تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”میں اب آتا جاتا رہوں گا تمہارے کالج۔” انہوں نے جیسے اسے خبردار کیا۔ ”اور ہاں’ میں نے ہاسٹل میں تمہارا ایڈمیشن کروا دیا ہے۔ پرسوں تمہیں وہاں جانا ہے۔” انہوں نے بڑے سرسری انداز میں اسے اطلاع دی۔
”تم اپنا سامان پیک کر لو۔” منصور کہتے ہوئے مڑے پھر جیسے انہیں کچھ یاد آیا۔
”اور ایک بات کان کھول کر سن لو روشان! ہاسٹل میں’ میں نے تمہارے لیے خاص ہدایات بھجوائی ہیں۔ کوئی تمہیں وہاں سے دس منٹ کے لیے بھی نکلنے دے گا نہ ہی کسی سے ملنے دے گا۔”
منصور علی اسی ٹھہرے ہوئے بے تاثر انداز میں کہہ رہے تھے۔ ”تم کسی کو کال بھی نہیں کر سکو گے۔”
روشان نے پہلی بار اپنی خاموشی توڑی۔ ”مجھے کس سے ملنا اور کس کو کال کرنی ہے۔؟” اس کی آواز بے حد سرد تھی۔
”تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم کس کو کال کر سکتے ہو اور کون تم سے مل سکتا ہے۔” منصور نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”نہیں’ میں نہیں جانتا۔ آپ بتا دیں۔” وہ اسی انداز میں بولا۔
”میں تمہاری ماں اور بہنوں کی بات کر رہا ہوں۔”
”کون ماں’ کون بہنیں۔ میرا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔”
اس کا انداز اتنا سپاٹ تھا کہ منصور چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکے۔
”بہت اچھا ہے’ اگر تم ایسا سمجھتے ہو۔” منصور نے بالآخر کہا۔ ”میں چاہتا ہوں’ تم ایسا ہی سمجھتے رہو۔ ان سے تمہارے سارے رشتے ختم ہو گئے ہیں۔”
منصور نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم نے اس گھر میں رہ کر سمجھ داری کا مظاہرہ کیا۔” روشان نے پلکیں جھپکائے بغیر سرہلایا اور کہا۔
”بہت اچھا۔” اس کی آواز سرگوشی جیسی تھی مگر منصور نے سن لی۔ اس نے قدرے خوش دلی سے سرہلایا۔
”جو کچھ میں تمہیں دے سکتا ہوں’ وہ نہیں دے سکتیں اور تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔”
منصور کو روشان کی آنکھیں دیکھتے ہوئے عجیب سا احساس ہوا۔ اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا مگر اس کی آنکھوں میں بے حد ٹھنڈک تھی۔ منصور اس تاثر سے پہلی بار آشنا ہوئے تھے۔ وہ نفرت سے کے ہر تاثر کو پہچانتے تھے مگر روشان کی آنکھوں میں نفرت نہیں تھی۔ انہیں یقین تھا پھر وہاں کیا تھا؟ وہ محبت نہیں ہو سکتی تھی پھر کیا تھا؟ ایک لمحے کے لیے وہ بات کرتے کرتے رک گئے پھر انہوں نے روشان کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔ وہاں جو کچھ بھی تھا’ انہیں پریشان کر رہا تھا۔
”تمہارا اب کوئی رشتہ ہے تو مجھ سے ہے’ رخشی سے ہے’ سلمان سے ہے اور میں چاہتا ہوں’ تم اس چیز کو محسوس کرو۔ سمجھو اور اگر یہ سب کچھ نہ کرنا چاہو’ یہاں نہ رہنا چاہو تو کوئی پرابلم نہیں۔ اپنا سامان پیک کرنا اور اپنی ماں کے پاس چلے جانا۔ میں کم از کم اب تمہیں ایک بار بھی روکنے کی کوشش نہیں کروں گا۔”
روشان اب بھی انہیں اسی طرح پلکیں جھپکائے بغیر سرد نظروں سے دیکھتا رہا۔ منصور نے انگلی اٹھا کر تنبیہی انداز میں کہا۔
”They are all dead” (وہ سب مر چکے ہیں۔) روشان نے اثباتی انداز میں ہلکا سا سرہلایا۔ منصور مطمئن ہو کر مڑ کر کمرے سے نکل گئے۔
”You too” (آپ بھی۔) ان کے کمرے سے باہر نکل کر دروازہ بند ہوتے ہی وہ اسی انداز میں وہیں کھڑے بڑبڑایا۔
٭٭٭




”صبغہ کسی بھی بات کو سمجھتی نہیں ہے۔ مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں کہیں کرائے پر گھر لے کر وہاں منتقل ہو جاؤں’ اپنے بھائی کے پاس نہ رہوں۔”
منیزہ ہارون کمال سے کہہ رہی تھیں۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی وہاں آیا تھا اور اب امبر اور منیزہ سے باتیں کر رہا تھا۔ جب منیزہ نے اس کو بتایا۔
”میں نے اسے منع بھی کیا تھا مگر اس نے صفدر بھائی سے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ ہم یہاں سے شفٹ ہونے والے ہیں۔ میری تو اولاد بھی بہت نافرمان ہے۔” منیزہ کو جیسے اپنا غصہ نکالنے کا موقع مل رہا تھا۔
”میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔” ہارون نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
منیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”آپ لوگوں کو علیحدہ ہی رہنا چاہیے’ آپ کو اس طرح اپنے بھائی کے گھر اپنی فیملی نہیں لے جانی چاہیے تھی۔” وہ کہہ رہا تھا۔ ”آپ لوگ تو شروع سے ہی اکیلے رہتے رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ اب کسی دوسری فیملی کے ساتھ کیسے رہ رہے ہیں۔”
”مجبوری … آپ کو پتا ہے’ منصور نے کس طرح خالی ہاتھ ہمیں گھر سے نکالا ہے۔” منیزہ نے تلخی سے کہا۔
”علیحدہ رہنا آسان تو نہیں ہوتا۔”
”آپ کو اس معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ لوگوں کے لیے گھر کا انتظام کر دوں گا۔ نہ صرف گھر کا بلکہ اخراجات کا بھی۔” ہارون کمال نے فراخدلانہ پیشکش کی۔
”نہیں’ ہارون بھائی! میں اتنی بڑی ذمہ داری آپ کو نہیں دے سکتی۔ آپ کے تو پہلے ہی ہم پر بڑے احسانات ہیں۔” منیزہ نے کہا۔
”کوئی احسان نہیں ہے۔ جو میں کر رہا ہوں’ میرا فرض ہے۔ آپ احسان کہیں گی تو مجھے شرمندہ کریں گی۔” ہارون کمال مسکرایا۔
”پھر بھی ہارون بھائی! میں اکیلے رہنا نہیں چاہتی۔” منیزہ نے کہا۔ ”روشان ساتھ ہوتا تو اور بات تھی مگر اب چار بیٹیوں کے ساتھ کہیں اکیلے رہنا نہیں’ میرے لیے ممکن نہیں ہے۔” منیزہ نے انکار کیا۔
”میں نے آپ سے کہا ہے ناکہ آپ کو گھر فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے اور آپ کو وہاں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔”
ہارون کہہ رہا تھا۔ امیر چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”پھر بھی …” منیزہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
ہارون نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”آپ تکلف کا مظاہرہ نہ کریں بھابھی! آپ لوگ میری اپنی فیملی کی طرح ہیں۔”
منیزہ کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئیں۔
٭٭٭
”تم گھر پہنچو گی تو تمہیں ایک سرپرائز ملے گا۔” منصور نے گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی رخشی سے کہا جو اپنی گود میں سلمان کو لیے ہوئے تھی۔
”ہاں’ سرپرائز۔”
”کیسا سرپرائز؟” وہ رہ نہیں سکی۔
”یہ میں یہاں کیوں بتاؤں’ گھر چل کر تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا۔” منصور نے کہا۔
”پھر بھی۔” رخشی نے جاننے پر اصرار کیا۔
”بھئی ہے نا ایک سرپرائز۔”
”پلیز منصور! مجھے بتا دیں’ میں تو انتظار نہیں کر سکتی۔”
”میں نے روشان کو بورڈنگ بھجوا دیا ہے۔”
رخشی کے چہرے پر اطمینان جھلکا۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”یہ آپ نے اچھا کیا۔”
”صرف وہی نہیں’ اب صبغہ’ زارا اور رابعہ میں سے بھی کوئی بھی گھر پر نہیں ہے۔”
”تو کہاں ہیں وہ؟”
”اپنی ماں کے پاس۔”
”منصور؟” رخشی کو حیرت کا پہلا حقیقی جھٹکا لگا۔
منصور فخریہ انداز میں مسکرایا۔ ”وہ گھر اب تمہارا ہے’ صرف تمہارا۔”
”لیکن آپ نے انہیں کیوں نکال دیا۔ آپ رہنے دیتے انہیں۔” رخشی نے ہمدردی جتانا ضروری سمجھی۔
”صبغہ اسامہ سے مل رہی تھی۔ میں نے اسے منع کیا تھا مگر اس نے مجھے دھوکا دیا۔” منصور کے لہجے میں اب ناپسندیدگی تھی۔
”اوہ مگر باقی دونوں … ” منصور نے اس کی بات کاٹی۔
”چھوڑو’ جانے دو انہیں۔ تم مجھ سے صرف میرے بیٹے کی باتیں کرو’ سلمان کی۔”
منصور نے گاڑی چلاتے ہوئے ایک ہاتھ سے سلمان کا سر تھپکا۔
٭٭٭
”ممی! آپ ہارون کی بات سے کیوں انکار کر رہی تھیں۔ ” امبر نے ہارون کے جانے کے بعد مدھم آواز میں منیزہ سے کہا۔ ”وہ ٹھیک کہتا ہے۔ صبغہ بھی ٹھیک کہتی ہے’ ہمیں الگ ہو جانا چاہیے۔”
منیزہ اسے دیکھنے لگی۔ وہ بہت عرصے کے بعد اس طرح کسی بات پر اپنی رائے دے رہی تھی۔
”میں تنگ آ گئی ہوں اس ایک کمرے میں آپ کے ساتھ رہتے رہتے۔ اس گھر میں ہم آزادی سے چل پھر بھی نہیں سکتے۔ اتنا ڈر’ اتنا خوف۔ نہیں’ اب ہمیں الگ رہنا چاہیے’ اپنے گھر میں۔” وہ اٹک اٹک کر کہہ رہی تھی۔ ”اور اب تو ہارون بھی ہمارے ساتھ ہے۔ وہ کہہ رہا ہے ہر طریقے سے ہمیں سپورٹ کرے گا تو پھر ہمیں اس موقع کو ضائع تو نہیں کرنا چاہیے۔”
”مگر ہارون سے ہمارا کوئی رشتہ تو نہیں ہے پھر ہم کس طرح اس سے اس طرح کا کوئی کام کروا سکتے ہیں۔” منیزہ نے اپنے خدشات کو زبان دی۔
”وہ پاپا کا بزنس پارٹنر اور دوست ہے۔ کتنی بار ہمارے گھر آ چکا ہے۔ ہم اس سے ناواقف تو نہیں ہیں۔” امبر نے کمزور سی دلیل دی۔
”اور پھر وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ وہ پاپا سے کہے گا” وہ ہمیں سپورٹ کریں بلکہ ضرورت پڑی تو کورٹ میں لے جا کر ہماری مدد کرے گا۔”
”منصور سے ہمیں کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔” منیزہ نے اس کی بات کاٹی۔
”پاپا سے مدد نہیں بھی ملتی تو ہارون سے تو مل رہی ہے پھر آپ اسے کیوں انکار کر رہی ہیں۔” امبر کچھ جھنجلائی۔
”میں صبغہ سے بات کروں گی۔” منیزہ نے کچھ الجھتے ہوئے کہا۔
”صبغہ تو خود یہی چاہتی ہے۔ وہ بھی تو گھر ڈھونڈ رہی ہے۔” امبر نے جیسے انہیں یاد دلایا۔
”ہاں’ وہ خود ڈھونڈ رہی ہے مگر ہارون کمال کی مدد…” وہ کچھ کہتے کہتے سوچ میں پڑ گئیں۔
٭٭٭
پراپرٹی ڈیلر نے تالا کھول کر دروازہ کو کھول دیا اور صبغہ کو اندر آنے کے لیے کہا۔ اس نے اندر قدم رکھا۔ وہ دو کمروں کا ایک چھوٹا سا مکان تھا جس کے صحن میں وہ اس وقت کھڑی تھی۔ گھر کی حالت بہت اچھی لگ رہی تھی۔ پراپرٹی ڈیلر چابیوں کے گچھے سے اب کوئی چابی ڈھونڈ رہا تھا۔ صبغہ صحن میں کھڑے ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
”یہ گھر تو آپ سمجھیں’ مفت ہی مل رہا ہے۔ کرایہ تو آپ کو بتایا ہے’ نہ ہونے کے برابر ہے۔” پراپرٹی ڈیلر مسلسل بول رہا تھا۔ ”مالک مکان بڑے گھر میں منتقل ہو گیا ہے۔ وہ کچھ عرصے سے اسے بیچنا چاہ رہا تھا مگر مناسب قیمت نہیں مل سکی پھر اس نے سوچا کہ اسے کرائے پر چڑھا دے۔”
”اس کا مطلب ہے کہ جب بھی اسے اس مکان کا کوئی خریدار مل گیا ہمیں یہ خالی کرنا پڑے گا۔” صبغہ نے اعتراض کیا۔
”نہیں جی! کیسی باتیں کرتی ہیں۔ کم از کم چھ مہینے کی مہلت دلواؤں گا آپ کو اور خریدے گا’ اسے کون’ جو بھی خریدے گا میرے ذریعے ہی آئے گا۔ آپ تسلی رکھیں’ میں ابھی کسی کو اس مکان کی طرف لے کر ہی نہیں آؤں گا۔ آپ بتائیں’ آپ کو کیسا لگا یہ گھر؟”
”آس پاس کے لوگ کیسے ہیں؟” صبغہ نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا۔
”یہ جی دائیں طرف تو ایک میاں بیوی رہتے ہیں۔ دو بچے ہیں ان کے اور بائیں طرف ایک بیوہ اور اس کے تین بچے رہتے ہیں۔ دو بیٹے’ ایک بیٹی۔ کسی اسکول میں پڑھاتی ہے فاطمہ خالہ۔ بڑی اچھی عورت ہے۔ بچے بھی بہت اچھے ہیں۔ کوئی شکایت نہیں ہو گی ان سے آپ کو۔ نہ بیٹی سے’ نہ بیٹوں سے۔” پراپرٹی ڈیلر نے کہا۔
”میں خود اس محلے میں چار سال رہ کر گیا ہوں۔ میرے بچے پڑھتے رہے ہیں ان کے پاس۔”
”سامنے والے گھر میں اصغر صاحب ہوتے ہیں۔ دو بیٹیاں ہیں ان کی۔ بس اسی طرح کے لوگ ہیں۔ اس محلے میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ تو پھر گھر پسند آیا آپ کو؟”
وہ اب کمروں کے دروازے کھولے پوچھ رہا تھا۔ صبغہ اندر جھانک رہی تھی۔
”نہیں’ پہلے میرے انکل آ کر دیکھیں گے اور آپ صرف یہی گھر نہیں’ کوئی اور بھی دکھائیں۔” صبغہ نے کمرے سے باہر آتے ہوئے کہا۔
فاطمہ کے صحن میں دیوار کے ساتھ تخت پر بیٹھی ثانی نے ان دونوں کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو سنی تھی۔ پراپرٹی ڈیلر بہت بلند آواز میں بات کر رہا تھا۔ وہ آہستہ آواز میں بھی بولتا تب بھی دونوں گھروں کا صحن ایک پتلی سی دیوار کے ساتھ منقسم تھا اور وہ دیوار آوازوں کو روکنے میں بُری طرح ناکام ثابت ہوئی تھی۔
”میں تخت پر کھڑا ہو کر جھانکوں۔” ثمر جن کی طرح اس کے پاس اچانک نمودار ہوا تھا اور یقینا وہ بھی ساتھ والے گھر سے آتی آوازیں سن چکا تھا’ اس لیے اس نے آتے ہی سرگوشی نما آواز میں ثانیہ سے پوچھا۔
”ہاں ضرور’ تم جھانکو تاکہ وہ بھی پھر ہمارے یہاں جھانکیں۔” ثانی نے اسے ڈانٹا۔ وہ تخت پر بیٹھ گیا۔
”ایک تو تم مجھے کوئی منفرد قسم کا کام نہیں کرنے دیتیں۔” اس نے مصنوعی مایوسی سے کہا۔
”ہر بے عزتی والا کام تم کو بڑا منفرد لگتا ہے۔” ثانی نے مدھم سی آواز میں اس سے کہا۔ وہ نہیں چاہتی تھی اس کی آواز دوسری طرف سنی جائے۔
دیوار کے دوسری طرف اب خاموشی تھی کیونکہ پراپرٹی ڈیلر اور صبغہ وہاں سے جا چکے تھے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!