”اور جہاں تک آپ کے جھوٹ بولنے کا تعلق ہے تو آپ کو حق ہے کہ آپ اپنے بارے میں جو چھپانا چاہتی ہیں چھپالیں، اس لیے آپ نے شہیر کے معاملے میں کچھ چھپانے کے لیے جھوٹ بولا تو ٹھیک کیا۔ میں یا کوئی بھی آپ کے اس حق کو چیلنج نہیں کرسکتا۔”
اس نے چند ہی جملوں میں اس کے احساس جرم کو مٹا دیا۔
”شہیر کو بخار ہے؟” اس نے فاطمہ سے پوچھا۔
”ہاں، پچھلے کچھ دنوں سے دن کے وقت تو بہت ہلکا ہوتا ہے، البتہ رات کو تیز ہو جاتا ہے۔” فاطمہ نے بتایا۔
”آپ نے ڈاکٹر کو دکھایا؟”
”ہاں میں ان کی بتائی ہوئی میڈیسن اسے دے رہی ہوں۔ لیکن زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس کا گلا ویسے ہی خراب ہے۔”
”میرے والد چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں۔ آپ چاہیں تو آج واپسی پر یہاں سے میرے ساتھ چلیں۔ وہ شہیر کا چیک اپ کرلیں گے۔”
ربیعہ نے فوراً اسے پیشکش کی۔ فاطمہ نے کچھ تامل کیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرے یا نہ کرے۔
ربیعہ اس کے شش و پنج کو بھانپ گئی۔ ”آپ اسے کوئی احسان مت سمجھیں۔ میرے والد کو بچوں سے خاصی محبت ہے۔ جہاں وہ رہتے ہیں۔ اس کالونی میں کسی کے بچے کو بھی کوئی تکلیف ہو، وہ ان ہی کے پاس لے کر آتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو میرے والد خاصے ناراض ہوتے ہیں۔” اس کا لہجہ اتنا دوستانہ تھا کہ اس بار فاطمہ پہلے کی طرح خاموش نہیں رہ سکی۔
”ٹھیک ہے۔ میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔” اس نے ہامی بھرلی۔ ربیعہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔
٭٭٭
”امی! مجھے یہ لوگ پسند نہیں ہیں۔” شائستہ نے رات کو اپنی امی سے کہا۔
ہارون کے گھر والوں کے بار بار ان کے گھر کے چکر لگانے پر شائستہ کے گھر والے ناراض ہو رہے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شائستہ کے امی، ابو نے اس کے لیے وقت سے پہلے ہی رشتہ کی تلاش شروع کر دی۔
شائستہ نے اس بات کا علم ہونے پر پہلی بار اپنی خفگی کا اظہار کیا۔ لیکن اس کی امی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس بات نے شائستہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا۔
اس پریشانی نے اس وقت خاصی سنگین صورت اختیار کرلی۔ جب اس کے ابو کے ایک دوست کی فیملی اپنے بیٹے کے لیے اسے دیکھنے آئی اور نہ صرف اسے دیکھنے آئی، بلکہ انہوں نے فوری طور پر اس کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے ملنے کی پیشکش کر دی۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد اس نے اپنے والدین کو خاصا خوش اور مطمئن دیکھا اور اس چیز نے اسے پریشان کر دیا۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد اس رات اس نے دبے لفظوں میں اپنی امی سے اس رشتہ کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ناپسندیدگی کے اس اظہار نے اس کی امی کو حیران کر دیا۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ شائستہ اس رشتہ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے گی۔
”کیوں پسند نہیں آئے تمہیں یہ لوگ؟” اس کی امی نے اس سے دریافت کیا۔
”پتا نہیں مگر مجھے یہ لوگ اچھے نہیں لگے۔”
”میں یہی تو جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں ان میں کیا بات بری لگی ہے؟”
”میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
”یہ کیا بات ہوئی۔ ابھی تم ان لوگوں کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہی تھیں۔ ابھی تم شادی ہی نہیں کرنا چاہتیں۔”
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔ ”کیا یہ ٹھیک نہیں تھا کہ جب ہارون نے اتنی بار رشتہ بھجوایا ہے تو آپ اس کے بارے میں غور کرتے۔”
اس کی امی اس کی بات پر ساکت ہوگئیں۔ شاید انہیں شائستہ سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔
”کیا غور کرتے؟” انہوں نے کچھ بے یقینی سے کہا۔
”ہارون اچھا ہے اور جب تایا ابو اتنا اصرار کر رہے ہیں تو…”
اس کی امی نے اس بار اس کی بات کاٹ دی۔
”ہارون اچھا ہے؟ کیا اچھا ہے اس میں شکل کے علاوہ؟ وہ اصرار نہیں کر رہے وہ ہمیں مجبور کر رہے ہیں۔ پورے خاندان میں کوئی ایک بھی ہارون کی وجہ سے تمہارا رشتہ لینے پر تیار نہیں ہے۔ انگوٹھی والا واقعہ ہر ایک کی زبان پر ہے۔ وہ لوگ جو پہلے بار بار تمہارے رشتہ کے لیے چکر لگاتے تھے۔ اب یک دم پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ حیلے بہانے بنا رہے ہیں، ہر ایک یہی سوچ رہا ہے کہ شاید تم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو اور ہم لوگ جان بوجھ کر ہارون کا رشتہ قبول نہیں کر رہے۔”
”ہارون میں کیا برائی ہے صرف اس کے علاوہ کہ وہ تایا ابو کا بیٹا ہے اور بابا تایا ابو کو پسند نہیں کرتے۔” اس بار اس نے کھل کر کہا۔
”بات صرف تمہارے تایا ابو اور ان کے گھرانے کو ناپسند کرنے کی نہیں ہے۔ ہارون اور تمہارے درمیان کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ ہم لوگوں کے ماحول میں بہت فرق ہے۔ ذہنیت ایک جیسی نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تمہارے بابا اپنی اولاد کی شادی کسی ایسے گھر میں نہیں کریں گے، جہاں لوگ حرام کماتے اور کھاتے ہوں۔” اس کی امی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”امی! یہ کیا بات ہوئی؟ تایا ابو جو بھی کرتے ہیں وہ ان کا مسئلہ ہے ہمارے پاس کوئی گارنٹی ہے کہ وہ واقعی حرام کماتے ہیں اور پھر اگر ایسا ہے بھی تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ان لوگوں کا مسئلہ ہے پھر ہارون کو ہم اس میں شامل کیوں کر رہے ہیں۔ وہ تو ابھی باہر سے آیا ہے۔”
اس کی امی اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئیں۔
”تم ہارون کی اتنی وکالت کیوں کر رہی ہو؟” وہ ماں کے اس سیدھے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”کیا جانتی ہو تم اس کے بارے میں کہ تمہیں یہ یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں ہے؟”
”میں کیا جان سکتی ہوں اس کے بارے میں؟ میں تو ویسے ہی کہہ رہی تھی۔”
”پھر بہتر ہے، کچھ مت کہو۔ یہ لوگ اچھے ہیں۔ ان کا بیٹا تمہارے بابا کو بھی پسند ہے۔ کچھ دنوں تک ہم اور وہ باقاعدہ طور پر نسبت طے کر دیں گے، جہاں تک ہارون اور اس کے گھر والوں کی بات ہے تو وہ لوگ اپنے جیسا کوئی خاندان ڈھونڈ ہی لیں گے۔ ان جیسے لوگوں کی کمی نہیں ہے یہاں۔ مگر ہم لوگ ان سے کوئی نیا رشتہ قائم نہیں کرسکتے۔ ساری عمر اپنی اولاد کو حلال کھلا کر اور اچھائی برائی میں فرق بتاتے رہنے کے بعد یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جوان ہونے پر ہم آنکھیں بند کرکے اپنی اولاد ایسے لوگوں کو دے دیں۔ جو اپنے گھر میں دوزخ کا ایندھن اکٹھا کر رہے ہیں۔”
وہ قطعی لہجے میں کہہ کر اس کے پاس سے چلی گئیں۔ لیکن شائستہ غصہ میں بری طرح پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
”دوزخ کا ایندھن؟ پتا نہیں میرے ماں باپ کس دور میں جی رہے ہیں؟ ان کے لیے زندگی کی تمام آسائشیں دوزخ کا ایندھن ہیں حرام، حلال، اچھائی برائی زندگی میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ میں ہارون اور ہارون کے گھر والوں کے ساتھ بہت خوش رہ سکتی ہوں۔ میں ان جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہوں آزادی اور بے فکری کی زندگی۔ ان روایات اور بے ہودہ اخلاقیات سے چھٹکارا پانا چاہتی ہوں میں۔” اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
٭٭٭
”کیا تم وہاں شادی کرلو گی، جہاں تمہارے پیرنٹس چاہتے ہیں؟” وہ ایک بار پھر ہارون کے ساتھ تھی اور ہارون اس سے بہت سنجیدگی کے ساتھ پوچھ رہا تھا۔
”نہیں۔ میں کبھی بھی وہاں شادی نہیں کروں گی۔” شائستہ نے بڑے مستحکم انداز میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
”تو پھر اس سارے تماشے کی کیا ضرورت ہے۔ صاف صاف اپنے پیرنٹس کو بتا دو کہ تم وہاں شادی نہیں کرو گی۔”
”میں ایسا کر چکی ہوں۔”
”پھر ان کا ردعمل کیا تھا؟” ہارون کی دلچسپی بڑھ گئی۔
شائستہ خاموش رہی۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں؟” ہارون نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”وہ میری شادی وہیں کرنا چاہتے ہیں۔” اس نے کچھ مدھم آواز میں کہا۔
”تم نے انہیں یہ بتایا کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟” ایک گہری سانس لیتے ہوئے ہارون نے پوچھا۔
”ہاں۔”
”پھر؟”
”میں نے امی سے بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہارا پرپوزل وہ قبول نہیں کرسکتے۔”
”تم نے ان سے وجہ پوچھی؟”
”وہ پھر وہی بات کہتے ہیں کہ تم اور تمہاری فیملی اچھی نہیں ہے۔”
”اور ہم میں نظر آنے والی واحد برائی ہماری آزاد خیالی اور بقول تمہارے والد صاحب کے حرام کی کمائی ہے۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں؟”
اس نے کچھ تلخ انداز میں دریافت کیا۔ شائستہ کچھ بول نہیں پائی۔
”شائستہ! تمہاری ذاتی رائے کیا ہے ہماری فیملی کے بارے میں؟” چند لمحے اس نے خاموش رہنے کے بعد شائستہ سے اچانک پوچھا۔
”میری ذاتی رائے؟” وہ کچھ حیران ہوئی۔
”ہاں تمہاری ذاتی رائے۔ کیا تم بھی یہی سمجھتی ہو کہ ہماری آزاد خیالی یا آمدنی ہماری ایسی برائیاں ہیں جو واقعی ہمیں لوگوں کے لیے ناقابل قبول بنا دیتی ہیں؟”