تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

منصور کچھ دیر ان کا چہرہ دیکھتے رہے اور پھر انہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”بھائی جان! بہتر ہے ہم کاروبار میں کسی رشتہ داری کو نہ لائیں، کیا آپ نے اس لیے رشتہ کیا تھا کہ…”
مسعود نے جلدی سے ان کی بات کاٹ دی۔ ”کیسی بات کر رہے ہو منصور! میں نے تو ویسے ہی کہا ہے۔ تم غلط مطلب مت لو۔”
”یہ بہتر ہے کہ ہم دوبارہ اس رشتہ داری کے بارے میں بات نہ کریں۔ کم از کم کاروبار کے بارے میں بات کرتے ہوئے، یہ فیکٹری میں روشان کے لیے لگا رہا ہوں۔ اور میں بیٹے کی چیز بیٹیوں کی خاطر تو کسی کو نہیں دے سکتا۔ میں آپ کو آفر کر رہا ہوں، ٹھیک ہے بیس نہیں تیس مگر اس سے زیادہ نہیں۔ اگر آپ کو یہ قبول ہے تو ٹھیک ہے، اگر نہیں تو پھر اس پروجیکٹ کو چھوڑیں اور اس پروجیکٹ کی وجہ سے اگر کوئی رشتہ Suffer کرتا ہے تو کرنے دیں۔ ٹھیک ہے میں نے امبر اور صبغہ کا نکاح کر دیا ہے۔ لیکن ان کے لیے آج بھی رشتوں کی کوئی کمی نہیں ہے، مجھے ایک کے بجائے دس رشتے مل جائیں گے۔ اور خاندان سے ہی۔”
مسعود کے ہاتھ پیر پھولنے لگے، انہوں نے منصور کو کبھی اس موڈ میں نہیں دیکھا تھا، وہ ہمیشہ ہی بڑے ادب اور لحاظ سے ان سے بات کرتے تھے اور شاید اسی لیے انہیں غلط فہمی ہوگئی تھی کہ وہ بڑی آسانی سے اسے اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتے ہیں، مگر یہ انہیں آج پتا چلا کہ وہ بزنس کے معاملے میں خاصے بے لحاظ واقع ہوئے ہیں اور شاید بزنس میں ان کی شاندار کامیابی کی وجہ بھی یہی تھی، اب وہ اپنے سامنے منصور علی کا ایک نیا روپ دیکھ رہے تھے۔
”نہیں، نہیں ٹھیک ہے۔ رشتوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ ان کا بزنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کو چھوڑ دو۔ کیا تم اپنی آفر بڑھا نہیں سکتے۔ 40-60؟” مسعود نے اس سے کہا۔
”70-30” منصور نے بے تاثر چہرے کے ساتھ حتمی لہجے میں کہا۔
مسعود کچھ دیر سوچتے رہے، ”ٹھیک ہے… 70-30” انہوں نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ منصور کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
٭٭٭




ربیعہ کے ساتھ ہونے والی یہ فاطمہ کی آخری ملاقات ثابت ہوئی، وہ اس سے دوبارہ کبھی نہیں ملی، مگر اس کے ساتھ ہونے والی چند ملاقتوں نے اس کی زندگی کو ایک نئی سمت ضرور دکھا دی تھی۔
زندگی میں پہلی بار فاطمہ مختار نے اپنے آپ کو احساس کمتری کے اس تابوت سے باہر نکال کر دیکھا تھا، جس میں پچھلے بیس سال سے اس نے خود کو بند کر رکھا تھا۔ اور اسے خوشگوار حیرت ہوئی جب اسے احساس ہوا کہ سب کچھ واقعی اتنا تباہ حال نہیں ہے۔ جتنا اس کا خیال تھا۔
اس کے پاس بہت کچھ ایسا تھا جس کو اس نے کبھی استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ اس کے پاس بہت کچھ ایسا تھا جو بہت سے دوسرے لوگوں کے پاس نہیں تھا یا کم از کم ان لوگوں کے پاس نہیں تھا جو اس کے اردگرد تھے۔
ربیعہ سے ملاقات کے بعد اگلے چند ہفتوں میں اس نے پہلی بار اپنی زندگی کو پلان کیا، پہلی بار اس نے اپنے لیے مقاصد طے سیٹ کیے۔ مگر آنے والے دنوں میں اس کے لیے کچھ اور تھا۔
٭٭٭
وہ ہارون کے ساتھ گھر آگئی۔ ہارون بے حد خاموش تھا، اس نے پورا رستہ اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ شائستہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کا موڈ ٹھیک نہیں ہے، مگر موڈ خراب ہونے کی وجہ کیا ہے۔ یہ وہ نہیں جانتی تھی، اس نے ہارون سے گاڑی میں کچھ بھی پوچھنے کی کوشش نہیں کی، وہ خود بھی اس وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
ڈریسنگ میں کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ جب واپس بیڈروم میں آئی تو اس نے ہارون کو کمرے میں ٹہلتا پایا۔ وہ بیئر کا ایک کین لیے ٹہلتے ہوئے اس کے سپ لے رہا تھا، اس کا کوٹ بے ترتیبی سے صوفہ پر پڑا ہوا تھا جب کہ اس کی ٹائی ڈھیلے ڈھالے انداز میں گلے میں ہی لٹکی ہوئی تھی۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں اور پھر شائستہ اپنے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی، پھر اسے یاد آیا آج اس نے چہرے کو کلینرز کے ساتھ صاف نہیں کیا۔ وہ ایک بار پھر اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر جا بیٹھی۔
ہارون ابھی بھی اسی طرح کمرے میں ٹہل رہا تھا، وہ اپنے چہرے کو صاف کرنے کے بعد ایک کریم کے ساتھ مساج کرنے لگی۔ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ ہارون بھی وقتاً فوقتاً اس پر نظریں دوڑا رہا ہے۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہی۔
کچھ دیر بعد وہ یک دم اس کی پشت پر آکر کھڑا ہوگیا اور اس نے بڑی نرمی سے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا، ان دونوں کی نظریں ملیں۔
”کیا کرنا چاہتی ہو شائستہ تم؟” اس نے نرمی سے پوچھا۔
شائستہ اس کے سوال پر حیران ہوئی، وہ اس کا چہرہ ابھی بھی اسی طرح اٹھائے ہوئے تھا۔
”کیا کرنا چاہتی ہوں میں؟… میں نارمل ہونا چاہتی ہوں، ڈپریشن سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ اسی لیے ڈاکٹر سدھوا کے پاس گئی تھی۔ وہاں جا کر مجھے سکون ملتا ہے۔”
وہ اسی طرح گردن اوپر کیے اسے بتاتی رہی، ہارون کا چہرہ بے تاثر تھا۔
”میں ڈاکٹر سدھوا کی بات نہیں کر رہا۔”
”تو پھر اور کیا ہے؟” وہ الجھی۔
”تم راولپنڈی گئی تھیں؟”
وہ بالکل ساکت ہوگئی پھر اس نے ہارون کا ہاتھ ہٹا دیا مگر وہ اب بھی اس سے اپنا چہرہ نہیں چھپا سکتی تھی، وہ اب اس کی پشت پر کھڑا آئینے میں اسے دیکھ رہا تھا وہ ڈریسنگ ٹیبل سے ٹشو لے کر اپنا چہرہ پونچھنے لگی، کوئی اور چیز اس وقت اسے اس سے زیادہ بہتر محسوس نہیں ہوئی۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے؟” وہ وہیں تھا۔
”میں نہیں گئی۔” وہ اس سے نظریں ملائے بغیر اپنا چہرہ پونچھتی رہی… ”اچھا…” وہ ہنسا۔
”اگر تم جانتے ہو کہ میں وہاں گئی تھی تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟” وہ اس کی ہنسی پر برہم ہوئی۔
”میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم وہاں کیوں گئی تھیں؟ میں نے تمہیں منع کیا تھا۔”
وہ خاموش رہی۔
”تمہارے پاس میرے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے؟”
”تم ہر سوال کا جواب خود جانتے ہو۔ مجھ سے کچھ مت پوچھو۔” وہ اب اپنے ہاتھ صاف کرنے لگی۔ وہ یک دم اس کے سامنے آکر ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
”میں تم سے جاننا چاہتا ہوں کہ تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے یا نہیں رہنا؟” اس کی آواز بلند نہیں تھی مگر تلخ تھی۔
وہ اسے دیکھنے لگی۔
”کبھی تم نے سوچا ہے کہ میں تمہیں کہاں لے جانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم… تم اپنے ساتھ کیا کر رہی ہو؟ کیا کرنا چاہتی ہو تم اپنی زندگی کے ساتھ؟
”ہارون! میں بہت پریشان ہوں آج اور میں تم سے لڑنا چاہتی ہوں نہ ہی کوئی بحث کرنا چاہتی ہوں۔” اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
”یہ پریشانی تم نے خود مول لی ہے۔”
شائستہ نے کریم ڈریسنگ ٹیبل پر پٹخ دیا۔
”تم بھی میرے ساتھ حصہ دار ہو۔” اس کی آواز بلند تھی۔
”اوکے فائن، پھر…؟” وہ اب سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ شائستہ نے ایک جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کی مگر ہارون نے اسی تیزی کے ساتھ اسے واپس کھینچ کر بٹھا دیا۔
”میں دیواروں سے بات نہیں کر رہا ہوں، تم سے بات کر رہا ہوں۔” اس بار ہارون نے بلند آواز میں کہا۔
”چلانے کی ضرورت نہیں ہے، میں تمہاری آواز سن سکتی ہوں۔”
”میری بات صرف سنو مت، سمجھنے کی بھی کوشش کرو۔ چار سال ہونے والے ہیں ہماری شادی کو، چار سال کافی عرصہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے۔ مگر بعض دفعہ مجھے احساس ہوتا ہے کہ تم اور میں دو الگ الگ دنیاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔” وہ ایک بار پھر پینے لگا۔
”بہرحال، میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے چند ماہ کے لیے امریکہ میں تمہارے قیام کا بندوبست کیا ہے۔”
”کیا…؟” وہ ہکا بکا رہ گئی۔
”ہاں، پرسوں تمہاری فلائٹ ہے، اسد اور گورنس بھی تمہارے ساتھ جا رہے ہیں شاہانہ اور ابصار تمہیں وہاں ریسیو کرلیں گے۔ چند ماہ وہاں رہو، اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کرو اور جب ٹھیک ہو جاؤ تو واپس آجاؤ۔ مگر واپس آنے سے پہلے سب کچھ دفن کرکے آنا اور اگر تمہیں ایسا محسوس ہو کہ تم ایسا نہیں کرسکتیں تو پھر میرے پاس واپس آنے کے بجائے اپنے والدین کے پاس چلی جانا۔” وہ… آخری سپ لے رہا تھا۔
”میں امریکہ جانا نہیں چاہتی۔ میں بالکل نارمل ہوں۔” اس بار شائستہ کا لہجہ کمزور تھا۔
”میں نے تم سے رائے نہیں مانگی، میں تمہیں صرف بتا رہا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔” اس نے انگلی اٹھا کر شائستہ سے کہا۔
”مجھے امریکہ نہیں جانا… اور تم مجھے زبردستی یہاں سے کہیں نہیں بھیج سکتے۔” شائستہ نے یک دم بلند آواز میں کہا، ہارون نے بہت تیزی سے دائیں ہاتھ سے اس کی گردن پکڑ کر ایک جھٹکا دیا۔
”مجھے وہ عورتیں اچھی نہیں لگتیں جو چلاتی ہیں۔ تم اگر مجھ سے جھوٹ بول کر راولپنڈی جاسکتی ہو تو پھر میں تمہیں امریکہ بھی بھجوا سکتا ہوں۔ ہارون کمال کے ساتھ جھوٹ بولنا اور اسے دھوکا دینا آسان نہیں ہے۔ کم از کم تم یہ کام دوبارہ کبھی کرنے کی کوشش مت کرنا۔”
وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اسے دھکیل کر ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھ گیا۔ شائستہ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں خود کو دیکھنے لگی، اس کی گردن پر ہارون کی انگلیوں کے نشانات تھے، وہ یک ٹک دم سادھے انہیں دیکھتی رہی۔ بائیں ہاتھ سے اس نے اپنی گردن پر ان نشانوں کو چھوا۔ انہوں نے اسے جیسے ایک بار پھر بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!