”اب یہ رشتوں کی بات اس سے یا منیزہ سے مت کرنا، وہ تو ہتھے سے بالکل اکھڑ ہی گیا تھا جب میں نے رشتوں کا حوالہ دیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ رشتوں کے درمیان کاروبار کو مت لائیں اور اگر لانا ہی چاہتے ہیں تو پھر بہتر ہے یہ رشتے ختم کر دیں۔” شبانہ حیران رہ گئی۔
”اس نے اس طرح بات کی آپ سے؟”
”ہاں۔”
”اگر کاروبار کو رشتوں سے الگ ہی رکھنا ہوتا تو پھر منصور کی بیٹیاں لینے کی کیا ضرورت تھی ہمیں۔ خاندان میں اور لڑکیاں کم تھیں، کم از کم منصور سے زیادہ بامروت اور لحاظ والے لوگوں کے ہاں رشتہ ہوتا۔” شبانہ کا اشتعال اور بڑھ گیا۔
”اب یہ سب چھوڑو، آفس میں بھی سارا دن ٹینس رہا ہوں، اب تم یہاں بھی وہی سب کچھ دوبارہ کھول کر بیٹھ گئی ہو۔ میں تو خود خاصا مایوس ہوا ہوں مگر کیا کر سکتا ہوں۔ اس نے تو طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔” مسعود نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے ٹائی کی ناٹ کھولی۔
”تو ٹھیک ہے پھر آپ بھی دفع کریں فیکٹری کو۔ ہم کہیں اور رشتے کر لیتے ہیں طلحہ اور اسامہ کے۔” مسعود یک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔
”تم ایک انتہائی بے صبر اور بے وقوف عورت ہو، جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں نکاح کیے اور انہیں ختم کرنے پر پورے خاندان کے جوتے کون کھائے گا تم یا میں… اور تمہارا کیا خیال ہے، خاندان میں سے دوبارہ کوئی دے گا ہمارے بیٹوں کے لیے رشتے… جہاں تک فیکٹری کا تعلق ہے تو تیس بھی بہت ہے، ابھی تو ابتدا ہے۔ روشان تو بہت چھوٹا ہے۔ جب طلحہ اور اسامہ فیکٹری کو جوائن کرلیں گے تو پھر ہم مجبور کریں گے منصور کو شیئرز بڑھانے پر۔ تب وہ اس طرح انکار نہیں کرسکے گا جس طرح اس نے اب کیا ہے۔” مسعود علی نے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
شبانہ کو اطمینان ہوا یا نہ ہوا مگر وہ خاموش ضرور ہو گئی تھی۔ منصور علی کے خلاف اس کے دل میں پڑنے والی یہ پہلی گرہ تھی اور اس رنجش کو دل میں جگہ دینے والی وہ اکیلی نہیں تھی۔ مسعود علی بھی منصور کے خلاف کچھ ایسے ہی جذبات کا شکار ہو رہا تھا۔
٭٭٭
فاطمہ شہیر کو سلانے کے بعد خود سونے کی تیاری کر رہی تھی، جب اسے باہر گلی میں عجیب سے شور کی آواز سنائی دی۔ اس نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔ رات کے بارہ بجنے والے تھے۔ اس وقت عام طور پر گلی میں مکمل خاموشی چھا جاتی تھی، بہت کم ہی کسی کے گزرنے کی آواز سنائی دیتی مگر آج رات کو اس وقت بھی گلی میں موجود گھروں کے دروازوں کے کھلنے اور عورتوں اور مردوں کے بلند آواز میں بولنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
پھر کچھ دیر بعد اس نے اپنے مالک مکان اور اس کی بیوی کی آوازیں سنیں۔ وہ بھی دروازہ کھول کر گلی میں نکل گئے تھے۔ فاطمہ کو تجسس ہوا۔ وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔ گلی کے کونے پر موجود کوڑے کے ایک بہت بڑے ڈرم کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگ ڈرم کے گرد جیسے گھیرا ڈالے کھڑے تھے مگر کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ کچھ عورتیں افسوس کرتی ہوئی واپس آرہی تھیں، ان میں مالک مکان کی بیوی بھی تھی۔
”کیا ہوا؟” فاطمہ نے اس سے پوچھا۔
”بس قربِ قیامت کی علامت ہے اور کیا ہے…” ایک عورت نے مالک مکان کی بیوی کے بولنے سے پہلے ہی کہا۔
”وہاں کوڑے کے ڈرم میں کینوس کے ایک تھیلے کے اندر دو نوزائیدہ بچے کوئی پھینک گیا ہے۔ ایک بچہ تو مر چکا ہے جبکہ دوسرے بچے کو چوہوں نے کتر دیا ہے مگر وہ ابھی رو رہا ہے چند سانس باقی ہیں اس کے۔” وہ دم بخود سب کچھ سنتی رہی۔
”تو اس کو ہاسپٹل لے جائیں۔” فاطمہ نے بے اختیار کہا۔
”پولیس کو فون کیا ہے… پولیس کے آنے سے پہلے کوئی پاس جانا نہیں چاہتا۔ مگر انہوں نے چوہوں کو ہٹا دیا ہے۔ ویسے بھی ایسے بچوں کو بچا کر کیا کرنا ہوتا ہے۔ جنہیں پیدا کرنے والے پھینک جاتے ہیں۔ انہیں دنیا کیسے اٹھائے۔ اچھا ہے وہ بھی مر جائے۔ ذلت اور خواری کی زندگی سے بہتر ہے۔” ایک عورت نے کچھ افسردہ سے انداز میں کہا۔
فاطمہ وہاں نہیں رکی۔ وہ تیز قدموں سے کوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھ گئی۔ لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے وہ آگے بڑھ آئی۔ باقی لوگوں کی طرح ڈرم میں صرف جھانکنے کے بجائے اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ تھیلا نکال لیا۔ جس میں ہلکی ہلکی حرکت کے ساتھ کچھ رونے کی نحیف سی آواز آرہی تھی۔
”ارے… ارے یہ کیا کر رہی ہو بی بی! ہاتھ مت لگاؤ۔ پولیس کو آنے دو۔” اس کے پیچھے کھڑے محلے کے ایک آدمی نے کہا۔
”اور پولیس کے آنے تک یہ مر گیا تو…؟”
”اچھا ہے مر جائے۔ اس طرح کی غلاظت…” ایک بزرگ بڑبڑائے۔
وہ ان کی بات پر توجہ دیئے بغیر گلی میں لگے ہوئے بلب کے نیچے اس تھیلے کو لے آئی۔ تمام لوگ اب اس کے گرد جمگھٹا بنانے لگے۔ فاطمہ نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ تھیلے کے اندر سے وہ نحیف سا وجود نکالا اور وہ جیسے دھک سے رہ گئی۔ اس بچے کا ایک پورا کندھا خون سے بری طرح لت پت تھا اور وہاں سے گوشت بھی نظر آرہا تھا۔ بچے کے جسم پر کوئی کپڑے نہیں تھے، صرف ایک کپڑے کے ٹکڑے سے اسے لپیٹا گیا تھا۔ فاطمہ کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔
زمین پر آلتی پالتی مارتے ہوئے اس نے اس بچے کو گود میں ڈال لیا اور ہاتھ تھیلے کے اندر ڈال کر دوسرے بچے کو بھی باہر نکالا۔ اس بچے کو بھی اسی طرح کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپیٹا گیا تھا۔ وہ چوہوں کی دسترس سے مکمل طور پر محفوظ تھا۔ اس کا جسم سرد اور نیلا تھا۔ دیکھنے میں یونہی لگ رہا تھا جیسے وہ مر چکا تھا۔ فاطمہ نے اس کے دل کی دھڑکن تلاش کرنے کی کوشش کی اور دل کی دھڑکن تلاش کرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ بچہ بھی مردہ نہیں تھا، اس کا سانس بہت نامحسوس انداز میں چل رہا تھا۔ چند لمحوں کی جدوجہد کے بعد وہ اس کے دل کی دھڑکن کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
تھیلا پھینکتے ہوئے وہ ان دونوں بچوں کو بازوؤں میں پکڑتے ہوئے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”فاطمہ! کیا کر رہی ہو؟” مالک مکان کی بیوی نے اس سے پوچھا۔
”میں ان دونوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہی ہوں۔ یہ دونوں ابھی زندہ ہیں۔” اس نے قدم اپنے گھر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”بی بی! تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ابھی پولیس آنے والی ہے… کہاں لے کر جاؤ گی اس وقت ان بچوں کو… دفع کرو انہیں۔” ایک بوڑھے آدمی نے بلند آواز میں اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”کیوں دفع کروں… جو کوڑے پر پھینک کر گیا ہے، اس میں اور مجھ میں کیا فرق رہ جائے گا، وہ بھی مرنے کے لیے پھینک گیا ہے۔ میں بھی مرنے دوں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے، حرام کے بچے سہی مگر انسان تو ہیں۔ آپ کے اور میرے جیسے انسان…” وہ بولتے ہوئے اپنے گھر کی طرف بڑھتی گئی۔ کچھ عورتیں اس کے پیچھے آگئیں۔
فاطمہ نے الماری سے اپنا بیگ نکالا اور ایک موٹی سی شال میں ان دونوں کو لپیٹ لیا۔
”میں بھی چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔” مالک مکان کی بیوی نے اس سے کہا۔ مالک مکان کی بیوی نے اس کا بیگ پکڑ لیا۔
باہر گلی میں اب بھی لوگ کھڑے تھے مگر وہ اب خاموش تھے۔ اسے باہر نکلتے دیکھ کر ایک آدمی اور دو عورتیں اس کی طرف بڑھ آئیں۔
”ہم بھی چلتے ہیں۔” فاطمہ نے احسان مندی سے انہیں دیکھا۔
فاطمہ نے زندگی میں اپنے وجود سے زیادہ کسی دوسری شے کو بے مصرف نہیں سمجھا تھا۔ مگر اس رات ان بچوں میں سے ایک کو گود میں لیے، گیلی آنکھوں کے ساتھ اس کے جسم پر چپکی ہوئی چیونٹیوں کو اتارتے ہوئے اس کے ذہن میں پہلی بار اپنے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہی سوال ابھر رہا تھا۔
آخر ان بچوں کی زندگی کا کیا مصرف تھا؟ کوڑے کے ایک ڈھیر پر، گندگی میں پڑے ہوئے یہ بچے کیسی زندگی لے کر آئے ہیں؟ چوہوں اور چیونٹیوں کا نشانہ بننے کے لیے؟
یہ زندگی آخر کیا چیز ہے؟ اتنی تکلیف دہ کیوں بن جاتی ہے یا بنا دی جاتی ہے؟ اور بنانے والا کیا اللہ ہوتا ہے؟… کیا واقعی تکلیف اللہ ہی دیتا ہے؟ یا پھر وہ ہمیں زندگی کو تکلیف دہ بنانے یا نہ بنانے کے بارے میں اختیار دیتا ہے؟
ہاسپٹل جانے تک وہ سارا راستہ ان ہی سوچوں میں الجھتی رہی تھی۔
ہاسپٹل میں ایک لمبی دوڑ دھوپ کے بعد ان بچوں کو داخل کرلیا گیا تھا۔ دونوں بچوں کی حالت نازک تھی۔ ان جڑواں بچوں میں سے ایک لڑکا اور دوسری لڑکی تھی۔
جس بچے کے کندھے کو چوہوں نے اکثر کتر ڈالا تھا۔ وہ لڑکا تھا۔ جبکہ مردہ سمجھا جانے والا دوسرا بچہ ایک لڑکی تھی۔
ہاسپٹل کی انتظامیہ نے ان بچوں کو داخل کرنے سے پہلے فاطمہ اور اس کے ساتھ آنے والے لوگوں سے لمبی چوڑی بحث کی تھی۔ وہ دونوں کون تھے؟ کس کی اولاد تھے؟ کوڑے پر کیوں پھینک دیئے گئے تھے؟ ان سوالوں پر اتنا زور نہیں دیا گیا تھا جتنا اس سوال پر۔
فاطمہ انہیں وہاں کیوں لائی تھی؟
پہلی بار ایمرجنسی یونٹ میں موجود نرس کے بیزاری سے پوچھے جانے والے اس سوال پر فاطمہ نے حیرت سے اس کا چہرہ دیکھا۔
”کیوں؟… ان کی زندگی بچانے کے لیے۔”
نرس کچھ دیر اسے گھورتی رہی پھر اس کی بیزاری میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔
”چلو جی، اب اس طرح کے بچوں کی بھی زندگی بچائی جائے گی پھر تو ہم بس ہاسپٹلز میں یہی کام کریں گے۔ کوڑے کے ڈھیر سے ایسے بچوں کو اٹھاتے اور ہاسپٹلز کے وارڈز ان سے بھرتے رہیں گے۔”
اس نرس کی آواز میں تمسخر، آنکھوں میں تحقیر اور چہرے پر بیزاری تھی۔ فاطمہ نے اپنے ساتھ آنے والے لوگوں کو دیکھا اور وہاں کھڑے ان کے چہروں پر نظر ڈالتے ہی اسے احساس ہوگیا کہ اس کے ساتھ آنے والا ہر شخص دردِ دل رکھنے والا ہے نہ خوف خدا۔ بعض صرف گلی کے کوڑے کے ڈھیر پر شروع ہونے الے اس ڈرامے کا اگلا ایکٹ دیکھنے آئے تھے یا پھر تماشے کا بقیہ حصہ۔
”زندگی میں ہمارے ساتھ چلنے والا ہر شخص اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم ٹھوکر کھا کر گریں اور وہ ہمیں سنبھال لے ہاتھ تھام کر، گرنے سے پہلے یا بازو کھینچ کر گرنے کے بعد۔ بعض لوگ زندگی کے اس سفر میں ہمارے ساتھ صرف یہ دیکھنے کے لیے ہوتے ہیں کہ ہم کب کہاں اور کیسے گرتے ہیں۔ لگنے والی ٹھوکر ہمارے گھٹنوں کو زخمی کرتی ہے یا ہاتھوں کو خاک ہمارے چہرے کو گندا کرتی ہے یا کپڑوں کو۔”
چند ہفتے پہلے ربیعہ مراد کے منہ سے سنے جانے والے جملے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ اس نے ربیعہ مراد کی صورت میں پہلی قسم کے لوگوں کو دیکھ لیا تھا، وہ آج دوسری قسم کے لوگوں سے مل رہی تھی۔
اس نے ان لوگوں کے چہروں پر نظر دوڑائی۔ وہاں صرف ایک ہی سوال تحریر تھا۔ ”کیوں؟”
چند لمحوں کے لیے اسے خوش فہمی ہوئی کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور بولے گا۔ وہ سب خاموش تھے۔