تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”پھر بیٹی…”اس کی شادی شدہ بہن نے اس کے گھر آتے ہی کہا تھا اور ساتھ ہی دوپٹہ پکڑ کر رونا شروع کر دیا۔ ظفر کے کندھے کچھ اور جھک گئے۔
”ہائے ظفر بھائی بے چارے کیا کریں گے۔ بھابھی نے بھی بیٹیوں کی قطار لگا دی ہے۔”
اس نے اپنی منجھلی بہن کو کچن میں بولتے سنا۔ صاعقہ سے اس کی نفرت کچھ اور بڑھ گئی۔
اس کی اور صاعقہ کی شادی کو پندرہ سال ہوئے تھے اور ان پندرہ سالوں میں صاعقہ کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں سے دو پیدائش کے فوراً بعد مرگئیں۔ چار بیٹیوں کی پیدائش پر اتنی خوشی نہیں منائی گئی تھی جتنی ان دو بیٹیوں کی وفات پر… صاعقہ کے میکے اور سسرال میں ہر جگہ اسے ان بیٹیوں کی وفات پر مبارکباد دی گئی تھی۔ خود صاعقہ نے بھی اطمینان محسوس کیا کہ بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں حاصل ہونے والی نفرت اس کی موت کے بعد ہمدردی میں بدل جاتی… اسے پھر ایک اور موقع دیا جاتا۔
بیسویں صدی کی لوئر مڈل کلاس کی وہ عورت جس کی ساری عمر شطرنج کی بساط پر چلی جانے والی بازی ہوتی ہے۔ مہروں کو آگے پیچھے دائیں بائیں کرتے کب وہ بساط کو پار کر جاتی ہے، اسے پتا ہی نہیں چلتا۔ لوئر مڈل کلاس کی عورت کے مہرے مرد کے ساتھ کھیلتے ہوئے بار بار پٹتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کو اپنی ہار اپنا مقدر نظر آنے لگتی ہے جسے وہ بخوشی قبول کرتی رہتی ہے۔
صاعقہ ابراہیم بھی ایسی ہی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عورت تھی۔ وہ خود آٹھ بہنیں تھیں۔ بیٹے کی تلاش میں اکٹھی کی جانے والی آٹھ لڑکیاں، نتیجتاً صاعقہ کی شادی پندرہ برس کی عمر میں اس سے دس سال بڑے ظفر سے کر دی گئی۔ وہ اس کا چچا زاد تھا اور ایک سینما میں بکنگ کلرک تھا۔ صاعقہ نے صرف مڈل تک تعلیم حاصل کی ہوئی تھی جبکہ ظفر نے دو تین کوششوں کے بعد ایف اے کیا تھا۔ ایف اے کے فوراً بعد اسے ایک دوست کے توسط سے سینما میں وہ نوکری مل گئی۔ ماں باپ اپنے بیٹے کے ”افسر” بننے پر پھولے نہ سمائے۔
بیٹے کے ”افسر” بنتے ہی اس ماں کی ایک امیر بہو گھر لانے کی خواہش کرنے لگی۔ایسی بہو جو اس کے تین کمروں کے ایک چھوٹے سے عسرت زدہ گھر کو اپنے جہیز کی جادو کی چھڑی سے کسی ونڈر لینڈ میں تبدیل کر دیتی۔




ایک لمبی چوڑی جدوجہد کے بعد اسے احساس ہوا کہ ایک سینما کے بکنگ کلرک کے جس عہدے کو وہ لاٹری کا جیک پاٹ ہٹ کرنے والا ٹکٹ سمجھی تھی، وہ دنیا میں چلنے والا ایک معمولی سکہ تھا۔ ظفر کی ماں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری، اس نے رشتے کروانے والی کے توسط سے ہر اس گھر کی خاک چھان ماری جہاں اس کے خیال میں ”بے وقوف” بستے تھے۔ ناکامی ایک بار پھر اس کا مقدر بنی۔
اس کے بیٹے کی ”اعلیٰ تعلیم اور شاندار عہدہ” بھی کسی اچھے خاندان کو اگر اس کی طرف راغب نہیں کرسکا تو اس کی بنیادی وجہ ظفر کی وہ عادات تھیں جن کی وجہ سے وہ جانا جاتا تھا۔ وہ پان اور سگریٹ کا شوقین تھا۔ جس جگہ سے منسلک تھا وہاں ناچ گانے سے لطف اندوز ہونے کے بھی خاصے مواقع دستیاب رہتے۔ ٹکٹوں کو بلیک کرکے وہ تنخواہ کے علاوہ بھی کچھ نہ کچھ کماتا رہتا اور ہاں گالیاں دینے میں بھی وہ کمال کی مہارت رکھتا تھا۔ یہ فن اس نے ماں باپ سے ورثے میں لیا تھا اور یہ وہ ”ورثہ” ہے جو لوئر مڈل کلاس کا ہر گھرانہ اپنی آنے والی نسلوں تک کسی رد و بدل کے بغیر بڑی حفاظت اور ایمانداری سے پہنچاتا رہتا ہے۔ گالی اس ڈپریشن، ٹینشن اور فرسٹریشن کی ”ڈی کوڈنگ” ہے جو غربت، بھوک، بیماری اور جہالت لوئر مڈل کلاس کے لیے پیدا کرتے رہتے ہیں۔
ظفر بھی اس سارے اثاثے کے ساتھ پروان چڑھا تھا اور اس کی اس ”شہرت” نے حفیظ بانو کے اپنے سے اوپر کے خاندان تک پہنچنے کے سارے منصوبوں کو راکھ کر دیا۔ پھر ظفر اور اس کے باپ کی فرمائش پر صاعقہ پر اس کی نظر ٹھہر گئی۔ صاعقہ اپنی بہنوں کی طرح بہت خوبصورت تھی۔ لوئر مڈل کلاس کی عورت کے لیے خوبصورتی وہ کند چھری ثابت ہوتی ہے جس سے اسے بار بار ذبح کیا جاتا ہے۔ صاعقہ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ ماں باپ اور بہنوں نے اس کے مقدر پر رشک کیا۔ ظفر کی شہرت اور اس کے گھر والوں کے طور طریقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک پڑھا لکھا نوکری پیشہ آدمی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ایسا شخص کوئلے کی کان سے نکلنے والا ہیرا سمجھا جاتا تھا۔صاعقہ نے ظفر کو بھی یہی سمجھا تھا۔
”پان کھاتا ہے۔”
”کوئی بات نہیں، میں چھڑوا دوں گی۔”
”سگریٹ پیتا ہے۔”
”کوئی بات نہیں ہے سمجھا دوں گی۔”
”طوائفوں کے ہاں جاتا ہے۔”
”کوئی بات نہیں، شادی ہوگی تو ٹھیک ہو جائے گا۔”
”جھگڑالو ہے۔”
”کوئی بات نہیں میں برداشت کرلوں گی۔”
”گالی دیتا ہے۔”
”ذمہ داری پڑے گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔”
”معمولی شکل و صورت کا ہے۔”
”کوئی بات نہیں بھلا مرد کی شکل کب دیکھی جاتی ہے۔”
”گھر والے لڑاکا ہیں۔”
”کوئی بات نہیں، میں گزارا کر لوں گی۔”
”کوئی بات نہیں۔” لوئر مڈل کلاس کی عورت کا وہ ورد اور وظیفہ ہوتا ہے جسے وہ بچپن سے ہی سیکھ لیتی ہے اور پھر ساری عمر یہی ورد اسے ہر مصیبت کی گرفت میں رکھتا ہے۔
صاعقہ بھی اپنی بہنوں کی طرح جہیز میں یہی ورد لے کر گئی تھی۔ اس ورد کے بجائے وہ اگر جہیز لے جاتی تو حفیظہ بانو اور ظفر کے گھر میں اس کی زیادہ قدر ہوتی۔
شادی کا شروع کا کچھ عرصہ بہت اچھا گزرا۔ ظفر نے اس کے حسن میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے پھر آہستہ آہستہ وہ آسمان سے زمین پر اتر آیا۔ آخر بیوی سے کوئی کتنی دیر تک محبت کا اظہار کر سکتا ہے، وہ کوئی محبوبہ تو نہیں ہوتی جو کبھی بھی چھوڑ کر چلی جائے گی۔ ظفر کو یہ سب کچھ بہت جلد یاد آگیا تھا اور ”یادداشت” واپس آتے ہی اس کی تمام پرانی عادتیں بھی لوٹ آئیں۔ پان، سگریٹ، کبھی کبھار شراب اور طوائف کا کوٹھا۔ ہاں زندگی تو دراصل یہ تھی۔
اس کی یادداشت کے واپس آتے ہی حفیظہ بانو کی یادداشت بھی واپس آگئی۔ انہیں یاد آنا شروع ہوگیا کہ وہ جہیز کے نام پر چند تنکے لائی ہے جن سے گھر تعمیر کرنا تو درکنار چولہا جلانا تک ممکن نہیں۔ انہیں وہ تمام بڑے بڑے لوگ اور خاندان یاد آنے لگے جو ان کے ”ہونہار” سپوت کے لیے کئی سال ان کے آگے پیچھے پھرتے رہے۔ اپنی کروڑوں اور اربوں کی جائیدادیں اور اپنی پری زاد بیٹیاں جھولی میں لیے ہوئے۔ مگر حفیظہ بانو خدا ترس عورت تھیں (حالانکہ ایسے لوگوں پر خدا بہت کم ترس کھاتا ہے) رشتہ داروں کا خیال رکھنے والی چنانچہ انہوں نے اپنی عاقبت کا خیال کرتے ہوئے اپنے بیٹے کے لیے اپنے دیور کی بیٹیوں کی قطار میں سے ایک کے گلے میں برمالا ڈالا دی۔
شروع میں صاعقہ واقعی اپنی تائی کی بہت مشکور رہی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس احسان سے تنگ آنے لگی جو زبردستی اس پر کیا گیا تھا۔
شادی کے پہلے سال بیٹی کی پیدائش نے گھر بھر میں مایوسی کی لہر دوڑا دی۔ صاعقہ کی اپنی مایوسی بھی کم نہیں تھی۔ حفیظہ بانو کی زبان کا زہر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگا۔ ان کی چھوٹی دونوں بیٹیوں کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی تھی اور انہیں خوف ہو رہا تھا کہ اولاد اور بیوی ظفر کے دل کو ماں اور بہنوں کے لیے تنگ کر دیں گے۔
شاید ہر ماں بیٹے کی بیوی اور اولاد کے لیے ایسا ہی سوچتی ہے۔ بیٹا مشرق کی عورت کا وہ اثاثہ ہوتا ہے جس میں وہ جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، معاشی ہر طرح کی سرمایہ کاری کرتی رہتی ہے اور جوان ہونے تک اس بیٹے کے وجود میں ہونے والی یہ سرمایہ کاری اتنی زیادہ ہو چکی ہوتی ہے کہ اس سے الگ ہونا یا اسے کسی دوسری عورت کو سونپ دینا ماں کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ خاص طور پرو لوئر مڈل کلاس کی عورت کے لیے جو ہر بار شوہر سے پٹنے کے بعد اپنے بیٹے کو تصوراتی آنکھوں سے اس مارنے والے ہاتھ کو روکتے ہوئے دیکھتی ہے۔
ہر بار شوہر کے گھر کا خرچ دینے سے انکار پر بیٹے کو اپنے لیے مستقبل میں نوٹوں کے درخت اگاتے دیکھتی ہے۔
ہر بار گالیاں کھانے اور بے عزت ہونے کے بعد بیٹے کو اپنے تصور میں ماں کے قدموں میں بیٹھا اس کے قصیدے گاتا دیکھتی ہے۔ اور یہ خواب اس دن ٹوٹتا ہے جب وہ بیٹے کے لیے ایک دوسری عورت لاتی ہے اور بیٹے کو وہ سب کچھ اس کے لیے کرتا دیکھتی ہے۔ حفیظہ بانو بھی ایسی ہی عورت تھی۔
دوسری بیٹی کی پیدائش پر صاعقہ کا رتبہ کچھ اور کم ہوگیا۔ ایک بیٹی، دوسری دو بیٹیاں، پوری دو بیٹیاں۔ اس سے بڑی قیامت کسی لوئر مڈل کلاس کے گھرانے کے لیے کیا ہوسکتی تھی۔
ظفر اب صاعقہ پر ہاتھ اٹھانے لگا تھا۔ وہ اسے ہر بات پر پیٹتا اور ہر بار ناراض ہونے پر اسے ایک ایک روپے کے لیے ترسا دیتا۔ مرد کا سب سے بڑا ہتھیار ”عورت کو بھوک اور ذلت دو۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔” وہ جس کمپنی میں بیٹھتا تھا، وہاں بیویوں کو قابو میں رکھنے کے ایسے ہی فارمولے ایجاد کیے جاتے تھے۔
وہ اپنے سینما میں لگنے والی ہر فلم دیکھتا۔ کئی بار ان فلمز کی ہیروئنیز بھی اپنی فلمز کا پہلا شو دیکھنے وہاں آئیں۔ تب منیجر اور سینما کے دوسرے عملے کے ساتھ اسے بھی ان ہیروئنیز سے ملنے کا، انہیں قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوتا۔ وہ ان کے سامنے عاجزی سے تقریباً رکوع کی حالت میں ان کی تعریف کرتا۔ ان کی خوبصورتی کی، ان کے رقص کی، ان کی اداکاری کی، فلم میں ان ہیروئینز پر عکس بند ہونے والے ایسے سینز کی تعریفیں کرتا جس میں ہیروئن پر ماں بیوی یا بہن کے روپ میں ظلم ڈھایا جاتا…
اور ایسی ہر ملاقات کے بعد وہ گھر پہنچتے ہی صاعقہ کو بہت پیٹتا، اسے اس وقت صاعقہ اور اپنی دونوں بیٹیوں سے زیادہ مکروہ اور قابل نفرت اور کوئی نہیں لگتا تھا صرف حلال کھانے والے شخص کو حرام سے گھن نہیں آتی۔ حرام کھانے والے شخص کو بھی حلال سے اسی طرح گھن آتی ہے۔ بعض لوگ حرام کھاتے اور پیتے ہیں اور بعض لوگ حرام زندگی جیتے ہیں۔ انہیں ہر حلال چیز سے گھن آتی ہے۔ چاہے وہ بیوی اور اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے مقدر میں صرف حرام لکھا ہوتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے گدھ ہمیشہ مردار ہی کھاتے ہیں۔ شکار کرکے کھانا ان کے مقدر میں نہیں ہوتا۔
صاعقہ کو حیرت ہوتی اگر خوبصورتی عورت کو مرد کے دل پر راج کرواتی تھی تو وہ ہزاروں نہیں لاکھوں عورتوں میں خوبصورت تھی اگر عورت کا سلیقہ اسے گھر کی ملکہ بناتا ہے تو اس سے بڑھ کر سگھڑ اور کوئی نہیں تھا۔ پھر بھی وہ نہ اپنے شوہر کے دل پر راج کر پائی تھی نہ اپنے گھر پر اور اسے اس کی بنیادی وجہ وہی دونوں بیٹیاں نظر آئی تھیں جو شادی کے ابتدائی کچھ سالوں میں ہی اس کی گود میں آگئی تھیں۔
بیٹی سے نفرت لوئر مڈل کلاس عورت کے سیلز میں جینز کی طرح چلتی ہے، جو نسل در نسل کسی تبدیلی کے بغیر آگے بڑھتی رہتی ہے۔ اسے بیٹی کے مقدر سے خوف نہیں آتا۔ اس مرد سے خوف آتا ہے جو اس کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ صاعقہ کو بھی یہی نفرت ورثے میں ملی تھی۔
تیسری اور چوتھی بیٹی یکے بعد دیگرے فوت ہوگئی تھیں، شادی سے پہلے کسی بھی عمر میں لڑکی کی موت ہمارے معاشرے میں آسودگی کی علامت کے طور پر آتی ہے۔ لوئر مڈل کلاس والے ایسی اموات کا خاص طور پر انتظار کرتے ہیں۔ صاعقہ نے بھی یہی کیا تھا۔
”اگر بیٹی پیدا ہو تو وہ زندہ نہ رہے، مر جائے۔” وہ ہر بار اولاد کی پیدائش سے پہلے یہی دعا کرتی تھی، اس کی دعائیں ذرا تاخیر سے رنگ لانا شروع ہوئیں مگر رنگ ضرور لائیں۔ آخر اولاد کے حق میں ماں کی بددعا قبول نہیں ہوتی۔ مگر دعا تو ضرور قبول ہوتی ہے اور صاعقہ نے ان کے لیے بددعا نہیں دعا کی تھی۔
پانچویں بیٹی طلعت ایک بار پھر اس دعا سے بچ گئی اور اس کی پیدائش پر صاعقہ کو ایک طلاق دے کر گھر بھیج دیا گیا۔
اس کے بعد وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ صاعقہ کے ماں باپ نے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر ظفر اور اس کے گھر والوں کے سامنے ہاتھ جوڑے منتیں کیں۔ اپنی بیٹی کے اس پیدائشی گناہ کے لیے بار بار معافیاں مانگیں۔ ”اگلی بار بیٹا ہوگا۔” جیسے عہد کیے، حفیظہ بانو اس سب کے باوجود اسے پھر بھی واپس لانے پر تیار نہیں تھیں مگر ظفر کا باپ اپنے بھائی کی محبت میں مجبور ہو گیا۔ وہ حفیظہ اور ظفر کے ساتھ لمبی چوڑی بحث کے بعد صاعقہ کو اس کی بچیوں سمیت گھر لے آیا تھا۔
”اگلی بار بیٹی ہوئی تو میں اسے یہاں رہنے نہیں دوں گی چاہے تم ہاتھ جوڑو یا پاؤں پڑو۔” حفیظہ بانو نے واضح انداز میں اپنے شوہر کو بتایا۔ ”میں اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرواؤں گی… ماشا اللہ وہ کون سا بوڑھا ہوگیا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی اسے مل جائے گی۔” حفیظہ بانو نے ظفر کو کچھ اور سبز باغ دکھائے۔ ایسے موقع پر وہ جھوٹی حدیثیں سنانے سے بھی نہ چوکتیں۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!