ نئی چیز نہیں تھی مگر وہ اس کی ”گہرائی” سے واقف نہیں تھی۔ ہارون کو بغور دیکھتے ہوئے وہ اسے ہی جانچ رہی تھی۔
”آپ لوگوں کی پوری فیملی ہے’ کسی دوسرے کے گھر پر مستقل رہنا آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہے اور یہ مناسب بھی نہیں ہے۔ علیحدہ رہنے کے بہت سے فوائد ہیں۔”
صبغہ سمجھ نہیں سکی’ وہ کس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے …؟ وہ تو پہلے ہی علیحدہ رہنا چاہتی تھی۔ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”انسان فضول روک ٹوک سے بچ جاتا ہے۔ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتا ہے’ اپنی پرائیویسی رکھ سکتا ہے’ مجھے تو بھابھی نے بتایا کہ آپ ایسا چاہ رہی ہیں اور بھابھی مخالفت کر رہی ہیں تو میں نے تو بھابھی کو سمجھایا کہ آپ کی سوچ صحیح ہے۔ انہیں یہ قدم اٹھا لینا چاہیے۔”
ہارون کمال نے صبغہ کو داد طلب نظروں سے دیکھا۔ اس کا خیال تھا کہ صبغہ اس کی تائید پر مشکورو ممنون ہو گی۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ ہارون نے قدرے مایوس ہو کر دوبارہ بات شروع کر دی تھی۔ وہ صبغہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ اسے صرف امبر سے دلچسپی تھی اور وہ اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ صبغہ بہت لیے دیے انداز میں رہنے والی خاموش طبع لڑکی تھی۔ ہارون کمال نے کبھی اس کی طرف دھیان ہی نہ دیا تھا’ نہ اس نے سوچا تھا کہ اس کا کبھی صبغہ سے بھی سابقہ پڑ سکتا ہے۔ اب جب وہ صبغہ سے بات کر رہا تھا تو اسے اس کے ابتدائی تاثرات سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ جو گرم جوشی اور پذیرائی اسے منیزہ اور امبر کی طرف سے بخشی گئی تھی’ وہ صبغہ میں مفقود تھی اور خود کو صبغہ کی نظر میں معتبر کرنے کے لیے اسے کوشش کرنا تھی۔ اور وہ اسی سوچ میں تھا۔
”اس سلسلے میں میری خدمات حاضر ہیں۔” ہارون کمال نے ایک موہوم سی امید کے تحت مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ اندازہ نہیں کر پا رہا تھا کہ صبغہ اس کے بارے میں کیسی رائے رکھتی ہے۔
صبغہ نے بغیر کسی تاثر کے اسے دیکھا۔
”کیسی خدمات؟” اس کا لہجہ بے حد پُرسکون تھا۔
”میں آپ لوگوں کے لیے گھر کا انتظام کر دوں گا۔” ہارون نے کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں ۔ میں پہلے ہی گھر دیکھ چکی ہوں۔”
ہارون ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھتا رہ گیا پھر اس نے کچھ سنبھلتے ہوئے کہا۔
”آپ کو تو ان چیزوں کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ گھر ڈھونڈنا’ وہاں شفٹ ہونا’ بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں آپ کے لیے۔” وہ کہہ رہا تھا۔ ”آپ اگر مجھ پر بھروسا کریں تو آپ کے لیے کافی آسانی ہو سکتی ہے۔”
”آپ کا بہت شکریہ لیکن یہ سب کچھ اتنا مشکل نہیں ہے’ جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مزید کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو ہم اپنے انکل سے لیں گے۔” اس کا انداز دو ٹوک تھا۔
ہارون نے ہمت نہیں ہاری۔
”میرے اپنے کچھ فلیٹ اور گھر ہیں’ میں ان میں سے کوئی آپ کو دے سکتا ہوں۔”
”کس لیے؟” وہ اب بھی متاثر نہیں ہوئی تھی۔
”رہنے کے لیے۔ جب تک آپ کی رہائش کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ آپ اطمینان سے وہاں رہ سکتی ہیں۔”
”میں نے آپ کو بتایا ناکہ ہماری رہائش کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ میں گھر تلاش کر چکی ہوں۔”
”کرائے کا؟” ہارون نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”ہاں۔” جواب مختصر اور دوٹوک تھا۔
”آپ اتنا کرائے کا انتظام کس طرح اور کہاں سے کریں گی۔؟” صبغہ نے اس کی بات کاٹی۔
”کرایہ اتنا زیادہ نہیں ہے’ بہت ہی معمولی سا ہے۔”
”پھر گھر بھی بہت معمولی ہو گا۔”
”ہاں’ مگر ہماری ضرورت کے لیے کافی ہے۔”
امبر اور منیزہ نے ابھی تک ان کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی تھی۔
”کتنا بڑا گھر ہے؟” ہارون اب براہ راست پر آ گیا۔ صبغہ کو اس کے سوال اب ناگوار گزر رہے تھے مگر وہ بڑے تحمل سے جواب دے رہی تھی۔
”بہت بڑا گھر نہیں ہے اور ہمیں بڑے گھر کی ابھی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہماری ضروریات کے لیے وہ کافی ہو گا۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”بھابھی! آپ نے دیکھا ہے گھر؟” ہارون نے منیزہ سے پوچھا۔
”نہیں’ انہوں نے نہیں دیکھا۔ میں دکھا دوں گی۔” اس سے پہلے کہ منیزہ جواب دیتیں’ صبغہ نے کہا۔
”جب میں آپ لوگوں کو آفر کر رہا ہوں کہ آپ میرے گھر پر رہ سکتے ہیں تو پھر آپ لوگوں کو ادھر اُدھر خوار ہونے کی کیا ضروت ہے۔” ہارون کمال نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”آپ کس رشتے اور حوالے سے ہمیں اپنا گھر آفر کر رہے ہیں؟” صبغہ نے بالآخر مشکل سوال کیا۔
”آپ لوگوں کے ساتھ ہمارے فیملی ٹرمز ہیں۔” ہارون نے کہا۔
”پاپا کی وجہ سے؟” صبغہ کا انداز پُرسکون تھا۔
”ہاں’ منصور کی وجہ سے ہی مگر منصور کے ساتھ تعلقات ختم تو نہیں ہو جاتے۔” ہارون اب جیسے وکالت کر رہا تھا۔ ”میں ویسے بھی دوستیاں اور تعلقات نبھانے والا آدمی ہوں۔ ایک دفعہ تعلق بن جائے تو وہ کم از کم میری طرف سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔”
”پھر آپ نے اس سارے معاملے میں پاپا کو سمجھانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟”
اس سے پہلے کہ ہارون کوئی جواب دیتا’ منیزہ نے صبغہ کو جھڑکا۔
”اس میں ان کا کیا قصور ہے۔ یہ کیا کر سکتے تھے۔”
”میں نے انہیں قصوروار تو نہیں ٹھہرایا۔ میں تو صرف پوچھ رہی ہوں’ وہ بھی صرف اس لیے کیونکہ یہ رشتے اور تعلق کی مضبوطی کی بات کر رہے ہیں۔ ان کی نظروں کے سامنے ہماری فیملی تباہ ہو گئی۔ انہوں نے ہمارے لیے کیا کیا؟”
”مجھے بہت افسوس ہے اور شاید جو میں یہاں آتا ہوں’ اس کی وجہ بھی یہی ہے۔” ہارون نے اس بار اس کی بات کے جواب میں کہا۔ ”شاید آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ میں نے منصور کو کتنا سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر اس نے میری کوئی بات نہیں سنی۔”
”آپ ان کے بزنس پارٹنر ہیں’ ان کو بات سننے پر مجبور کر سکتے تھے۔”
”وہ یہ پارٹنر شپ بھی ختم کرنے پر تیار تھا’ شاید آپ نہیں جانتیں کہ رخشی کا ہولڈ اس پر بہت زیادہ ہے۔”
صبغہ کے جواب دینے سے پہلے منیزہ بول پڑیں۔
”میں اچھی طرح جانتی ہوں’ وہ کس طرح اس عورت کی مٹھی میں ہے۔”
”ہمیں گھر کے بارے میں آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگر ہمارے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو صرف اتنا کریں کہ پاپا کو اس بات پر رضامند کریں کہ وہ ہر ماہ ہمارے اخراجات کے لیے کچھ رقم دے دیا کریں۔” صبغہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”میں پہلے ہی اس سلسلے میں کوشش کر رہا ہوں’ اب اور زیادہ کروں گا۔” ہارون کمال نے فوری طور پر کہا۔
”مگر گھر کے سلسلے میں میری آفر ابھی بھی موجود ہے۔” وہ چائے کا خالی کپ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”آپ اتنی جلدی جا رہے ہیں؟” امبر نے بے تابی سے کہا۔
صبغہ نے امبر کے چہرے اور انداز کو غور سے دیکھا۔
”ہاں’ آج مجھے کچھ کام ہے۔ میں کل آؤں گا تو زیادہ دیر بیٹھوں گا۔” اس نے بہت نرمی سے امبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”میں آپ کو باہر تک چھوڑ آتی ہوں۔” امبر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”یقینا۔” ہارون نے کہا۔ صبغہ نے منیزہ کو دیکھا۔ وہ لاتعلق نظر آ رہی تھیں۔
”آپ سے مل کر خوشی ہوئی صبغہ! آئندہ بھی ملاقات ہوتی رہے گی۔” ہارون کمال نے کہا۔ وہ جواباً صرف مسکرائی۔
ہارون اور امبر اب دروازے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ صبغہ گردن موڑ کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ ہارون نے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولا۔ اس سے پہلے کہ وہ امبر کو باہر نکلنے کے لیے کہتا’ صبغہ کی آواز نے اس کے قدم روک دیے۔
”مجھے خوشی ہو گی اگر اگلی بار آپ آنٹی شائستہ کو بھی لائیں۔ ان سے ملاقات ہوئے کافی عرصہ ہو گیا۔”
ہارون کے چہرے کی مسکراہٹ یکدم غائب ہو گئی۔ اس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا۔ وہ امبر کے بیڈ کی پائنتی کی طرف بازو سینے پر لپیٹے پاؤں زمین پر ٹکائے بیٹھی تھی۔ ہارون نے اس کو گہری نظروں سے دیکھا اور یک دم اسے احساس ہوا کہ وہ بھی یہی کر رہی تھی۔
”شائستہ بہت مصروف رہتی ہے’ اس کے پاس کہیں آنے جانے کا وقت نہیں ہوتا۔” ہارون نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”پھر آپ کبھی ہمیں گھر پر انوائٹ کریں۔ ممی اور آنٹی شائستہ کی اچھی فرینڈ شپ تھی۔ ممی اچھا محسوس کریں گی ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”اور ہاں’ نایاب کیسی ہے؟ میری طرف سے اسے پوچھئے گا۔ آپ کے گھر پر’ آپ کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ ہمارا اچھا وقت گزرا ہے۔”
وہ ہارون کمال کی اکلوتی بیٹی کا نام لے رہی تھی۔ ہارون کمال گنگ تھا۔ اس کا لہجہ اور انداز عام تھا مگر اس کے الفاظ نے ہارون کمال کو بہت کچھ جتایا تھا۔ کیا …؟ یہ جاننا ہارون کمال کے لیے مشکل نہیں تھا۔ دروازے میں کھڑے دس فٹ دور بیٹھی اپنی بیٹی کی ہم عمر اس لڑکی کے لیے اس نے یک دم اپنے دل میں بے پناہ ناپسندیدگی محسوس کی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیے بغیر اس نے امبر کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا اور زیر لب کچھ کہتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
”آپ صبغہ کی باتوں کی کا بُرا مت مانیں۔” امبر نے باہر کوریڈور میں ہارون کمال سے کہا۔
وہ مسکرانے لگا۔ ”ہم لوگ جس طرح کے حالات سے گزر رہے ہیں’ اس نے ہم سب کو بہت شکی بنا دیا ہے۔” امبر کی آواز میں دل گرفتی تھی۔
”میں سمجھتا ہوں مگر سب کو ایک ہی ترازو میں تو لنا مناسب نہیں ہے۔ وہ میرے خلوص پر شک کر رہی ہے۔” ہارون نے سنجیدگی سے کہا۔ ”میرا خیال ہے اسے لوگوں کی پہچان نہیں ہے۔” ہارون نے تبصرہ کیا۔ وہ دونوں اب باہر ڈرائیووے پر نکل آئے تھے۔
”لوگوں کو پہچاننا بہت مشکل کام ہے ہارون!” امبر ڈرائیووے پر ہارون کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ ”پتا نہیں لوگوں کو کیسے پہچانتے ہیں؟۔”
وہ جیسے بڑبڑائی۔ ڈرائیووے کی لائٹس میں ہارون نے امبر کو گہری نظروں سے دیکھا۔ وہ پہلے سے کمزور اور زرد ہو چکی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے بھی نظر آ رہے تھے مگر وہ اب بھی خوبصورت تھی۔ وہ لان میں کسی چیز پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اس کا سفید لباس اس کے خوبصورت جسم پر ہلکا ہلکا پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کے کندھوں سے نیچے جاتے ہوئے سرخی مائل سیاہ بال ہوا سے اٹھتے اس کے چہرے سے لپٹتے پھر نیچے گرتے۔ وہ ان سے اور ان کی حرکت سے بالکل لاتعلق نظر آ رہی تھی۔ ہارون کمال کو ان روشنیوں میں وہاں یوں کھڑی وہ کوئی مجسمہ لگی تھی۔ خوبصورت سنگی مجسمہ … کسی فنکار کے ہاتھ کا شاہکار’ وہ اس پر سے نظریں ہٹا نہیں پا رہا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر وہ لمبی پلکوں والی اپنی سیاہ آنکھوں کو لان میں کسی چیز پر جمائے ہوئے تھی پھر ہارون نے ان سیاہ آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی تہہ کو نمودار ہوتے دیکھا۔ یوں جیسے پُرسکون سمندر میں کوئی لہر اٹھی ہو۔
”اتنے سالوں تک میں طلحہ کے ساتھ منسوب رہی۔ مجھے لگتا تھا’ میں اسے جانتی ہوں اور پھر ایک دن پتا چلا کہ میں تو اسے بالکل نہیں جانتی۔”
وہ بڑبڑا رہی تھی’ حلق سے نمی کو اپنے اندر اتارتے ہوئے۔ ہارون کی آنکھوں نے اس کی لمبی گردن میں نمودار ہونے والی اوپر سے نیچے تک کی حرکت کا تعاقب کیا۔ اس کا دل بے اختیار چاہا کہ وہ اس کی گردن کو چھو لے۔ اس نے بمشکل خود کو روکا۔
”طلحہ اچھا آدمی نہیں تھا۔” ہارون نے اس کی گردن سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ”مجھے خوشی ہے کہ وہ آدمی تمہاری زندگی سے نکل گیا ہے۔”
امبر نے نظریں لان سے ہٹا کر اسے دیکھا۔
”میں نے تمہیں پہلے بھی بتانے کی کوشش کی تھی مگر تب تم پتا نہیں کیوں مجھ سے اتنا خار کھاتی تھیں۔ تم ٹھیک کہتی ہو’ تمہیں لوگوں کی پہچان نہیں ہے۔”
ہارون کمال نے اپنے ٹراؤزر کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔ ”ہوتی تو تم کم از کم مجھے غلط نہ سمجھتیں میرے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتیں۔” وہ رکا۔
وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ ہارون کمال کو خود پر قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اس کے اتنے قریب کھڑی تھی۔ وہ کوئی ساحرہ تھی جو اپنی خاموشی سے اس پر فسوں پھونک رہی تھی۔ ہارون کمال ہر خوبصورت عورت کو دیکھ کر پاگل ہو جاتا تھا مگر سامنے کھڑی لڑکی کے لیے جو کچھ وہ محسوس کر رہا تھا’ وہ صرف سفلی جذبات نہیں تھے’ وہ کچھ اور بھی تھا۔ وہ صرف اسے چھو لینا نہیں چاہتا تھا’ وہ اس کی محبت بھی چاہتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والی نمی اس کے اپنے وجود کو بہا کر لے جا رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ابھرنے والی ہلکی سی مسکراہٹ اس کے اپنے اندر کو گل و گلزار کر دیتی تھی۔
وہ اب بھی ساکت کھڑی پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی۔ ہوا کچھ اور تیز چلنے لگی تھی۔ امبر کے بال اور زیادہ اُڑ رہے تھے۔ اس کے چہرے کو چھپاتے’ عیاں کرتے پھر چھپاتے پھر دکھاتے ہارون کمال کو تنگ کرنے لگے تھے۔