”مجھے ہارون کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرنی۔”
وہ اس دن پھر اپنی امی سے کہہ رہی تھی پچھلے کئی ماہ سے وہ مسلسل ایک ہی بات اپنی امی سے کہہ رہی تھی اور وہ ہمیشہ اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیتی تھیں۔
”اور میں تمہیں بہت عرصہ پہلے کہہ چکی ہوں کہ ہارون سے تمہاری شادی نہیں ہوسکتی ویسے بھی اب تمہاری منگنی ہو چکی ہے، کچھ ماہ تک ہم تمہاری شادی کی تاریخ طے کر دیں گے۔”
اس کی امی اسے اتنے نارمل انداز میں بتا رہی تھیں جیسے یہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہو رہا تھا۔
”میری مرضی کے بغیر آپ نے میری منگنی کی ہے مگر میری شادی نہیں کرسکتے۔ میں عین نکاح کے وقت انکار کر دوں گی۔” اس نے بلند آواز میں کہا۔
”اچھا…!” اس کی امی ایک بار پھر اس دوپٹے کی طرف متوجہ ہوگئیں جس پر وہ کڑھائی کر رہی تھیں۔
”امی…! آپ میری باتوں کو سنجیدگی سے لیں۔ میں واقعی ہارون کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی۔”
”تم یہ بات اپنے بابا کو بتا دو۔” وہ ان کی بات پر سٹپٹا گئی۔
”آپ خود بتائیں… میں آپ کو تو بتا رہی ہوں۔”
”نہیں، میں نہیں بتا سکتی۔ تم بتا سکتی ہو تو بتا دو…”
‘ہٹھیک ہے، میں بابا سے کہہ دیتی ہوں کہ مجھے ہارون سے شادی کرنی ہے۔” وہ یک دم سنجیدہ ہوگئی۔
اس کی امی نے اس بار دوپٹہ ایک طرف رکھ دیا۔
”ہارون نہ مجھے پسند ہے نہ تمہارے بابا کو۔ پھر بھی تم چاہتی ہو کہ ہم تمہاری شادی اس سے کر دیں۔”
”ہاں، میں پھر بھی چاہتی ہوں۔” اس نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”وہ اچھا نہیں ہے۔”
”وہ اچھا ہے یا برا، مجھے شادی اسی سے کرنی ہے۔”
”پورا خاندان تمہاری نسبت کے بارے میں جانتا ہے۔ ہارون کے گھر والے تک جانتے ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ ہم یہ نسبت ختم کر دیں تو بھی وہ تم سے ہارون کی منگنی کریں۔”
”امی! وہ میرا کام ہے، آپ صرف میری یہ منگنی ختم کر دیں۔” اس کی امی اس کی بات پر چونک اٹھیں۔
”اور تم یہ کیسے کرو گی؟” وہ ان کے سوال پر گڑبڑا گئی۔ کچھ دیر کے لیے وہ بول نہیں سکی۔
”شائستہ! تمہارا ہارون کے ساتھ رابطہ ہے؟”
شائستہ کا رنگ اڑ گیا۔ ”میرا… میرا رابطہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں تو کبھی تایا ابو کے گھر بھی نہیں گئی۔”
”ہاں مگر نیلو فر تو تمہارے کالج میں ہی پڑھتی ہے۔”
شائستہ کچھ بول نہیں سکی، اس کی امی یک ٹک اسے دیکھ رہی تھیں۔
”ہاں، میرا رابطہ ہے۔” اس نے یک دم سچ بولنے کا فیصلہ کیا۔ ”میں نے آپ سے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ مجھے ہارون کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرنی مگر آپ…”
اس کی امی نے بلند اور تیز آواز میں اس کی بات کاٹ دی۔ ”ملنے آتا ہے وہ تم سے؟”
”ہاں…”
”اور تم اس کے ساتھ جاتی ہو؟”
”ہاں…”
اگلے ہی لمحے شائستہ کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ پڑا۔
”وہ دنیا کا سب سے بے شرم انسان ہے اور تم اس سے زیادہ بے شرم ہو۔ میں فون کرتی ہوں کمال بھائی کو، پوچھتی ہوں ان سے یہ سکھایا ہے انہوں نے اپنے بیٹے کو… کہ وہ خاندان کی عزت اس طرح اچھالتا پھرے۔ ٹھیک ہے۔ تعلقات اچھے نہیں ہیں ہمارے مگر ہے تو وہ اسی خاندان کا، اسے شرم نہیں آئی دوسروں کی منگیتر کو ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اور تم… تم کو تو میں اچھی طرح دیکھ لوں گی۔” اس کی امی کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
”امی! بات تو سنیں پلیز… بات تو…”
اس نے اپنی امی کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ کمرے سے جاچکی تھیں۔ شائستہ کے پیروں تلے سے پہلی بار زمین نکلی، اسے خوف آنے لگا کہ اگر امی نے ہارون کے گھر کسی سے بات کی تو وہ کہیں انہیں اس کی ہارون کے ساتھ کورٹ میرج کے بارے میں نہ بتا دیں۔
وہ بجلی کی تیزی کے ساتھ اپنی امی کے پیچھے آئی مگر اس کے باوجود وہ اپنی امی کو فون ملانے سے نہ روک سکی۔
اس کی امی نے جب کال ملائی اس وقت ہارون گھر پر ہی تھا اور اس وقت اتفاقاً وہ فون کے قریب تھا۔ اس نے فون کی گھنٹی بجنے پر ریسیور اٹھایا۔
”ہیلو…!” شائستہ کی امی نے اس کی آواز فوراً پہچان لی اور ان کا غصہ کچھ اور بڑھ گیا۔
”ہارون ہو نا تم…؟” ہارون نے ان کی آواز پہچان لی۔
”ہاں، میں ہارون ہی ہوں، آپ کیسی ہیں؟” اس نے بڑے نارمل سے انداز میں ان سے پوچھا۔
”میرا دل چاہتا ہے ہارون! تم اس وقت میرے سامنے ہوتے اور میں تمہیں ہزار جوتے مارتی۔”
”یعنی میں آپ کی طرف آجاؤں۔” وہ جیسے ان کی بات پر محظوظ ہوا۔
”تم ایک انتہائی ذلیل اور کمینے انسان ہو… ماں باپ نے شرم حیا یا عزت غیرت نام کی کوئی چیز تو تمہارے اندر ڈالی ہی نہیں۔”
”آپ مجھے گالیاں نہ دیں، صرف یہ بتائیں کہ ہوا کیا ہے؟” وہ اس بار سنجیدہ ہوگیا۔
”میں بتاؤں کہ ہوا کیا ہے… ذلیل انسان! تم کس منہ سے شائستہ کے کالج اس سے ملنے جاتے ہو، جب ایک بار ہم تمہارے گھر والوں کو انکار کر چکے ہیں تو پھر تم لوگوں کو شرم کیوں نہیں آتی۔”
”اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ آرام و سکون سے بات کریں۔ ہاں، میں ملتا ہوں آپ کی بیٹی سے اور اس میں کوئی نامناسب بات نہیں ہے۔”
شائستہ کی امی کو اس کی ڈھٹائی پر اور غصہ آیا ‘یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔”
”اس کی مرضی سے ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو مگر یہ منگنی ہماری مرضی سے ضرور ہوئی ہے اور آئندہ اگر تم میری بیٹی سے ملنے آئے تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گی۔”
”ٹھیک ہے اگر آپ کی بیٹی مجھ سے یہ کہہ دے کہ میں اس سے ملنے نہ آؤں تو میں دوبارہ کبھی اس سے ملنے نہیں آؤں گا اور ایسی منگنی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جس میں لڑکی کی مرضی شامل نہ ہو۔”
”تم سے میں کہہ رہی ہوں ناکہ تم اس سے ملنے مت آنا…”
”آپ کی بات کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔” اس نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”اچھا تو پھر بلواؤ ذرا اپنے ماں اپ کو، میں ان کو تمہارے کرتوت بتاؤں گی۔ تمہاری حرکتوں کا پتا تو چلنا چاہیے انہیں، میں پورے خاندان کو تمہاری حرکتوں کے بارے میں بتاؤں گی۔” اس کی امی کا اشتعال ہارون کے لب و لہجہ پر بڑھ گیا۔
”یو آر موسٹ ویلکم، جس کو چاہیں بتائیں، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔ پورا گھر تو لائن پر نہیں آسکتا۔ آپ بتا دیں کس سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ میرے باپ سے یا میری ماں سے۔”
اپنی ماں کو بلواؤ…” شائستہ کی امی نے اسے اپنی امی کو آواز دیتے سنا۔ شائستہ ان سے کچھ فاصلے پر کھڑی کانپ رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ ہارون نے ان سے کیا کہا تھا، مگر وہ یہ ضرور جان گئی تھی کہ کہی جانے والی باتیں زیادہ مناسب نہیں تھیں۔
چند منٹ بعد ہارون کی امی لائن پر آگئیں۔
”تمہارا ذلیل بیٹا میری بیٹی سے ملنے کالج جاتا ہے… یہ سکھایا ہے تم نے اسے… پورے خاندان کی عزت اچھال رہا ہے۔” انہوں نے کسی سلام دعا کے بغیر ہارون کی امی سے کہا۔
”اتنا شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے، میرا بیٹا تمہاری بیٹی سے ملنے اس لیے جاتا ہے کیونکہ تمہاری بیٹی اس سے ملنا چاہتی ہے۔ اگر تمہاری بیٹی اس سے نہ ملے تو وہ کبھی وہاں نہ جائے۔”
تائی امی کے لہجے میں بھی وہی اطمینان تھا جو ہارون کی آواز میں تھا۔ شائستہ کی امی کو بے اختیار ہتک کا احساس ہوا۔
”میرے بیٹے پر چیخنے چلانے کے بجائے تم اپنی بیٹی کو منع کر دو کہ وہ اس سے نہ ملے… میں تو اپنے بیٹے سے کبھی کچھ نہیں کہوں گی۔ وہ جو چاہے کرے۔ اور جہاں تک عزت اچھالے جانے کی بات ہے تو اس کا احساس اور فکر تمہاری بیٹی کو ہونا چاہیے۔ میرے بیٹے کو نہیں، تم لوگ ہمارا خاندان نہیں ہو؟”
شائستہ کی امی کو جیسے ایک چپ لگ گئی تھی۔
”اگر میں یہ کہوں گی کہ تمہاری بیٹی میرے بیٹے کو ملنے کے لیے مجبور کرتی ہے تو تمہیں برا لگے گا۔ مگر سچ یہی ہے کہ میرا بیٹا وہاں تمہاری بیٹی کے مجبور کرنے پر جاتا ہے۔” تائی امی نے بات جاری رکھی۔ ”خاندان میں تم میرے بیٹے پر جتنی بھی کیچڑ اچھالنا چاہو، اچھالو مگر سچ تو یہ ہے کہ تم نے اپنی بیٹی کی تربیت اچھی نہیں کی۔ تربیت اچھی کی ہوتی تو وہ کیوں کسی کے بہکاوے میں آتی۔
آخر میری بیٹیاں بھی تو ہیں۔ اسی کالج میں پڑھتی ہیں، وہ کبھی کسی سے ملنے نہیں گئیں۔ تمہاری بیٹی ہی کیوں جاتی ہے۔ اور مجھے کیا پتا کہ میرے بیٹے سے ہی ملتی ہے یا اور کسی سے بھی… یہ تو ہارون کی ضد تھی کہ اس کو شائستہ سے شادی کرنی ہے، جس پر ہم لوگ تمہارے گھر آئے ورنہ میرے ہارون کو لڑکیوں کی کمی نہیں، بھئی، شائستہ جیسی تو لاکھوں پڑی ملتی ہیں۔ دوبارہ اگر کبھی مجھے فون کرو… تو تمیز اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر کرنا جب اپنی اولاد میں خامی ہو تو پھر دوسروں کی اولادوں کے عیب گنوانے سے پہلے سو بار سوچ لینا چاہیے۔”
تائی امی نے بہت سکون اور اطمینان سے کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭٭٭
”اور کتنی بیٹیاں اکٹھی کرو گے۔ اس عورت کو طلاق دے کر فارغ کرو… یہ تمہیں بیٹا نہیں دے سکتی۔ فضل کی بیوی کو دیکھو۔ تمہارے بعد شادی ہوئی۔ دو اولادیں ہوئیں۔ دونوں بیٹے اور صاعقہ! یہ تو مقدر میں ہی بیٹیاں لے کر آئی ہے۔ اب اور کتنے موقعے دو گے اسے… کیوں اپنی زندگی خراب کرتے ہو۔ کیسے بیاہو گے ان بیٹیوں کو۔ اپنی بہنوں کو نہیں دیکھ رہے، ابھی بمشکل ایک کو بیاہ سکے ہیں۔ وہ بھی ہر چوتھے دن میکے آجاتی ہے۔ ارے دفع کرو اس عورت کو۔ جو عورت مرد کی نسل چلانے کے لیے ایک بیٹا نہ دے سکے۔ وہ عورت ویسے ہی منحوس ہوتی ہے۔”
ظفر چپ چاپ اپنی ماں کے ”فرمان” سن رہا تھا۔ اس کی بیوی صاعقہ کے ہاں مسلسل چوتھی بار بیٹی ہوئی تھی اور وہ جتنا مشتعل تھا، سو تھا۔ اس کے گھر والے اس سے زیادہ اشتعال میں نظر آرہے تھے۔