تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”ہاں تم سے، دنیا میں صرف اسکالرز سے نہیں سیکھا جاتا، ہر شخص سے آپ کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ اگر آپ سیکھنا چاہتے ہیں تو… اور… میں ہمیشہ لوگوں سے سیکھنا چاہتی ہوں۔ میں نے ورکشاپ میں تمہارا کام دیکھا۔ تمہارا فائل ورک بہت آرگنائزڈ اور اچھا ہے۔ تمہاری ہینڈ رائٹنگ بہت اچھی ہے۔ تم میتھس پڑھاتی ہو اور اس کے حوالے سے تمہاری Presentation بہت اچھی تھی۔ اگر تم اپنے پروفیشن کو پروفیشنل طریقے سے لو تو تم اس میں بہت آگے جاسکتی ہو۔” فاطمہ خوشگوار حیرت کے ساتھ اس کا تجزیہ سنتی رہی۔
”یہ تو ہوگئی پروفیشنل سائڈ، اب ذاتی حوالے پر آجاؤ۔ شہیر کے بارے میں تم بہت کیئرنگ ہو ورکشاپ میں بھی تم اسے بہت اچھے طریقے سے ہینڈل کرتی رہیں، حالانکہ تمہیں بچے پالنے یا سنبھالنے کا کوئی لمبا چوڑا تجربہ نہیں ہے۔ پھر جب تم نے مجھ سے اپنے بارے میں بات کی تو سب کچھ بتا دیا۔ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ تم خوددار رہو۔ بہت کم لوگوں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے۔ اور ہاں تم نے اپنے لیے جو فولڈر خود بنایا تھا میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ میں بھی اس جیسا فولڈر اپنے لیے بناؤں گی اور جب کوئی اس کے بارے میں پوچھے گا تو میں اسے بتاؤں گی کہ یہ میں نے فاطمہ مختار سے سیکھایا ان کو کاپی کیا۔”
وہ اب ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہی تھی۔
”اور تم جیسے مجھے بتا رہی تھیں کہ تم ساری سلائی خود کرتی ہو۔ اور میں ورکشاپ میں بھی تمہارے کپڑے دیکھتی رہی، وہ اتنے اچھے سلے ہوئے ہیں کہ مجھے تم پر رشک آیا۔ اگر میری امی زندہ ہوتیں اور اس وقت یہاں ہوتیں تو وہ اس بات پر مجھے جوتے مارتیں۔ وہ مجھے تمہاری مثالیں دیتیں، ہر لڑکی تو سگھڑ نہیں ہوتی اور جیسے پھول تم نے اپنی قمیص پر کاڑھے ہوئے ہیں۔ میں پانچ سو سال مسلسل سیکھنے پر بھی کاڑھ نہیں سکتی۔ تمہارے ہر کام میں، میں نے بہت نفاست اور نزاکت دیکھی ہے، تمہاری زبان میں تلخی ہو سکتی ہے مگر تمہارے کام میں کوئی تلخی نہیں ہے۔”
ربیعہ نے بہت نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”اور تم سے اگر آج تک کسی نے نہیں کہا تو کوئی بات نہیں، میں تم سے کہتی ہوں، مجھے پیار ہے تم سے۔ میں محبت کرتی ہوں تم سے۔” اس نے فاطمہ کا ہاتھ چوما اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔
شہیر محبت کرتا ہے تم سے… آج یہ جملہ میں کہہ رہی ہوں، کل وہ تم سے کہے گا۔”
فاطمہ کی آنکھیں ایک بار پھر پانی سے بھرنے لگیں، مگر اس بار اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پانی اندر سے بہت سا زہر بہا لے جا رہا ہو۔ اس کو زندگی میں پہلی بار اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا لگا تھا۔
٭٭٭




”روپے کو محفوظ کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اسے سونے کی شکل میں تبدیل کرلیا جائے۔”
منیزہ شبانہ کو اپنی سونے کی تیس نئی چوڑیاں دکھاتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
”میں تو یہی کرتی ہوں، جب کچھ روپے اکٹھے ہوتے ہیں، میں فوراً زیورات خرید لیتی ہوں، ادھر ویسے بھی رواج ہی یہ ہے کہ روپے کے بجائے زیورات بنوائے جائیں۔”
شبانہ خاصے رشک آمیز تاثرات کے ساتھ منیزہ کی چوڑیوں کو دیکھ رہی تھیں خود ان کے پاس بھی زیورات کی کمی نہیں تھی، مگر جس روانی اور فراوانی کے ساتھ منیزہ زیورات کی خریداری کرتی تھیں۔ وہ شبانہ کے لیے قابل رشک تھا، ہر بار پاکستان آنے پر وہ مکمل طور پر نئے زیورات کے ساتھ تشریف لاتیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
امبر اور صبغہ کا نکاح بہت دھوم دھام سے کر دیا گیا تھا اور منیزہ اور منصور ابھی واپس نہیں گئے تھے۔
”بہت زیادہ زیورات بنانے پر ایک مسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ زکوٰة بہت نکالتی پڑتی ہے اور پھر ہر سال، بس میں تو اسی وجہ سے زیادہ زیورات نہیں بنواتی۔” شبانہ نے چوڑیاں انہیں واپس کرتے ہوئے ایک تاویل پیش کی۔
”لو کتنی زکوٰة دینی پڑ سکتی ہے۔ میں تو بس یہ کرتی ہوں کہ ہر سال کچھ مخصوص رقم دے دیتی ہوں… اب سارے زیورات پر باقاعدہ حساب لگا کر زکوٰة نکالیں تو وہ تو ہزاروں میں چلی جائے گی۔ اتنے پیسے بن جائیں گے کہ اس سے مزید کئی تولے سونا خریدا جاسکتا ہے۔ نہیں بھئی، میں یہ تو نہیں کرسکتی۔ تھوڑی بہت رقم ہے جو ہر سال دے دیتے ہیں۔ اور ویسے بھی سارا سال تھوڑا بہت تو دیتے ہی رہتے ہیں۔ وہ زکوٰة ہی ہوئی نا؟”
منیزہ نے زکوٰة کو ایک نیا مفہوم پہنایا۔
”ہاں، یہ تو آپ ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ سارا سال دی جانے والی رقم اکٹھی کرلیں تو وہ شاید زکوٰة سے بھی زیادہ ہو جائے، اب دیکھیں، ملازموں کی کئی دفعہ مدد کرنی پڑتی ہے، پھر غریب رشتے دار ہیں، ان کو تھوڑا بہت دینا پڑتا ہے، مسعود فیکٹری میں ورکر کی کئی بار مدد کر دیتے ہیں، وہ بھی تو زکوٰة ہی ہوئی نا؟”
”اور کیا… ویسے منصور اب سوچ رہے ہیں کہ کچھ سالوں تک پاکستان شفٹ ہو جائیں۔” منیزہ نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”ہاں، انہوں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا۔”
”ابھی فوراً تو ہم لوگ شفٹ نہیں ہوں گے۔ فیکٹری بن جائے، ٹھیک سے چلنے لگے پھر ہم ادھر آجائیں گے۔ منصور سوچ رہے ہیں اس بار جانے سے پہلے کوئی پلاٹ خرید لیں۔”
”پلاٹ کس لیے؟” شبانہ نے پوچھا۔
”ظاہر ہے گھر کے لیے، گھر بھی تو بنوانا ہے۔” منیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”لیں گھر بنوانے کی کیا ضرورت ہے، یہ گھر تو ہے سہی یہاں آکر رہیں، بہت جگہ ہے یہاں۔” شبانہ نے فوراً پیشکش کی۔
منیزہ مسکرانے لگی۔ ”ہاں، جگہ تو بہت ہے مگر اب بیٹیوں کے سسرال میں تو نہیں رہ سکتے۔”
”لو بیٹیوں کا سسرال کیا ہوا، تم لوگوں کا اور کوئی رشتہ نہیں ہے ہم سے۔”
”ہے مگر پھر بھی ذرا نامناسب لگتا ہے۔ چند دنوں یا ہفتوں کے لیے تو ٹھیک ہے، مگر مستقل تو یہاں نہیں رہا جاسکتا ویسے بھی کبھی نہ کبھی اپنا گھر تو بنانا ہی ہے۔”
”ٹھیک ہے، گھر تو بنانا ہے مگر تب تک تو یہاں رہ سکتے ہیں جب تک گھر نہیں بنوا لیتے۔”
”گھر بننے میں بھی بہت وقت لگ جائے گا۔ اتنا لمبا عرصہ آپ کے ساتھ کیسے رہیں۔ منصور نے تو گھر کے لیے لمبی چوڑی پلاننگ کی ہے، سال ڈیڑھ سال تو لگے گا گھر کو بنتے ہوئے۔ پھر جو اس کی آرائش کا سوچ رہے ہیں وہ… چھ ماہ اور نکل گئے۔ اب دو سال آپ کے گھر پر تو پڑے نہیں رہ سکتے۔”
منیزہ نے فخر سے اپنے شوہر کے منصوبے ڈسکس کرتے ہوئے کہا۔
”مسعود نے گلبرگ میں پچھلے سال ایک گھر خریدا تھا بہت اچھا ہے… تم لوگ ادھر رہ لینا۔”
”ہاں، یہ ہو سکتا ہے۔” منیزہ نے فوراً ہامی بھرلی۔
”ویسے منصور کا کب تک ارادہ ہے گھر شروع کرنے کا؟”
”ابھی چار پانچ سال تو ہیں، پہلے تو فیکٹری کا ہی سوچ رہے ہیں جو مسعود بھائی کے ساتھ لگانی ہے۔ جب فیکٹری اچھے طریقے سے اسٹیبلش ہو جائے گی تو پھر پاکستان آئیں گے اور پھر سال چھ مہینے کے بعد گھر کا کام شروع کریں گے۔”
”اور امبر اور صبغہ کی رخصتی کب کرو گے؟” شبانہ نے شگفتگی سے کہا۔
”یہ تو ابھی خاصی دور کی بات ہے، گریجویشن کے بعد، ابھی تو بہت چھوٹی ہیں دونوں اور پھر طلحہ اور اسامہ بھی تو پڑھنے کے لیے باہر جائیں گے۔ ابھی تو انہیں بھی اپنا کیریئر بنانا ہے۔”
”مگر میں سوچ رہی تھی کہ ان دونوں کو باہر بھیجنے سے پہلے رخصتی کروا لوں، بہتر ہے امبر اور صبغہ ان کے ساتھ ہی جائیں۔” شبانہ نے تجویز پیش کی۔
”اس میں بھی بڑا وقت ہے بھابی! جب وقت آئے گا تب دیکھیں گے۔ ہیں تو وہ آپ ہی کی امانت… چند سال پہلے یا بعد سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔” منیزہ نے خوش دلی سے کہا۔
”میرے پاؤں تو اس دن سے زمین پر نہیں پڑ رہے جب سے یہ رشتہ ہوا ہے۔” شبانہ نے ڈرامے کا پہلا سین پیش کیا۔
”بس آپ کو تو جو خوشی ہے خوشی ہے… مگر میرے جذبات کا تو آپ پوچھئے ہی نا۔” منیزہ نے جوابی پرفارمنس دیتے ہوئے کہا۔
”پورے خاندان میں سب سے زیادہ خوبصورت دلہنیں ہوں گی میرے بیٹوں کی۔”
شبانہ نے اپنی ایکٹنگ میں کچھ اور نکھار لاتے ہوئے کہا۔
”میری بیٹیوں کے شوہر بھی تو سب سے زیادہ خوبصورت ہوں گے۔ چاند اور سورج کی جوڑی ہے دونوں کی۔”
منیزہ نے بھی اپنی لفاظی بڑھائی، پھر دونوں خوش دلی اور شگفتگی سے ہنسنے لگیں۔ دونوں کا خیال تھا کہ وہ ایک دوسرے کو اپنے لفظوں اور چہرے کے تاثرات سے متاثر کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
٭٭٭
منصور اور مسعود ان دنوں فیکٹری کے پیپر ورک میں مصروف تھے، اس دن وہ دونوں اپنے وکیلوں کے ساتھ فیکٹری کے شیئرز میں اپنے اپنے حصے کی تفصیلات طے کر رہے تھے، مسعود کی خواہش تھی کہ فیکٹری میں وہ ففٹی پرسنٹ کا شریک ہو۔
”دیکھو منصور! ٹھیک ہے فیکٹری میں تمہارا سرمایہ لگے گا مگر تم تو صرف سلیپنگ پارٹنر ہو، ورکنگ پارٹنر تو میں ہوں گا، اور کتنی دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے۔ کسی بھی نئے بزنس کو شروع کرنے میں، اس کا اندازہ تو تم لگا ہی سکتے ہو، اس لیے میرا مطالبہ کوئی ایسا نامناسب نہیں ہے۔” مسعود اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
”آپ کی بات ٹھیک ہے بھائی جان لیکن… ہمیشہ کے لیے تو میں سلیپنگ پارٹنر نہیں رہوں گا۔ واپس پاکستان آنے کے بعد میں اسی فیکٹری کو سنبھالوں گا، اور یہ صرف چار پانچ سال کی بات ہے۔ پھر یہ تو نہیں ہو سکتا ناں کہ میں اپنا سارا بزنس وہاں ختم کرکے واپس آجاؤں اور یہاں ایک فیکٹری میں آدھے شیئرز لے لوں، مجھے تو پھر یہ پروجیکٹ ہی نہیں کرنا۔ یہ بہتر نہیں ہے کہ میں چار پانچ سال اس پروجیکٹ کو ملتوی کروں اور پھر جب پاکستان آؤں تب خود یہ سب کچھ شروع کروں۔”
مسعود انہیں گھورنے لگے، انہیں اپنے چھوٹے بھائی سے اتنی صاف گوئی کی توقع نہیں تھی۔
”مگر تم یہ بھی تو دیکھو کہ تمہیں فیکٹری کو اسٹیبلش کرتے کرتے کتنے سال لگ جائیں گے اور…”
”بھائی جان! جتنے بھی سال لگیں، کم از کم فیکٹری مکمل طور پر تو میری ہوگی۔ آخر مجھے بھی تو اپنے بیٹے کے لیے کچھ بنانا ہے۔” منصور نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”پھر تم کیا آفر کرتے ہو؟” مسعود نے ان سے کہا۔
”بیس پرسنٹ۔” مسعود کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔
”بیس پرسنٹ، کیا کہہ رہے ہو تم، یہ تو کوئی ڈیل نہ ہوئی۔ اب اس قدر قریبی رشتہ داری کے بعد بھی۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!