تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”نہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتی۔” اس نے فوراً کہا۔
”تمہیں ان دونوں چیزوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟”
”نہیں۔”
”کیوں؟” وہ ہارون کے سوال پر کچھ گڑبڑائی۔
”ہماری فیملی کی آزاد خیالی تمہیں قابل اعتراض کیوں نہیں لگتی؟”
”میں نہیں جانتی’ ایسا کیوں ہے’ مگر یہ ضرور کہہ سکتی ہوں کہ آزاد خیالی کوئی بری چیز نہیں ہے۔ زندگی کا وژن اور ویلیوز جو میرے بابا لیے پھرتے ہیں’ وہ بہت پرانا ہو چکا ہے۔ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے میرا دم گھٹتا ہے۔ کم از کم میں کبھی ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرسکتی۔ تایا ابو نے آج سے بہت سال پہلے جو راستہ اختیار کیا’ وہ ٹھیک ہے۔ زندگی کے بارے میں ان کی اپروچ بیلنسڈ ہے… کتنی زندگی مل سکتی ہے کسی انسان کو۔ پچاس سال؟ ساٹھ سال؟ اوسط عمر تو یہی ہوتی ہے اور پچاس ساٹھ سال میں بھی انسان ایک عذاب میں سے دوسرے اور دوسرے بعد تیسرے سے گزرتا رہے۔
اپنی خواہشات کو انسان مذہب کے ڈبے میں ڈالتا رہے اور جب یہ ڈبہ بھر جائے تو اسے گڑھا کھود کر دفن کر دے اور پھر ہمالیہ کی ایک چوٹی پر بیٹھ کر جنت ملنے کا انتظار کرتا رہے اور اگر وہ جنت پھر بھی نہ ملی تو بابا کو کیا یقین ہے کہ ان کی پارسائی اور راست بازی جس نے ان سمیت ہم سب کو عذاب میں ڈال رکھا ہے۔ مرنے کے بعد انہیں جنت میں لے جائے گی’ اس زندگی میں حاصل ہونے والی چیزوں اور آسائشوں کو وہ اگلی دنیا میں ملنے والی جنت کی آس یا خواب میں گنوا رہے ہیں اور پھر بھی انہیں مجھے یا کسی کو بھی یہ یقین نہیں ہے کہ انہیں جنت مل پائے گی پھر اس زندگی کا کیا فائدہ؟”
اس کی زبان پر ہارون کمال والا سچ تھا اور ہارون کمال اسے فخریہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”اتنی آزادی تو ہونی چاہیے زندگی میں کہ میں اگر سڑک پر چلتے ہوئے اپنا سر نہ ڈھانپنا چاہوں تو نہ ڈھانپوں’ اپنے بال کھلے رکھنا چاہوں تو رکھ سکوں۔ اپنے جسم پر اپنی مرضی کا لباس پہن سکوں چاہے وہ لباس کیسا بھی کیوں نہ ہو’ لیکن کسی دوسرے کو میرے لیے کسی لباس کو منتخب کرنے کا حق نہیں ہے۔ والدین کو بھی نہیں۔ ساری عمر میں ان کی انگلی پکڑ کر چلنا نہیں چاہتی۔ میں ویسی زندگی گزارنا چاہتی ہوں جیسی آپ کے گھر والے گزار رہے ہیں۔ میں ہر جگہ اپنی مرضی سے جانے کا حق چاہتی ہوں بالکل ویسے جیسے آپ کی بہنوں کو حاصل ہے۔




بابا آپ کی فیملی کی جس آزاد خیالی پر اعتراض کرتے ہیں۔ میری خواہش وہی آزاد خیالی ہے اور میں جانتی ہوں کہ میرے بابا اگلے پچاس سالوں میں بھی مجھے وہ آزادی کبھی نہیں دیں گے۔ زندگی صرف گھر کی وہ چار دیواری تو نہیں ہوتی جسے ہم طوق کی طرح گلے میں لٹکائے پھر رہے ہیں اور بھی بہت سی چیزیں زندگی میں شامل ہیں۔
بابا کو اگر اس بات پر اعتراض ہے کہ تایا ابو جائز ذرائع سے روپیہ نہیں کما رہے تو میں ان کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتی’ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنے لیے روپیہ کمائے بابا ترقی پر یقین نہیں رکھتے۔ میں رکھتی ہوں اور ترقی کی ایک قیمت ہوتی ہے’ مجھے تایا ابو پر رشک آتا ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں وہ اپنے بزنس کو زمین سے آسمان پر لے گئے ہیں۔ صحیح طریقے سے یا غلط طریقے سے مگر انہوں نے ترقی کی ہے۔ منزل پر پہنچ جانے والے شخص سے کبھی کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ وہ وہاں کیسے پہنچا ہے۔ کس راستہ پر چل کر آیا ہے’ کہاں سے گزرا ہے۔ کتنی دیر میں آیا ہے۔ یا کتنی جلدی پہنچا ہے لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شخص اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے’ میرے نزدیک بھی تایا ابو ایسے ہی شخص ہیں اور ایسے شخص کی فیملی کے بارے میں میں کوئی غلط رائے کبھی نہیں رکھ سکتی۔ کم از کم آپ مجھے اور بابا کو اس معاملے میں ایک دوسرے کے بالمقابل پائیں گے۔” وہ اب بہت سنجیدہ ہو چکی تھی۔
ہارون اب سگار سلگا رہا تھا۔ ”میرے ساتھ تم صرف پانچ سال رہو گی تو تم ایک ایسا نام بن جاؤ گی۔ جس کے بارے میں بات کرنے میں لوگ فخر محسوس کریں گے۔ تم میں اتنی خوبیاں ہیں۔” اس کی بات ختم ہونے پر ہارون نے اسے سراہا۔
”عورت کے ہاتھ میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ خوب صورت اور ذہین عورت کے ہاتھ میں’ سکندر اعظم نے جتنے عرصہ میں آدھی دنیا فتح کی تھی’ ایک خوبصورت اور ذہین عورت اتنے ہی عرصہ میں اس دنیا کو سو بار فتح کر سکتی ہے اور میں تمہیں ایسی ہی ایک عورت بنانا چاہتا ہوں۔ اس گھر سے نکل آؤ، وہاں تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔ تمہارے خوابوں کی تعبیر میرے گھر میں ہے۔ جتنی کوشش میں کر سکتا تھا کر چکا ہوں مگر انکل اور تمہارے گھر والے کبھی بھی اس پر پوزل پر تیار نہیں ہوں گے۔ اپنے بارے میں میری Sincerity تم جانتی ہو۔ تمہارے لیے میں ہر آخری حد تک جانے پر تیار ہوں اور وہ آخری حد کورٹ میرج ہے۔”
شائستہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”مجھے ابھی بھی یہ کام بہت مشکل لگ رہا ہے۔” شائستہ نے اپنی بے بسی کا اعتراف کیا۔
”کیوں مشکل لگ رہا ہے؟”
”اس طرح گھر چھوڑ آنا آسان نہیں ہوتا۔”
”جانتا ہوں، یہ آسان نہیں ہے، مگر کچھ نہ کچھ تو تمہیں کرنا ہی ہے۔”
”مجھے خوف آتا ہے۔ ایسا کوئی قدم اٹھانے پر بابا اور میرے بھائی ہم دونوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔”
”مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔میںنہیں سمجھتا کہ وہ ایسی کوئی حرکت کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر پھر بھی تمہیں کوئی خوف ہے تو ہم دونوں کچھ عرصہ کے لیے انگلینڈ چلے جائیں گے، پھر جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو واپس آجائیں گے۔” ہارون نے تجویز پیش کی۔
”یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ کو لگ رہا ہے۔ آپ میرے بابا اور بھائیوں کو نہیں جانتے۔ وہ اتنی آسانی سے سب کچھ بھلا دینے والوں میں سے نہیں ہیں۔”
”تمہیں ان کی پروا کیوں ہے؟”
”بات پروا کی نہیں ہے، خونی رشتوں کو اس طرح توڑ دینا آسان نہیں ہوتا میں جانتی ہوں اگر میں نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو دوبارہ اپنے گھر والوں کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کی امید رکھنا ناممکن ہوگا۔ بابا اگر اپنی ویلیوز کے لیے بھائی کو چھوڑ سکتے ہیں تو بیٹی کو بھی چھوڑ سکتے ہیں۔”
”اپنی زندگی اور خوابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھو اور انکل اور ان کی ویلیوز کو دوسرے میں اس کے بعد دیکھ لو کہ تمہیں کون سا پلڑا بھاری لگتا ہے۔ اگر اپنی زندگی اور خوابوں کا پلڑا بھاری لگے تو پھر کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر وہی کرو جو میں تمہیں بتا رہا ہوں اور اگر تمہیں دوسرا پلڑا بھاری لگے تو پھر اپنی بہنوں کی طرح تم بھی کسی قبر میں اترنے کے لیے تیار ہو، ایک شوہر اور بڑا گھر تو تمہیں مل ہی جائے گا۔
خواب ملیں یا نہ ملیں جس زندگی کی تم تھوڑی دیر پہلے بات کر رہی تھیں اس زندگی کو ہر عورت نہیں پا سکتی کچھ خاص صفات ہوتی ہیں ویسی زندگی گزارنے والی عورتوں میں، اور ان صفات میں سے ایک حوصلہ بھی ہے تم طے کرلو کیا واقعی تم میں وہ صلاحیتیں ہیں یا پھر یہ سب میرا فریب نظر ہے۔”
ہارون کمال نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ شائستہ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
٭٭٭
اس کی امی نے اس دن جو کہا تھا۔ وہی ہوا تھا ایک ڈیڑھ ہفتہ وہ لوگ مسلسل ان کے گھر آتے جاتے رہے۔ خود اس کی امی اور بہنیں بھی کئی بار ان لوگوں کے گھر گئیں۔
پھر ایک دن وہ جانے سے پہلے شائستہ کو ایک انگوٹھی اور کچھ رقم تھما گئے۔ شائستہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ لوگ منگنی میں اتنی جلدی کریں گے۔
اس دن پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس کی امی نے ان کی گفتگو کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور ظاہر ہے، انہوں نے اس پر غور بھی نہیں کیا ہوگا۔ اسی دن اسے ہارون کی باتیں اور رائے کچھ اور بھی ٹھیک لگنے لگیں۔ اس کے گھر والوں کے بارے میں اس کے سارے اندازے صحیح ثابت ہوئے تھے۔
ڈرائنگ روم سے اپنے کمرے تک آتے آتے اس کے اندر جیسے کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا تھا۔ ”میری زندگی کے سب سے اہم معاملے کے بارے میں دوسرے فیصلے کرنے والے کون ہوتے ہیں، وہ کیوں یہ طے کرتے ہیں کہ مجھے کس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ انہیں کیا حق حاصل ہے کہ وہ مجھے اس شخص سے محروم کر دیں جس سے میں محبت کرتی ہوں بابا دین کی بات کرتے ہیں۔ شریعت کا راگ الاپتے رہتے ہیں کیا انہیں یہ یاد نہیں کہ شریعت مجھے میری مرضی سے شادی کا حق دیتی ہے، ان کا اسلام صرف ان کی نمازوں اور حرام حلال تک کیوں محدود ہو کر رہ گیا ہے، باقی چیزوں کے بارے میں یہ وہ کیوں نہیں کرتے جو اسلام کہتا ہے۔ بیٹی انسان نہیں بھیڑ بکری ہوتی ہے جہاں چاہے باندھ دی۔ جس کو چاہے تھما دی اس کی اپنی کوئی مرضی ہی نہیں ہے کس حد تک ماں باپ کی اطاعت کرنی چاہیے؟ آخر کس حد تک؟
صرف ماں باپ ہونا انہیں یہ حق کیسے دے دیتا ہے کہ وہ میری پوری زندگی کو اپنے اختیار میں لے لیں۔ مجھے انسان ہی نہ سمجھیں۔ میری جگہ اگر ان کا بیٹا ہوتا تو کیا وہ اس کے ساتھ بھی یہی کرتے اس کے ساتھ بھی زبردستی کرتے۔ نہیں وہ کبھی اس کے ساتھ ایسا نہ کرتے۔ وہ تو ان کا بیٹا ہوتا نا اسے تو ہر حق دیتے، دوہرے معیار تو صرف میرے لیے ہیں۔”
اس کا صدمہ اور غصہ اسے اس فیصلے کی طرف لے جا رہا تھا جو پہلے اسے مشکل نظر آتا تھا۔
٭٭٭
”زندگی میں بہت سی چیزوں کو خواب سے حقیقت بنتے بہت وقت لگتا ہے اور بعض دفعہ خواب کو حقیقت بنتے کچھ لمحوں سے زیادہ نہیں لگتے، کم از کم شائستہ کو اس دن ایسا ہی محسوس ہوا تھا To be or not to be کی جس کشمکش سے وہ دوچار تھی۔ اس نے اس کا حل نکال لیا تھا۔
ہارون کمال اس کے ہاتھ لگنے والا پارس تھا جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ اسے ہاتھ میں لینے کے بعد اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو سونا بنا سکے گی۔ ہر چیز کو۔ سونے کی چمک انسان کی آنکھوں کو نہیں دل کو اندھا کرتی ہے۔اس کی قیمت کے سامنے دنیا کی ہر چیز بے مول لگنے لگتی ہے۔ شائستہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ ہاتھ میں لیے ہوئے اس پارس کے ساتھ چیزوں کو سونے میں بدلتے بدلتے وہ صرف ایک بات بھول گئی تھی۔ سونا کتنا بھی چمک دار اور انمول کیوں نہ ہو، اس میں زندگی نہیں ہوتی۔ وہ بے جان ہوتا ہے۔ بے جان رہتا ہے اور بے جان چیزیں جان دار چیزوں پر کبھی انحصار نہیں کرتیں۔ وہ کسی بھی چیز پر انحصار نہیں کرتیں۔ کیونکہ انہیں کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس کے ہاتھ میں آیا ہوا پارس دراصل ایک ایسی بے جان چیز تھا جسے شائستہ کی ضرورت نہیں تھی اور ایک دن وہ شائستہ کے لیے پارس سے پتھر بن کر اسے ایک ایسی ٹھوکر دینے والا تھا جس کے بعد اس کے سامنے آنے والی پستی اسے آسمان سے پاتال میں لے جانے والی تھی۔ آسمان اور پاتال کے درمیان کہیں بھی زمین نہیں ہوتی۔ زمین کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ پاتال تک پہنچتے پہنچتے پیرکٹ چکے ہوتے ہیں۔
٭٭٭
”میں آپ کے ساتھ کورٹ میرج کرنا چاہتی ہوں۔”
ہارون کمال کے چہرے پر بے اختیار ایک مسکراہٹ لہرائی ”تو تم نے فیصلہ کرلیا۔”
”میرے والدین نے میرے پاس کوئی دوسری چوائس ہی نہیں چھوڑی۔” شائستہ نے شکست خوردہ لہجے میں کہا ”انہوں نے میری منگنی کر دی ہے۔”
”کیا؟” ہارون کو شاک لگا، شائستہ اس سے نظریں نہیں ملا سکی ”کب؟”
”پرسوں۔”
”کہاں؟”
”بابا کے اسی دوست کے بیٹے کے ساتھ جن کے گھر والے کچھ عرصے سے ہمارے گھر آرہے ہیں۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!