تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”اللہ رسول ۖ کا حکم ہے کہ بیٹیاں پیدا کرنے والی عورت کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ منحوس ہوتی ہے۔ اس لیے تو چار شادیوں کا حکم دیا گیا ہے۔” حفیظہ بانو نے اسلام کے بارے میں اپنی ”مفصل” معلومات کا استعمال کیا۔
وہ اکثر ایسا ہی کیا کرتی تھیں اگرچہ وہ خود ان پڑھ تھیں اور انہوں نے قرآن پاک ترجمے سے نہیں پڑھا تھا۔ وہ نماز کی بھی کوئی ایسی شوقین اور پابند نہ تھیں مگر انہیں ہر اہم معاملے میں خدا اور رسول ۖ ضرور یاد آجاتے تھے پھر وہ اپنی مرضی کے سنے سنائے قرآنی احکامات کو اپنی مرضی کا مفہوم پہنا کر دوسروں کے منہ بند کر دیتیں۔
ایسا کرنے میں وہ اکیلی نہیں تھیں۔ ہم سب یہی کرتے ہیں، اپنی جیبیوں میں اپنی مرضی کا اسلام لیے پھرتے ہیں۔
اپنی مرضی کی احادیث اور آیات رٹے ہوتے ہیں۔ مرد کا اسلام چار شادیوں، اپنی برتری اور عورتوں کے پردہ سے آگے نہیں بڑھتا۔ عورت کا اسلام حق مہر اور مردوں پر عائد ذمہ داریوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ حفیظہ اور ظفر بھی اپنی جیبوں میں ایسا ہی اسلام لیے پھر رہے تھے۔
اور اب چوتھی بیٹی… صاعقہ اور اس کے گھر والوں کی ہر دعا کے باوجود ایک قیامت کی طرح نازل ہوگئی تھی بس فرق یہ تھا کہ یہ قیامت انسان کی خود ساختہ قیامت تھی اور بعض دفعہ ایسی قیامتیں کھڑی کرنے والے لوگوں کے پورے وجود کو اللہ حشر کا میدان بنا دیتا ہے جس پر چٹیل میدان اور کھردری خشک زمین ہوتی ہے۔
٭٭٭




فون رکھتے ہی شائستہ نے اپنی امی کو روتے دیکھا۔ وہ ایک نظر بھی شائستہ کی طرف دیکھے بغیر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ہارون کی امی کے لفظ انہیں نیزے کی انی کی طرح چبھ رہے تھے۔ سارا الزام ان کی تربیت کو دیا گیا تھا، ان کا جی چاہا وہ اس وقت شائستہ کا گلا دبا دیں۔
شائستہ کچھ دیر وہیں خائف سی کھڑی رہی مگر پھر تشویش اور بے بسی کے عالم میں وہ امی کے کمرے میں گئی۔ وہ اسے دیکھتے ہی بھڑک اٹھیں۔
”تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔” میں تمہاری شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی۔”
”امی! مگر ہوا کیا ہے؟” وہ ان کے پاس بیٹھ گئی۔
”ہوا کیا ہے؟ تم پوچھ رہی ہو، ہوا کیا ہے، ساری عمر جو عورت میرے سامنے نظریں اونچی کرکے بات نہیں کر سکی۔ آج وہ مجھے اولاد کی تربیت کے طعنے دے رہی تھی۔ بیٹیوں کے اچھے کردار کی بات کر رہی تھی اور یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔” وہ غراتے ہوئے بولیں۔
”میں نے آپ کو منع کیا تھا فون کرنے سے۔ مگر آپ نے پھر بھی فون کیا اور آپ نے بھی تو کوئی کسر نہیں رکھی۔ انہیں بہت برا بھلا کہا” امی صدمے کے عالم میں اسے دیکھتی رہیں۔
”تمہیں ماں کی بے عزتی کا کوئی افسوس نہیں ہے، تمہیں ان لوگوں کو برا بھلا کہنے کا دکھ ہے۔”
”امی! آپ جس طرح کی باتیں کہہ رہی تھیں۔ انہوں نے آگے سے کچھ تو کہنا ہی تھا۔”
”ہارون کی ماں نے کہا ہے کہ جو لڑکی میرے بیٹے سے ملنے کالج سے چلی جاتی ہے، وہ پتا نہیں اور کتنوں کے ساتھ جاتی ہوگی۔” شائستہ بالکل چپ سی ہوگئی۔
”اب اگر تم میں اپنی عزت کا ذرا بھی پاس ہو تو تم دوبارہ اس لڑکے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو۔” امی نے اسے شرم دلانے کی کوشش کی۔
”ٹھیک ہے، میں اس سے نہیں ملوں گی۔ مگر شادی مجھے پھر بھی اسی کے ساتھ کرنی ہے۔” وہ ان کے لفظوں سے متاثر ہوئے غیر بولی۔ امی بے اختیار اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
”میرے ہاں اس طرح کی اولاد کیوں پیدا ہوگئی؟” وہ بڑبڑائیں۔ شائستہ کو ان کی بات بری لگی۔
”ٹھیک ہے اگر میں آپ کو اتنی ہی بری لگتی ہوں تو آپ مجھے ہارون سے بیاہ دیں پھر چاہے ساری عمر میری شکل نہ دیکھیں۔” وہ تیز لہجے میں کہہ کر امی کے کمرے میں نکل آئی۔
٭٭٭
اگلے دن وہ صبح کالج جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب امی اس کے کمرے میں آئیں۔ ”کہاں جا رہی ہو؟” وہ بال بناتے ہوئے ان کے سوال پر حیران ہوئی۔
”کالج… آپ تو جانتی ہیں۔”
”کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں کہیں بھی جانے کی۔ ہمارا جتنا نام روشن کر چکی ہو، وہ کافی ہے۔ اب گھر پر بیٹھو۔” امی نے خاصے ترش لہجے میں کہا۔
”میں نے آپ سے کہا ہے، میں ہارون سے نہیں ملوں گی۔ کیا یہ کافی نہیں ہے۔” شائستہ نے اپنا غصہ دباتے ہوئے کہا۔
”تم جتنی دھول جھونک چکی ہو اس کے بعد تم پر اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ تمہیں تعلیم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آرام سے گھر پر بیٹھو۔ میں بہت جلد تمہاری شادی کی تاریخ طے کرنے والی ہوں۔”
”امی! اگر آپ نے مجھے کالج جانے سے روکا یا مجھ پر کوئی پابندی لگائی تو میں گھر سے بھاگ جاؤں گی پھر آپ پچھتائیں گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ مجھے کالج جانے سے نہ روکیں۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو میں ہارون کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کروں گی۔ آپ زبردستی کریں گے تو میں نکاح کے وقت انکار کر دوں گی پھر آپ کیا کرلیں گی۔ بہتر ہے کہ میں جو کہہ رہی ہوں، اس پر غور کریں۔ بابا کو بتا دیں۔ اگر آپ نہیں بتا سکتیں تو ٹھیک ہے، میں خود بتا دوں گی۔”
وہ پہلی بار ان کے سامنے کھلے عام بغاوت کر رہی تھی، شاید وہ خود بھی اس آنکھ مچولی سے تنگ آچکی تھیں اس کی امی کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔ وہ فق چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہیں، شاید انہیں خواب میں بھی اس سے یہ سب کچھ سننے کی توقع نہیں تھی۔ شائستہ ان کے جواب کا انتظار کیے بغیر بیگ اٹھا کر باہر نکل آئی۔
٭٭٭
”آپ کی امی نے میری امی کی بہت بے عزتی کی ہے۔” وہ کالج جانے کے بجائے ایک بار پھر ہارون کے گھر موجود تھی۔
اس کے وہاں آنے کے تھوڑی دیر بعد ہارون بھی طے شدہ پروگرام کے مطابق وہاں آگیا۔ شائستہ کو پہلی بار اس نے ناراض دیکھا تھا اور وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ پرسکون انداز میں اس کی باتیں سنتا رہا۔
”میری ممی نے تمہاری امی کی کوئی بے عزتی نہیں کی۔ انہوں نے جو بات کی تھی میرے سامنے کی تھی اور مجھے اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں لگا۔” ہارون نے بڑی بے نیازی سے کہا۔ شائستہ کو ایک جھٹکا لگا۔
”کچھ بھی قابل اعتراض نہیں لگا؟ آپ کی امی نے میرے بارے میں فضول اور بے ہودہ باتیں کیں، آپ کو وہ بھی بری نہیں لگیں؟”
”کون سی فضول اور بے ہودہ باتیں؟”
”انہوں نے یہ کہا کہ میں آپ سے ملتی ہوں تو پتا نہیں اور کتنے لوگوں سے ملتی ہوں گی۔” ہارون مسکرایا۔
”ان کا یہ مطلب نہیں تھا۔”
شائستہ کو بے اختیار غصہ آیا۔ ”مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ان کا واقعی ایسا مطلب تھا یا نہیں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ انہوں نے میرے بارے میں ایسی بے ہودہ بات کیوں کی اور آپ نے انہیں روکا کیوں نہیں؟”
”تمہاری امی نے بھی میرے بارے میں بہت سی بے ہودہ باتیں کی تھیں۔ تم نے انہیں کیوں نہیں روکا؟” شائستہ ٹھنڈی پڑ گئی۔
”میری ممی کی باتیں جتنی بری تمہیں لگی ہیں اتنی ہی بری تمہاری امی کی باتیں مجھے لگی تھیں۔ حساب برابر ہوا۔ اس لیے یہ سب کچھ بھول جاؤ۔” ہارون نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ شائستہ نے ایک لمبا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے، میں سب کچھ بھول جاتی ہوں مگر آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ اپنے گھر والوں کو میرے گھر کب لائیں گے؟”
”میں کئی بار لاچکا ہوں۔”
”میں اب کی بات کر رہی ہوں۔”
”اب میں انہیں نہیں بھیجوں گا۔”
”کیوں؟” وہ تقریباً چلائی۔
”کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تمہارے گھر والے میرے رشتے کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔”
”میں نے اپنی امی سے صاف کہہ دیا ہے کہ میں آپ کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی اور میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ میری بات بابا تک پہنچا دیں۔” شائستہ نے اسے بتایا۔
”ویری گڈ… کیا کہا انہوں نے؟”
”فی الحال تو کچھ نہیں کہا۔ مگر ایک دو دن تک کچھ نہ کچھ کہہ دیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ مان ہی جائیں۔ آپ اپنے پیرنٹس کو ایک بار پھر ہمارے ہاں بھیجیں۔”
”یہ میں نہیں کروں گا۔ پہلے تم اپنے ماں باپ سے صاف صاف بات کرو، اس کے بعد اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔”
”مگر…” ہارون نے اس کی بات کاٹ دی۔” اس اگر مگر کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں اپنے ماں باپ کو نہیں بھیجوں گا۔ پہلے تمہارے ماں باپ اس جگہ تمہاری منگنی ختم کریں اس کے بعد آگے کچھ بھی طے کیا جائے۔” ہارون نے حتمی لہجے میں کہا۔ وہ اسے بے بسی سے دیکھ کر رہ گئی۔
٭٭٭
”تمہارے بابا بلا رہے ہیں تمہیں۔” اس رات امی نے اس کے کمرے میں آکر اس سے کہا۔ چند لمحوں کے لیے شائستہ کا حلق خشک ہو گیا۔
”میں آتی ہوں۔” اس نے اپنے اندر کے خوف کو چھپاتے ہوئے بظاہر نارمل انداز میں ماں سے کہا۔ امی چلی گئیں۔
جس وقت شائستہ اپنے باپ کے کمرے میں داخل ہوئی، اس وقت وہ بے چینی سے کمرے کے چکر کاٹنے میں مصروف تھے۔ شائستہ کی امی ایک کونے میں پڑے ہوئے صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ شائستہ کو دیکھ کر اکبر کے پاؤں تھم گئے۔
”بیٹھو۔” انہوں نے خاصے درشت لہجے میں کہا اور خود بیڈ پر بیٹھ گئے۔ شائستہ دھڑکتے دل کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”تم نے اپنی امی سے کیا کہا ہے؟” انہوں نے کسی تمہید کے بغیر موضوع پر آتے ہوئے کہا۔
”امی نے آپ کو بتا دیا ہوگا۔”
”ہاں، انہوں نے مجھے بتا دیا ہے مگر میں تم سے سننا چاہتا ہوں۔” وہ کچھ دیر خاموشی سے لفظوں کا انتخاب کرتی رہی۔
”بابا! میں وہاں شادی کرنا نہیں چاہتی جہاں آپ نے میری نسبت طے کی ہے۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!