تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

شائستہ کا سانس رک گیا۔ ہارون کے لہجے میں حد درجہ اطمینان تھا۔
”کورٹ میرج؟” اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔
”ہاں کورٹ میرج۔”
”مگر یہ بہت بڑا قدم ہے۔”
”ہر قدم اٹھانے کے بعد چھوٹا ہو جاتا ہے۔”
”مگر میں ابھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی ہوں اور…”
”اس بارے میں، تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ میں سب انتظام کرلوں گا۔”
”نہیں مگر… اس طرح… یہ تو بہت مشکل ہے۔” شائستہ کو پہلی بار صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔
”تو پھر تم کیا چاہتی ہو؟ کسی دوسرے سے شادی کرنا؟”
”میں نے یہ نہیں کہا مگر اس طرح کورٹ میرج کرنے سے تو بہت زیادہ پرابلمز پیدا ہوں گے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔”
”تم اپنے پیرنٹس کو منالو ہم کورٹ میرج نہیں کرتے۔ باقاعدہ طریقے سے شادی کر لیتے ہیں مگر انکل اکبر اور تمہارے بھائیوں کی جو ذہنیت ہے، وہ میں جانتا ہوں۔ انہوں نے اس شادی کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ وہ کبھی بھی تمہاری شادی مجھ سے نہیں کریں گے اور میں کسی صورت بھی تمہیں کھونے پر تیار نہیں ہوں۔ تم خود سوچو کیا تم میرے بغیر رہ سکتی ہو؟” ہارون بڑی سنجیدگی سے کہتا جا رہا تھا۔
”میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔” شائستہ نے اپنا ر پکڑ لیا۔
”تم میرے ساتھ کورٹ میرج کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟ کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔ تمہیں کوئی گارنٹیز چاہئیں تو میں وہ بھی دینے کو تیار ہوں۔” ہارون نے اس کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت دیں، میں اتنی جلدی میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔” شائستہ کا تذبذب ابھی بھی برقرار تھا۔
”ٹھیک ہے تم اچھی طرح سوچ لو۔ آخر یہ تمہاری زندگی ہے۔” ہارون نے گاڑی بڑھاتے ہوئے بڑی لاپروائی سے کہا۔
٭٭٭
”ہاں جی یہ وہی عورت ہے۔” سکینہ نے تصدیق کی۔ ”کوئی خاص بات ہے؟” اس بار سکینہ نے تجسّس کے عالم میں پوچھا۔
”ہاں خاص بات ہے… اس عورت نے مجھے اپنا نام عالیہ بتایا تھا مگر اس تصویر میں اس کا نام…” انچارج کہتے کہتے کچھ الجھے ہوئے انداز میں رک گئی۔ وہ اب کچھ پریشان نظر آرہی تھی۔ ”مجھے اگر پتا ہو تاکہ یہ اتنی مشہور عورت ہے تو میں اس سے کبھی بھی… ہاں ٹھیک ہے سکینہ تم جاؤ۔”
بات کرتے کرتے انچارج کو سکینہ کا خیال آیا اور اس نے بات ادھوری چھوڑ کر سکینہ کو جانے کے لیے کہا۔
سکینہ کچھ کہے بغیر دفتر سے باہر نکل گئی۔انچارج اب بھی اخبار سامنے رکھے بیٹھی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس عورت نے اسے ایک غلط نام کیوں بتایا اور وہ بچہ… وہ بچہ وہ کیوں لینا چاہتی تھی؟ اس عورت سے بچے کا کیا رشتہ تھا؟ کیا بچہ واقعی اس کی بہن کا بیٹا تھا جیسا کہ اس نے بتایا؟ یا پھر نام کی طرح اس نے اس معاملے میں بھی اس سے غلط بیانی کی تھی؟ سوالوں کا ایک انبار اس کے ذہن میں اکٹھا ہونے لگا۔
٭٭٭
میرے لیے معذوری کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ تم یہ سمجھ لو کہ یہ میری زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ میں نے اپنی ماں کو اپنی ساری زندگی وہیل چیئر پر گزارتے دیکھا ہے۔ ایک حادثے میں ان کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو گئیں تھیں۔ اس لیے معذوری میرے لیے کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے نہ ہی دوسرے لوگوں کی طرح مجھے معذور لوگ کسی اعتبار سے کم اہم یا نامکمل لگتے ہیں۔”
ربیعہ مراد نے اس سے کہا ”اس لیے تم یہ کبھی مت سمجھنا کہ تم سے ہونے والی یہ گفتگو تم پر ترس کھا کر کی جا رہی ہے یا ہمدردی میں ملنے والی لفظوں کی بھیک ہے۔ تم میری باتوں کو نصیحت بھی مت سمجھنا کیونکہ میں نصیحت کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ ہم سب لوگ زندگی کے راستے پر گاڑیوں پر سفر کرنے والے لوگ ہیں۔ اس راستے پر سفر کرتے بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کسی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی گاڑی سڑک سے اتر جاتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاڑی سڑک پر موجود کسی گڑھے میں پھنس جاتی ہے۔ اس وقت اس سڑک پر سفر کرنے والی دوسری گاڑیوں میں سے کسی نہ کسی کو اس گاڑی کے پاس رک جانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کی گاڑی کو کس طرح سڑک پر واپس لایا جاسکتا ہے یا گڑھے میں سے نکالا جاسکتا ہے۔ اس وقت چند لمحوں کے لیے ہمارا اپنا سفر روک کر وہاں رک جانا دوسرے کو ٹریک پر لے آتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں دوسرے کی گاڑی ہمیشہ اس گڑھے میں پھنسی رہتی ہے۔
”تم اور میں بھی ایسی ہی دو گاڑیوں کے مسافر ہیں۔ مجھے لگا کہ تمہاری گاڑی کا ٹائر کسی گڑھے میں پھنس گیا ہے اور میں چاہتی ہوں تم میری مدد سے اس میں سے نکل آؤ۔ عین ممکن ہے۔ زندگی کے اس راستے پر کہیں آگے چل کر میری گاڑی کا ٹائر بھی کسی گڑھے میں پھنس جائے اور ہوسکتا ہے۔ اس وقت میرے لیے رکنے والی فاطمہ مختار ہو، ہوسکتا ہے نا؟”
فاطمہ مختار کسی سحر زدہ معمول کی طرح ربیعہ مراد کی باتیں سن رہی تھی۔ ربیعہ کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس مگ کے اردگرد پھیلی ہوئی تھیں جو اس نے تھاما ہوا تھا۔ اس نے زندگی میں بہت کم ایسے خوب صورت ہاتھ اور انگلیاں دیکھی تھیں۔ سیاہ چمک دار مگ کے گرد سفید مخروطی انگلیاں جس کے ناخنوں پر سرخ رنگ کی کیوٹکس لگی ہوئی تھی۔
وہ ربیعہ مراد کی باتیں سنتے ہوئے مسلسل اس کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔
ربیعہ مراد کے ساتھ ہونے والی یہ اس کی پانچویں ملاقات تھی۔ وہ ایک انٹرنیشنل ڈونر ایجنسی کے ساتھ منسلک تھی اور موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران لاہور کے کچھ منتخب گورنمنٹ اسکولز کے ٹیچرز کے لیے منعقد کی جانے والی ایک پندرہ روزہ ورکشاپ کی کوآرڈی نیٹر تھی۔ جبکہ فاطمہ اپنے اسکول کے بہت سے ٹیچرز کے ساتھ اس ورکشاپ کو اٹینڈ کر رہی تھی۔
ورکشاپ صبح آٹھ سے شام چار بجے تک چلتی اور فاطمہ اتنے لمبے وقت کے لیے شہیر کو کہیں نہیں چھو ڑ سکتی تھی۔ اس یے وہ شہیر کو بھی اپنے ساتھ وہاں لے آتی۔
ورکشاپ کے پہلے ہی دن اس نے ربیعہ مراد کو کیفے ٹیریا میں ٹی بریک کے دوران مختلف ٹیبلوں پر ٹیچرز کے پاس جا کر گفتگو کرتے دیکھا۔
لنچ بریک کے دوران ربیعہ مراد اس ٹیبل پر آئی، جہاں فاطمہ مختار اپنے اسکول کولیگز کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ تقریباً دس منٹ وہ ان کی ٹیبل پر رکی اور اس دوران اس نے انتہائی بے تکلفی کے ساتھ اپنا تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ وہاں بیٹھے تمام لوگوں کا بھی تعارف لیا۔
”یہ آپ کا بیٹا ہے؟” اس نے فاطمہ سے تعارف لیتے ہوئے اس کے پاس بیٹھے ہوئے شہیر کا گال چھوتے ہوئے کہا۔ فاطمہ کے اثبات میں سر ہلانے کے بعد اس نے کہا۔
”بہت خوبصورت ہے۔”
پھر وہ انتہائی بے تکلفی کے ساتھ فاطمہ سے سوال جواب کرنے لگی۔ فاطمہ اس کی موجودگی اور بے تکلفی سے نروس ہو رہی تھی۔ شاید ان دونوں چیزوں سے زیادہ پریشان کن اس کے لیے یہ بات تھی کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرح اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی نہ ہی اس کے لہجے میں اس کے لیے وہ ترس اور ہمدردی تھی، جس کی وہ عادی ہو چکی تھی۔ وہ اس سے بھی اسی طرح بات کر رہی تھی جس طرح ٹیبل ہوئی باقی کولیگز سے بات کر رہی تھی۔
اس کے سوال بھی اس کے کام سے متعلق تھے۔ فاطمہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ اس کی باتوں کا جواب میں کس ردعمل کا اظہار کرے۔
دوسرے دن ورکشاپ کے دوران ایک دفعہ پھر ربیعہ سے اس کی ملاقات ہوئی اور باتوں کے دوران ہی اسے پتا چلا کہ یہ ربیعہ کی آخری ورکشاپ ہے اور اس ورکشاپ کے ختم ہونے کے بعد وہ استعفیٰ دے گی۔
ٹیبل پر بیٹھی ہوئی اس کی کولیگز میں سے ایک نے اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ربیعہ سے اس کی جاب چھوڑنے کے بارے میں پوچھا۔
”آپ اتنے بڑے ادارے کے ساتھ منسلک ہیں۔ اتنی سہولیات حاصل ہیں۔ آپ کو پھر جاب کیوں چھوڑ رہی ہیں۔؟”
ربیعہ نے اپنی پلیٹ میں کچھ چاول نکالتے ہوئے ایک مسکراہٹ کے ساتھ سوال سنا اور اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔ ”دراصل میری مدر ان لا (ساس) چند ماہ پہلے نابینا ہوگئی ہیں۔ ظاہر ہے میں انہیں گھر میں اکیلا چھوڑ کر تو نہیں آسکتی۔ میں نے کوشش کی تھی کہ سب کچھ Manage کرلوں۔ لیکن میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس لیے جاب چھوڑ رہی ہوں۔”
فاطمہ کچھ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”آپ کے شوہر نے مجبور کیا ہوگا کہ آپ جاب چھوڑ دیں؟” اسی کولیگ نے دوبارہ پوچھا۔
”نہیں۔ میرے شوہر نے مجھ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے جاب چھوڑ رہی ہوں۔”
”آپ کے شوہر کے کوئی بھائی نہیں ہیں جن کے پاس وہ رہ سکیں۔”
”دو بھائی ہیں ان کے لیکن میری مدر ان لا ہمیشہ سے میرے شوہر کے پاس رہتی رہی ہیں۔ میرے شوہر کے ساتھ بہت اٹیچمنٹ ہے ان کی کیونکہ وہ سب سے چھوٹے ہیں۔” ربیعہ نے سلاد کی ڈش کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی اپنے کیریئر کو چھوڑ دینا بہت مشکل کام ہوتا ہے، خاص طور پر ایسا کیریئر جیسا آپ کا ہے۔” فاطمہ کی اس کولیگ نے دوبارہ کہا۔
”جہاں فیملی آجائے وہاں کیریئر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ عورت میں یہ خوبی ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اپنی فیملی سے بڑھ کر کسی چیز کو اہمیت نہ دے اور میں نے اپنی اسی خوبی کا استعمال کیا ہے۔”
چند لمحوں کے لیے ٹیبل پر اس کے جواب نے خاموشی طاری کر دی۔
اسی دن سہ پہر کے سیشن کے بعد ہال سے نکلتے ہوئے فاطمہ کا ربیعہ سے پھر آمنا سامنا ہوا۔ ربیعہ نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ شہیر کے گال چھوتے ہوئے اس کا نام لیا اور پھر آگے بڑھ گئی۔
اس دن فاطمہ گھر جا کر بہت دیر تک ربیعہ کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس کی شخصیت نے فاطمہ پر ایک عجیب سا تاثر چھوڑا تھا۔
تیسرے دن اسے ایک بار پھر اسے ربیعہ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا، اس بار اس کے ساتھ اور کوئی نہیں تھا۔ ربیعہ شہیر کے ساتھ باتیں کرنے کی کوشش کرنے لگی اور پتا نہیں کیوں مگر فاطمہ نے اسے یہ بتا دیا کہ شہیر اس کا بیٹا نہیں ہے۔ ربیعہ نے صرف ایک بار سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اچھا کہہ کر دوبارہ شہیر کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ فاطمہ کو یوں لگا جیسے اس کے انکشاف نے اسے حیران نہیں کیا یا پھر وہ پہلے ہی توقع کر رہی تھی۔
فاطمہ کو کچھ مایوسی ہوئی۔ وہ ربیعہ کے چہرے پر جیسے تاثرات اور جیسا ردعمل اس سے چاہتی تھی وہ اسے نہیں ملا۔
”آپ کو حیرت نہیں ہوئی کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا؟”
”مجھے ایسی کسی حیرت کا حق نہیں ہے۔” اس کے جواب نے فاطمہ کو چند لمحوں کے لیے خاموش کر دیا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!