”تم حسد کر رہی ہو عارفہ! تمہیں حسد ہو رہا ہے کہ ہارون کمال جیسا شخص تمہاری زندگی میں کیوں نہیں آیا۔ اگر وہ تمہاری زندگی میں آتا تو تم بھی یہی سب کچھ کرتیں۔”
شائستہ نے سر اٹھا کر تحقیر بھرے انداز میں کہا۔
”تم اور ہارون کمال کسی رشک اور حسد کے قابل نہیں ہو۔ تم لوگوں پر مجھے صرف ترس آتا ہے اور ہاں میری زندگی میں کبھی کوئی ہارون کمال آئے گا بھی نہیں۔ تمہاری طرح مجھے اپنے مذہب سے فرار چاہیے نہ ہی میں دنیا کو اپنی مٹھی میں لے کر پھرنا چاہتی ہوں۔ خدا حافظ۔”
شائستہ اسے دور جاتا دیکھتی رہی۔
٭٭٭
”بھئی، مجھے تو عبادت میں بڑا سکون ملتا ہے۔ سارا دن اور ساری رات میں ہوتی ہوں اور تسبیح… شبانہ! رضیہ کی تنخواہ کاٹ لینا، یاد ہے نا پچھلا پورا ہفتہ نہیں آئی۔ بیماری کا ڈھونگ کرکے گھر پڑی رہی اب پہلی تاریخ آئی ہے تو ساری بیماری رفو چکر ہو گئی ہے۔ ان نوکروں کا بس چلے تو لوٹ کر کھا جائیں مالکوں کو۔”
تسبیح کے دانے اب بھی مسلسل گر رہے تھے مگر اماں جی کی زبان اب کچھ اور قصیدے پڑھنے میں مصروف تھی۔
”آپ فکر نہ کریں اماں جی! میں بھی پوری تنخواہ دینے والی تو نہیں ہوں۔” ان کی بہو شبانہ نے ان کے پاس سے جاتے ہوئے انہیں یقین دلایا۔
اماں جی ایک بار پھر اپنے پاس کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی زرینہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔
”میں کیا کہہ رہی تھی بھلا؟” انہوں نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
”ہاں میں تمہیں بتا رہی تھی کہ میرا تو سارا وقت عبادت میں ہی گزر جاتا ہے۔ اب خیر سے منصور آنے والا ہے اور اس کے آتے ہی امبر اور صبغہ کے نکاح کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی۔ ایک ڈیڑھ ماہ تو اسی میں گزر جائے گا۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے ہمارے خاندان کی شادیوں کا… دو دو ہفتے پہلے تقریبات شروع ہو جاتی ہیں… سارا خاندان اکٹھا ہوتا ہے۔ چند دن تک ویسے بھی مسعود گھر میں رنگ روغن کروانے والا ہے۔ مجھے پھر صبیحہ کی طرف جانا ہوگا۔ تمہیں میں نے اسی لیے بلوایا ہے کہ جانے سے پہلے دوپٹے کڑھائی کے لیے دے دوں۔ اب تم وہاں کہاں آتی پھرو گی۔” اماں جی نے تسبیح گھماتے ہوئے تفصیلی پروگرام نشر کیا۔
”آپ نے ٹھیک کیا۔” زرینہ نے اس لمبے خطاب کا اتنا ہی مختصر جواب دیا۔
”اب ان دوپٹوں پر کڑھائی بہت اچھی اور صفائی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ کوئی نقص نہیں ہونا چاہیے۔”
”نہیں ہوگا۔” زرینہ نے یقین دہانی کروائی۔
”اور جاتے ہوئے رضیہ سے کپڑے لے جانا میں نے تمہارے لیے نکلوا کر رکھے ہوئے تھے… شبانہ اور میرے ہیں، کچھ تو زیادہ استعمال بھی نہیں کیے گئے۔ تم چاہو تو شکیلہ اور نسیم کے لیے رکھ چھوڑو۔”
”اماں جی! آپ نے مسعود بھائی سے بات کی؟” ان کی بات کے جواب میں کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ زرینہ نے ان سے پوچھا۔
”کون سی بات؟” اس طرف سے کمال بے نیازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ زرینہ کچھ چپ سی ہوگئی۔
”میں نے شکیلہ اور نسیم کے رشتوں کے بارے میں کہا تھا۔” مدھم آواز میں انہوں نے اماں جی کو یاد دلایا۔
”مگر میں نے تو تم سے کہا تھا کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ اپنی ذمہ داری پر تمہاری کسی بیٹی کا رشتہ کروانا اور بعد میں کوئی مسئلہ ہوا تو ہم پر ہی الزام دھرا جائے گا۔ نہیں بھئی، یہ کام ہم نہیں کرسکتے۔” انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی آپ مسعو د بھائی سے بات تو کرتیں، ان کی بہت جان پہچان ہے۔”
”مسعود کے پاس تو میرے پاس بیٹھنے کے لیے وقت نہیں ہوتا، وہ تمہاری بیٹیوں کے رشتوں کے لیے وقت کہاں سے نکالے گا۔ اور پھر وہ ویسے بھی ان چکروں میں نہیں پڑتا۔ تم خود کوئی رشتہ ڈھونڈو، شادی پر کچھ مالی امداد میں کر دوں گی مگر اس سے زیادہ توقع مت کرو۔” اس بار انہوں نے خاصی سرد مہری سے کہا۔
”اماں جی! ساری عمر میں نے گھر کی چاردیواری کے اندر گزاری ہے۔ شوہر کے مرنے کے بعد بھی گھر کے اندر ہی رہی۔ باہر کی دنیا میں بیٹی کے لیے رشتہ ڈھونڈھ بھی لوں تب بھی تحقیق کیسے کرواؤں۔ میرا نہ کوئی باپ ہے نہ بھائی۔ صرف رشتے کے بھائی ہی ہیں ان سے نہ کہوں تو پھر کس سے کہوں۔” ان کے لہجے میں افسردگی تھی۔
”اچھا ابھی تم دوپٹوں کا کام تو کرو، پھر بعد میں دیکھیں گے۔ مسعود تو ویسے بھی ابھی مصروف ہے۔” اماں جی نے ٹالتے ہوئے کہا۔ زرینہ اپنا برقعہ پکڑتے ہوئے کھڑی ہوگئیں۔
زرینہ مسعود اور منصور کے باپ کی ایک کزن تھیں۔ شادی کے چند سالوں بعد ہی ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی دونوں بیٹیاں بہت چھوٹی تھیں۔ وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں تھیں۔ نہ ہی ان کے والد اور بھائی تھے۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے انہوں نے سلائی کڑھائی شروع کر دی۔
اماں جی اپنے کپڑے ان ہی سے سلواتی تھیں اور صدقے اور زکوٰة کی رقم بھی اکثر انہیں ہی دیا کرتیں لیکن وہ بار بار اپنے احسانات جتانا نہیں بھولتی تھیں اور کچھ یہی حال شبانہ کا بھی تھا۔
زرینہ نے اپنی بیٹیوں کو بھی تعلیم نہیں دلائی تھی اس نے انہیں بھی سلائی کڑھائی ہی سکھائی۔ اب اس کی دونوں بیٹیاں بڑی ہو چکی تھیں اور وہ ان کی شادی کے لیے فکر مند تھیں۔ انہوں نے ان کے رشتوں کے سلسلے میں اماں جی سے مدد چاہی تھی اور اماں جی نے خاصی بے رخی سے انکار کر دیا۔
اماں جی عورتوں کی اس قسم میں سے تھیں جن کے نزدیک دین صرف حقوق اللہ تک محدود ہوتا ہے۔ وہ مسجد سے بلند ہوتی ہوئی پانچ وقت کی اذان میں محمد ۖ کا نام آنے پر انگوٹھوں اور انگلیوں کو چومنا اور آنکھوں سے لگانا فرض سمجھتی تھیں مگر تین وقت کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کے خیال پر ان کا دل کانپنے لگتا تھا۔
اپنی اولاد کو دیئے جانے والے اسباق میں سے سب سے پہلا سبق انہوں نے اسٹیٹس پر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کے دماغ میں یہ بات نقش کر دی تھی کہ وہ خاندان میں سب سے بہتر اور برتر ہیں، کیونکہ ان کے پاس بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اس خاندان کے بہت سے لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔ اماں جی نے اپنی پوری زندگی خاندان کے ایسے لوگوں کو ایک فاصلے پر رکھا جو مالی مسائل کا شکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے لوگوں کو زیادہ قریب کرنے سے وہ سر چڑھ جاتے ہیں اور عزت کرنا بھول جاتے ہیں۔
مسعود علی اور منصور علی کو بھی انہوں نے ان ہی لیکچرز کے ساتھ پالا تھا۔
ان کے بیٹے ان سے بڑھ کر مادہ پرست تھے اور اماں جی کو اس بات پر فخر تھا کہ ان پر اللہ کا بہت ”کرم” ہے۔ ان کے بیٹے دوسروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں انہیں اس کی پروا نہیں تھی۔ ان کے لیے اتنا کافی تھا کہ وہ دونوں ان کے فرمانبردار تھے۔
بعض مائیں اولاد پر آیات بھی پھونکتی ہیں اور ان کے لیے وظیفے بھی کرتی ہیں مگر زندگی میں کبھی انہیں سیدھا رستہ دکھاتی ہیں نہ سیدھے رستے پر چلنے دیتی ہیں۔ وہ ان کی آنکھوں پر پٹی چڑھا کر اور ان کے گلے میں اپنی فرمانبرداری کا پٹہ ڈال کر انہیں دوزخ کے دروازے پر لے جاتی ہیں پھر جب آنکھوں سے یہ پٹی اترتی ہے تو اولاد آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھی ہو چکی ہوتی ہے نہ وہ آگے جاسکتی ہے نہ پیچھے مڑ پاتی ہے۔
وہ اپنے آپ کو اولاد کے لیے کعبہ بنا دیتی ہیں اور اولاد کی ساری زندگی اس کعبے کے گرد طواف کرتے گزر جاتی ہے۔ انیسہ خاتون بھی ایسی ہی ماں تھیں۔
دولت سے محبت کا پہلا سبق مسعود اور منصور نے اپنی ماں کی گود میں ہی لے لیا تھا۔
٭٭٭
ایک ہفتہ کے بعد ہارون نے ایک بار پھر اپنے ماں باپ کو شائستہ کے گھر بھجوایا۔ اکبر عباس نے اس بار پہلے سے زیادہ برے طریقے سے کمال عباس کے لائے ہوئے رشتہ کو ٹھکرایا تھا۔
اگلے دن شائستہ دوبارہ کالج سے اس کے ساتھ چلی گئی۔ ہارون بہت زیادہ سنجیدہ اور شائستہ افسردہ تھی۔
”تمہارے حسب خواہش میں نے دوبارہ پرپوزل بھجوایا اور تم اس کا نتیجہ دیکھ چکی ہو۔” ہارون نے ایک لمبی خاموشی کے بعد بات شروع کی۔
”کیا تم نے اپنے گھر والوں سے بات کی تھی؟”
”نہیں۔” شائستہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”کیا مطلب ہے نہیں۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ تم صاف صاف انہیں بتا دو کہ تم میرے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرو گی۔”
”میں بتانا چاہتی تھی، مگر یہ سب بہت مشکل ہے۔ بابا تمہارے گھر والوں کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں نہ ہی سننا چاہتے ہیں اور میری سمجھ میں نہیں آتا میں ان سے کیا کہوں۔” شائستہ نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”اگر تم انہیں نہیں بتا سکتیں تو میں انہیں بتا دیتا ہوں کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”پلیز ہارون! ایسا کبھی مت کرنا… بابا تو مجھے جان سے مار دیں گے۔”
”اتنا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کچھ نہیں کریں گے۔”
”تم انہیں نہیں جانتے۔”
”میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا کوئی بری بات نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں۔ تم میں اعتماد ہو… مجھے ڈری سہمی ہوئی لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں۔” ہارون کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہونے لگی تھیں۔
”میں آج امی سے بات کروں گی، ہوسکتا ہے وہ مان جائیں۔”
”کیا مطلب ہے تمہارا۔ ”ہوسکتا ہے کہ وہ مان جائیں” سے؟ فرض کرو۔ وہ نہیں مانتیںتو؟” ہارون نے تنک کر کہا۔
”میں تو بس کوشش ہی کرسکتی ہوں نا۔”
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں اگر وہ نہیں مانیں تو؟” ہارون نے اس کی بات پر دھیان دیئے بغیر پوچھا۔
”میں نہیں جانتی تب کیا ہوگا۔”
”لیکن میں جانتا ہوں۔” ہارون نے سنجیدگی سے کہا۔ شائستہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تم اپنی امی سے بات کرو، اگر ان کا رسپانس پازیٹو نہیں ہوا تو پھر ہم دونوں کورٹ میرج کرلیں گے۔”