”نیلوفر! کیا تم ہارون تک میرا یہ پیغام پہنچا سکتی تھی ہو کہ وہ مجھ سے جلد از جلد فون پر بات کرے یا کسی بھی طرح رابطہ کرے؟” اگلے دن اس نے کالج جاتے ہی نیلوفر سے کہا۔
”ہارون بھائی کو پیغام؟” وہ حیران ہوئی۔
”وہ گھر تو فون کرتا ہی ہوگا؟”
”ہاں کرتے ہیں۔”
”تم بات کرتی ہو اس سے؟”
”ہاں کبھی کبھار۔”
”تو بس پھر ٹھیک ہے، اس سے کہو کہ وہ مجھے فون کرے۔”
”ٹھیک ہے۔ میں آپ کا پیغام ان تک پہنچا دوں گی۔” نیلو فر نے اسے یقین دہانی کروائی۔
اگلے چند دن وہ نیلوفر کے جواب کا انتظار کرتی رہی پھر ایک دن نیلوفر نے اسے بتایا کہ اس نے ہارون کو فون پر اس کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ اس کے بعد اگلے کئی دن کالج جانے کے بجائے گھر پر ہی رہی۔ صرف اس کے فون کے انتظار میں۔ اس کا فون نہیں آیا، شائستہ کی مایوسی اور بے چینی اب غصے میں بدلنے لگی۔
اس نے ایک ہفتے کے بعد دوبارہ کالج جا کر نیلوفر سے بات کی۔
”میں نے آپ کا پیغام انہیں دیا تھا۔” نیلو فر نے اسے یقین دلایا۔
”پھر اس نے مجھے ابھی تک فون کیوں نہیں کیا؟”
”ہوسکتا ہے وہ مصروف ہوں یا بھول گئے ہوں۔”
”اس ہفتے کے دوران تم لوگوں کو فون کیا ہے اس نے؟”
”ہاں۔” وہ نیلوفر کے جواب پر کڑھ کر رہ گئی۔
”تم لوگوں کو فون کرنا اسے نہیں بھولا لیکن مجھے فون کرنا وہ بھول گیا ہے۔” اس نے دل میں سوچا۔
”میں فون آنے پر ایک بار پھر آپ کا پیغام انہیں دے دوں گی بلکہ امی سے کہوں گی کہ وہ بھی انہیں تاکید کریں۔” نیلوفر نے اسے ایک بار پھر تسلی دینے کی کوشش کی۔
شائستہ نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اسے ہارون پر بہت زیادہ غصہ آرہا تھا۔ ”کیا اس کو میری تھوڑی سی پروا بھی نہیں ہے؟… میں اس کے لیے خوار اور بے عزت ہوتی پھر رہی ہوں اور یہ شخص…”
اس کا اشتعال بڑھتا جا رہا تھا۔
٭٭٭
”اب کیا ہوگا؟” یہ سوال نہیں تھا۔ صاعقہ کے لیے ایک ایسی کھائی تھی جس میں اس کو ضرور گرنا تھا۔ گھر میں چھائی ہوئی خاموشی اگر کسی آنے والے طوفان کی خبر دے رہی تھی تو اس خاموشی کو کبھی کبھار توڑنے والی اس کی ماں کی سسکیاں اس کے اعصاب اور ہمت دونوں کو ختم کر رہی تھیں۔
چوتھی بیٹی… اگر دو بیٹیاں مر نہ چکی ہوتیں تو وہ چھٹی بیٹی ہوتی اور چھ بیٹیاں پیدا کرنے والی عورت یا بانجھ… معاشرہ دونوں سے ایک ہی سلوک کرتا ہے، دونوں نسل چلانے کے قابل نہیں ہوتیں۔
انسان کو زمین پر اپنی نشانیاں چھوڑ کر جانے کا خبط ہوتا ہے۔ چاہے وہ بلند و بالا عمارتوں کی شکل میں ہو یا پھر نسل کی صورت میں۔ وہ کبھی گمنام رہنا نہیں چاہتا۔ اسے گمنامی سے خوف آتا ہے۔
چھ ارب انسانوں پر مشتمل زمین کے اس کرّے پر اس کے لیے صرف اس کا اپنا ہونا کافی نہیں ہوتا۔ وہ تدبیر کو تعویذ کی صورت اپنے گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔
صاعقہ جانتی تھی اس کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہوتا تھا۔ وہ کسی بادشاہ کی ملکہ ہوتی، تب بھی چھ بیٹیوں کے بعد اس کے ساتھ یہی ہوتا۔ وہ ظفر کی بیوی تھی، ملکہ نہیں تھی پھر بھی اس کے ساتھ یہی ہونے والا تھا۔
ملکہ سے تخت و تاج چھینا جاتا، صاعقہ سے گھر کا راج چھینا جانے والا تھا۔ زندگی میں اہم چیزیں گنوانے یا چھینے جانے کے بعد انسان کے اندر بہت ساری تبدیلیاں آتی ہیں۔ بعض دفعہ تو پورا ضابطہ اخلاق ہی تبدیل ہو جاتا ہے… زیر، زبر اور زبر، پیش لگنے لگتا ہے۔
وہ بھی قیامت کے آنے سے پہلے قیامت سے گزر رہی تھی۔ بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر ظفر دروازے سے ہی واپس چلا گیا تھا۔ دوبارہ اس گھر کے دروازے تک ان قدموں کو واپس لانے کے لیے صاعقہ کو صرف خوش بختی کی ضرورت تھی اور اگر یہ چیز اس کے پاس ہوتی تو وہ چھ بیٹیوں کے بجائے چھ بیٹوں کی ماں ہوتی۔
اس چوتھی بیٹی کا نام مصباح رکھا گیا تھا۔ کس نے رکھا تھا؟ کب رکھا تھا؟ کیوں رکھا تھا؟ یہ سب کسی کو بھی یاد نہیں رہا، یاد صرف یہ رہا تھا کہ وہ… وہ بیٹی تھی جس کی پیدائش پر اس کے باپ نے اس کی ماں کو چھوڑ دیا تھا۔
مرد صرف اپنی ناجائز اولاد ہی کوڑے پر نہیں پھینکتا۔ کئی بار وہ اپنی جائز اولاد بھی کوڑے پر پھینک دیتا ہے۔ دنیا کے کوڑے دان میں خاص طور پر بیٹیاں، دنیا کے کوڑے دان میں باپ کی ”متروکہ” یہ اولاد زندگی میں زہر اور زخم لے کر بڑی ہوتی ہے اور پھر ساری زندگی یہی زہر اور زخم دوسروں کو بانٹتی پھرتی ہے۔
جو معاشرہ کوڑے کے ڈھیر پر ملنے والے کسی ناجائز بچے کے والدین کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے… وہ بیٹیوں کی شکل میں چھوڑی جانے والی اولاد کے باپ کو کبھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے نہ اس پر انگلی اٹھاتا ہے۔ وہ ایسے شخص کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتا ہے اور اسے اپنی زندگی دوبارہ پہلے صفحے سے شروع کرنے کا موقع دیتا ہے۔ بالکل بے داغ اور کورے صفحے سے، جس پر سے اس نے پہلی عورت اور اس کی بیٹیوں کو کھرچ کر صاف کر دیا ہے۔ اب وہ ایک نئی عورت کے ساتھ زندگی دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اس کی ماں کی دعائیں بھی اس کے ساتھ ہی رہتی ہیں، اس کی بہنوں کا مان بھی قائم و دائم رہتا ہے، اس کے باپ کا فخر بھی ختم نہیں ہوتا۔ ختم صرف وہ عورت اور اس کی اولاد ہوتی ہے جسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ… بعض دفعہ اس عورت کی اخلاقیات بھی بدل جاتی ہیں پھر یہ تبدیلی کیا کیا تماشے برپا کرسکتی ہے اور کر دیتی ہے۔ اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔
٭٭٭
شائستہ ایک بار پھر ہارون کے گھر میں موجود تھی، ہارون ابھی وہاں نہیں آیا تھا۔ وہ لاؤنج میں بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
پچھلے چند ماہ میں وہ زیادہ تر ہارون کے ساتھ ہی وہاں آئی تھی۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوا کہ وہ خود اکیلی وہاں چلی آئی۔ ہارون پہلے سے اس کا منتظر ہوتا مگر آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ وہاں آچکی تھی۔ مگر ہارون وہاں نہیں تھا اور اس وقت وہاں بیٹھ کر ہارون کا انتظار کرنا اسے دنیا کا سب سے ذلت آمیز کام لگ رہا تھا۔
وہ تقریباً آدھے گھنٹہ کے بعد آیا، شائستہ نے تقریباً دو ماہ کے بعد اسے دیکھا تھا۔ وہ پہلے کی طرح ہشاش بشاش تھا۔ پہلے کی طرح اب بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ شائستہ کو دیکھ کر یہ مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔ شائستہ کا غصہ دھواں بن کر غائب ہوگیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا وہ ہارون سے ناراض ہوسکتی ہے۔ مگر ناراض رہ نہیں سکتی۔
”ہیلو…”
”مجھے بتائے بغیر تم انگلینڈ کیوں چلے گئے؟” شائستہ کو دیکھتے ہی اس نے ہیلو کہا اور شائستہ نے اس کی ہیلو کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”کچھ ایمرجنسی میں جانا پڑا۔” ہارون نے نرم آواز میں کہا۔
”ہارون! تم مجھے بتاسکتے تھے۔”
”کیسے بتاتا؟”
”فون کرکے۔”
”تمہارے ماں باپ سے گالیاں کھانے کے لیے؟”
”تم نیلوفر کو بتا دیتے۔”
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔” وہ اب اطمینان سے اس کے قریب صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
”یہ آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ تمہیں کتنی بار بتاتا رہوں گا؟”
”تم جانتے ہو، میں تمہاری وجہ سے کتنی پریشان رہی ہوں۔”
”میری وجہ سے! کیوں؟”
”کیونکہ تم بتائے بغیر غائب ہو گئے تھے۔”
”میں کہیں غائب نہیں ہوا، صرف فیکٹری کے سلسلے میں کچھ مشینری خریدنے کے لیے یورپ گیا تھا۔”
”مگر تم مجھے بتا تو سکتے تھے؟”
”شائستہ! اب بار بار اس بات کو دہرا کر بور مت کرو۔ میں نے اگر نہیں بتایا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم ابھی میرے خاندان یا گھر کا حصہ تو نہیں بنی ہو کہ اس طرح بتائے بغیر جانا تمہارے لیے اتنا قابل اعتراض ہو۔”
”ہارون! میں تمہاری بیوی ہوں۔” شائستہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے، مانتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو مگر میرے گھر کا حصہ تو نہیں ہو۔” وہ اب سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”تمہاری زندگی کا حصہ تو ہوں۔”
ہارون اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر ایک طویل سانس لے کر اس نے کہا ”اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔”
شائستہ کو ایک دھچکا لگا۔ ”تمہاری زندگی کا حصہ نہیں ہوں میں؟”
”اس کا انحصار تم پر ہے اور فی الحال تمہارے کسی بھی عمل سے یہ ظاہر نہیں ہوا کہ تم میری زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہو۔”
”اس بات کا کیا مطلب ہوا؟”
”غور کرو۔ تم سمجھ جاؤ گی… تم بے وقوف نہیں ہو۔”
وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔ ”تم جانتے ہو، دو ماہ کے عرصے میں میں نے تم سے بات کرنے کی کتنی کوشش کی ہے۔”
”جانتا ہوں، امی اور نیلوفر نے بتایا تھا مجھے۔”
”اور پھر بھی تم نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟” اسے ایک اور دھچکا لگا۔
”اس لیے کوشش نہیں کی کیونکہ تمہارے اور میرے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے اتنی بے معنی اور بے مقصد گفتگو ہوتی تھی کہ مجھے اس سے الجھن ہونے لگتی تھی۔”
”بے معنی اور بے مقصد؟ تمہیں یہ لگنے لگا ہے کہ میری اور تمہاری گفتگو بے معنی اور بے مقصد ہوگئی ہے؟” اسے تکلیف پہنچی۔