تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

اسامہ کو توقع تھی۔ صبغہ اس سے اگلے دن ضرور رابطہ کرے گی۔ کم از کم وہ سب کچھ سننے کے بعد جو اس نے روشان سے کہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ روشان نے اس سے بات کرنے کے بعد صبغہ سے بات کی ہی نہیں تھی۔
صبغہ نے اگلے دن اسے فون نہیں کیا۔ وہ سارا دن غیر شعوری طور پر فون کا انتظار کرتا رہا۔ رات کو مایوسی کے ساتھ ساتھ اسے غصہ آنے لگا تھا۔
”میں فون نہیں کروں گا جب تک وہ خود مجھے فون نہ کرے۔”
اس نے سونے سے پہلے ایک بار پھر تہیہ کیا۔ اگلے دو دن بھی صبغہ کی طرف سے مسلسل خاموشی رہی پھر اسامہ مزید صبر نہیں کر سکا۔ اس نے صفدر کے گھر فون کیا۔ رابعہ سے اس کی بات ہوئی جس نے اسے بتایا کہ صبغہ گھر پر نہیں تھی۔ وہ کہاں تھی’ بتا کر نہیں گئی تھی۔
اسامہ نے وقفے وقفے سے اسے کئی بار فون کیا۔ بالآخر رات کو اس کی صبغہ کے ساتھ فون پر بات ہو ہی گئی۔
”تم ابھی گھر آئی ہو؟” اسامہ نے علیک سلیک کے بعد پوچھا۔
”نہیں’ سہ پہر کو بھی گھر ایک چکر لگا کر گئی تھی۔ ابھی ممی کے پاس سے آ رہی ہوں۔” صبغہ نے کہا۔
”میں نے کئی بار فون کیا تھا۔”
”ہاں’ مجھے پتا چلا تھا۔”
”اور تم نے کال کرنے کی زحمت نہیں کی۔” اسامہ سلگا۔
”اس کی ضرورت کیا تھی؟” اس کے عام سے انداز میں پوچھے گئے سوال نے اسے حیران کیا۔
”اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی؟”
اسامہ نے جواباً پوچھا۔ صبغہ خاموش رہی۔ اسامہ کی سمجھ میں نہیں آیا’ وہ اسے فوری طور پر کیا کہے۔ صبغہ بھی چپ تھی۔ چند لمحے تک دونوں کے درمیان یہ خاموشی برقرار رہی پھر صبغہ نے کہا۔ ”Thanks for calling” (فون کرنے کا شکریہ)۔
”میں نے صرف تمہارا شکریہ وصول کرنے کے لیے تو کال نہیں کی۔” اسامہ نے ناراضی سے کہا۔
”تم نے اتنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ مجھے فون کر کے اس سب کے بارے میں بتا دو۔”
صبغہ بہت مدھم آواز میں ہنسی۔ ”ہمارے گھر اور زندگیوں میں اب ہر روز اتنا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے کہ سمجھ میں ہی نہیں آتا کسی دوسرے کو کیا بتایا جائے اور کیا چھپایا جائے۔”
”مجھے تو تم نے کچھ بھی نہیں بتایا۔ سب کچھ چھپایا ہی ہے مجھ سے۔” اسامہ نے شکوہ کیا۔ صبغہ خاموش رہی۔ اسامہ کا شکوہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
”ممی نے فون کیا تھا آپ کو؟” صبغہ کو سب سے پہلا خیال منیزہ کا ہی آیا۔
”نہیں۔”
”پھر؟”
”روشان نے فون کیا تھا۔”
صبغہ نے ہلکے سے ہونٹ بھینچے۔ ”منصور چچا کے وکیل نے بھی کیس ختم کر دیا ہے۔” اسامہ نے اسے اطلاع دی۔ ”اب خلع کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں تمہیں پہلے ہی خبردار کر چکا تھا کہ منصور چچا تمہیں گھر سے نکال دیں گے۔ تم مجھ سے طلاق لو’ چاہے نہ لو۔”
”پاپا نے مجھے آپ سے ملنے کی وجہ سے گھر سے نکالا ہے۔”
”میں تو صرف ایک بہانا بنا ہوں’ وہ پہلے ہی تم لوگوں کو نکالنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔” اسامہ نے کہا۔
”شاید۔”
”میں کل انکل صفدر کے گھر آؤں گا۔” اسامہ نے کہا۔
”کس لیے؟” صبغہ کا سوال اس کے لیے غیر متوقع تھا۔




”تم سے ملنے کے لیے۔”
”اسامہ! میرے اور آپ کے درمیان سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ پاپا کے وکیل نے کیس ختم کر دیا ہو گا مگر میں خلع کے فیصلے پر قائم ہوں۔”
اسامہ دم سادھے اس کی بات سنتا رہا۔ وہ اس طرح پہلے کبھی بات نہیں کرتی تھی۔
”اسامہ! ہم ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے ہیں۔”
”کیا مطلب ہے اس بات کا؟۔” وہ جھلایا۔
”وہی مطلب ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔” اس کا انداز اب بھی پُرسکون تھا۔
”جو رشتے صرف اور صرف ststureاورstatus کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ کبھی نہ کبھی اسی طرح ختم ہو جاتے ہیں۔”
اسامہ نے کچھ برہم ہو کر اس کی بات کاٹی۔ ”تمہارا خیال ہے کہ ہم دونوں کے رشتے میں ان دو چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کا حصہ ہی نہیں۔”
”نہیں’ اس کے علاوہ ہم دونوں کے تعلق میں کچھ بھی نہیں ہے۔ محبت کم از کم نہیں۔”
”تم غلط کہہ رہی ہو۔”
”نہیں’ یہ درست ہے۔ میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں اور سوچے سمجھے بغیر بھی نہیں کہہ رہی۔ میں نے اتنے ماہ اسی اذیت میں گزارے ہیں۔ دوسروں کو جانچتے’ پرکھتے۔” وہ رکی۔ ”اس کے علاوہ تو کوئی کام ہی نہیں رہ گیا ہمارے پاس اور میں نے آپ کو بھی جانچا۔”
”پھر؟”
”پھر … جو کچھ سامنے آیا وہ تکلیف دہ تھا اور اس تکلیف نے ہی مجھے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔”
”میں کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا۔ ” اسامہ نے اس کی بات کاٹی۔
”مگر میں سمجھ رہی ہوں’ آپ بھی سمجھ جائیں گے۔” وہ افسردگی سے مسکرائی۔
”آپ نے اتنے ماہ میں کسی ایک دن مجھ سے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آپ ہم لوگوں کی تکلیف کو محسوس کر رہے ہیں’ آپ ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں؟”
”میںنے تم سے کئی بار کہا کہ یہ جو کچھ ہوا’ بہت بُرا ہوا’ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔” اسامہ نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”بس … یہ کافی ہے۔؟”
”تمہارا کیا خیال ہے’ مجھے اور کیا کہنا چاہیے تھا۔؟”
”آپ بتائیے’ آپ کو اور کیا کہنا چاہیے تھا۔؟”
اسامہ ایک لمحے کے لیے کچھ نہیں بول سکا پھر اس نے قدرے نرم آواز میں کہا۔ ”شاید میں بہت لفاظی نہیں کر سکتا مگر یہ سچ ہے صبغہ! کہ مجھے تم سے ہمدردی ہے اور یہ جو کچھ ہوا اس پر بہت دکھ بھی ہے۔ صرف تمہاری فیملی ہی تو نہیں بکھری۔ پاپا اور منصور چچا کے درمیان بھی تو دراڑ آ گئی ہے۔”
”دراڑیں بھرنا مشکل کام نہیں ہوتا مگر جس چیز کو الگ کر دیا’ اسے ساتھ جوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہم سب ایک خلا میں لٹک رہے ہیں۔ آج سے نہیں’ کتنے ماہ سے۔ ہمیں پتا ہی نہیں کہ ہمارے پیروں کے نیچے کبھی زمین آئے گی یا نہیں۔”
اس کی آواز میں جو رنج تھا’ اسے محسوس کرنا مشکل نہیں تھا۔
”ہم لوگوں سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ دوستوں سے’ رشتہ داروں سے’ جاننے والوں سے’ ہر ایک سے۔ کس لیے؟ آخر ہم نے کیا کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ آپ کو اس تکلیف اور بے عزتی کا اندازہ نہیں ہے۔”
”صبغہ ! میں …” اسامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”پلیز اسامہ! آپ میری بات سنیں۔ کبھی تو کسی دوسرے کی بات بھی سنا کریں۔”
اسامہ خاموش ہو گیا۔ وہ آج واقعی کسی اور موڈ میں تھی’ ورنہ اس سے کم از کم اس طرح کا جملہ کبھی نہ کہتی۔
”آپ کو یہ شکایت رہتی ہے کہ آپ کو میں کچھ نہیں بتاتی۔ آپ کبھی سوچتے ہیں کہ میں آپ کو کیوں سب کچھ نہیں بتاتی’ کیوں چھپاتی ہوں ہر چیز آپ سے۔ کیونکہ میں آپ سے بھی اسی طرح خائف ہوں جیسے باقی لوگوں سے۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”اتنے ماہ میں ایک بار بھی آپ سے بات کر کے مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں اکیلی نہیں ہوں’ کوئی ہے جس سے میرا ایک ایسا تعلق ہے جو مجھے تحفظ دے سکتا ہے۔” اسامہ ہونٹ بھینچے ہوئے تھا۔ ”کیا یہ گہرائی ہے ہمارے تعلق کی۔؟” وہ رک گئی۔ وہ اپنا غصہ اسامہ پر نہیں اتارنا چاہتی تھی۔ کم از کم وہ اس کا حق دار نہیں تھا۔
”آپ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ آپ بار بار جتاتے ہیں کہ آپ نے میرے لیے قربانی دی۔ آپ بار بار کہتے ہیں کہ میں تمہارے لیے یہ کر رہا ہوں’ میں تمہارے لیے وہ کر رہا ہوں۔ کیا یہ وہ چیز ہے جو ہمارے تعلق کی بنیاد ہے۔؟”
”کیا اب تم میری بات سنو گی۔” اسامہ نے ایک بار پھر مداخلت کی۔
”نہیں’ میں اب بھی آپ کی بات نہیں سنوں گی۔ میں نے آپ کی عزت کی ہے۔ اب بھی کرتی ہوں’ ہمیشہ کرتی رہوں گی مگر میں آپ سے کوئی توقع وابستہ نہیں کر سکتی اور محبت صرف توقعات سے جیتی ہے۔”
اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
”اور آپ بار بار مجھے حقیقت پسند ہونے کا کہتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں میں اپنی فیملی کو چھوڑدوں۔”
”میں نے بھی تمہارے لیے اپنی فیملی کو چھوڑا ہے۔”
”آپ کی فیملی کہیں خوار نہیں ہو رہی’ میری ہو رہی ہے۔ آپ کی زندگی سرکس کا شو نہیں بنی’ میری زندگی بن گئی ہے۔”
اسامہ دم سادھے ہوئے تھا۔
”اور آپ کہتے ہیں’ میں آپ کے ساتھ زیادتی کر رہی ہوں۔ آپ اس وقت میری فیملی کو سپورٹ کرنے میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے’ نہ دیں۔ چند سال انتظار کر لیں لیکن وہ بھی آپ کے لیے ممکن نہیں ہو گا تو پھر اتنا واویلا کیوں کر رہے ہیں۔” وہ رکے بغیر کہہ رہی تھی۔
”اس رشتے کو ختم ہو جانے دیں۔ یہ ختم ہو جائے گا تو صرف میرے لیے ہی نہیں’ آپ کے لیے بھی بہت سی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی اور اسامہ! اب آپ دوبارہ مجھے کبھی فون مت کریں۔ ہمارے درمیان سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔”
اس نے فون بند کر دیا۔ اسامہ بے حس و حرکت فون کا ریسیور تھامے بیٹھا ہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!