”ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی میں ایک جنگ لڑتاہے اور وہ جنگ ہر ایک کو خود ہی لڑنی پڑتی ہے۔ کوئی دوسرا آپ کے لیے لڑتا ہے نہ آپ کو کسی دوسرے سے یہ توقع ہونی چاہیے۔” اسے ربیعہ مراد کے اگلے جملے یاد آنے لگے۔
”ٹھوکر لگنے پر گرنے کے بعد صرف ایک کام کرنا چاہیے، دوبارہ کھڑے ہو جانا چاہیے۔ ہر بار گرنے پر یہی کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔”
اسے اس وقت ربیعہ کی باتیں فلسفہ لگی تھیں… مگر اب، اب… اس نے نظر ان لوگوں سے ہٹالی۔
”ہاسپٹلز اگر انسانوں کے علاج کے لیے ہوتے ہیں تو یہ انسان ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر سے اٹھائے جانے کی واحد وجہ بھی یہی تھی کہ یہ مجھے انسانوں جیسے لگے تھے۔ دو ہاتھوں، دو پیروں، دو آنکھوں والے… اس لیے میں نے سوچا میں ان کی زندگی بچالوں۔”
نرس نے اس کی بات پر یوں اسے دیکھا جیسے اسے فاطمہ کا ذہنی توازن صحیح ہونے پر شک ہو۔
اگلے ایک گھنٹے میں اس نے کتنے لوگوں کو اپنے اس عمل کی وضاحتیں دی تھیں، اسے ٹھیک سے یاد نہیں تھا۔ اسے بس یہ یاد تھا کہ ان دونوں بچوں کو ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرلیا گیا تھا۔
انکو بیٹرز میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے ان دونوں بچوں کو دیکھ کر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کے لیے کیا دعا کرے۔ وہ مر جائیں… یہ کہے یا… وہ بچ جائیں… یہ چاہے۔
ہاسپٹل تک ان دونوں کو لے آنا چاہیے ایک غیر اختیاری عمل تھا مگر اب وہاں بیٹھ کر ان دونوں کو دیکھنا یا ان کے لیے کوئی دعا کرنا… کون سی دعا ان کے لیے واقعی دعا ثابت ہوگی؟ زندگی کی یا موت کی؟… وہ کشمکش میں گرفتار تھی۔
”اللہ ان کے لیے وہ فیصلہ کر دے جو ان کے لیے بہتر ہو۔” وہ کشمکش سے نکل آئی۔
”ان دونوں بچوں کو افیم کی خاصی بڑی مقدار پلائی گئی ہے۔ اب پتا نہیں یہ افیم انہیں مارنے کے لیے دی گئی… یا پھر صرف بے ہوش کر دینے کے لیے تاکہ ان کی موجودگی اور پھینکے جانے کے بارے میں کسی کو پتا نہ چلے۔ اب یہ تو ان چوہوں کے کترنے کی وجہ سے یہ بچہ رونے لگا۔ ورنہ اتنی مقدار نیند کے عالم میں ہی اس کی موت کا باعث بن جاتی۔ دونوں کو سردی میں اس طرح پڑے رہنے کی وجہ سے نمونیہ ہوگیا ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ وہ دونوں بچ جائیں مگر اس کا امکان نہیں ہے۔ لڑکے کا تو خون بھی کافی بہہ گیا ہے اور زخم خاصا گہرا ہے۔”
ڈاکٹر نے کئی گھنٹوں کے بعد اسے ان دونوں بچوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ دی تھی۔ فاطمہ چپ چاپ سنتی رہی، وہ جواباً کیا کہہ سکتی تھی۔
اس کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں میں سے کچھ واپس جاچکے تھے، باقی وہیں تھے۔ وہ ہاسپٹل کے وارڈ میں پڑے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھی اپنے ساتھ موجود عورتوں کی بغیر کسی وقفے کے ہونے والی گفتگو سنتی رہی۔ امکانات اور خدشات، قیافہ شناسی اور قیاس آرائی، شک اور شبہ ان کی گفتگو میں ان سب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔
ڈرامے کا ایک ایکٹ ابھی باقی رہ گیا تھا۔ سب کو اس کے شروع ہونے کا انتظار تھا۔
٭٭٭
ہارون نے پچھلے کئی دنوں سے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ وہ نہ اس سے ہونے والی آخری گفتگو کے بعد کالج آیا تھا، نہ تحریری طور پر اس نے شائستہ کو کوئی پیغام بھیجا تھا۔
اس کی طرف سے اس طرح چھا جانے والی خاموشی اس کے لیے پریشان کن تھی۔
کئی دن اس کا انتظار کرتے رہنے کے بعد، اس نے ایک دن کالج میں نیلوفر سے ہارون کے بارے میں پوچھا۔
”ہارون بھائی انگلینڈ گئے ہوئے ہیں۔” اس نے شائستہ کو اطلاع دی۔
اسے یقین نہیں آیا۔ ”انگلینڈ؟”
”ہاں، انہوں نے آپ کو نہیں بتایا؟”
”نہیں۔” شائستہ کو اس کی اطلاع پر شاک لگا۔
”اچھا، حیرت ہے۔” نیلو فر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
شائستہ کی پریشانی میں یک دم اضافہ ہوگیا۔ ”وہ واپس کب آئے گا؟”
”اس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی۔” نیلوفر نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔
”مگر آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟ وہ جلد ہی واپس آجائیں گے۔ فیکٹری کے کچھ کام کے سلسلے میں ہی باہر گئے ہیں۔” نیلوفر نے جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔ شائستہ کی پریشانی میں کمی نہیں آئی۔
”تم مجھے یہ معلوم کرکے بتا دو کہ وہ کب تک واپس آئے گا۔” شائستہ نے اس سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے، میں پاپا سے بات کرتی ہوں۔ کل آپ کو اس بارے میں بتا دوں گی۔” نیلو نے اس سے کہا۔
دوسرے دن وہ دوبارہ نیلوفر سے ملی۔
”پاپا کہہ رہے ہیں، انہیں خود بھی صحیح پتا نہیں ہے کہ وہ کتنے دن تک انگلینڈ میں رہیں گے۔ ویسے وہ کہہ رہے تھے کہ ابھی ان کا قیام خاصا لمبا ہوگا۔” نیلو نے اسے اطلاع دی۔
شائستہ کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی ”لمبا قیام؟ کتنا لمبا؟ کچھ تو اندازہ ہوگا۔”
نیلوفر نے نفی میں سر ہلایا۔ ”نہیں، کوئی اندازہ نہیں ہے۔ مگر میرا خیال ہے، چند ہفتے تو لگ ہی جائیں گے انہیں واپس آنے میں۔ کیا آپ کو ان سے کوئی ضروری بات کرنی تھی؟” اس نے شائستہ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
شائستہ مکمل طور پر الجھی ہوئی نظر آرہی تھی۔
”ہاں کرنی تھیں۔” وہ زیر لب بڑبڑائی۔
نیلوفر اس کی بات سن نہیں سکی۔
٭٭٭
اگلے کئی دن اس کی نیند مکمل طور پر غائب رہی، نہ صرف نیند بلکہ بھوک پیاس بھی اور اس کے چہرے پر اس کی اس ابتر ذہنی کیفیت کے اثرات بہت جلد جھلکنے لگے تھے۔
گھر میں اس کے اس مطالبے اور اس کے مانے جانے کے بعد پہلے ہی سب سے اس کے تعلقات کشیدہ تھے، وہ سب سے بالکل کٹ کر رہ گئی تھی۔
صرف امی تھیں جنہوں نے دو تین مرتبہ اس سے ہارون کے گھر والوں کو بلانے کے لیے کہا تھا۔ وہ ہر بار ٹال مٹول کرتی رہی۔ پھر اس نے امی کو بتا دیا کہ ہارون ابھی انگلینڈ میں ہے اور اس لیے اس کے گھر والے نہیں آسکتے۔
”کیوں نہیں آسکتے؟ انہیں یہاں آکر تمہارے بارے میں بات تو کرنی چاہیے۔” امی نے اعتراض کیا۔
”اب میں اس سلسلے میں کیا کرسکتی ہوں؟ وہ یہاں ہوتا تو اس سے کہہ سکتی تھی۔ وہ نہیں ہے تو میں کیا کروں۔ آپ کو زیادہ جلدی ہے تو آپ خود تایا ابو سے بات کرلیں۔” وہ چڑ کر بولی۔
”میں بات کروں؟ میں کیوں بات کروں۔ انہیں ہم سے رشتہ جوڑنے میں دلچسپی ہے، ہمیں ان کے ساتھ رشتہ جوڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پہلے تو چار دن سانس نہیں لیتے تھے اور منہ اٹھا کر آجاتے تھے۔ اب کہاں سو گئے ہیں۔” امی کو اور بھی غصہ آیا۔
شائستہ کی طے کردہ نسبت چند دن پہلے ہی ختم کر دی گئی تھی اور وہ جانتی تھی کہ کچھ دن اور گزرنے پر پورے خاندان کو اس کا پتا چل جائے گا اور اس کے ساتھ ہی چہ میگوئیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔ وہ اس وقت کے آنے سے پہلے ہی شائستہ کو ہارون کے ساتھ رخصت کر دینا چاہتی تھیں اور ایسا چاہنے میں وہ اکیلی نہیں تھیں۔ شائستہ کے والد بھی اب ایسا ہی چاہتے تھے۔ مگر اب ہارون کے گھر والوں کی طرف سے مکمل خاموشی تھی اور یہ خاموشی انہیں مشتعل کر رہی تھی۔
”امی! مجھ سے فی الحال اس بارے میں بات نہ کریں، مجھے اپنا کام کرنے دیں۔”
اس نے بات کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے اپنے سامنے کھلی ہوئی کتاب کو اٹھالیا۔
”پہلے تو تم نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ اب کیا ہوا ہے؟”
”کچھ نہیں ہوا، میں آپ سے کہہ تو رہی ہوں کہ ہارون پاکستان میں نہیں ہے۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو خود معلوم کرلیں۔ وہ واپس آجائے گا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اس کے آنے تک میں کیا کرسکتی ہوں۔” وہ بری طرح چڑ رہی تھی۔
اس نے جانے سے پہلے اپنے ماں باپ سے بات کیوں نہیں کی؟ تم سے شادی کرکے باہر کیوں نہیں گیا؟”
”جب وہ آئے گا تو آپ خود اس سے یہ سب کچھ پوچھ لیجئے گا مگر مجھ سے ابھی اس بارے میں بات نہ کریں۔”
”تمہاری وجہ سے ہم جس مصیبت میں گرفتار ہیں، اس کا اندازہ ہے تمہیں، ہم تم سے بات نہ کریں تو اور کس سے بات کریں۔ منگنی تمہاری ضد پر توڑی گئی۔ ابھی کسی کو اس کے بارے میں پتا نہیں ہے مگر کب تک چھپی رہے گی یہ بات اور دو چار دن کے بعد رشتہ داروں کی قطاریں لگ جائیں گی یہاں، پھر کس کس کو وضاحتیں پیش کریں گے ہم؟ کس کس کو تمہاری ضد کے بارے میں بتاتے رہیں گے؟ تمہارے ابو چاہتے ہیں اس سے پہلے ہی سادگی سے تمہاری شادی ہارون سے کر دیں مگر اب وہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہے اور تم صم بکم بنی بیٹھی ہو۔ اپنے آپ کو ہماری جگہ رکھ کر سوچو پھر تمہیں اندازہ ہوگا ہماری تکلیف کا۔”
وہ چپ چاپ امی کی باتیں سنتی رہی۔ اس کے پاس ان کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ امی کے پاس پریشان ہونے کے لیے اپنی وجوہات تھیں تو اس کے پاس اپنی۔ امی بہت دیر بولتے رہنے کے بعد خاموش ہو کر کمرے سے نکل گئیں اور ان کے جاتے ہی اس نے غصے کے عالم میں ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب دور اچھال دی۔ پھر وہ بے تابی اور بے چینی کے عالم میں کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔
”ہارون… ہارون! آخر اس نے باہر جانے سے پہلے مجھ سے بات کرنا ضروری کیوں نہیں سمجھا؟” اس کا ذہن الجھا ہوا تھا۔
٭٭٭