تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”ہاں جس گفتگو کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا ہو، وہ بے معنی ہی ہوتا ہے۔”
”تم کو نتیجے کے بارے میں اتنی فکر ہے تو تم اس گفتگو کو کسی نتیجے پر پہنچانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟” وہ اس بار کچھ تلخی سے بولیں
”پچھلے کئی ماہ سے اور کیا کر رہا ہوں میں؟ لیکن کوئی بھی کام صرف ایک شخص کے کرنے سے نہیں ہوتا کم از کم اس قسم کا کام جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔”
”تمہارا مطلب ہے کہ میں تمہاری مدد نہیں کر رہی ہوں؟”
”ہاں، میرا یہی مطلب ہے لیکن یہ سب کہنے کا اس لیے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ سب میری غلطی ہے۔ کسی بھی شخص کے ساتھ انوالو ہونے سے پہلے اس کے خلوص کو ضرور دیکھ لینا چاہیے میں نے یہ نہیں کیا… غلطی کی۔”
”تمہیں لگتا ہے میں تمہارے ساتھ مخلص نہیں ہوں؟”
”ہاں مجھے یہی لگتا ہے۔” اس نے بے دھڑک کہا۔
”تمہارے لیے کسی اخلاص کے بغیر ہی میں نے تم سے گھر والوں سے چھپ کر شادی کرلی؟” وہ اس بار تیز آواز میں بولی۔
”شادی کا خلوص سے کیا تعلق ہے؟”
”شادی کا خلوص سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ کوئی اخلاص رکھے بغیر ساری زندگی کا تعلق باندھتا ہے؟”
”جذبات میں آکر انسان بہت کچھ کر گزرتا ہے۔ شادی بھی… بعد میں وہ اکثر پچھتاتا ہے، جیسے اب تم مجھ سے شادی کے فیصلے پر پچھتا رہی ہو۔” ہارون نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
”میں تم سے اپنی شادی کے فیصلے پر بالکل نہیں پچھتا رہی ہوں۔ اور تم سے شادی کا فیصلہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں تھا۔ میں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا؟”
”اچھا…” وہ اس کی بات پر عجیب سے انداز میں ہنسا۔ ”تم پچھتا نہیں رہی ہو اس شادی پر… تمہیں ثابت کرنا چاہیے کہ تم اپنے اس فیصلے پر پچھتا نہیں رہی ہو۔ اپنے والدین کو تم تیار نہیں کرسکیں کہ وہ ہمارے گھر آئیں۔ یا پھر شاید تم نے ایسی کوشش ہی نہیں کی اور مجھ سے تم کہہ رہی ہو کہ تم مجھ سے شادی پر پچھتا نہیں رہی ہو۔”
”ہارون! غلط بات مت کرو، تمہارے لیے میں نے زندگی میں پہلی بار اپنے والدین کے سامنے اس طرح بات کی۔ ان کی مرضی سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں مجبور کیا کہ وہ تمہارا پرپوزل قبول کریں اور تم کہہ رہے ہو کہ مجھے اپنے اس فیصلے پر پچھتاوا ہے، اس لیے میں اپنے والدین سے تمہارے سلسلے میں بات نہیں کر رہی۔”
”اگر تم یہ سب کر سکتی ہو تو انہیں ہمارے گھر کیوں نہیں بھیج سکتیں؟”




”کتنی باتیں منواؤں گی میں ان سے۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ تم یہ چاہتے ہو کہ میں انہیں اس بات پر مجبور کروں اور وہ پھر سے بگڑ جائیں۔ تم خود سوچو، کیا تمہارا یہ مطالبہ جائز ہے۔”
”ہاں بالکل جائز ہے، میرے ماں باپ اتنی بار تمہارے گھر گئے۔ ہر بار تمہارے گھر والوں نے انکار کیا۔ جو بے عزتی کی وہ الگ۔ اب اگر تمہارے ماں باپ میرے پرپوزل کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے ہیں تو پھر انہیں اتنی زحمت بھی کر لینی چاہیے کہ وہ میرے گھر آجائیں۔ وہاں آکر میرے ماں باپ سے بات کرلیں۔” اس کی آواز میں ترشی تھی۔
”تم اپنے ماں باپ سے یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایک بار پھر ہمارے گھر آئیں۔ تم تو دعویٰ کرتے ہو کہ تمہیں مجھ سے بہت محبت ہے۔”
”میں نے اس محبت کا ثبوت کئی بار اپنے ماں باپ کو تمہارے گھر بھیج کر دیا ہے۔ مگر اب میرے ماں باپ میری بات نہیں مانیں گے۔”
”تمہارے ماں باپ اور تمہاری بات نہ مانیں۔ میں اس پر یقین نہیں کرسکتی۔ تمہارے گھر میں سب کچھ تمہاری مرضی سے ہوتا ہے اور اتنا معمولی سا کام تم ان سے نہیں کروا سکتے۔” اسے ہارون کی بات پر غصہ آیا۔
”شائستہ! میں تم سے اس بات پر بحث کرنا نہیں چاہتا کہ میں کون سا کام اپنے ماں باپ سے کروا سکتا ہوں اور کون سا نہیں، اگر تم اپنے ماں باپ کو اس بات کو ماننے پر مجبور نہیں کرسکتیں تو سب کچھ اسی طرح چلنے دو۔ جب وہ مان جائیں تب…”
شائستہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” میں اب اور وقت ضائع نہیں کر سکتی۔
”کیوں؟ تمہیں کس چیز کی جلدی ہے۔ مجھے تو جلدی نہیں ہے، نہ ہی میں تمہیں پریشرائز کر رہا ہوں۔”
شائستہ اس کی بات کے جواب میں خاموش ہو گئی۔
”جلدی ہے مجھے۔” اس نے کچھ دیر بعد تھکی ہوئی آواز میں کہا۔
”یہی تو پوچھ رہا ہوں، کس چیز کی جلدی ہے؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”ہارون! میں پریگننٹ ہوں۔” وہ چند لمحے کچھ بول نہیں سکا، صرف پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
شائستہ نے اس کے چہرے سے اس کی اندرونی کیفیات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی، لیکن بری طرح ناکام رہی، اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔
پھر ہارون نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے شائستہ کے چہرے سے نظر ہٹالی، شائستہ اب بھی اسے دیکھ رہی تھی۔
”تو پچھلے دو ماہ سے تم اس لیے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں؟” اس کی آواز بے حد سرد تھی۔
”ہاں۔”
وہ چپ رہا۔ شائستہ کو کچھ اطمینان ہونے لگا۔
”سب کچھ بہت جلدی ہونا چاہیے۔” وہ بڑبڑا رہا تھا۔
”پھر تم اپنے امی، ابو کو کب بھیجو گے؟” وہ اس کے سوال پر ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”میں تمہیں بتا چکا ہوں، یہ کام مجھے نہیں تمہیں کرنا ہے۔” اس کا جواب اب بھی وہی تھا۔
”ہارون! میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔” اس نے بے بسی سے کہا۔
”تو ٹھیک ہے، جب ممکن ہو تب کر لینا۔” ہارون کے اطمینان نے اس کو لرزایا۔
”میرے پاس اور وقت نہیں ہے۔ کیا تمہیں یہ احساس نہیں ہے کہ میں پریگننٹ ہوں۔” اس نے تیز آواز میں ہارون سے کہا۔
”اگر تم پریگننٹ ہو تو یہ تمہارا مسئلہ ہے۔” سرد آواز میں ہارون کے منہ سے نکلے ہوئے اس جملے نے کچھ دیر کے لیے اسے ساکت کر دیا۔ اسے لگا کہ شاید اس نے ہارون کی بات سننے میں غلطی کی ہے۔
”تم نے کیا کہا ہارون؟” اس نے کسی خوش فہمی کے تحت پوچھا۔
”میں نے کہا اگر تم پریگننٹ ہو تو یہ تمہارا مسئلہ ہے۔” ہارون نے اس بار بہت ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے وہی جملہ دوبارہ اسی سرد مگر پرسکون آواز میں دہرا دیا۔ کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی باقی نہیں رہی۔ شائستہ کو اپنا حلق خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
”میں پریگننٹ ہوں تو یہ صرف میرا مسئلہ ہے، تمہارا مسئلہ نہیں ہے؟”
”نہیں… یہ صرف تمہارا مسئلہ ہے۔ میں اس کا حصہ نہیں ہوں۔” شائستہ یک دم صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے چلاتے ہوئے کہا۔
”میں پریگننٹ ہوں تو یہ تمہارا مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ صرف میرا مسئلہ ہے۔ کیا میں تمہاری بیوی نہیں ہوں؟ کیا تم نے مجھ سے شادی نہیں کی ہے؟” اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
”تم میری بیوی ہو اور میں نے تم سے شادی بھی کی ہے لیکن یہ تمہارا اصرار تھا کہ اس شادی کا اعلان نہ کیا جائے۔ اب اگر تمہارے اس فیصلے کی وجہ سے تمہیں کوئی پرابلم پیش آرہی ہے تو اس کی ذمہ دار صرف تم ہو میں نہیں۔ اور اس پرابلم کو ڈیل بھی تمہیں خود کرنا ہے۔ میں اس سلسلے میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔”
ہارون کے منہ سے نکلے ہوئے چند جملے اسے چند لمحوں کے اندر آسمان سے زمین پر لے آئے تھے۔
”تم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے؟” وہ روہانسی ہوگئی۔
”نہیں، میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ تمہیں اپنے لیے راستوں کا تعین خود کرنا ہے۔ گھر جاؤ اور اپنے ماں باپ سے کہو کہ وہ تمہارا پرپوزل لے کر ہمارے گھر آجائیں۔ سیدھی سی بات ہے۔”
”وہ نہیں مانیں گے۔”
”ٹھیک ہے تو پھر تم انہیں بتا دینا۔ تم مجھ سے شادی کر چکی ہو اور پریگننٹ ہو۔”
”میں یہ بھی نہیں کرسکتی۔ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔” وہ یک دم رونے لگی۔
”پھر گھر جاؤ ہی مت۔ میرے ساتھ مستقل طور پر رہو، میں تمہارے گھر والوں کو خود اطلاع دے دوں گا کہ ہم نے شادی کرلی ہے۔”
”میرا خاندان کسی کو منہ نہیں دکھا سکے گا، اگر میں یہ کروں گی تو۔”
”پھر چوتھا رستہ یہ ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں تاکہ کم از کم تمہارے ماں باپ کی عزت تو محفوظ رہ سکے۔ تم ان کی مرضی سے کہیں بھی شادی کرلینا۔”
اس کی آواز میں جو سفاکی تھی۔ شائستہ نے اسے بہت دیر بعد محسوس کیا تھا۔
”اور وہ محبت کہاں ہے جس کا تم مجھے جھانسہ دے رہے تھے۔”
”تم کو ہے مجھ سے محبت…؟ تم کو بھی نہیں ہے؟” ہارون نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”کیا تم سے میری شادی میری محبت کا ثبوت نہیں ہے؟” وہ چلائی۔
”شادی تو میں نے بھی کی ہے تم سے… اگر یہ ثبوت ہے تو یہ ثبوت میں دے چکا ہوں پھر تمہیں مجھ سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ مجھے تم سے محبت ہے یا نہیں۔” ہارون نے اس کے غصے سے متاثر ہوئے بغیر کہا۔
”مجھے آج بھی تم سے محبت ہے۔ اتنی ہی محبت جتنی پہلے دن تھی، یہ سوال تم اپنے گھر والوں سے جا کر کرو۔ ان سے پوچھو، انہیں تم سے محبت ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو پھر وہ تمہاری بات کیوں نہیں مانتے۔ اگر نہیں ہے تو پھر تم ایسے لوگوں کے ساتھ کیوں رہ رہی ہو۔ انہیں چھوڑ دو۔”
شائستہ کا ذہن مکمل طور پر ماؤف ہو چکا تھا۔ وہ اسے جو راستے دکھا رہا تھا۔ اسے ہر راستے کے اختتام پر اندھیرا نظر آرہا تھا، پہلا قدم کہاں رکھنا چاہیے، اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
اسے اپنا پورا وجود یک دم چمگادڑ کی طرح لگنے لگا تھا۔ جس کے لیے اندھیرا اندھیرا ہوتا ہے نہ روشنی روشنی۔ اس نے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے اس شخص کو دیکھا جو آج بھی اس سے محبت کا دعویٰ کر رہا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر اس وسیع و عریض لاؤنج اور وہاں لٹکے فانوس کو دیکھا۔ چند ماہ پہلے تک یہ سب کچھ اس کے لیے جنت ارضی تھا وہ اپنی مرضی سے اس جنت کے اندر آئی تھی۔ جنت کے اندر ہر کوئی اپنی مرضی سے ہی آتا ہے۔ یہ دوزخ ہوتا ہے جہاں لوگ زبردستی بھیجے جاتے ہیں مگر وہ اپنی مرضی سے دوزخ میں آگئی تھی۔
چوکور کا چوتھا کونا ”پرفیکشن” کے عذاب کو بھگتنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں۔ ہر طرف ایک ایسا جال تھا جس پر ایک قدم اسے کسی ایسے شکنجے میں گرفتار کر دیتا جس سے وہ ساری عمر آزاد نہیں ہو سکتی تھی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا۔ اسے خوش فہمی تھی۔ وہ اب بھی جس جگہ کھڑی تھی۔ وہ اسی جال کی زد میں تھی۔
سامنے بیٹھا ہوا شخص اب بھی اتنا ہی خوبصورت تھا۔ جتنا اسے پہلے دن لگا تھا۔ اس کے پھولوں کی مہک اب بھی اتنی ہی مسحور کن تھی۔ اس کا ذہن اب بھی ماؤف تھا۔ روشنی… روشنی کہاں تھی؟ اندھیرا… اندھیرا کہاں تھا؟
ہے لو زندگی، زندگی نور ہے
مگر اس میں جلنے کا دستور ہے
روایت ہے کہ زندگی گہنا ہے
یہ ہیرا ہے اور چاٹتے رہنا ہے
کوئی کہتا ہے اس کو باد صبا جو سب کچھ اڑا دے
یہ ہے وہ ہوا، اجالے اگلتی ہوئی سحر ہے۔
یہ تن کو نگلتی ہوئی لہر ہے
ہے لو زندگی، یہ سبزہ جگاتا ہوا آب ہے
یہ پچھلے پہر کا کوئی خواب ہے۔
ہے لو زندگی، ہے لو زندگی
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!